1969میں، محترم محمود شام نے مولانا بھاشانی کا ان کی رہائش گاہ پر مفصل انٹرویو کیا۔ درج ہے کہ مولانا حد درجہ سادہ بلکہ کچے سے گھر میں رہتے تھے جس کی دیواروں پر پٹ سن کی بنی ہوئی چٹائیاں موجود تھیں۔
1969تک مولانا بھاشانی ایک سیاسی قد آور شخصیت بن چکے تھے ۔ پاکستان سے شدید محبت ان کی رگ رگ میں محو رقص تھی ۔ اس گفتگو میں بھاشانی صاحب نے حد درجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی پر مدلل گفتگو کی۔کہنے لگے کہ آٹا فی سیر ' ایک روپے کی قیمت سے بڑھ چکا ہے۔ چاول کے متعلق بیان تھا کہ مشرقی پاکستان کا غریب طبقہ دووقت چاول کھانے سے بھی محروم ہو چکا ہے۔
گفتگو کے ہر جملے کے بعد انسان کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا مغربی مقتدر طبقہ ' مقامی بنگالیوں کے جذبات سے حد درجہ متضاد فیصلے کر رہا تھا۔ شام صاحب کے انٹرویو سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے شہری پاکستان کی سالمیت پر بھرپور یقین رکھتے تھے۔ 1970کے الیکشن کا نتیجہ سامنے آنے پر مشرقی پاکستان کے سنجیدہ ترین سیاستدان ' شیخ مجیب الرحمن ' عوامی طاقت کے سب سے بڑے حق دار اور محافظ بن چکے تھے ۔
ان کی متوازن ترین تقاریر میں اختتامی نعرہ پاکستان زندہ باد کا ہوتا تھا۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بنگالی ' سیاسی شعور میں مغربی پاکستان کے لوگوں سے قدرے آگے تھے ۔تاریخ کے دھاروں میں بنگالیوں کی پاکستان حاصل کرنے کے لیے عملی جدوجہد آج بھی تابناک روشنی کی مانند ہے ۔مگر اس وفاداری کا صلہ' مشرقی پاکستان کے مکینوں کو غداری کے سرٹیفکیٹ یا تمغے کے طور پر ملا ۔ اندازہ فرمایئے کہ مغربی پاکستان کے وہ قائدین جو رنگ وبو اور تتلیوں کی محفلوں سے باہر ہی نہیں آتے تھے ' انھوںنے محب وطن بنگالی لیڈروں کو ناصرف غدار قرار دیا بلکہ شیخ مجیب الرحمن سمیت 'دیگرسیاسی سربراہان کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ وہ مائنڈ سیٹ جس نے باشعور بنگالیوں کو غدار قرار دیا ' آج بھی مسلسل اسی صورت میں موجود ہیں۔ مسائل کا حل اس وقت بھی قائدین کو گرفتار کر کے مکمل کیا جاتا تھا اور آج بھی یہی صورت حال ہے ۔
پاکستان کے ایک حصے کو علیحدہ کرنے کے بعد ہمارے مقتدر طبقے کی استعماری سوچ میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جس بھی شخصیت نے پاکستان توڑنے کاجتنا زیادہ جواز مہیا کیا تھا اسے اتنا ہی معتبر بنانے کی کوشش کی گئی۔ معاملات کا حل تلاش کرنا نہ چالیس سال پہلے کسی کے بس میں تھا اور نہ آج ۔ جو بھی زمینی حقائق کو بیان کرنے کی کوشش کرنے لگا ' اس کی زبان بندی کا حکم صادر کیا گیا۔
سوچنے کی بات ہے کہ آج سابقہ مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش ہم سے بہتر حالات میں ہے یا نہیں۔ تحقیق کر کے یہ اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں کہ بنگلہ دیش معاشی اور انسانی ترقی کے بین الاقوامی معیار کے مطابق ' ہم سے بہت بہتر ہے۔ کیا یہ دلیل ' مستند نہیں نظر آتی کہ بنگالیوں نے علیحدگی کا فیصلہ ہمارے ادنیٰ رویوں سے تنگ آ کر کیا اور یہ علیحدگی ان کی ترقی کی بنیاد بن گئی۔کیا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ مقتدرہ کی سوچ اس وقت بنگالیوں کے متعلق مکمل طور پر غلط تھی ۔ اور کیا آج کوئی بھی محب وطن انسان یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ مقتدر طبقے کی موجودہ اندرونی سوچ عوامی دھارے سے کتنی دور ہے ۔
ہم نے تہتر سال میں متواتر بھیانک غلطیاں کی ہیں اور ان سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آج بھی ہم ماضی والی غلطیاں کرتے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں 'آج بھی مخصوص طبقہ حکومت اور ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے۔ ملک کی بربادی میں ان کا مکمل کردار موجود ہے۔ ہر بار اسی طبقے کو واپس لانے کی کامیاب کوشش کی جاتی ہے ۔آزمائے ہوئے لوگوں کو آزمانا غیر دانش مندی کی انتہا ہے ۔ خاندانی بادشاہت کو ختم کرنے کے بجائے اسے طاقت کے بل بوتے پر مزید مضبوط کرنا ہمیں ناقابل بیان دشواریوںمیں مبتلا کر سکتا ہے۔
وہ لوگ جن کا سرمایہ ' کاروبار اور خاندان پاکستان سے باہر ہیں ' انھیں زمام حکومت دینے کا فیصلہ کتنا سنجیدہ یا غیر سنجیدہ ہے ' اسے ہر شخص جانتا اور سمجھتا ہے۔ حد درجہ مشکل معاشی صورت حال کے اندر جذباتیت اور نعروں کی بنیاد پر حل تلاش کرنا ناعاقبت اندیشی ہے۔ طاقت ور ترین عہدوں پر فائز چند لوگوں کا یہ کہنا کہ ہم سرکاری خزانے سے تنخواہ نہیں لیں گے' صرف اور صرف ایک مذاق سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ ساتھ ساتھ مجہول قسم کے نعرے اور بیانات کہ ہم فلاں شہر کو پیرس بنا دیں گے' ہم اپنے دشمن کے ہاتھ کاٹ کے رکھ دیں گے' اگر کسی نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو اس کی آنکھیں نکال لیں گے' پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنا دیں گے' یہ سب نعرے اب صرف الفاظ کی بدصورتی سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہیں۔
اگر کسی ایک نعرے پر ایک فیصد پر بھی عمل ہو جاتا ہے تو شاید قوم کو ان لفظوں پر اعتبار ہو جائے۔ مگر مسائل کو حل کرنا کسی بھی سیاسی جماعت کی ترجیحات میں آتا ہی نہیں ہے۔ چاہتا ہوں کہ ملک کو بے مثال ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جائے۔ پاکستان کے بہترین معاشی ماہرین نے ہر حکومت کو غلطیوں سے بچانے کی کوشش کی ہے۔ مگر وہ ناکام رہے ہیں۔ قیصر بنگالی ہو یا اشفاق خان صاحب ہوں یا اسی طرح کے قد آور معاشی دماغ ہوں'کوئی بھی بادشاہ ان کی مشوروں پر عمل نہیں کرتا۔ہر چیزکا حل موجود ہے ۔ مقتدرطبقہ عوام کو ڈرا ڈرا کر قربانی مانگنے کی صدا بلند کرتا رہتا ہے مگر اپنی مراعات اور شاہ خرچیوں پر قدغن لگانے کی سوچتا تک نہیں ہے۔
کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ صدر سے لے کر نیچے تک سرکاری اعمال کی زندگی کو حد درجہ سادہ کر دیا جائے۔ سرکاری اخراجات کو کم کرنا بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ساتھ ساتھ نجی شعبے کو ٹیکس کے دائرے میں لانا ازحد ضروری ہے ۔ حالت یہ ہے کہ نجی شعبے کے امیر ترین طبقات ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں ۔ آئی ایم ایف اس غیر قدرتی اور بناوٹی نظام کی حد درجہ تضحیک کر چکا ہے ۔
بین الاقوامی اقتصادی ماہرین چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ اپنے گھر کی اندرونی اصلاحات ہی سے بہتری کا سفر شروع ہو سکتا ہے۔ مگر ہم اتنے ظالم لوگ ہیں کہ معیشت اور سماج کو اصلاحات سے نابلد رکھنے میں اپنی کامیابی گردانتے ہیں ۔ دنیا کی بہترین ائرلائنز پی آئی اے اگر آج اپنے بوجھ تلے کراہ رہی ہے تو اسے منطقی انتظامی اقدامات سے بہتر کرنا کتنا مشکل ہے ؟ مگر کوئی بھی ذمے داری لینے کو تیار نہیں۔ اپنے ایئرپورٹ تک گروی رکھنے والی قوم کیا اصلاحات کرنے کے قابل ہو گی؟ ہمیں وہی علاج بتایا جا رہا ہے جو ورلڈ بینک کا فیل شدہ نسخہ ہے ۔
قومی اداروں کو فروخت کرنا اور اس پیسے سے ترقی کی طرف قدم اٹھانا ۔ ایک ملک بتا دیجیے جو اس نسخہ کیمیا کی بدولت ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوا ہو۔ اداروں کی نجکاری ضرور کیجیے مگر پہلے انتظامی امور کو بہترین سطح پر لے کر آئیے۔ شاید ہم اپنے ملک کے قیمتی ترین اثاثے محفوظ رکھ پائیں؟ پی ٹی سی ایل کی نج کاری جو پرویز مشرف اور اس کے حواریوں نے حد درجہ بے ترتیبی سے کی تھی آج بھی ہمارے لیے خوفناک خواب سے بڑھ کر اور کچھ بھی نہیں ہے۔پوچھتاہوں کہ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں کتنے نئے کارخانے لگے۔
کتنی نئی صنعتوں نے جنم لیا ۔ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکو ں کی طرح ہائی اینڈ یا برتر ٹیکنالوجی کی منتقلی کس قدر عمل میں لائی گئی ہے۔
چینی ' آٹا اور سیمنٹ کی فیکٹریاں لگا کر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔متعدد ایسے شعبے ہیں جن کی طرف حکومت کا دھیان ہی نہیں گیا کہ اس میں سرمایہ کاری کروائی جائے۔ غدار غدار کا منترہ اب ناکام ہو چکا ہے۔ لوگوں کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ جو بھی آواز ان مسائل کے حل کے لیے اٹھتی ہے اسے جبراً خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ اس ماحول میں ترقی کی نوید دینا ناصرف ناممکن ہی نہیں' بلکہ تنزلی کی بات کرنا زیادہ بہتر نظر آتی ہے۔