عطااللہ تارڑ کی توجہ کے لیے

ہماری سیاست کا یہ نسبتا نیا چہرہ آج وفاقی وزیر اطلاعات ہے اور قومی سیاست میں اسے عزت اور اعتبار حاصل ہے

farooq.adilbhuta@gmail.com

قسمت کیسے مہربان ہوتی ہے، یہ سمجھنے کے لیے عطا اللہ تارڑ کو دیکھ لیں۔ لڑکپن میں انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ وہ سی ایس ایس کر کے بیوروکریسی کا حصہ بن جائیں لیکن پھر انھوں نے اپنے بزرگوں کی روایت کی پیروی کی اور قانون کا شعبہ اختیار کیا۔قدرت نے اس نوجوان سیاسی کارکن کی خواہش پوری کی لیکن ذرا سے فرق کے ساتھ، اسے بیوروکریٹ تو نہیں بنایا، حکمران بنا دیا۔

ہماری سیاست کا یہ نسبتا نیا چہرہ آج وفاقی وزیر اطلاعات ہے اور قومی سیاست میں اسے عزت اور اعتبار حاصل ہے۔ آثار بتاتے ہیں کہ اس نوجوان کا یہ سفر یہاں ختم نہیں ہو گا بلکہ یہ اس کے آئندہ سفر کا نکتہ ٔ آغاز ہو گا۔

پاکستانی سیاست کے اس نئے چہرے کی خوبی کیا ہے جو پاکستان کی تجربہ کار سیاسی جماعت مسلم لیگ ن نے اسے اپنی سیاست اور اپنی حکومت کی زبان اور ترجمان بنا دیا ہے؟ اس اجمال کی تفصیل میں جائیں تو اُن ساڑھے تین پونے چار برسوں کا تذکرہ ناگزیر ہو جاتا ہے جن میں پاکستانی ریاست و سیاست کی ہر گنگا الٹی بہائی گئی اور ہر اس قدر کا خون کیا گیا شریف اور وضع دار لوگ جس کی حفاظت کے لیے جان تک لڑا دیتے ہیں۔

اُس دور میں جب محض سیاسی اختلاف کی وجہ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، محترمہ مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف سمیت سینکڑوں پاکستانی سیاست دانوں کو جیلوں میں بند کر دیا گیا، صرف تھوڑے سے بہادر اور جرأت مند لوگ تھے جو اس مشکل وقت میں نتائج کی پروا کیے بغیر ڈٹ کر کھڑے رہے اور ہر اس سرگرمی میں شریک ہوئے جس میں شرکت ضروری تھی لیکن اس مشکل زمانے میں کم لوگ ہی یہ ہمت کر پاتے تھے۔

پی ٹی آئی کے زمانے میں جب نیب اور بعض دیگر حکومتی اداروں کے ذریعے خوف کی فضا پیدا کی گئی اور میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے لیے حکمراں ان کے گھر اور چادر و چار دیواری کی حرمت بھی پامال کرنے پر تل گئے تو یہ صرف عطا اللہ تارڑ ہی تھے جو اس مشکل مرحلے پر اس 'میدان جنگ' میں بڑی بہادری کے ساتھ کھڑے رہے اور مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت کا نقطۂ نظر بڑی جرات کے ساتھ نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے سامنے بھی پیش کیا۔

یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ اسی طرح انھوں نے عدالت، قانون اور مقدمے بازی کے محاذ بھی مثالی ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ ایسی جرأت کا مظاہرہ دو قسم کے لوگ کر ہی کر سکتے ہیں۔ اول ،جن کے دامن پر کوئی دھبہ نہ ہو اور اللہ کے سوا کسی اور کا خوف ان کے دل میں نہ ہو۔ آزمائش کے ہر مرحلے پر عطا اللہ تارڑ کی ثابت قدمی نے واضح کر دیا کہ ان پر اللہ کی خصوصی عطا ہے۔

وفاقی وزارت اور خاص طور وزارتِ اطلاعات کا منصب ملنا ایک بڑا اعزاز ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ ان تھک محنت اور خلوص دل کے ساتھ کام کرنے والا یہ شخص ان ذمے داریوں پر پورا نہ اتر سکے لیکن اس مرحلے پر انھیں مبارک باد پیش کرنے کے ساتھ اُن چیلنجوں کا ذکر بھی ضروری محسوس ہوتا ہے جو بدلے ہوئے سیاسی حالات اور جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے انھیں اور ان کی وزارت کو درپیش ہیں۔

انھیں فوری طور پر دو چیلنج درپیش ہوں گے۔ پہلا ان کی اپنی وزارت میں اور دوسرا وزارت کے تعلق سے۔ کسی بھی وزیر اطلاعات کی یہ پہلی ذمے داری ہوتی ہے کہ اس کی وزارت اپنی حکومت کی ترجیحات کے مطابق کام کرے۔ عطا اللہ تارڑ کی پیش رو محترمہ مریم اورنگ نے سولہ ماہ کے مشکل ترین دور میں جب اندرون پاکستان اور بیرون ملک ان کی بدترین ٹرولنگ کی گئی، کس چابک دستی کے ساتھ اپنی ذمے داریاں ادا کیں۔


عطا اللہ تارڑ سے زیادہ کون جانتا ہوگا۔محترمہ مریم اورنگ زیب سے عطا اللہ تارڑ کی بڑی قریبی سیاسی رفاقت رہی ہے اس لیے مجھے یقین ہے کہ وہ اس دور کی تمام تر تفصیلات سے پوری طرح واقف ہوں گے اور ان کے تجربات سے مستفید ہوں گے لیکن عبوری دور میں چند ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جن سے پورے طور پر نبرد آزما نہیں ہوا جا سکا۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ اس زمانے کے ذمے داران کی ترجیحات مختلف ہوں لیکن نئی حکومت کے قیام کے بعد اس قسم کے جھول کی گنجائش نہیں رہی۔

ان کی وزارت سے متعلق دوسرا اہم ترین مسئلہ صحافتی اداروں کی زبوں حالی سے تعلق رکھتا ہے۔ وزارت سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے ٹیلی ویژن انٹرویو میں انھوں نے حالیہ دنوں میں ایک نیوز چینل کی بندش پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس ادارے کے مالکان سے کہیں گے کہ وہ کارکنوں کو یوں کسمپرسی میں نہ چھوڑیں بلکہ ان کے واجبات ادا کریں۔ ان کی درد مندی قابل قدر ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ نیوز چینل یا اخبارات کیوں ناکام ہوتے ہیں اور اپنے ناظرین و قارئین سے کیسے محروم ہوتے ہیں؟

دنیا میں اس موضوع پر بہت تحقیق ہوئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے اس کی ایک بڑی وجہ سنسنی خیزی کی ایک ایسی شکل ہے جسے ابلاغی اضطراب کا نام دیا جاتا ہے۔ ابلاغی اضطراب ایسا موذی مرض ہے جس کی وجہ اوّل جمہوریت کمزور ہو جاتی ہے اور دوسرے اس کا باعث بننے والے ذرائع ابلاغ خود کو بہ تدریج موت کے منھ میں لے جاتے ہیں۔

سطحی انداز میں سوچنے والے اور آمرانہ مزاج رکھنے والے حکمران ایسی صورت حال میں صحافت پر پابندیاں لگا کر بدنامی کماتے ہیں جیسے گزشتہ چار سالہ دور حکومت میں عام تھا لیکن اس کا محفوظ اور سائینٹفک علاج بھی ہے جس کے ذریعے ذرائع ابلاغ کو اعتماد میں لے کر جمہوریت کو بھی مستحکم کیا جا سکتا ہے اور ذرائع ابلاغ کو زوال سے بھی بچایا جا سکتا ہے۔

جناب عطا اللہ تارڑ اگر میڈیا کے ان جدید رجحانات پر توجہ دے کر اصلاح احوال کی کوشش کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس محاذ پر کامیابی اور نیک نامی ان کے قدم نہ چومے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ ترقی پذیر جمہوریتوں میں وہ جمہوریت اور ذرائع ابلاغ کے ہیرو بن کر ابھریں گے۔اس حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ ایک روشن مستقبل ان کا منتظر ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ١٩٩٨ء میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کا اعلان کرتے ہوئے علامہ اقبال علیہ رحمہ کا ایک شعر پڑھا تھا

دل کی آزادی شہنشاہی، شِکم سامانِ موت

فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم!

عطا اللہ تارڑ نے اپنے سیاسی کیریئر میں یہ تو ثابت کر دیا ہے کہ وہ اہل دل میں سے ہیں، شکم ان کا مسئلہ نہیں لیکن آج کے پاکستان میں اقبال کے سوال میں تھوڑی سی تبدیلی پیدا ہو چکی ہے۔ اسے یوں کہا جا سکتا ہے فیصلہ ترے ہاتھ میں ہے تخلیقی انداز کار یا روایتی انداز فکر؟

آج پاکستان کی جمہوریت اور سیاست جس نازک موڑ پر آ کھڑی ہوئی ہے عطا اللہ تارڑ اپنی دانش سے اسے نئی زندگی دے کر سرخرو ہو سکتے ہیں، خدا کرے کہ ان کی یہ پہلی آزمائش ان کو کامیابیوں کی نئی منزل تک لے جائے اور وہ اس وزارت سے نیک نامی کے ساتھ سرخرو ہوں۔
Load Next Story