فتح پو ر سیکری… بھارت 

اکبر اعظم نے اپنے پیر و مرشد حضرت شیخ سلیم چشتی ؒسے عقیدت کے اظہار کے لیے ان کا شاندار مزار تعمیر کرایا

msmrao786@hotmail.com

بھارت میں قیام کے دوران فتح پور سیکری بھی گیا۔ آگرہ سے چالیس کلو میٹر شمال مغرب کی جانب فتح پور سیکری ہے، یہاں حضرت خواجہ شیخ سلیم چشتی ؒ کا مزار ہے۔

حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ ہی وہ بزرگ ہیں جن کے بارے میں تاریخی کتابوں میں بار ہا یہ تذکرہ آیا ہے کہ شہنشاہ اکبر اعظم کو اولاد نرینہ اور وارث تخت شہزادہ سلیم (جو جہانگیر بادشاہ بنا) انھی بزرگ کی دعائوں کے طفیل اﷲ تعالیٰ نے عطا کیا۔ فتح پور سیکری کا شہر کنواہا کے قریب ہے۔ کنواہا وہ جگہ ہے جہاں بابر نے رانا سانگاکو فیصلہ کن شکست دی ۔ سیکری ایک چھوٹی لیکن بلند پہاڑی چوٹی کا نام ہے۔ حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کا مزار یہاں ہی ہے۔

کہتے ہیں کہ اکبر کو خواب میں بشارت ہوئی کہ وہ ننگے پائوں سیکری جائے اور حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کے ہاں حاضر ہو کر دعا کرائے، اس نے وہاں حاضری دی اور دعا کرائی۔ اس دعا کی برکت سے شہزادہ سلیم پیدا ہوا جو بعد میں جہانگیر بادشاہ کے لقب سے ہندوستان کا حکمران بنا۔

اکبر اعظم نے سیکری کو خوش بختی کی علامت سمجھتے ہوئے دارالحکومت دلی سے سیکری منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ گجرات کی فتح کی خوشی اور یادگار کے طور پر اکبر نے نئے دارالحکومت کا نام فتح پور رکھا۔ فتح پور شہر سیکری پہاڑی کے دامن میں آباد کیا گیا۔ لیکن پچاس سال کے عرصے میں پینے کے پانی کی کمی کی وجہ سے پایہ تخت واپس دلی منتقل کرنا پڑا۔

بیکانیر سیکری سے 525کلو میٹر ہے۔ آگرہ سے فتح پور سیکری تک کا راستہ ملتان ڈویژن کے اضلاح وہاڑی اور پاک پتن سے ملتا جلتا ہے۔علاقے میں غربت کے آثار نمایاں تھے۔ یہ تمام راستہ زرعی اجناس اور سرخ پتھروں کی منڈی کے طور پر مشہور ہے۔سڑک کے ساتھ ساتھ ٹرین کی پٹری بھی ہے۔ فتح پور سیکری بڑے قلعے کے حصار میں ہے۔ یہ قلعہ سرخ پتھروں سے بنایا گیا ہے۔فتح پور کا قلعہ دہلی کے لال قلعے کی طرز پر تعمیر کیا گیا۔


شاہی قلعے میں داخلے کے لیے سات دروازے بنائے گئے۔ ان کے نام اجمیر گیٹ، متھورا گیٹ، چاند دروازہ، سورج گیٹ، بیربل گیٹ، گوالیار گیٹ اور آگرہ گیٹ رکھا گیا۔ فتح پور سیکری میں تعمیر کیے جانے والے تقریباً سبھی محلات اور عمارتوں میں سرخ پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ فتح پور سیکری شہر میں داخل ہونے کے لیے آگرہ گیٹ استعمال کیا جاتا ہے۔ گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہی دو سٹرکیں آتی ہیں ایک سڑک فتح پور سیکری شہر اور حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کے مزار کی طرف جاتی ہے۔

آج کے دور میں فتح پور سیکری کی سب سے بڑی کشش حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کا مزار مبارک ہے۔ قلعے کے اندر ایک عظیم الشان مسجد کے احاطے میں حضرت شیخ سلیم چشتی ؒکا مزار ہمہ وقت زائرین سے بھرا ہوا نظر آتا ہے۔زائرین کی زیادہ تعداد نوجوان خواتین کی ہے جو اولاد نرینہ کے لیے منت ماننے آتی ہیں۔ زائر ین منت کے لیے مزار کے تین اطراف جالیوں میں خوش رنگ دھاگہ باندھتے ہیں، کچھ لوگ تالے بھی باندھتے ہیں۔

چھتری کی شکل میں تعمیر کیے جانے والے مزار کے کمرے میں حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کی قبر ہے۔ مزار خوبصورت سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے۔ مزار کی اندرونی چھتری صندل کی لکڑی کی بنی ہے اور اس پر سیپ اور موتیوں کی کلاکاری ہے۔

اکبر اعظم نے اپنے پیر و مرشد حضرت شیخ سلیم چشتی ؒسے عقیدت کے اظہار کے لیے ان کا شاندار مزار تعمیر کرایا۔ یہ مزار اسی جگہ تعمیر کیا گیا جہاں حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ اپنی زندگی میں پہاڑی ٹیلے پر ایک جھونپڑی میں رہا کرتے تھے لیکن جہانگیر بادشاہ نے مزار کے سرخ پتھروں کی جگہ راجھستان کا سفید سنگ مرمر لگوایا۔ مزار کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ وہ جامع مسجد سے ملحقہ صحن میں ایک خوبصورت جھونپڑی نظر آئے۔مزار کے ستون اس طرح تعمیر کیے گئے ہیں کہ دور سے وہ موٹی موٹی رسیاں نظر آتی ہیں۔

حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کے مزار پر بیک وقت مسلمان، ہندو، عیسائی اور پارسی حاضری دیتے اور منت مانتے نظر آتے ہیں ۔مسجد کے دالان میں مزار کے سامنے خوبصورت فواراہ ہے۔حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کے مزار کے احاطے میں ایک سرنگ کا دروازہ بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سرنگ سیکری سے آگرہ قلعے تک جاتی تھی۔ اس کی لمبائی نوے کلو میٹر بتائی جاتی ہے۔ اب یہ سرنگ بند ہو چکی ہے۔ تاہم اس کا دروازہ زائرین کے لیے کھلا ہے۔

فتح پور سیکری کے شہر اور قلعے کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دنیاوی بادشاہوں کے بنائے ہوئے قلعے اور ان کے دور کی تمکنت سبھی کچھ ملیا میٹ ہو چکی ہے اور اب اس کے آثار باقی ہیںلیکن حضرت خواجہ سلیم چشتی ؒکی درگاہ ا ب بھی روحانی فیض کا منبع ہے۔
Load Next Story