ذہنی صحت
سائکولوجسٹ آپ کو بہتر مشورے اور طرز زندگی میں تبدیلی کے طریقہ کار سمجھا سکتا ہے
موجودہ حالات کے پیش نظر نوجوانوں میں دماغی بیماری ایک اہم مسئلہ ہے جس پر توجہ دینے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں میں دماغی بیماری کی وجوہات میں حیاتیاتی عوامل اور دماغی کیمسٹری میں موروثی رجحانات اور عدم توازن کو سمجھنا، اس مسئلے کے حل میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
موجودہ دور میں نوجوانوں کو اینگزائٹی، ڈپریشن، دھیان کی کمی، نشہ آور اشیا کا استعمال، جارحیت، غذائی بے اعتدالی،خود اذیتی، کاہلی بائی پولر ڈس آرڈر و منفی سوچ کے عارضے عام ہیں۔ اس ضمن میں ذہنی عوارض کی خاندانی تاریخ پر بھی غورکرنے کی ضرورت ہے۔
نوجوان افراد مختلف ماحولیاتی تناؤکا شکار ہوتے ہیں، جس میں تعلیمی دباؤ، خاندانی تنازعات، ہم عمر دباؤ اور سماجی توقعات اور ماحولیاتی آلودگی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تناؤ ذہنی صحت کو نمایاں طور پر متاثرکرسکتے ہیں اور بیماری کا باعث بن سکتے ہیں۔
ذہنی عارضے کی ایک بنیادی وجہ صدمے کا سامنا کرنا ہے، جیسے کہ بدسلوکی، نظر اندازکرنا یا تشدد کا مشاہدہ وغیرہ نوجوانوں کی ذہنی صحت پرگہرے اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ تکلیف دہ تجربات جس میں اچانک صدمے کے اثرات ( پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر) ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والے تشدد کے واقعات بھی نوجوانوں کے ذہن کو متاثرکرتے ہیں۔
ہمارے سماج میں گفتگوکا معیار متاثر ہوا ہے۔ خاص طور پر سننے اور سمجھنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہوئی ہے، جس کی وجہ سے ایک دوسرے سے دل کی بات کہنے کے رجحانات ختم ہوچکے ہیں، لٰہذا ضروری ہے کہ بچپن سے بچوں کو اظہارکا سلیقہ سکھانا چاہیے۔ سخت ماحول میں بچے اپنی ذات میں قید ہو جاتے ہیں اور دل کی بات نہیں کہہ پاتے۔
اگر گھر و خاندان میں جھگڑے عام ہوں تو نوجوانوں کے بھٹکنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ نوجوان باہرکی دنیا میں رہتے ہیں لٰہذا ان پر منفی دوستی کے اثرات واضح طور پر پڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ بری صحبت کی وجہ سے کئی نوجوان تباہ ہوجاتے ہیں۔ اچھی دوستی رویوں، عقائد اور فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مثبت انداز فکر رکھنے والے ہم مرتبہ صحت مند عادات کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں۔
سماجی تنہائی میں اضافہ ہوا ہے۔ سوشل میڈیا یا دوسرے ذرایع سے منسلک ہونے کے باوجود تنہائی کے احساسات کسی بھی ذہنی بیماری کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ سماجی تنہائی دماغی صحت کے مسائل کو بڑھا سکتی ہے اور ڈپریشن اور اضطراب میں مبتلا کرسکتی ہے۔
زیادہ تر نوجوان تنہا رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، جس کی بنیادی وجہ ان میں معاملہ فہمی اور دبائو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ تنہائی اورکاہلی یہ وہ دو محرکات ہیں، جو نوجوانوں کو مثبت سوچ سے دورکر دیتے ہیں۔ سوچ کی تکرار ذہن میں منفی خیالات کو مزید پختہ کر دیتی ہے۔
ذہنی بیماری کو سماج میں اچھا نہیں سمجھا جاتا، یہ رویہ نوجوانوں کو مدد طلب کرنے یا اپنی کیفیات کو ظاہر کرنے سے روک سکتا ہے۔ اس حوالے سے امتیازی سلوک کا خوف شرمندگی کے جذبات کا باعث بن سکتا ہے اور دماغی صحت مزید بگڑ سکتی ہے۔
نوجوانوں میں ذہنی صحت سے متعلق مسائل جاننے کے لیے وقت پر مداخلت بہت اہم ہے۔ اسکولوں،کمیونٹیز، اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو دماغی صحت کے وسائل اور معاون خدمات تک رسائی فراہم کرنی چاہیے۔ ذہنی صحت کی آگہی کو فروغ دینے کے لیے نوجوانوں، والدین، ماہرین تعلیم اورکمیونٹیزکو ذہنی صحت کی خواندگی کے بارے میں تعلیم دینے سے کئی مسائل کا حل مل سکتا ہے۔
حکومت اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والی تنظیموں کو نوجوانوں کی ضروریات کے مطابق قابل رسائی اور سستی ذہنی صحت کی خدمات کی ترقی کو ترجیح دینی چاہیے۔ اس میں دماغی صحت کے پروگراموں کے لیے فنڈنگ میں اضافہ، ٹیلی ہیلتھ سروسزکو بڑھانا اور ذہنی صحت کی مدد کو اسکول کی ترتیبات میں شامل کرنا شامل ہے۔
نوجوانوں کو صحت مند مقابلہ کرنے کے طریقہ کارکو اپنانے کی ترغیب دینا، جیسے ورزش، ذہن سازی، تخلیقی اظہار اور سماجی معاونت کے وسیلے اچھی ذہنی صحت کو فروغ دے سکتے ہیں اور ذہنی تندرستی کو بڑھا سکتے ہیں۔ تناؤ کے خاتمے کے لیے موثر تکنیکوں کو سکھانا افراد کو مشکل حالات کا سامناکرنے اور مشکلات سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا چاہیے۔
صحت کے سماجی عوامل کے اثرات کو تسلیم کرنا، جیسے غربت، عدم مساوات اور امتیاز، نوجوانوں میں ذہنی صحت کے تفاوت کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ان بنیادی وجوہات کو حل کرنے والی پالیسیوں پر عمل درآمد زیادہ معاون ماحول پیدا کرسکتا ہے اور دماغی بیماری سے وابستہ خطرے کے عوامل کو کم کر سکتا ہے۔
نوجوانوں کے مسائل کو سمجھنے کے لیے خاندان کا تعاون اہم ہے۔ جس میں آپس میں مل بیٹھنا، تعریف کرنا اور ذہنی تحرک عطا کرنا شامل ہے۔ ایسے ماحول میں نوجوان خود کو محفوظ تصورکرتے ہیں۔ خاص طور پر خاندان اور دوستوں میں صحت بخش مباحثے اور موضوعات موثر اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔
اچھی ذہنی صحت کے لیے صحت بخش طرز زندگی اہم ہے، جس میں سونے جاگنے کے اوقات، چہل قدمی، جسمانی مشقیں، فطری مناظرکی قربت اور مثبت انداز فکر لوگوں کی قربت اہمیت کی حامل ہے۔ ذہنی صحت کے حوالے سے مثبت مشاورت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جس کی ابتدا گھر سے ہونی چاہیے۔ مثبت مشاورت کے لیے آپ کے پاس برداشت اور معاملہ فہمی کی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے بصورت دیگر کسی سائیکو لوجسٹ کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ نفسیاتی ماہر دو طرح کے ہوتے ہیں۔
سائکولوجسٹ آپ کو بہتر مشورے اور طرز زندگی میں تبدیلی کے طریقہ کار سمجھا سکتا ہے، وہ آپ کے ذہن کو ری فریم کر کے اسی ماحول میں آپ کی سمجھ اور برداشت کو بڑھا دیتا ہے، جبکہ سائکیاٹرئسٹ دوائوں کے ذریعے بیماری کا علاج کرسکتے ہیں، تاہم یہ علاج پیچیدہ ذہنی بیماریوں کے لیے زیادہ موثر ہوتا ہے۔
نوجوانوں میں دماغی بیماری کی وجوہات کو سمجھنا اور مؤثر علاج پر عمل درآمد ذہنی تندرستی کو فروغ دینے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ نوجوان افراد کو وہ مدد ملے جس کی انہیں ضرورت ہے۔ دماغی بیماری میں کردار ادا کرنے والے حیاتیاتی، ماحولیاتی اور سماجی عوامل سے نمٹنے سے معاشرہ بہتر ماحول کو فروغ دے سکتا ہے، افراد کو بااختیار بنا سکتا ہے اور ذہنی صحت کی مشکلات کا سامنا کرنے والے نوجوانوں کے لیے ہمدردی اور مدد کا ماحول ترتیب دے سکتا ہے۔
موجودہ دور میں نوجوانوں کو اینگزائٹی، ڈپریشن، دھیان کی کمی، نشہ آور اشیا کا استعمال، جارحیت، غذائی بے اعتدالی،خود اذیتی، کاہلی بائی پولر ڈس آرڈر و منفی سوچ کے عارضے عام ہیں۔ اس ضمن میں ذہنی عوارض کی خاندانی تاریخ پر بھی غورکرنے کی ضرورت ہے۔
نوجوان افراد مختلف ماحولیاتی تناؤکا شکار ہوتے ہیں، جس میں تعلیمی دباؤ، خاندانی تنازعات، ہم عمر دباؤ اور سماجی توقعات اور ماحولیاتی آلودگی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تناؤ ذہنی صحت کو نمایاں طور پر متاثرکرسکتے ہیں اور بیماری کا باعث بن سکتے ہیں۔
ذہنی عارضے کی ایک بنیادی وجہ صدمے کا سامنا کرنا ہے، جیسے کہ بدسلوکی، نظر اندازکرنا یا تشدد کا مشاہدہ وغیرہ نوجوانوں کی ذہنی صحت پرگہرے اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ تکلیف دہ تجربات جس میں اچانک صدمے کے اثرات ( پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر) ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والے تشدد کے واقعات بھی نوجوانوں کے ذہن کو متاثرکرتے ہیں۔
ہمارے سماج میں گفتگوکا معیار متاثر ہوا ہے۔ خاص طور پر سننے اور سمجھنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہوئی ہے، جس کی وجہ سے ایک دوسرے سے دل کی بات کہنے کے رجحانات ختم ہوچکے ہیں، لٰہذا ضروری ہے کہ بچپن سے بچوں کو اظہارکا سلیقہ سکھانا چاہیے۔ سخت ماحول میں بچے اپنی ذات میں قید ہو جاتے ہیں اور دل کی بات نہیں کہہ پاتے۔
اگر گھر و خاندان میں جھگڑے عام ہوں تو نوجوانوں کے بھٹکنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ نوجوان باہرکی دنیا میں رہتے ہیں لٰہذا ان پر منفی دوستی کے اثرات واضح طور پر پڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ بری صحبت کی وجہ سے کئی نوجوان تباہ ہوجاتے ہیں۔ اچھی دوستی رویوں، عقائد اور فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مثبت انداز فکر رکھنے والے ہم مرتبہ صحت مند عادات کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں۔
سماجی تنہائی میں اضافہ ہوا ہے۔ سوشل میڈیا یا دوسرے ذرایع سے منسلک ہونے کے باوجود تنہائی کے احساسات کسی بھی ذہنی بیماری کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ سماجی تنہائی دماغی صحت کے مسائل کو بڑھا سکتی ہے اور ڈپریشن اور اضطراب میں مبتلا کرسکتی ہے۔
زیادہ تر نوجوان تنہا رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، جس کی بنیادی وجہ ان میں معاملہ فہمی اور دبائو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ تنہائی اورکاہلی یہ وہ دو محرکات ہیں، جو نوجوانوں کو مثبت سوچ سے دورکر دیتے ہیں۔ سوچ کی تکرار ذہن میں منفی خیالات کو مزید پختہ کر دیتی ہے۔
ذہنی بیماری کو سماج میں اچھا نہیں سمجھا جاتا، یہ رویہ نوجوانوں کو مدد طلب کرنے یا اپنی کیفیات کو ظاہر کرنے سے روک سکتا ہے۔ اس حوالے سے امتیازی سلوک کا خوف شرمندگی کے جذبات کا باعث بن سکتا ہے اور دماغی صحت مزید بگڑ سکتی ہے۔
نوجوانوں میں ذہنی صحت سے متعلق مسائل جاننے کے لیے وقت پر مداخلت بہت اہم ہے۔ اسکولوں،کمیونٹیز، اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو دماغی صحت کے وسائل اور معاون خدمات تک رسائی فراہم کرنی چاہیے۔ ذہنی صحت کی آگہی کو فروغ دینے کے لیے نوجوانوں، والدین، ماہرین تعلیم اورکمیونٹیزکو ذہنی صحت کی خواندگی کے بارے میں تعلیم دینے سے کئی مسائل کا حل مل سکتا ہے۔
حکومت اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والی تنظیموں کو نوجوانوں کی ضروریات کے مطابق قابل رسائی اور سستی ذہنی صحت کی خدمات کی ترقی کو ترجیح دینی چاہیے۔ اس میں دماغی صحت کے پروگراموں کے لیے فنڈنگ میں اضافہ، ٹیلی ہیلتھ سروسزکو بڑھانا اور ذہنی صحت کی مدد کو اسکول کی ترتیبات میں شامل کرنا شامل ہے۔
نوجوانوں کو صحت مند مقابلہ کرنے کے طریقہ کارکو اپنانے کی ترغیب دینا، جیسے ورزش، ذہن سازی، تخلیقی اظہار اور سماجی معاونت کے وسیلے اچھی ذہنی صحت کو فروغ دے سکتے ہیں اور ذہنی تندرستی کو بڑھا سکتے ہیں۔ تناؤ کے خاتمے کے لیے موثر تکنیکوں کو سکھانا افراد کو مشکل حالات کا سامناکرنے اور مشکلات سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا چاہیے۔
صحت کے سماجی عوامل کے اثرات کو تسلیم کرنا، جیسے غربت، عدم مساوات اور امتیاز، نوجوانوں میں ذہنی صحت کے تفاوت کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ان بنیادی وجوہات کو حل کرنے والی پالیسیوں پر عمل درآمد زیادہ معاون ماحول پیدا کرسکتا ہے اور دماغی بیماری سے وابستہ خطرے کے عوامل کو کم کر سکتا ہے۔
نوجوانوں کے مسائل کو سمجھنے کے لیے خاندان کا تعاون اہم ہے۔ جس میں آپس میں مل بیٹھنا، تعریف کرنا اور ذہنی تحرک عطا کرنا شامل ہے۔ ایسے ماحول میں نوجوان خود کو محفوظ تصورکرتے ہیں۔ خاص طور پر خاندان اور دوستوں میں صحت بخش مباحثے اور موضوعات موثر اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔
اچھی ذہنی صحت کے لیے صحت بخش طرز زندگی اہم ہے، جس میں سونے جاگنے کے اوقات، چہل قدمی، جسمانی مشقیں، فطری مناظرکی قربت اور مثبت انداز فکر لوگوں کی قربت اہمیت کی حامل ہے۔ ذہنی صحت کے حوالے سے مثبت مشاورت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جس کی ابتدا گھر سے ہونی چاہیے۔ مثبت مشاورت کے لیے آپ کے پاس برداشت اور معاملہ فہمی کی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے بصورت دیگر کسی سائیکو لوجسٹ کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ نفسیاتی ماہر دو طرح کے ہوتے ہیں۔
سائکولوجسٹ آپ کو بہتر مشورے اور طرز زندگی میں تبدیلی کے طریقہ کار سمجھا سکتا ہے، وہ آپ کے ذہن کو ری فریم کر کے اسی ماحول میں آپ کی سمجھ اور برداشت کو بڑھا دیتا ہے، جبکہ سائکیاٹرئسٹ دوائوں کے ذریعے بیماری کا علاج کرسکتے ہیں، تاہم یہ علاج پیچیدہ ذہنی بیماریوں کے لیے زیادہ موثر ہوتا ہے۔
نوجوانوں میں دماغی بیماری کی وجوہات کو سمجھنا اور مؤثر علاج پر عمل درآمد ذہنی تندرستی کو فروغ دینے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ نوجوان افراد کو وہ مدد ملے جس کی انہیں ضرورت ہے۔ دماغی بیماری میں کردار ادا کرنے والے حیاتیاتی، ماحولیاتی اور سماجی عوامل سے نمٹنے سے معاشرہ بہتر ماحول کو فروغ دے سکتا ہے، افراد کو بااختیار بنا سکتا ہے اور ذہنی صحت کی مشکلات کا سامنا کرنے والے نوجوانوں کے لیے ہمدردی اور مدد کا ماحول ترتیب دے سکتا ہے۔