پاکستان کو درپیش چیلنجز
پاکستان مشکل ترین حالات کے باوجود ایسے ممالک میں شامل نہیں ہے جو غربت کی فہرست میں سب سے نیچے ہیں
پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت نے قومی مفادات کو برقرار رکھنے اور خوشحال اور محفوظ پاکستان کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اہم ارکان کے ہمراہ گزشتہ روز جنرل ہیڈ کوارٹرزراولپنڈی کا دورہ کیا۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے وزیراعظم پاکستان کا استقبال کیا اور انھیں گارڈ آف آنر پیش کیا۔
اس موقع پر وزیراعظم نے یادگار شہدا پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔موجودہ حالات کے تناظر میں وزیراعظم کا اپنی کابینہ کے ہمراہ جی ایچ کیو کا دورہ کرنا اور پاک فوج کی قیادت کے ساتھ اہم امور پر تبادلہ خیال کرنا، انتہائی خوش آیند پیش رفت ہے۔
وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان نے عسکری قیادت کے ساتھ قومی سلامتی، علاقائی استحکام اور فوجی تیاریوں کے امور پر بات چیت کی۔ وزیراعظم کو موجودہ سیکیورٹی ماحول، خطرے کے اسپیکٹرم، سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے اور انسداد دہشت گردی کی جاری کارروائیوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔
وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی پیشہ وارانہ مہارت، آپریشنل تیاریوں اور قربانیوں کو سراہااور ملک کی علاقائی سالمیت کے تحفظ اور امن و استحکام کو یقینی بنانے میں پاک فوج کے عزم کو سراہا۔
وفاقی حکومت کو کثیرالجہتی چیلنجز سے نبٹنا ہے۔ان چیلنجز میں دہشت گردی، معاشی بحران ، شمال مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے قانون سازی کرنا، خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنا اور ملک کے اندر دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنا شامل ہیں۔ ان چیلنجز سے نبٹنے کے لیے سویلین اور عکسری قیادت کا مل کر کام کرنا ناگزیر ہے۔
اس نتاظر میں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کے دورہ جی ایچ کیو کی اہمیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ جی ایچ کیو میں عسکری قیادت کے ساتھ ملاقات کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ حکومت مسلح افواج کی آپریشنل تیاری کو یقینی بنانے کے لیے درکار تمام وسائل فراہم کرے گی، پاکستان ترقی کی راہ پر ہے اور پاکستان کے پرامن ترقی کو یقینی بنانے میں مسلح افواج کا کردار ہے۔
اس موقع پر آرمی چیف کا کہناتھا کہ پاک فوج قوم کی توقعات پر پورا اترتی رہے گی اور پاکستان کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے میں حکومت کی بھرپور حمایت کرے گی۔اس دورے کے اختتام پر سویلین اورعسکری قیادت نے قومی مفادات کو برقرار رکھنے اور خوشحال اور محفوظ پاکستان کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سویلین اور عسکری قیادت اہم ترین ایشوز پر یکسو ہو کر کام کرے۔
پاکستان کو سیاسی اور معاشی استحکام حاصل کرنے کے لیے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ریشنل حکمت عملی اور عملی پالیسیز تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی کی ڈھلمل پالیسیاں پاکستان کی قومی سلامتی اور سیکیورٹی کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔ شمال مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے پاکستان کو پرانی پالیسی ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ ان سرحدوں سے مسلح دہشت گرد ہی پاکستان میں داخل نہیں ہو رہے بلکہ معاشی دہشت گرد بھی حملے کر رہے ہیں۔
یہ حملے روکنے کے لیے تجارتی قوانین میں سختی لانے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ چیکنگ کا معیار بہتر بنانے کے لیے ان سرحدوں پر تعینات سرکاری افسروں اور ملازمین کے احتساب کا میکنزم بھی بنانے کی ضرورت ہے۔ ان سرحدوں سے تجارت ہونی چاہیے لیکن یہ تجارت قوانین وضوابط کی پابندی کے ساتھ ہونی چاہیے۔ اس میں ہی پاکستان کا فائدہ ہے۔
اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے موقع پر وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اپنے پیغام میں عالمی برادری پر پرامن بقائے باہمی، بین المذاہب ہم آہنگی اور باہمی احترام کو فروغ دینے کے اپنے عزم کی تجدید کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسلامو فوبیا اور مسلمان مخالف نفرت کی بڑھتی ہوئی لہر کے خلاف غیر مشروط طور پر بولیں اورردعمل ظاہرکریں۔ اسلاموفوبیا کا چیلنج بھی اہمیت کا حامل ہے۔ تاہم اس سے نمٹنے کے لیے تنہا پاکستان ہی نہیں بلکہ تمام مسلم ممالک کی قیادت کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان اپنے حصے کا کام اچھے انداز میں کر رہا ہے۔ او آئی سی اور عرب لیگ اس معاملے میں زیادہ بہتر کام کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں ایک اور اچھی پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں علاقائی سلامتی پر حکومت پاکستان کے ساتھ شراکت داری، آئی ایم ایف پروگرام کے ذریعے اقتصادی اصلاحات کے لیے امریکی حمایت، تجارت، سرمایہ کاری، تعلیم، نجی شعبے کے زیر اثر اقتصادی ترقی اور موسمیاتی تبدیلی سمیت وسیع تر دوطرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا.
امریکی سفیر نے پاکستان کی جمہوریت اور آزاد پریس کے کلیدی کردار کے لیے بھی حمایت کا اظہار کیا،ملاقات میں اس امر کا بھی اعادہ کیا گیا کہ دونوں ممالک یو ایس پاکستان گرین الائنس فریم ورک کے تحت موسمیاتی تبدیلی کے منصوبوں کو تیز کرنے کے لیے کس طرح مل کر کام کر سکتے ہیں۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف نے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے سامنے امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ بھرپور انداز سے اٹھایا ہے، وزیراعظم نے کہا کہ ان کی حکومت معیشت کو مستحکم کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے میکرو اکنامک اصلاحات پر توجہ دے گی، اس سلسلے میں انھوں نے سرمایہ کاری کے لیے سہولت کونسل کے کردار پر بھی روشنی ڈالی جو پاکستان میں ترجیحی شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو تیز کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔
ملاقات کے دوران دوطرفہ اور علاقائی اہمیت کے متعدد امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جن میں غزہ اور بحیرہ احمر کی صورتحال، افغانستان میں ہونے والی پیش رفت پر بات چیت شامل ہیں۔ ڈونلڈ بلوم نے دوبارہ منتخب ہونے پر وزیر اعظم کو مبارکباد دی اور کہا کہ امریکا پاکستان کو ایک اہم شراکت دار سمجھتا ہے۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار چلے آ رہے ہیں، یہ امر خوش آیند ہے کہ اب امریکا اور یورپ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتر ہونے کے اشارے مل رہے ہیں۔ پاکستان کا محل وقوع اور اس کے جیوپولیٹیکل اور جیو اسٹرٹیجک مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کے ساتھ بھی تعلقات بہتر رہیں جب کہ چین کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات میں بہتری آئے۔
متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور قطر کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا بلکہ انھیں آگے بڑھانا بھی پاکستان کی تعمیر وترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان اس وقت ماحولیاتی تبادہی کا بھی شکار ہے۔ وزیراعظم نے گزشتہ روز پی ایم ہاؤس میں پودا لگا کر موسم بہار کی شجر کاری مہم کا آغاز کردیا ہے۔
اس موقع پر انھوں نے کہا کہ پاکستان دنیا میں موسمیاتی خطرات کا سب سے زیادہ شکار پانچواں ملک ہے، موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے آگاہی ضروری ہے، ملک میں جنگلات کارقبہ صرف 5 فیصد ہے، رواں سال پودے لگانے کا ہدف دگناکیاجائے گا۔ پاکستان کو سبز پاکستان بنانا انتہائی لازم ہے۔ پاکستان کے لیے جنگلات کا رقبہ بڑھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ادھر آئی ایم ایف نے پاکستان سمیت غریب ترین ممالک کی فہرست جاری کردی۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنی ایک رپورٹ میں دنیا کے غریب ترین ممالک کی فہرست جاری ہے جس میں سوڈان پہلے نمبر پر ہے اور پاکستان کا52 واں نمبر ہے۔ امریکی مالیاتی جریدے فوربس کے مطابق آئی ایم ایف نے یہ فہرست ملکی آبادی کی فی کس جی ڈی پی اور لوگوں کی قوت خرید کی صلاحیت کی بنیاد پر ترتیب دی ہے۔ آئی ایم ایف کی دنیا کے غریب ترین ممالک کی فہرست میں اولین 10 نمبروں پر افریقی ممالک شامل ہیں۔
فہرست میں جنوبی سوڈان کے بعد دوسرا نمبر برونڈی کا ہے، تیسرے اور چوتھے نمبر بھی افریقی ممالک وسطی افریقی جمہوریہ اور عوامی جمہوریہ کانگو براجمان ہیں۔ موزمبیق کا نمبر پانچواں جب کہ اس کے بعد بالترتیب ملاوی، نائیجر، چاڈ، لائیبیریا اور مڈغاسکر کا نمبر آتا ہے۔
جنوبی ایشیا کا سب سے غریب ترین ملک نیپال ہے جس کا نمبر 40 ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کا نمبر 52 واں ہے جب کہ بنگلادیش 62 اور بھارت 63 ویں نمبر پر ہے۔ دنیا کے امیر ترین ممالک کے اعتبار سے لکسمبرگ پہلے نمبر پر ہے، اس کے بعد آئرلینڈ، سنگاپور اور قطر ہیں۔
پاکستان مشکل ترین حالات کے باوجود ایسے ممالک میں شامل نہیں ہے جو غربت کی فہرست میں سب سے نیچے ہیں۔ پاکستان کے پاس پوٹینشل موجود ہے، انفرااسٹرکچر بھی موجود ہے، بہترین ہنرمند بھی موجود ہیں، زرخیز ترین زرعی رقبہ بھی موجود ہے اور سرسبز پہاڑی علاقے موسمی پھلوں میں خودکفیل ہیں، اگر ملک میں جاری سیاسی اور نظریاتی خلفشار ختم ہو جائے تو پاکستان بڑی تیزی سے مڈل انکم ممالک کی فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اہم ارکان کے ہمراہ گزشتہ روز جنرل ہیڈ کوارٹرزراولپنڈی کا دورہ کیا۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے وزیراعظم پاکستان کا استقبال کیا اور انھیں گارڈ آف آنر پیش کیا۔
اس موقع پر وزیراعظم نے یادگار شہدا پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔موجودہ حالات کے تناظر میں وزیراعظم کا اپنی کابینہ کے ہمراہ جی ایچ کیو کا دورہ کرنا اور پاک فوج کی قیادت کے ساتھ اہم امور پر تبادلہ خیال کرنا، انتہائی خوش آیند پیش رفت ہے۔
وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان نے عسکری قیادت کے ساتھ قومی سلامتی، علاقائی استحکام اور فوجی تیاریوں کے امور پر بات چیت کی۔ وزیراعظم کو موجودہ سیکیورٹی ماحول، خطرے کے اسپیکٹرم، سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے اور انسداد دہشت گردی کی جاری کارروائیوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔
وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی پیشہ وارانہ مہارت، آپریشنل تیاریوں اور قربانیوں کو سراہااور ملک کی علاقائی سالمیت کے تحفظ اور امن و استحکام کو یقینی بنانے میں پاک فوج کے عزم کو سراہا۔
وفاقی حکومت کو کثیرالجہتی چیلنجز سے نبٹنا ہے۔ان چیلنجز میں دہشت گردی، معاشی بحران ، شمال مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے قانون سازی کرنا، خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنا اور ملک کے اندر دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنا شامل ہیں۔ ان چیلنجز سے نبٹنے کے لیے سویلین اور عکسری قیادت کا مل کر کام کرنا ناگزیر ہے۔
اس نتاظر میں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کے دورہ جی ایچ کیو کی اہمیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ جی ایچ کیو میں عسکری قیادت کے ساتھ ملاقات کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ حکومت مسلح افواج کی آپریشنل تیاری کو یقینی بنانے کے لیے درکار تمام وسائل فراہم کرے گی، پاکستان ترقی کی راہ پر ہے اور پاکستان کے پرامن ترقی کو یقینی بنانے میں مسلح افواج کا کردار ہے۔
اس موقع پر آرمی چیف کا کہناتھا کہ پاک فوج قوم کی توقعات پر پورا اترتی رہے گی اور پاکستان کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے میں حکومت کی بھرپور حمایت کرے گی۔اس دورے کے اختتام پر سویلین اورعسکری قیادت نے قومی مفادات کو برقرار رکھنے اور خوشحال اور محفوظ پاکستان کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سویلین اور عسکری قیادت اہم ترین ایشوز پر یکسو ہو کر کام کرے۔
پاکستان کو سیاسی اور معاشی استحکام حاصل کرنے کے لیے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ریشنل حکمت عملی اور عملی پالیسیز تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی کی ڈھلمل پالیسیاں پاکستان کی قومی سلامتی اور سیکیورٹی کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔ شمال مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے پاکستان کو پرانی پالیسی ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ ان سرحدوں سے مسلح دہشت گرد ہی پاکستان میں داخل نہیں ہو رہے بلکہ معاشی دہشت گرد بھی حملے کر رہے ہیں۔
یہ حملے روکنے کے لیے تجارتی قوانین میں سختی لانے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ چیکنگ کا معیار بہتر بنانے کے لیے ان سرحدوں پر تعینات سرکاری افسروں اور ملازمین کے احتساب کا میکنزم بھی بنانے کی ضرورت ہے۔ ان سرحدوں سے تجارت ہونی چاہیے لیکن یہ تجارت قوانین وضوابط کی پابندی کے ساتھ ہونی چاہیے۔ اس میں ہی پاکستان کا فائدہ ہے۔
اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے موقع پر وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اپنے پیغام میں عالمی برادری پر پرامن بقائے باہمی، بین المذاہب ہم آہنگی اور باہمی احترام کو فروغ دینے کے اپنے عزم کی تجدید کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسلامو فوبیا اور مسلمان مخالف نفرت کی بڑھتی ہوئی لہر کے خلاف غیر مشروط طور پر بولیں اورردعمل ظاہرکریں۔ اسلاموفوبیا کا چیلنج بھی اہمیت کا حامل ہے۔ تاہم اس سے نمٹنے کے لیے تنہا پاکستان ہی نہیں بلکہ تمام مسلم ممالک کی قیادت کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان اپنے حصے کا کام اچھے انداز میں کر رہا ہے۔ او آئی سی اور عرب لیگ اس معاملے میں زیادہ بہتر کام کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں ایک اور اچھی پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں علاقائی سلامتی پر حکومت پاکستان کے ساتھ شراکت داری، آئی ایم ایف پروگرام کے ذریعے اقتصادی اصلاحات کے لیے امریکی حمایت، تجارت، سرمایہ کاری، تعلیم، نجی شعبے کے زیر اثر اقتصادی ترقی اور موسمیاتی تبدیلی سمیت وسیع تر دوطرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا.
امریکی سفیر نے پاکستان کی جمہوریت اور آزاد پریس کے کلیدی کردار کے لیے بھی حمایت کا اظہار کیا،ملاقات میں اس امر کا بھی اعادہ کیا گیا کہ دونوں ممالک یو ایس پاکستان گرین الائنس فریم ورک کے تحت موسمیاتی تبدیلی کے منصوبوں کو تیز کرنے کے لیے کس طرح مل کر کام کر سکتے ہیں۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف نے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے سامنے امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ بھرپور انداز سے اٹھایا ہے، وزیراعظم نے کہا کہ ان کی حکومت معیشت کو مستحکم کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے میکرو اکنامک اصلاحات پر توجہ دے گی، اس سلسلے میں انھوں نے سرمایہ کاری کے لیے سہولت کونسل کے کردار پر بھی روشنی ڈالی جو پاکستان میں ترجیحی شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو تیز کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔
ملاقات کے دوران دوطرفہ اور علاقائی اہمیت کے متعدد امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جن میں غزہ اور بحیرہ احمر کی صورتحال، افغانستان میں ہونے والی پیش رفت پر بات چیت شامل ہیں۔ ڈونلڈ بلوم نے دوبارہ منتخب ہونے پر وزیر اعظم کو مبارکباد دی اور کہا کہ امریکا پاکستان کو ایک اہم شراکت دار سمجھتا ہے۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار چلے آ رہے ہیں، یہ امر خوش آیند ہے کہ اب امریکا اور یورپ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتر ہونے کے اشارے مل رہے ہیں۔ پاکستان کا محل وقوع اور اس کے جیوپولیٹیکل اور جیو اسٹرٹیجک مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کے ساتھ بھی تعلقات بہتر رہیں جب کہ چین کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات میں بہتری آئے۔
متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور قطر کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا بلکہ انھیں آگے بڑھانا بھی پاکستان کی تعمیر وترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان اس وقت ماحولیاتی تبادہی کا بھی شکار ہے۔ وزیراعظم نے گزشتہ روز پی ایم ہاؤس میں پودا لگا کر موسم بہار کی شجر کاری مہم کا آغاز کردیا ہے۔
اس موقع پر انھوں نے کہا کہ پاکستان دنیا میں موسمیاتی خطرات کا سب سے زیادہ شکار پانچواں ملک ہے، موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے آگاہی ضروری ہے، ملک میں جنگلات کارقبہ صرف 5 فیصد ہے، رواں سال پودے لگانے کا ہدف دگناکیاجائے گا۔ پاکستان کو سبز پاکستان بنانا انتہائی لازم ہے۔ پاکستان کے لیے جنگلات کا رقبہ بڑھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ادھر آئی ایم ایف نے پاکستان سمیت غریب ترین ممالک کی فہرست جاری کردی۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنی ایک رپورٹ میں دنیا کے غریب ترین ممالک کی فہرست جاری ہے جس میں سوڈان پہلے نمبر پر ہے اور پاکستان کا52 واں نمبر ہے۔ امریکی مالیاتی جریدے فوربس کے مطابق آئی ایم ایف نے یہ فہرست ملکی آبادی کی فی کس جی ڈی پی اور لوگوں کی قوت خرید کی صلاحیت کی بنیاد پر ترتیب دی ہے۔ آئی ایم ایف کی دنیا کے غریب ترین ممالک کی فہرست میں اولین 10 نمبروں پر افریقی ممالک شامل ہیں۔
فہرست میں جنوبی سوڈان کے بعد دوسرا نمبر برونڈی کا ہے، تیسرے اور چوتھے نمبر بھی افریقی ممالک وسطی افریقی جمہوریہ اور عوامی جمہوریہ کانگو براجمان ہیں۔ موزمبیق کا نمبر پانچواں جب کہ اس کے بعد بالترتیب ملاوی، نائیجر، چاڈ، لائیبیریا اور مڈغاسکر کا نمبر آتا ہے۔
جنوبی ایشیا کا سب سے غریب ترین ملک نیپال ہے جس کا نمبر 40 ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کا نمبر 52 واں ہے جب کہ بنگلادیش 62 اور بھارت 63 ویں نمبر پر ہے۔ دنیا کے امیر ترین ممالک کے اعتبار سے لکسمبرگ پہلے نمبر پر ہے، اس کے بعد آئرلینڈ، سنگاپور اور قطر ہیں۔
پاکستان مشکل ترین حالات کے باوجود ایسے ممالک میں شامل نہیں ہے جو غربت کی فہرست میں سب سے نیچے ہیں۔ پاکستان کے پاس پوٹینشل موجود ہے، انفرااسٹرکچر بھی موجود ہے، بہترین ہنرمند بھی موجود ہیں، زرخیز ترین زرعی رقبہ بھی موجود ہے اور سرسبز پہاڑی علاقے موسمی پھلوں میں خودکفیل ہیں، اگر ملک میں جاری سیاسی اور نظریاتی خلفشار ختم ہو جائے تو پاکستان بڑی تیزی سے مڈل انکم ممالک کی فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔