رومانی شاعری کا مقبول ترین شاعر عبدالحمید عدمؔ

ان کی مقبولیت کا سبب ان کی رومانی شاعری ہے جس میں غنائیت اور نغمگی کے ساتھ ساتھ طنزکی بے پناہ کاٹ بھی موجود ہے


صدام ساگر March 17, 2024

اُردو ادب میں بہت سے شعراء اپنے نام اور مقام کی اعتبار سے ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں مگر ان شعراء میں عبدالحمید عدم کا نام بھی شامل ہیں جنہیں پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں اُردو کا مقبول ترین شاعر تصورکیا جاتا ہے۔

ان کی مقبولیت کا سبب ان کی رومانی شاعری ہے جس میں غنائیت اور نغمگی کے ساتھ ساتھ طنزکی بے پناہ کاٹ بھی موجود ہے اور یوں ان کی شاعری میں کھٹے اور میٹھے دونوں طرح کے ذائقے ملتے ہیں، وہ دوسروں کی خوشی میں اپنی ناتمام حسرتوں کو داغ دار کرتے ہوئے خوشی کا ایک ایسا تاثر چھوڑ دیتے ہیں۔

ہم نے حسرتوں کے داغ آنسوئوں سے دھو لیے

آپ کی خوشی حضور بولیے نہ بولیے

عبدالحمید عدم کی حالات زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے 10 اپریل1910 ء میں گوجرانوالہ کے ایک گائوں تلونڈی موسیٰ میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم گھر سے ہی حاصل کی جبکہ میٹرک اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ لاہور سے پاس کیا، بعدازاں پرائیوٹ سطح پر ایف اے کیا اور ملٹری اکائونٹس میں ملازم ہوگئے۔

1939ء میں دس سال ملازمت کرنے کے بعد عراق چلے گئے اور ایک عراقی لڑکی سے شادی کر لی اور 1941 ء میں ہندوستان آگئے اور ایس اے ایس کا امتحان امتیازی پوزیشن سے پاس کیا۔ جس کے نتیجے میں پھر ملٹری اکائونٹس میں ملازمت پر دوبارہ بحال ہوگئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کا تبادلہ راولپنڈی کردیا گیا جہاں انہیں 1948 ء میں ملٹری اکائونٹس میں ڈپٹی اسسٹنٹ کنٹرولر مقرر کردیا گیا۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد قلم اورکاغذ کو اپنا مستقل اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔

انہوں نے اپنی شاعری کا آغاز تب کیا جب اُردو شاعری کے آسمان پر اختر شیرانی، جوش ملیح آبادی اور حفیظ جالندھری جیسے روشن ستارے جگمگا رہے تھے۔ عدمؔ نے ان کی راہ پر چلتے ہوئے صرف رومانی شاعری کی او ر بے حد مقبول ہوئے۔ تاریخ ادب کے اوراق بتاتے ہیں کہ ایک بار بھارت سے جب مجاز لکھنوی تشریف لائے انہوں نے عدمؔ کو نہیں دیکھا تھا لیکن ان کی شاعری کے مداح تھے۔ جب ان کا تعارف کروایا گیا تو بے اختیار ان کے منہ سے نکلا کہ '' اگر یہی ہے عدم تو وجود کیا ہوگا؟ '' میرے خیال میں عدمؔ کی شاعری ہی اُس کا وجود تھی جس کی خوشبو اُس کے اشعارکو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔

ذرا آگے چلو گے تو اضافہ علم میں ہوگا

محبت پہلے پہلے بے ضرر محسوس ہوتی ہے

اسی غزل کے مقطع میں عدمؔ دوستوں کی بے رخی کی کیفیت کوکچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ:

عدمؔ اب دوستوں کی بے رُخی کی ہے یہ کیفیت

کھٹکتی تو نہیں اتنی، مگر محسوس ہوتی ہے

محبت کا چراغ جلانے کا احساس عدمؔ کی شاعری کا بنیادی موضوع ٹھہرتا ہے۔ رومانیت کے پردے میں اس نے جو احتجاجی رویہ اپنایا ہے اور جس طرح اپنے خیالات و افکارکی ترجمانی کی ہے، وہ اسی کی محبت پرور شخصیت کا خاصہ ہے۔

عدمؔ صاحب ایک جگہ رقم طراز ہے کہ '' جب تک کوئی شاعر یا ادیب کل وقتی شاعر اور ادیب نہیں ہوتا، تب تک بالعموم اس کا تشخص شاعر اور ادیب کا نہیں ہو پاتا اور جتنی جس شاعر میں نرگسیت، خود پسندی اور خود غرضی ہوتی ہے، اتنا ہی اس کا شعری اور ادبی تشخص بنتا ہے۔'' اسی تشخص کا اعتراف عدمؔ جی دیکھے کتنی خاموشی سے چپ چاپ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ :

تم راہ میں چپ چاپ کھڑے ہو توگئے ہو

کس کس کو بتائو گے کہ گھرکیوں نہیں جاتے

عدم بہت پرجوش آدمی تھے، ان کے ہاں جب پیسے ختم ہوجاتے تو وہ جلدی سے غزلیں لکھ کر دیگر پبلشرزکو دے کر پیسے ایڈوانس معاوضہ کے طور پر لے آتے تھے۔ انہوں نے جو غزلیں اپنے لیے لکھی ہیں، ان میں ان کا ہی مخصوص اندازجھلکتا ہے جس میں ہلکا ہلکا سوز بھی ہے اور عشق ومحبت کی دھیمی دھیمی آنچ بھی۔ انہوں نے روایتی موضوعات، خم وگیسو،گل و بلبل، شمع و پرانہ، ساقی، شیشہ وسنگ کا استعمال کیا، ایسے میں ان کی ایک غزل کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

گلناہ جرات تدبیر کررہا ہوں میں

یہ کس قماش کی تقصیرکر رہا ہوں میں

ہجومِ حشر میں کھولوں گا عدل کا دفتر

ابھی تو فیصلے تحریر کر رہا ہوں میں

عدمؔ بعض ایسے لوگوں سے احتیاط برتنے کا مشورہ بھی کچھ یوں دیتے ہیں کہ:

اے عدمؔ احتیاط لوگوں سے

لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

1960 ء میں عدمؔ نے عمر خیام کی رباعیات کا اُردو زبان میں ترجمہ بھی کیا جس سے خاصی مقبولیت ان کے حصے میں آئی۔ غالبا اس کی وجہ یہ تھی کہ عمرخیام اور عبدالحمید عدمؔ کا فلسفہ زندگی اور شاعری کا انداز ملتا جلتا تھا۔ ان کا شاعری کا پہلا مجموعہ 1934 ء میں '' نقش دوام'' کے نام سے منظرعام پر آیا ان کی دیگر تصانیف میں خرابات، نگار خانہ، رمِ آہو،چارہ درد، دَولت بیدار، بزمِ تمنا اور ''خرابہ'' و دیگر شامل ہیں۔ اُردو شاعری کے اس رومانوی شاعر نے 10 مارچ1981 ء میں وفات پائی اور قبرستان ڈرائی پورٹ مغل پورہ کے صدر دروازے کے پاس دفن ہوئے۔

ان کی وفات کے بعد ان کے کلام پر مبنی '' کلیاتِ عدم'' کی ترتیب و تدوین کا فریضہ پروفیسر خواجہ محمد زکریا نے ادا کیا۔ جو بیسویں صدی میں آج بھی بہت مقبولیت کا حامل ہیں، کیونکہ 50 اور 60 کی دہائی میں برصغیر پاک و ہند کے مشاعروں میں عدمؔ کی رواں دواں اور بے باک شاعری سے گونجتے تھے ۔ اسی طرح آج بھی ان کے اشعار بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں گونجتے ہیں کیونکہ جانے والے چلے جاتے ہیں مگر ان کی یادیں اور باتیں ہمیشہ اُنہیں کل آنے والے برسوں میں زندہ و جاوید رکھتی ہے۔ آخر پر جاتے جاتے عدم کے کلام سے یہ اشعار سن لیجیے کہ :

زندگی ہے، دوسروں کے حکم پر مرنے کا جشن

موت ہے، اپنی رضا مندی سے مر جانے کا نام

ہیں عدمؔ کے ذکر پر،کیوں آپ اتنے پُرغضب

شمع کے ہمراہ، آ جاتا ہے پروانے کا نام

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں