عورت مارچ
آزادی کی متوالی عورتیں نہ جانے کن حقوق کی بات کرتی ہیں اسے اللہ رب العزت نے تمام حقوق سے نوازا ہے
عورتوں کا عالمی دن آٹھ مارچ ہر سال پوری دنیا میں منایا جاتا ہے، اس کا مقصد عورت کے حقوق کی ادائیگی اور اس کی عزت وحرمت کی حفاظت کی یاددہانی ہے، اس سلسلے میں بے شمار فلاحی ادارے کام کررہے ہیں ، ان کی مخلصانہ کوششوں سے کچھ نہ کچھ بہتری کے کام ہوئے ہیں ، لیکن مکمل طور پر نہیں۔
اگرغور کریں تو عورت آج بھی ظلم سہہ رہی ہے اس کے حقوق کو پامال کیا جارہا ہے، دفتروں، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور سر راہ چلتی ہوئی عورتوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں، دیہی اور پسماندہ علاقوں میں گھروں میں عورت پر تشدد کیاجاتا ہے ، وہ شوہر کی خدمت سے لے کر اس کے ماں باپ کی خدمت اور گھر کے تمام امور کو انجام دینے کی پابند ہے اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کا شوہر اس پر ظلم کرتا ہے ، بعض اوقات تو وہ تیزاب گردی پر اترآتا ہے ، اس کے جسم نازک پر کلہاڑی کے وار کرتا ہے ، شاعر نے کیا خوب عورت پر ہونے والی بربریت کی عکاسی کی ہے :۔
جو عورت پر مظالم کی بھیانک رات گذری تھی
ہزاروں سال پر طاری شب آفات گذری تھی
رہی جس میں وہ دار وگیری کی صید زبوں بن کر
جواس کے جسم پر تیزاب کی برسات گذری تھی
کہ جس میں رحم کی دیوی برہنہ تن، برہنہ سر
کھڑی تھی سر جھکائے وقت کی دہلیز کے اوپر
وہ عورت جو تھی محروم وراثت جاہلیت میں
نہ تھی حق دار جو اسلاف کی املاک و دولت میں
خدائے عزوجل کا انقلابی فیصلہ آیا :
کہ ہر عورت کو حق حاصل ہے پرکھوں کی وراثت میں
اسے حق ہے کمانے، کمائی پاس رکھنے کا
مساوی کام کی خاطر مساوی حق محنت کا
عورت کو آج کے ترقی یافتہ زمانے میں جہاں تعلیم اور دینی تعلیم کی روشنی پھیلی ہے اور درس و تدریس کی محافل کا انعقاد باقاعدہ طورپر ہوتا ہے لیکن جہلا کی اکثریت قرآنی تعلیم کو پس پشت ڈال کراپنے آباؤ واجداد کی پیروی کرتے ہیں سرداری نظام قائم کرکے غیر آئینی وغیر اخلاقی حکم صادر کرتے ہیں اور انہی بچیوں کو خون میں نہلا دیتے ہیں محض اپنی غیرت کو تسکین پہنچانے کے لیے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، قوانین بناتے ہیں خصوصاً قبائلی رسم ورواج آج بھی زندہ ہیں ، اپنی بیٹیوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے ، انہیں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے ، انہیں جائیدا د میں حصہ نہیں دیا جاتا ہے ۔
اسلام نے عورت کو مرد کے مساوی حقوق سے نوازا ہے ، وہ جنگوں میں حصہ لے سکتی ہے بوقت ضرورت ملازمت کرسکتی ہے تجارت کرنے کا بھی اسے حق حاصل ہے ، اس کی بہترین مثال حضرت خدیجہ ؓ کی ہے جو رسول پاک ﷺ کی محبوب اور ازواج مطہرات میں پہلے نمبر پر تھیں ۔
غزوات میں بھی صحابیات نے جنگی خدمات انجام دی ہیں ، اللہ تعالی نے عورت و مرد کو ایک دوسرے کا لبا س کہا ہے ۔ یعنی دو لوگ ایک دوسرے کی عزت ہیں ، ان حالات میں عورت مارچ کی قطعی ضرورت نہیں ہے ، عورت مارچ میں حصہ لینے والی خواتین اگر وہ مسلمان ہیں تو قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ پڑھیں اور سورہ نساء میں عورت کے حقوق و فرائض کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے ، قرآن کی تعلیم پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں تک قرآن کا پیغام پہنچائیں، وہ سڑکوں پر نکلیں اگر وہ اس طرح مطمئن ہونا چاہتی ہیں تو وہ اپنے بینروں پر لکھیں کہ مرد عورت کو مارنے پیٹنے اور خلع کے بعد کسی بھی طرح کا رابطہ رکھنے کا حق دار نہیں ہے۔
اگر ایسا کرتا ہے تو اسے کم از کم پانچ سال سزا دی جائے، عورت کے حقوق کی بحالی کے لیے اسے پانچ سال کی سزا دلوانے کا قانون پاس کروائیں ، جب تو عورت مارچ سے فائدہ ہوگا ، ورنہ ناحق کی زحمت نہ خود کریں اور نہ حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنیں ، ایک طرف عورت کو ظلم و بربریت کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے تو دوسری طرف عورت کو مغربی تہذیب وتمدن سے آشنا کردیا۔
بے جا آزادی اور دینی تعلیم سے دوری کی وجہ سے وہ بے شمار مشکلات کا شکار ہے، وہ ہر کام اپنی مرضی سے کرتی ہے اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں اور مغرب کے معاشرتی سانچے میں ڈھل چکی ہے، رات بھر گھر سے باہر رہتی ہے ، ہوٹل و کلب میں رقص و سرور کی محفلیں ہی اس کی ایسی دلکش پناہ گاہیں بن گئی ہیں وہ عائلی اور گھریلو زندگی سے بیزار ہو کر بے جا آزادی کو گلے کا ہاربنا بیٹھی ہے، اب وہ مغربی تہذیب میں اس قدر رچ بس گئی ہے کہ اسے رشتوں ناتوں کا پاس نہیں رہا ہے۔
مغرب زدہ عورت کو مرد کی بے جا مداخلت پسند نہیں اور مرد کو اس کی جائز آزادی بھی برداشت نہیں ۔ اس لیے بات علیحدگی تک پہنچ گئی ہے ، لیکن حالات وہی ہیں اور پھر وہی آزادی، رنگین محفلیں ، خوش گپیاں ، اجالوں کا رقص لیکن مستقبل کا کچھ پتہ نہیں ۔ یہ بند اسی قسم کے واقعات کا عکاس ہے ۔
ہجوم مہ وشاں ہے ، چشم وابرو کا نشانہ ہے
نگاہ مست و سرکش پر ہوس کا تازیانہ ہے
سجی ہے محفل شب، دھول دھپا ہے ، شرارت ہے
نگاہوں کے لیے زلف وکمر کا شاخسانہ ہے
کہیں پر کم لباسی نے ستم ڈھائے ہیں محفل پر
کہیں پر بے لباسی قہر کی صورت گری دل پر
عورت کے لیے غلامی اور آزادی ایک ہی لفظ کا نام ہے، ایک ہی معنی ہیں۔ چوں کہ وہ آزاد ہو کر بھی قید ہے اسے ان لوگوں نے قید کیا ہے جو روشن خیالی اور مغربی فکر کے حامل ہیں ۔ اس سے اس کی قیمتی متاع چھین لی ہے اور کچھ سکے اس کی بھی جھولی میں ڈال دیے ہیں اور اب وہ ان کی مرضی کے تابع ہے ۔بظاہر شاد ہے ،لیکن دل زخم خوردہ ہے ۔ شاعر کا احساس درد کی صورت میں اشعار میں ڈھل گیا ہے ۔
غلامی سے نکل کر قید آزادی میں عورت ہے
نئی تہذیب کے ہاتھوں میں تیغِ بے ملامت ہے
گرفتار ہوس ہے اور آزادی کا چرچا ہے
اکھڑتی سانس ہے اور مرکز آفات عورت ہے
خریداروں کا جھرمٹ ہے ، سبھی تیار بیٹھے ہیں
شکاری تیغ لے کر گھات میں ہشیار بیٹھے ہیں
آزادی کی متوالی عورتیں نہ جانے کن حقوق کی بات کرتی ہیں اسے اللہ رب العزت نے تمام حقوق سے نوازا ہے لیکن وہ اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کی خواہشمند ہرگز نہیں ہیں، انہوں نے آج تک ملک و قوم کی مظلوم خواتین پر آواز نہیں اٹھائی ہے ، آٹھ مارچ کو یہ عورت کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں اور پھر ایک سال کی چھٹی پر رخصت ہوجاتی ہیں ۔
اگرغور کریں تو عورت آج بھی ظلم سہہ رہی ہے اس کے حقوق کو پامال کیا جارہا ہے، دفتروں، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور سر راہ چلتی ہوئی عورتوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں، دیہی اور پسماندہ علاقوں میں گھروں میں عورت پر تشدد کیاجاتا ہے ، وہ شوہر کی خدمت سے لے کر اس کے ماں باپ کی خدمت اور گھر کے تمام امور کو انجام دینے کی پابند ہے اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کا شوہر اس پر ظلم کرتا ہے ، بعض اوقات تو وہ تیزاب گردی پر اترآتا ہے ، اس کے جسم نازک پر کلہاڑی کے وار کرتا ہے ، شاعر نے کیا خوب عورت پر ہونے والی بربریت کی عکاسی کی ہے :۔
جو عورت پر مظالم کی بھیانک رات گذری تھی
ہزاروں سال پر طاری شب آفات گذری تھی
رہی جس میں وہ دار وگیری کی صید زبوں بن کر
جواس کے جسم پر تیزاب کی برسات گذری تھی
کہ جس میں رحم کی دیوی برہنہ تن، برہنہ سر
کھڑی تھی سر جھکائے وقت کی دہلیز کے اوپر
وہ عورت جو تھی محروم وراثت جاہلیت میں
نہ تھی حق دار جو اسلاف کی املاک و دولت میں
خدائے عزوجل کا انقلابی فیصلہ آیا :
کہ ہر عورت کو حق حاصل ہے پرکھوں کی وراثت میں
اسے حق ہے کمانے، کمائی پاس رکھنے کا
مساوی کام کی خاطر مساوی حق محنت کا
عورت کو آج کے ترقی یافتہ زمانے میں جہاں تعلیم اور دینی تعلیم کی روشنی پھیلی ہے اور درس و تدریس کی محافل کا انعقاد باقاعدہ طورپر ہوتا ہے لیکن جہلا کی اکثریت قرآنی تعلیم کو پس پشت ڈال کراپنے آباؤ واجداد کی پیروی کرتے ہیں سرداری نظام قائم کرکے غیر آئینی وغیر اخلاقی حکم صادر کرتے ہیں اور انہی بچیوں کو خون میں نہلا دیتے ہیں محض اپنی غیرت کو تسکین پہنچانے کے لیے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، قوانین بناتے ہیں خصوصاً قبائلی رسم ورواج آج بھی زندہ ہیں ، اپنی بیٹیوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے ، انہیں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے ، انہیں جائیدا د میں حصہ نہیں دیا جاتا ہے ۔
اسلام نے عورت کو مرد کے مساوی حقوق سے نوازا ہے ، وہ جنگوں میں حصہ لے سکتی ہے بوقت ضرورت ملازمت کرسکتی ہے تجارت کرنے کا بھی اسے حق حاصل ہے ، اس کی بہترین مثال حضرت خدیجہ ؓ کی ہے جو رسول پاک ﷺ کی محبوب اور ازواج مطہرات میں پہلے نمبر پر تھیں ۔
غزوات میں بھی صحابیات نے جنگی خدمات انجام دی ہیں ، اللہ تعالی نے عورت و مرد کو ایک دوسرے کا لبا س کہا ہے ۔ یعنی دو لوگ ایک دوسرے کی عزت ہیں ، ان حالات میں عورت مارچ کی قطعی ضرورت نہیں ہے ، عورت مارچ میں حصہ لینے والی خواتین اگر وہ مسلمان ہیں تو قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ پڑھیں اور سورہ نساء میں عورت کے حقوق و فرائض کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے ، قرآن کی تعلیم پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں تک قرآن کا پیغام پہنچائیں، وہ سڑکوں پر نکلیں اگر وہ اس طرح مطمئن ہونا چاہتی ہیں تو وہ اپنے بینروں پر لکھیں کہ مرد عورت کو مارنے پیٹنے اور خلع کے بعد کسی بھی طرح کا رابطہ رکھنے کا حق دار نہیں ہے۔
اگر ایسا کرتا ہے تو اسے کم از کم پانچ سال سزا دی جائے، عورت کے حقوق کی بحالی کے لیے اسے پانچ سال کی سزا دلوانے کا قانون پاس کروائیں ، جب تو عورت مارچ سے فائدہ ہوگا ، ورنہ ناحق کی زحمت نہ خود کریں اور نہ حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنیں ، ایک طرف عورت کو ظلم و بربریت کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے تو دوسری طرف عورت کو مغربی تہذیب وتمدن سے آشنا کردیا۔
بے جا آزادی اور دینی تعلیم سے دوری کی وجہ سے وہ بے شمار مشکلات کا شکار ہے، وہ ہر کام اپنی مرضی سے کرتی ہے اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں اور مغرب کے معاشرتی سانچے میں ڈھل چکی ہے، رات بھر گھر سے باہر رہتی ہے ، ہوٹل و کلب میں رقص و سرور کی محفلیں ہی اس کی ایسی دلکش پناہ گاہیں بن گئی ہیں وہ عائلی اور گھریلو زندگی سے بیزار ہو کر بے جا آزادی کو گلے کا ہاربنا بیٹھی ہے، اب وہ مغربی تہذیب میں اس قدر رچ بس گئی ہے کہ اسے رشتوں ناتوں کا پاس نہیں رہا ہے۔
مغرب زدہ عورت کو مرد کی بے جا مداخلت پسند نہیں اور مرد کو اس کی جائز آزادی بھی برداشت نہیں ۔ اس لیے بات علیحدگی تک پہنچ گئی ہے ، لیکن حالات وہی ہیں اور پھر وہی آزادی، رنگین محفلیں ، خوش گپیاں ، اجالوں کا رقص لیکن مستقبل کا کچھ پتہ نہیں ۔ یہ بند اسی قسم کے واقعات کا عکاس ہے ۔
ہجوم مہ وشاں ہے ، چشم وابرو کا نشانہ ہے
نگاہ مست و سرکش پر ہوس کا تازیانہ ہے
سجی ہے محفل شب، دھول دھپا ہے ، شرارت ہے
نگاہوں کے لیے زلف وکمر کا شاخسانہ ہے
کہیں پر کم لباسی نے ستم ڈھائے ہیں محفل پر
کہیں پر بے لباسی قہر کی صورت گری دل پر
عورت کے لیے غلامی اور آزادی ایک ہی لفظ کا نام ہے، ایک ہی معنی ہیں۔ چوں کہ وہ آزاد ہو کر بھی قید ہے اسے ان لوگوں نے قید کیا ہے جو روشن خیالی اور مغربی فکر کے حامل ہیں ۔ اس سے اس کی قیمتی متاع چھین لی ہے اور کچھ سکے اس کی بھی جھولی میں ڈال دیے ہیں اور اب وہ ان کی مرضی کے تابع ہے ۔بظاہر شاد ہے ،لیکن دل زخم خوردہ ہے ۔ شاعر کا احساس درد کی صورت میں اشعار میں ڈھل گیا ہے ۔
غلامی سے نکل کر قید آزادی میں عورت ہے
نئی تہذیب کے ہاتھوں میں تیغِ بے ملامت ہے
گرفتار ہوس ہے اور آزادی کا چرچا ہے
اکھڑتی سانس ہے اور مرکز آفات عورت ہے
خریداروں کا جھرمٹ ہے ، سبھی تیار بیٹھے ہیں
شکاری تیغ لے کر گھات میں ہشیار بیٹھے ہیں
آزادی کی متوالی عورتیں نہ جانے کن حقوق کی بات کرتی ہیں اسے اللہ رب العزت نے تمام حقوق سے نوازا ہے لیکن وہ اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کی خواہشمند ہرگز نہیں ہیں، انہوں نے آج تک ملک و قوم کی مظلوم خواتین پر آواز نہیں اٹھائی ہے ، آٹھ مارچ کو یہ عورت کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں اور پھر ایک سال کی چھٹی پر رخصت ہوجاتی ہیں ۔