سیاہ جھوٹ پر جتنا بھی سفیدہ پوت لیا جائے مگر یہ ننگا سچ اس کرہِ ارض پر بے یار و مددگار سرپٹ بھاگ رہا ہے کہ تین سو پینسٹھ مربع کلومیٹر کی اکتالیس کلومیٹر طویل اور چھ تا بارہ کلومیٹر چوڑی پٹی میں قید تئیس لاکھ زندہ انسانوں میں سے کوئی بھی کہیں بھی محفوظ نہیں۔حتیٰ کہ مردے تک محفوظ نہیں کہ جن کی لاشیں قبروں سے نکال کے اسرائیل لے جائی جاتی ہیں اور اس شناخت کے بعد گلی سڑی حالت میں واپس کی جاتی ہیں کہ کہیں ان میں وہ یرغمالی تو نہیں جنھیں حماس نے سات اکتوبر کو اغوا کر لیا تھا۔
مگر یہ قبر سے کھینچی گئی لاشیں ان لاشوں سے زیادہ خوش قسمت ہیں جنھیں گلیوں ، سڑکوں اور کونے کھدروں میں موت ملی اور وہ انسانوں کی طرح بھوکے پیاسے جانوروں کی خوراک بن گئے اور پھر وہ لاشیں بھی تو ہیں جو جانے کتنے عرصے سے ملبے تلے دبی دبی ٹوٹے پھوٹے بوسیدہ ڈھانچوں میں بدل چکی ہیں اور پھر وہ لاشیں جو براہ راست گرتے بموں اور گولوں کی زد میں آ کے کوئلہ بن گئیں۔
شاید یہ سب مرنے والے انسان ان ایک لاکھ کے لگ بھگ زخمیوں سے بھی زیادہ خوش نصیب ہیں جن میں سے اکثر نے اپنا کوئی نہ کوئی عضو کھودیا اور اب وہ خود گھسٹنے والی زندہ لاشیں ہیں۔
جب سے بارود ایجاد ہوا تب سے اب تک اتنے چھوٹے سے علاقے پر اتنا نہیں برسا جتنا غزہ کی زمین اور فضا میں جذب ہو چکا ہے۔ اس بارود کی امریکی و مغربی رسد لمحہ بھر کے لیے معطل نہیں ہوئی۔آپ میں سے بہت سوں نے ہالی وڈ کی پروڈکشن '' ہنگر گیم '' تو دیکھی ہو گی۔مگر غزہ اصل ہنگر گیم ہے۔یہ کوئی دستاویزی فلم بھی نہیں کہ آپ چینل بدل دیں۔
یہ کوئی ناقابلِ برداشت افسانہ نہیں جس کا ورق آرام سے پلٹ دیا جائے۔یہ کوئی کتابی المیہ بھی نہیں جسے آپ جھرجھراتے ہوئے بند کر کے الماری میں رکھ دیں۔یہ ہمارے ہی کرہِ ارض پر آس پڑوس میں ایک جیتی جاگتی غیر فلمی زندہ قیامت ہے جس سے آپ آنکھیں چار نہ بھی کریں اور شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبالیں تب بھی یہ آپ سب کے ڈرائنگ روم یا بیڈ روم میں پڑی سولہ تا ساٹھ انچ کی اسکرین اور آپ کے موبائیل فون میں موجود ہے۔اس سے فرار ممکن نہیں۔
بیسویں صدی میں جتنی بھی جنگیں اور خانہ جنگیاں ہوئی ہیں ان میں وقت اور جگہ کے تناسب سے جتنی بھی اوسط ہلاکتیں ہوئیں غزہ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ایک بے مثال قتلِ عام بے مثال رفتار کے ساتھ بے مثال ٹیکنالوجی کی مدد سے۔
یہاں ٹیکنالوجی سے مراد آرٹیفشل انٹیلی جینس یعنی اے آئی ( مصنوعی ذہانت ) ہے۔جسے اہداف کو جانچنے کا کام سونپا گیا ہے۔ جتنے اہداف کی نشان دہی ایک ماہر انسان سال بھر میں کر سکتا ہے۔اے آئی پروگرام ایک گھنٹے میں کر سکتا ہے۔یعنی غزہ کے انسانوں کی زندگی اور موت کا فیصلہ ہسبورہ نامی ایک ڈجیٹل پروگرام کر رہا ہے۔اس ٹیکنالوجی کا مقصد کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کو شناخت کر کے ہلاک کرنا ہے۔( یہ ایک الگ موضوع ہے )۔
دہشت گردی کی کیا مسلمہ تعریف ہے؟ عسکری و غیر عسکری ٹارگٹس میں کوئی تمیز نہ کر کے اپنے سیاسی مقاصد و اہداف پورے کرنے کی غیر اخلاقی و غیر قانونی کوشش کو دہشت گردی کہتے ہیں۔ لیکن کسی قابض ریاست یا غاصب طبقے کے تسلط سے نجات کے لیے جو مسلح جدوجہد کی جاتی ہے اس کی بین الاقوامی قانون میں گنجائش ہے۔
جب ایک نوآبادیاتی طاقت کے خلاف کوئی مقامی گروہ طاقت کا استعمال کرے اور نوآبادیاتی طاقت اس مسلح جدوجہد کو بزور اپنے دفاع ( سیلف ڈیفنس ) کے نام پر کچلنے کی کوشش کرے تو وہ کوشش جبر و استبداد اور نسل کشی کی تعریف پر تو پوری اتر سکتی ہے مگر سیلف ڈیفنس کے احاطے میں نہیں آتی۔
اپنے دفاع کا قانونی و اخلاقی حق بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہے مگر صرف اس صورت میں اگر کوئی بیرونی ریاست یا گروہ کسی دوسری ریاست پر حملہ آور ہو ۔ مقبوضہ علاقوں میں قابض ریاست طاقت کے استعمال کو سیلف ڈیفنس نہیں کہہ سکتی۔وہ الگ بات کہ مغربی حکومتیں اور میڈیا حماس کے خلاف قابض طاقت اسرائیل کی کارروائی کو سیلف ڈیفنس کہہ کے دنیا اور بین الاقوامی قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سیلف ڈیفنس کا حق بھی تسلیم شدہ بین الاقوامی کنونشنز کے طے کردہ اصول و ضوابط کے تحت استعمال ہو سکتا ہے۔یعنی اپنے دفاع کے لیے طاقت اس احتیاط سے استعمال کی جائے کہ کوئی بے گناہ یا نہتا زد میں نہ آئے۔سیلف ڈیفنس کے نام پر چیونٹی پر ایٹم بم نہیں مارا جا سکتا۔مگر اسرائیل کو چونکہ سات خون معاف ہیں لہٰذا غزہ کے نہتے انسانوں پر پانچ ہیروشیما بموں کی طاقت کے برابر بارود استعمال کرنے کو بھی سیلف ڈیفنس کے کھاتے میں دکھایا جا رہا ہے۔
جب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے پوچھا گیا کہ کیا اسرائیل غزہ میں سویلین آبادی کو جان بوجھ کر نشانہ بنا رہا ہے تو ان کا جواب تھا کہ انھیں اب تک ایسی کوئی شہادت نہیں ملی جس کی بنیاد پر امریکی انتظامیہ یہ نتیجہ اخذ کر سکے۔
یہ وہی امریکی انتظامیہ ہے جسے یوکرین میں شہری آبادی کے خلاف ہر روسی بربریت صاف صاف نظر آتی ہے۔جسے شن جیانگ میں اوغروں کے انسانی حقوق کی پامالی کا سن کے نیند نہیں آتی۔جسے ایرانی حکومت اپنے شہریوں کی خونی دشمن نظر آتی ہے۔مگر چھ ماہ کے دوران غزہ کی سویلین آبادی کی تباہی کے ہزاروں وڈیو کلپس اس کی نگاہوں سے نہیں گذرے۔نسل کشی کی جو اطلاع عالمی ادارہِ انصاف کے ججوں تک پہنچ گئی وہ اطلاع اب تک وائٹ ہاؤس اور کیپیٹل ہل کے بیرونی دروازوں پر کھڑے سنتریوں کو تلاشی دے رہی ہے۔
نیتن یاہو کے خونی گروہ کے مطابق حماس کی تشریح یہ ہے کہ تمام اہلیانِ غزہ حماس ہیں۔یا تو وہ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ دیں بصورتِ دیگر دنیا چھوڑ دیں۔مگر جن عربوں کو یہ بات معلوم بھی ہے خود وہ اسے رکوانے کے لیے کیا کر رہے ہیں ؟
انھی کے پرکھے تھے جنھوں نے انیس سو تہتر میں مغربی ممالک کو صرف تین ماہ کے لیے تیل کی فراہمی بند کی تو ہوش ٹھکانے آ گئے اور ہر طرف صلح جوئی اور امن سمجھوتوں کی باتیں شروع ہوگئی تھیں۔آج انھی حکمرانوں کی موجودہ نسل ردالی میں تبدیل ہو چکی ہے۔
( ردالی پنجاب میں اس خاتون کو کہتے ہیں جو کسی میت کے سوگ میں ماتمی ماحول بنانے کی خاطر اجرت پر بین کرنے کے لیے بلوائی جاتی تھی )۔
عرب دنیا سے ہزاروں میل پرے لاطینی امریکا کے ملک بولیویا ، بیلیز ، ہنڈوراس ، برازیل اور چلی نے اسرائیلی جارحیت شروع ہوتے ہی سفارتی تعلقات معطل کر دیے۔ جنوبی افریقہ نے نہ صرف سفارتی تعلقات توڑ لیے بلکہ فلسطین کا مقدمہ عالمی عدالتِ انصاف کے در تک لے گیا۔ان میں سے کوئی ملک بھی عرب لیگ یا اسلامی کانفرنس کا رکن نہیں۔ الحمدللہ۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)