مارکس ابھی زندہ ہے

آج امریکا اور سرمایہ داری کو نسلی قوم پرستی اور ٹرمپ کی شکل میں ایک اور بحران کا سامنا ہے

jamilmarghuz1@gmail.com

دنیا بھر کے غریبوں اور محنت کش عوام کے استاد اور سچے ہمدرد کارل مارکس کو دنیا سے گزرے ہوئے 140سال ہوگئے۔

وہ 5مئی 1818کو پیدا ہوئے اور 14مارچ 1883کو جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ لیکن اس مختصر زندگی میں انھوں نے دنیا کو ہلا دیا'انھوں نے کہا تھا کہ '' فلاسفروں نے دنیا کی ہر زاویے سے مختلف انداز میں تشریح کی ہے لیکن اصل مسئلہ اس اسے بدلنے کا ہے''۔

انھوں نے غریبوں کو مالداروں کی دنیا میں اپنا حق حاصل کرنے کا عملی اور سائنسی طریقہ بتایا'برنی سینڈرز بھی امریکی ترقی پسند سیاستدان ہیں'کارل مارکس کی برسی کے موقعہ پر ان کا سرمایہ دارانہ نظام پر ایک ریشنل تجزیہ۔

انھوں نے امریکی بحران کے بارے میں لکھا ہے کہ ''گزشتہ تیس برسوں سے بہت سے امریکیوں کوان کی کمپنیوں کے مالکان 'نہایت سستے داموں بیچ رہے ہیں'یہ امریکی نہایت کم اجرت پرسارا دن کام کرتے ہیں'پھر ان سے یہ روزگار بھی چھین لیے جاتے ہیں'یہ اپنی صنعتیں اور ادارے بند ہوتے دیکھتے ہیں'اپنی ملازمتوں کو چائنہ اور میکسیکو جاتا ہوا دیکھتے ہیں' ان ملکوں میںلیبرسستے میں مل جاتی ہے۔

امریکی سرمایہ دار دوسرے ملکوں میں کاروبار کرکے' تین سو گنا زیادہ منافع کماتے ہیں' امریکی ہنرمندوں اورمحنت کشوں کے رہائشی ڈاؤں ٹائون جو کبھی آباد اور مصروف ہوا کرتے تھے، اب ویران ہوچکے ہیں'ان کے بازاروں کے خوشنما اسٹورز پر اب تختے لگے ہوئے ہیں،ان لوگوں کے نوجوان بچے اب ان اپنے چھوٹے قصبوں اور دیہات ں نہیں رہتے 'وہ بڑے شہروں میں ملازمت کی تلاش میں 'ٹھوکریں کھا رہے ہیں'یہ امریکا نہیں بلکہ سر ما یہ داری نظام کا بحران ہے ۔

چند سال قبل 'نیویارک شہر میںتھنک ٹینک، لیفٹ فورم میں اس سوال کا جائزہ لینے کے لیے ایک سیمینار منعقد ہوا 'اس سیمینار میں کرائسٹ ہیجز ' رچرڈ وولف اور گیل ڈائنز جیسے ماہرین اقتصادیات اور دانشوروں نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے کارل مارکس کے نظریات سے یہ ثابت کیا کہ مارکس نے گہری تحقیق کے بعد بورژوا طریقہ پیداوار ''کی مخصوص حرکیات کو بے نقاب کیا 'انھوں نے نتیجہ نکل لیا تھا کہ سرمایہ داری نظام اپنے تضادات کے باعث اپنے اندر ہی تباہی اور زوال کے بیج پیدا کرتا ہے لہٰذا اس کا زوال اور اختتام لازم ہے، دنیا کو نئے نظام کی ضرورت ہے۔

وہ جانتا تھا کہ رائج نظریات 'جیسے نیو لبر ل ازم صرف بالادست خصوصاً سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے لیے بنائے گئے تھے ذرایع پیداوار پر بالادست طبقات کا قبضہ ہوتا ہے، رائج الوقت نظریات بالادست طبقات کے مالی و کاروباری مفادات کا اظہار ہوتے ہیں'ان نظریات کے ذریعے ایک طبقہ حکمران اور دوسرا محکوم بنتا ہے۔


"The Contribution to the Critique of Political Economy'' کے دیباچے میں مارکس لکھتا ہے کہ ''اس وقت تک کوئی نظام ختم نہیں ہوتاجب تک اس کی تمام پیداواری قوتیں اپنی آخری گنجائش تک ترقی نہ کرلیں' نئی اور زیادہ ترقی یافتہ پیداواری تعلقات پر مبنی نظام اس وقت تک پیدا نہیں ہوتا'جب تک پرانے نظام کے خاتمے کی شرائط پوری نہ ہوجائیں'اس لیے انسان صرف وہ کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے جس کو وہ کرسکتا ہے۔

یہ ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ کوئی کام اس وقت کیا جا سکتا ہے' جب کہ اس کی تکمیل کے لیے تمام ضروری شرائط پوری ہوں یا پوری ہونے والی ہوں' اسی لیے تو کہتے ہیں کہ ''ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے''۔دیگر الفاظ میں سرمایہ داری کا خاتمہ اور سوشلزم کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا' جب تک سرمایہ داری اپنی تمام پیداواری صلاحیتیں ختم نہ کرلے اور اس میں مزید ترقی کی گنجائش ختم نہ ہو جائے 'اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرمایہ داری کا خاتمہ قریب ہے 'دنیا کو اس کے لیے تیار رہنا ہوگا لہٰذا مارکس کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

مارکس نے لکھا ہے کہ ''سرمایہ داری کی آخری منزلوں میں اس نظام میں پھیلائو کی صلاحیت ختم ہو جائے گی اور منافع کی سابقہ مقدار برقرار نہیں رہے گی' سرمایہ داری نظام کو جن قوتوں سے تقویت ملتی ہے'وہ انھی کو ختم کرنا شروع کردے گا' بچت اور سادگی کے نام پر غریبوں اور محنت کشوں کے مراعات چھینے گا'ان کو مزید قرضوں اور غربت کے دلدل میں ڈبوئے گا'ریاست کی عام آدمی کے ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت ختم یا بہت کم ہوجائے گی' عوام مزید غربت اور قرض میں دھنس جائیں گے 'ریاست کی عوامی مسائل حل کرنے کی صلاحیت کم سے کم ہوتی جائے گی' بے روزگاری بڑھ جائے گی 'پیداواری اور پیشہ ورانہ دونوں پوزیشنیں بدل جائیں گی 'روزگار ان ملکوں کو شفٹ ہو جائے گا جہاں سستا مزدور دستیاب ہو'صنعتوں کا زیادہ انحصار مشینی پیداوار پر ہوجائے گا'یہ اقتصادی حملہ صرف محنت کشوں پر نہیں ہوگا بلکہ یہ حملہ سرمایہ داری نظام کے سب سے بڑے محافظ طبقے یعنی مڈل کلاس پر بھی ہوگا'اس مرحلے پر ذاتی قرضے بڑھ جائیں گے 'کیونکہ آمدنی کم ہوجائے گی یا رک جائے گی 'سرمایہ داری کی آخری منزل میں سیاست اقتصادی مفادات کے تابع ہو جائے گی 'اس سے سیاسی پارٹیاں اپنے اصلی مقاصد سے ہٹ جائیں گی اور عالمی سرمایہ داری کی تابع اور ان کے مفادات اور ہدایات کے مطابق کام کریں گی ۔

سرمایہ دار اس دوران دولت کے بڑے ذخائر جمع کرلیتا ہے' ایک اندازے کے مطابق اس وقت غریب اور ترقی پذیر ملکوں کی حکمران اشرافیہ کے کھربوں ڈالر مغربی ملکوں کے بینکوں میںچھپائی گئی ہے جب کہ امیر ملکوں کے سرمایہ داروں نے پاناما ، ورجن آئلینڈ اور دیگر محفوظ علاقوں میںآف شور کمپنیاں بنا رکھی ہیں۔

مارکس کے مطابق ''سرمایہ داری نظام آخر میں ان تمام قدروں اور رواجوں کے ساتھ جن کی حفاظت کا سرمایہ دار وعدہ کرتے ہیں یعنی 'منصفانہ مقابلہ وغیرہ ' فری مارکیٹ میں تبدیل ہوجائے گا 'یہ نظام اپنے آخری مراحل میں ان تمام اسٹرکچر اور نظام کو لوٹ لے گا، اپنے منافع کو قائم رکھنے کے لیے وہ ریاست کے اداروں کو لوٹے گا'اس طرح یہ نظام اپنے قائم کردہ اداروں اور قدروں کو تباہ کردے گا ''۔

مارکس نے وارننگ دی تھی کہ سرمایہ داری کے آخری مرحلوں میں ' ملٹی نیشنل کارپوریشنز 'عالمی منڈیوں پر اجارہ داری قائم کرلیں گی اور پوری دنیا میں منافع کا تعاقب کریں گی ۔آج سرمایہ داری نظام نے اپنی تمام قدریں ختم کردی ہیں' آزادی' جمہوریت' انصاف' سیکولرازم ' مارکیٹ اکانومی اور قومی آزادی جیسے نعروں پر سرمایہ داری کی بنیاد رکھی گئی تھی 'غریب اور پسماندہ ملکوں کی آزادی اور قومی خود مختاری کو جس طرح روندا جا رہا ہے 'اس کی مثالیں ویت نام 'عراق 'ایران'افغانستان'لیبیا ' شام اور لاطینی امریکا کے ممالک ہیں'جمہوریت کا جنازہ تو ہم پاکستانی کئی دفعہ اپنے کندھوں پر اٹھا چکے ہیں۔

مارکس نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ سرمایہ داری' جب خاتمے کے قریب پہنچے گی تو ان تمام قدروں اور بنیادوں کو ختم کردے گی جن پر اس کا ڈھانچہ ایستادہ ہے۔آج امریکا اور سرمایہ داری کو نسلی قوم پرستی اور ٹرمپ کی شکل میں ایک اور بحران کا سامنا ہے۔
Load Next Story