اسٹریٹ کرائمز اور عوام
کراچی میں اسٹریٹ کرائم 2023ء میں 2022ء کے مقابلے میں گیارہ اعشاریہ گیارہ فیصد بڑھے ہیں
رمضان المبارک کی آمد سے ہی فضا میں ایک خوش گواریت پھیل جاتی ہے۔ یہ تبدیلی دراصل قدرت کی جانب سے ہوتی ہے۔ ایک ایسا تحفہ جو صرف مسلمانوں کے لیے بطور خاص بھیجا گیا ہے۔
آج ہم مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پہلی بار ایسا ہو رہا ہو کہ پاکستان میں رمضان کی آمد کی ساتھ ہی اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان کی جانب بڑھ رہی ہوں بلکہ ہر ایک وہ شے جو آپ خریدنے کے متمنی ہیں اس کی قیمتیں عام دنوں کے مقابلے میں رمضان سے کچھ پہلے اور رمضان میں کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
بدقسمتی سے ایسا صرف ہمارے ملک میں ہی ہوتا ہے کیونکہ یہ سب ہم نے خود اپنے لیے پسند کیا ہے۔ اب ہم کووڈ کو دہائیاں دیتے ہیں کہ اس کے آنے سے پہلے تو جیسے ہمارے یہاں سونے کی بالیاں اگتی تھیں، جسے ہم چاندی کے ٹرکوں میں بھرکر مفت میں فروخت کرتے تھے۔ ہمارے بچپن سے ہی اور یقیناً اس سے پہلے بھی ایسا ہی ہوا کرتا تھا لیکن آج کے چند سالوں پیشتر کچھ اور بھی زیادہ ہونے لگا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں توکیا لیکن خاص کرکراچی میں دن دہاڑے لوٹ مار، ڈکیتی اور روڈ کرائمز کی شرح مہنگائی کی مانند بڑھے جا رہی ہے، ہر ایک اس کے مظالم سے عاجز آچکا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سلسلے میں کیا کر رہے ہیں، اس کو ایک جانب رکھتے ہیں کہ ابھی یہ موضوع کسی اور جانب نکل جائے گا لیکن عوام اس دیدہ دلیری اور خوف زدگی کی لوٹ مار سے اس قدر عاجز آچکے ہیں کہ لوگوں نے کئی بار قانون اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کا فیصلہ کھلی سڑکوں پرکر ڈالا ہے، جو ڈکیت بھی کسی طرح عوام کے ہاتھ لگا اس کی وہ درگت بنائی گئی کہ شاید قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس سے پیچھے رہ گئے۔
جب سے ہمارے علاقے میں دو تین ڈاکوئوں کو پکڑکر مارکر جلا دیا گیا تب سے ہمارے علاقے میں وارداتیں توکیا کوئی تار تک چوری کرنے نہیں آتا۔ یہ دل کی وہ آواز تھی جو ایک معصوم بچے نے اپنے علاقے کے بارے میں بیان کی تھی۔
ایسا ہوتا آیا ہے کہ کئی علاقوں میں اس طرح کھلے عام دو پہیوں پر تیرتے آتے اورکبھی کسی آفس جانے والے، کبھی کسی دکان دار اورکبھی کسی طالب علم کو لوٹ کر اس کی کمائی سے اسے محروم کردیتے اور لوٹنے والا بے بسی سے اپنا سب کچھ لٹا دیتا ہے۔ابھی رمضان کو دن ہی کتنے گزرے ہیں ذرا اپنا سیل فون اٹھا کر وارداتوں کی تعداد نوٹ کریں، اخبارات میں دیکھیے۔
''ہم دو دوست اپنے دوست کا اس کے گھر کے نیچے بائیک پر کھڑے انتظار کر رہے تھے۔ ناظم آباد میں ویسے بھی رمضانوں میں راتیں بھی جاگتی ہیں، رات کا تقریباً ڈیڑھ بج رہا تھا اتنے میں ہمارا دوست آیا اور قریب تھا کہ میں بائیک اسٹارٹ کرتا کہ ایک بائیک پر دو لوگ سوارگلی میں داخل ہوئے اور انہوں نے ہم سے ذرا دور آکر بائیک موڑی ایک اترکر میرے نزدیک آیا اور میرا موبائل مانگا۔
میرے پاس آئی فون تھا جو ابھی چند مہینے قبل ہی میں نے خریدا تھا۔ اس کے لیے میں نے بہت بچت اور محنت بھی کی تھی میں نے ذرا تامل کیا تو اس نے پستول نکال کر میرے سامنے کی اور مجھے دینا پڑا۔ میرے دوستوں کے پاس بھی مہنگے موبائل تھے۔ موبائل لوٹ کر انہوں نے ہمیں کہا کہ ہم بیٹھ جائیں ۔ اسکوٹرکی چابی وہ پہلے ہی نکال چکے تھے۔ بعد میں ہمیں پتا چلا کہ انہوں نے نہ صرف ہمیں بلکہ آگے کی گلیوں سے بھی بیس پچیس سیل فونز لوٹے ہیں۔
ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں اندازاً پندرہ لاکھ کے سیل فونز لوٹ کر جانے والے شاید اس علاقے سے پوری طرح واقف بھی نہ ہوں، لیکن ان کے لیے اتنی واقفیت ہی کافی تھی کہ انہیں یہاں سے لاکھوں کی مالیت کے موبائل مل گئے ہیں۔
کیا ان نوجوانوں کے دلوں میں ایسے اور اس جیسے بہت سے ڈکیتوں کے لیے کسی قسم کے رحم دلانہ جذبات پیدا ہوسکتے ہیں۔ روز کی اس قسم کی وارداتوں میں اپنی جان سے ہاتھ دھونے والے مظلوموں کی داستان ابھی باقی ہے۔ کیا اسٹریٹ کرائم کی وجہ صرف غربت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے۔
کراچی میں اسٹریٹ کرائم 2023ء میں 2022ء کے مقابلے میں گیارہ اعشاریہ گیارہ فیصد بڑھے ہیں۔ ابھی 2023ء کی بات جاری ہے ان تین مہینوں اور رمضان کے چند دنوں کی بات ابھی باقی ہے 2023ء میں نوے ہزار کیس رپورٹ کیے گئے ہیں۔ ابھی ان کیسز کی تو بات ہی نہیں ہورہی جو بے چارے ڈرے سہمے لوگ خاموشی سے برداشت کرلیتے ہیں ان میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جبکہ 2022ء میں بتایا گیا ہے کہ اسی ہزار کیس درج کیے گئے تھے۔ 2023ء میں 134 افراد کو بری طرح لقمہ اجل بنایا گیا تھا اور کئی سو ان لوٹ مار کی وارداتوں میں زخمی ہوئے تھے ان کا الگ اسٹیٹس ہے۔
پچاس ہزار سے زائد موٹر سائیکلیں اور دو ہزار سے زائد گاڑیاں چوری کی گئیں۔ ابھی ان میں وہ قیمتی آلات اور بیٹریاں شامل نہیں جو مظلوم عوام کی چوری کی گئیں جن کی مالیت بھی لاکھوں سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس کے لیے ایک الگ مافیا سرگرم ہے۔ لوگ کراچی کو اون کرنے کی بات کرتے ہیں۔ نہ کریں صرف اپنے لیے، اپنے اعمال، اپنی آخرت کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنی اولاد کے لیے اون کریں تو اپنے رب کو۔
چھوڑ دیں کراچی، لاہور اور اسلام آباد کی سیاست اور حمایت کو اپنے رب کو اون کریں کہ جس دن جان نکالی جائے گی اس دن جیسے سارا کھاتا سرعت سے آنکھوں کے سامنے لہرا جائے گا۔ ذرا سوچیے جب سولہ سترہ سال کے بچوں نے جوان کو گولی مارکے دوسرے جہاں میں بھیج دیا۔ محض اس لیے کہ اس نے انہیں بچہ سمجھ کر جھٹک دیا تھا۔ اس ماں کے دل پرکیا بیتی ہوگی چند ہزار کا موبائل اور لاکھوں کروڑوں کا لعل پھر وہ کہاں سے اتنا مہنگا سودا خریدے گی۔ خدارا سمجھیے، عوام کو اپنے ہاتھوں میں قانون لینے نہ دیں۔
آج ہم مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پہلی بار ایسا ہو رہا ہو کہ پاکستان میں رمضان کی آمد کی ساتھ ہی اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان کی جانب بڑھ رہی ہوں بلکہ ہر ایک وہ شے جو آپ خریدنے کے متمنی ہیں اس کی قیمتیں عام دنوں کے مقابلے میں رمضان سے کچھ پہلے اور رمضان میں کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
بدقسمتی سے ایسا صرف ہمارے ملک میں ہی ہوتا ہے کیونکہ یہ سب ہم نے خود اپنے لیے پسند کیا ہے۔ اب ہم کووڈ کو دہائیاں دیتے ہیں کہ اس کے آنے سے پہلے تو جیسے ہمارے یہاں سونے کی بالیاں اگتی تھیں، جسے ہم چاندی کے ٹرکوں میں بھرکر مفت میں فروخت کرتے تھے۔ ہمارے بچپن سے ہی اور یقیناً اس سے پہلے بھی ایسا ہی ہوا کرتا تھا لیکن آج کے چند سالوں پیشتر کچھ اور بھی زیادہ ہونے لگا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں توکیا لیکن خاص کرکراچی میں دن دہاڑے لوٹ مار، ڈکیتی اور روڈ کرائمز کی شرح مہنگائی کی مانند بڑھے جا رہی ہے، ہر ایک اس کے مظالم سے عاجز آچکا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سلسلے میں کیا کر رہے ہیں، اس کو ایک جانب رکھتے ہیں کہ ابھی یہ موضوع کسی اور جانب نکل جائے گا لیکن عوام اس دیدہ دلیری اور خوف زدگی کی لوٹ مار سے اس قدر عاجز آچکے ہیں کہ لوگوں نے کئی بار قانون اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کا فیصلہ کھلی سڑکوں پرکر ڈالا ہے، جو ڈکیت بھی کسی طرح عوام کے ہاتھ لگا اس کی وہ درگت بنائی گئی کہ شاید قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس سے پیچھے رہ گئے۔
جب سے ہمارے علاقے میں دو تین ڈاکوئوں کو پکڑکر مارکر جلا دیا گیا تب سے ہمارے علاقے میں وارداتیں توکیا کوئی تار تک چوری کرنے نہیں آتا۔ یہ دل کی وہ آواز تھی جو ایک معصوم بچے نے اپنے علاقے کے بارے میں بیان کی تھی۔
ایسا ہوتا آیا ہے کہ کئی علاقوں میں اس طرح کھلے عام دو پہیوں پر تیرتے آتے اورکبھی کسی آفس جانے والے، کبھی کسی دکان دار اورکبھی کسی طالب علم کو لوٹ کر اس کی کمائی سے اسے محروم کردیتے اور لوٹنے والا بے بسی سے اپنا سب کچھ لٹا دیتا ہے۔ابھی رمضان کو دن ہی کتنے گزرے ہیں ذرا اپنا سیل فون اٹھا کر وارداتوں کی تعداد نوٹ کریں، اخبارات میں دیکھیے۔
''ہم دو دوست اپنے دوست کا اس کے گھر کے نیچے بائیک پر کھڑے انتظار کر رہے تھے۔ ناظم آباد میں ویسے بھی رمضانوں میں راتیں بھی جاگتی ہیں، رات کا تقریباً ڈیڑھ بج رہا تھا اتنے میں ہمارا دوست آیا اور قریب تھا کہ میں بائیک اسٹارٹ کرتا کہ ایک بائیک پر دو لوگ سوارگلی میں داخل ہوئے اور انہوں نے ہم سے ذرا دور آکر بائیک موڑی ایک اترکر میرے نزدیک آیا اور میرا موبائل مانگا۔
میرے پاس آئی فون تھا جو ابھی چند مہینے قبل ہی میں نے خریدا تھا۔ اس کے لیے میں نے بہت بچت اور محنت بھی کی تھی میں نے ذرا تامل کیا تو اس نے پستول نکال کر میرے سامنے کی اور مجھے دینا پڑا۔ میرے دوستوں کے پاس بھی مہنگے موبائل تھے۔ موبائل لوٹ کر انہوں نے ہمیں کہا کہ ہم بیٹھ جائیں ۔ اسکوٹرکی چابی وہ پہلے ہی نکال چکے تھے۔ بعد میں ہمیں پتا چلا کہ انہوں نے نہ صرف ہمیں بلکہ آگے کی گلیوں سے بھی بیس پچیس سیل فونز لوٹے ہیں۔
ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں اندازاً پندرہ لاکھ کے سیل فونز لوٹ کر جانے والے شاید اس علاقے سے پوری طرح واقف بھی نہ ہوں، لیکن ان کے لیے اتنی واقفیت ہی کافی تھی کہ انہیں یہاں سے لاکھوں کی مالیت کے موبائل مل گئے ہیں۔
کیا ان نوجوانوں کے دلوں میں ایسے اور اس جیسے بہت سے ڈکیتوں کے لیے کسی قسم کے رحم دلانہ جذبات پیدا ہوسکتے ہیں۔ روز کی اس قسم کی وارداتوں میں اپنی جان سے ہاتھ دھونے والے مظلوموں کی داستان ابھی باقی ہے۔ کیا اسٹریٹ کرائم کی وجہ صرف غربت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے۔
کراچی میں اسٹریٹ کرائم 2023ء میں 2022ء کے مقابلے میں گیارہ اعشاریہ گیارہ فیصد بڑھے ہیں۔ ابھی 2023ء کی بات جاری ہے ان تین مہینوں اور رمضان کے چند دنوں کی بات ابھی باقی ہے 2023ء میں نوے ہزار کیس رپورٹ کیے گئے ہیں۔ ابھی ان کیسز کی تو بات ہی نہیں ہورہی جو بے چارے ڈرے سہمے لوگ خاموشی سے برداشت کرلیتے ہیں ان میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جبکہ 2022ء میں بتایا گیا ہے کہ اسی ہزار کیس درج کیے گئے تھے۔ 2023ء میں 134 افراد کو بری طرح لقمہ اجل بنایا گیا تھا اور کئی سو ان لوٹ مار کی وارداتوں میں زخمی ہوئے تھے ان کا الگ اسٹیٹس ہے۔
پچاس ہزار سے زائد موٹر سائیکلیں اور دو ہزار سے زائد گاڑیاں چوری کی گئیں۔ ابھی ان میں وہ قیمتی آلات اور بیٹریاں شامل نہیں جو مظلوم عوام کی چوری کی گئیں جن کی مالیت بھی لاکھوں سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس کے لیے ایک الگ مافیا سرگرم ہے۔ لوگ کراچی کو اون کرنے کی بات کرتے ہیں۔ نہ کریں صرف اپنے لیے، اپنے اعمال، اپنی آخرت کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنی اولاد کے لیے اون کریں تو اپنے رب کو۔
چھوڑ دیں کراچی، لاہور اور اسلام آباد کی سیاست اور حمایت کو اپنے رب کو اون کریں کہ جس دن جان نکالی جائے گی اس دن جیسے سارا کھاتا سرعت سے آنکھوں کے سامنے لہرا جائے گا۔ ذرا سوچیے جب سولہ سترہ سال کے بچوں نے جوان کو گولی مارکے دوسرے جہاں میں بھیج دیا۔ محض اس لیے کہ اس نے انہیں بچہ سمجھ کر جھٹک دیا تھا۔ اس ماں کے دل پرکیا بیتی ہوگی چند ہزار کا موبائل اور لاکھوں کروڑوں کا لعل پھر وہ کہاں سے اتنا مہنگا سودا خریدے گی۔ خدارا سمجھیے، عوام کو اپنے ہاتھوں میں قانون لینے نہ دیں۔