الحمرا کی داستانیں حصہ اول
الحمرا کی داستانیں مئی 1832 میں چھپی تھیں۔ اس کتاب کو اروند نے خط کی صورت میں اپنے دوست ڈرون ولکی کے نام کیا تھا
مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے کبھی بحری جہاز یا کشتیوں کا سفرکیا ہے یا نہیں، لیکن میں نے زندگی کا پہلا سفر سمندر کی لہروں پر کیا اور پھر خلاق ذہن کہاں کہاں نہیں لے گیا۔ شیشے کی وہ بوتلیں جن میں پنج تنترکتھا اور سرت ساگر کتھا، الف لیلیٰ اور آخر میں الحمرا کی شامل ہوگئی۔
قصص الحمرا نے زیادہ اثرکیا، اس لیے کہ وہ جدید دور کی تھی۔ واشنگٹن اروند، امریکا میں نیویارک میں پیدا ہوا اور بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹا تھا اسی لیے اپنی ماں کا بہت چہیتا تھا۔ اروند نے مدرسے کی پڑھائی کی طرف کوئی توجہ نہ دی لیکن گھر میں رکھی ہوئی کتابوں اور محلہ لائبریریوں سے خوب استفادہ کرتا رہا۔
اسے نظم اور نثردونوں میں چیزیں لکھنے کا شوق تھا۔ اس کی صحت کچھ اچھی نہیں تھی۔ چنانچہ 1803 سے 1804 کے درمیان اس نے امریکا کے مختلف علاقوں کا سفر کیا۔ اسی دوران اس کی منگنی ایک امریکی لڑکی سے ہوگئی۔ 1809 میں اس لڑکی کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد اس نے کبھی شادی نہیں کی۔ اپنی عمر کا بڑا حصہ وہ سیر وسیاحت اور تصنیف و تالیف میں گزارتا رہا جس کی وجہ سے وہ امریکی ادب میں بہت مقبول ہوا۔
اروند کی ان مختلف اور گوناگوں تصنیفات کے موضوعات بھی مختلف ہیں اور اس کے ساتھ ان کے اسلوب میں بھی نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود اس کی تصانیف میں موضوعات بھی مختلف ہیں۔ مقالات میں امن کے بدلتے ہوئے واقعات کا ایک مشترک پہلو یہ نظر آیا ہے کہ وہ اپنے طرزکے ہر جگہ ایسٹرن، میکنزی اولڈ اسمتھ وغیرہ سے بہت متاثر ہے اور بعض نقادوں نے اس کے مجموعی کارناموں پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ اروند کی تحریر کی کشش اس میں نہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے بلکہ اس میں ہے کہ اس نے کیسا لکھا ہے۔ اس خیال کو اس بات سے بھی تقویت پہنچتی ہے کہ امریکا کے ان لکھنے والوں کا پیش رو ہے اور یہی وجہ ہے کہ لکھے ہوئے ہزاروں صفحے جن کا موضوع گونا گوں پہلو میں ہر طرح کے پڑھنے والے کے لیے فرصت کے وقت کا بڑا اچھا مشغلہ ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی بات زیادہ یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس کا موضوع اسپین کی رومان انگیز سرزمین ہے، اس لیے کہ اس سرزمین کی داستان لکھتے وقت اروند کے رومان پسند جذبے کی جولانیوں کی راہ میں کوئی چیز حائل نہیں ہوتی۔ اروند کو ہر اس چیز سے محبت ہے جو قدیم ہے اور اس محبت کا اظہار اس نے ہمیشہ ایسی خوش ذوقی اور نفاست سے کیا ہے جو نازک اور لطیف ہونے کے باوجود نسوانیت سے دور اور مردانگی سے قریب تر ہے۔
اروند کے ہسپانوی دور کی تصانیف میں فتح مندانہ اسپین کی داستانیں، حیات کولمبس اور الحمرا کی داستانیں شامل ہیں۔ اسپین دور کی تصانیف کے انداز میں ایسی مناسبت اور ہم آہنگی ہے کہ اس میں ان موضوعات پر جو کچھ لکھا اسے عوام اور خواص میں یکساں مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔
الحمرا کی داستانیں مئی 1832 میں چھپی تھیں۔ اس کتاب کو اروند نے خط کی صورت میں اپنے دوست ڈرون ولکی کے نام کیا تھا۔ یہ وہ دوست ہیں جو الحمرا کے رومانوی اور مہماتی سفر میں ان کے ساتھ تھے۔ وہ لکھتے ہیں:
''محترم دوست! آپ کو یاد ہوگا کہ ہم نے ہسپانیہ کے بعض قدیم شہروں خصوصاً طیطلہ اوراشیلینا کی سیر کرتے ہوئے محسوس کیا تھا کہ ان پر مسلمانوں کا گہرا رنگ چڑھا ہوا ہے، ان شہروں کے کوچہ و بازار میں گھومتے پھرتے ہماری نظریں بار بار ایسے واقعات اور مناظر سے دوچار ہوئی تھیں جن سے الف لیلیٰ کی داستانوں کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ اگر ممکن ہو تو ان چیزوں کو دیکھ کر ان کا اسلوب ہارون رشیدی انداز کا مظہر ہو اور جس میں عرب روایت کی وہ لذت ہو جس سے ہسپانیہ کی ہر چیز سرشار ہے۔ اس کی بنیاد ان مشاہدات اور روایتوں پر رکھی ہے جو ہم نے اس محل میں رہ کرکیے اور سنے تھے یہ اوراق میں آپ کے نام معنون کرتا ہوںجو ہماری نظروں نے ایک ساتھ جانبازی کی رومان انگیز سرزمین میںدیکھے۔''
یہ ہمارے پروفیسر وقار علوی نے جن کی عنایت و مہربانی سے قصص الحمرا کے یہ رومان پرور اور خواب آنگیں داستانیں ہم تک پہنچیں۔ (جاری ہے)
قصص الحمرا نے زیادہ اثرکیا، اس لیے کہ وہ جدید دور کی تھی۔ واشنگٹن اروند، امریکا میں نیویارک میں پیدا ہوا اور بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹا تھا اسی لیے اپنی ماں کا بہت چہیتا تھا۔ اروند نے مدرسے کی پڑھائی کی طرف کوئی توجہ نہ دی لیکن گھر میں رکھی ہوئی کتابوں اور محلہ لائبریریوں سے خوب استفادہ کرتا رہا۔
اسے نظم اور نثردونوں میں چیزیں لکھنے کا شوق تھا۔ اس کی صحت کچھ اچھی نہیں تھی۔ چنانچہ 1803 سے 1804 کے درمیان اس نے امریکا کے مختلف علاقوں کا سفر کیا۔ اسی دوران اس کی منگنی ایک امریکی لڑکی سے ہوگئی۔ 1809 میں اس لڑکی کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد اس نے کبھی شادی نہیں کی۔ اپنی عمر کا بڑا حصہ وہ سیر وسیاحت اور تصنیف و تالیف میں گزارتا رہا جس کی وجہ سے وہ امریکی ادب میں بہت مقبول ہوا۔
اروند کی ان مختلف اور گوناگوں تصنیفات کے موضوعات بھی مختلف ہیں اور اس کے ساتھ ان کے اسلوب میں بھی نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود اس کی تصانیف میں موضوعات بھی مختلف ہیں۔ مقالات میں امن کے بدلتے ہوئے واقعات کا ایک مشترک پہلو یہ نظر آیا ہے کہ وہ اپنے طرزکے ہر جگہ ایسٹرن، میکنزی اولڈ اسمتھ وغیرہ سے بہت متاثر ہے اور بعض نقادوں نے اس کے مجموعی کارناموں پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ اروند کی تحریر کی کشش اس میں نہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے بلکہ اس میں ہے کہ اس نے کیسا لکھا ہے۔ اس خیال کو اس بات سے بھی تقویت پہنچتی ہے کہ امریکا کے ان لکھنے والوں کا پیش رو ہے اور یہی وجہ ہے کہ لکھے ہوئے ہزاروں صفحے جن کا موضوع گونا گوں پہلو میں ہر طرح کے پڑھنے والے کے لیے فرصت کے وقت کا بڑا اچھا مشغلہ ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی بات زیادہ یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس کا موضوع اسپین کی رومان انگیز سرزمین ہے، اس لیے کہ اس سرزمین کی داستان لکھتے وقت اروند کے رومان پسند جذبے کی جولانیوں کی راہ میں کوئی چیز حائل نہیں ہوتی۔ اروند کو ہر اس چیز سے محبت ہے جو قدیم ہے اور اس محبت کا اظہار اس نے ہمیشہ ایسی خوش ذوقی اور نفاست سے کیا ہے جو نازک اور لطیف ہونے کے باوجود نسوانیت سے دور اور مردانگی سے قریب تر ہے۔
اروند کے ہسپانوی دور کی تصانیف میں فتح مندانہ اسپین کی داستانیں، حیات کولمبس اور الحمرا کی داستانیں شامل ہیں۔ اسپین دور کی تصانیف کے انداز میں ایسی مناسبت اور ہم آہنگی ہے کہ اس میں ان موضوعات پر جو کچھ لکھا اسے عوام اور خواص میں یکساں مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔
الحمرا کی داستانیں مئی 1832 میں چھپی تھیں۔ اس کتاب کو اروند نے خط کی صورت میں اپنے دوست ڈرون ولکی کے نام کیا تھا۔ یہ وہ دوست ہیں جو الحمرا کے رومانوی اور مہماتی سفر میں ان کے ساتھ تھے۔ وہ لکھتے ہیں:
''محترم دوست! آپ کو یاد ہوگا کہ ہم نے ہسپانیہ کے بعض قدیم شہروں خصوصاً طیطلہ اوراشیلینا کی سیر کرتے ہوئے محسوس کیا تھا کہ ان پر مسلمانوں کا گہرا رنگ چڑھا ہوا ہے، ان شہروں کے کوچہ و بازار میں گھومتے پھرتے ہماری نظریں بار بار ایسے واقعات اور مناظر سے دوچار ہوئی تھیں جن سے الف لیلیٰ کی داستانوں کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ اگر ممکن ہو تو ان چیزوں کو دیکھ کر ان کا اسلوب ہارون رشیدی انداز کا مظہر ہو اور جس میں عرب روایت کی وہ لذت ہو جس سے ہسپانیہ کی ہر چیز سرشار ہے۔ اس کی بنیاد ان مشاہدات اور روایتوں پر رکھی ہے جو ہم نے اس محل میں رہ کرکیے اور سنے تھے یہ اوراق میں آپ کے نام معنون کرتا ہوںجو ہماری نظروں نے ایک ساتھ جانبازی کی رومان انگیز سرزمین میںدیکھے۔''
یہ ہمارے پروفیسر وقار علوی نے جن کی عنایت و مہربانی سے قصص الحمرا کے یہ رومان پرور اور خواب آنگیں داستانیں ہم تک پہنچیں۔ (جاری ہے)