مولانا عبدالسلام نیازی آفتاب علم و عرفان

نصراللہ خاں اپنی خاکوں کی کتاب ’’کیا قافلہ جاتا ہے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب مولانا عبدالسلام نیازی سے جو دہلی سے۔۔۔۔


Rafiuzzaman Zuberi June 12, 2014

اجمیر میں حکیم نصیر میاں کا مطب کیا تھا علم اور ادب کا مرکز تھا۔ شاعروں، ادیبوں اور علما و فضلا کا مجمع لگا رہتا تھا۔ نصراللہ خاں کی حکیم نصیر سے دوستی تھی۔ ایک دن انھوں نے دیکھا مطب میں ایک صاحب گرج رہے ہیں۔ کبھی آیات قرآنی پڑھتے ہیں کبھی حدیث کا عربی متن میں حوالہ دیتے ہیں، کبھی ذکریا رازی اور امام غزالی کے اقوال سند میں پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے حکیم صاحب سے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ حکیم نصیر میاں نے کہا ''ارے تم نہیں جانتے؟ یہ مولانا عبدالسلام نیازی ہیں۔ سارے ہندوستان میں ان کے علم کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔ بڑے بڑے عالم ان کا لوہا مانتے ہیں۔ یہ علم کے سمندر کے شناور ہی نہیں، ان کا شمار تو اہل اللہ میں ہوتا ہے۔''

نصراللہ خاں اپنی خاکوں کی کتاب ''کیا قافلہ جاتا ہے'' میں لکھتے ہیں کہ جب مولانا عبدالسلام نیازی سے جو دہلی سے اجمیر آتے جاتے رہتے تھے میری زیادہ ملاقاتیں ہوئی تو میں نے انھیں شرع کا پابند پایا۔ وہ عابد شب زندہ دار تھے لیکن انھوں نے اپنے اردگرد ایسی دیواریں اٹھا لی تھیں کہ کوئی آسانی سے ان کے قریب نہیں آ سکتا تھا۔ اس نے ان کی شخصیت کے گرد پراسراریت کا ایک ہالہ سا بنا دیا تھا۔

اب راشد اشرف نے مولانا عبدالسلام نیازی کے بارے میں لکھے گئے خاکے اور مضامین جمع کر کے ان دیواروں کے اندر جھانک کر مولانا کی شخصیت کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی مرتب کردہ کتاب ''مولانا عبدالسلام نیازی۔ آفتاب علم و عرفان'' میں بیس سے زیادہ خاکے اور مضامین ہیں جن کے مطالعے سے مولانا کی شخصیت کچھ یہ نظر آتی ہے کہ وہ ''اپنے وقت کے اکابر اہل علم میں سے تھے اور بعض اعتبارات سے تو پورے ملک میں ان کا جواب نہ تھا۔ خصوصیت کے ساتھ ان کی قوت تقریر اور پھر اس میں لذت تقریر ایسی بے نظیر تھی کہ جس مسئلے پر بھی کلام فرماتے اس میں مزید کلام کی گنجائش نہ چھوڑتے تھے۔ ان کی خوش گفتاری کے باعث گھنٹوں ان کی تقریر سن کر بھی طبیعت سیر نہ ہوتی تھی۔ علوم قدیم میں سے کوئی علم ایسا نہ تھا جس میں ان کو کمال حاصل نہ ہو۔''

مولانا ابو الاعلیٰ مودودی جنھوں نے مولانا عبدالسلام سے اکتساب علم کیا تھا لکھتے ہیں ''ان کا مزاج قلندرانہ تھا۔ بے نیاز طبیعت کے مالک تھے، کسی سے کچھ غرض نہیں رکھتے تھے۔ خلوص اور محبت کے ساتھ ملنے والوں سے ان کا برتاؤ نہایت مشفقانہ ہوتا تھا اور وہ ان کی ناز برداری تک کر لیتے تھے لیکن کسی کی اکڑ وہ برداشت نہ کر سکتے تھے۔ بڑائی کا زعم رکھنے والوں کے ساتھ ان کا برتاؤ کچھ اور ہوتا۔ اپنے قلندرانہ مزاج کی وجہ سے بظاہر وہ لوگوں کو آزاد منش نظر آتے تھے لیکن ان کے اندر گہری دینداری پائی جاتی تھی۔

اپنی روحانیت کی نمائش سے انھیں اس قدر نفرت تھی کہ اس پر انھوں نے اپنی آزاد منشی کا پردہ ڈال لیا تھا۔'' مولانا مودودی نے مولانا عبدالسلام نیازی کی جس آزاد منشی کا ذکر کیا ہے اس کے بارے میں طرح طرح کے واقعات مشہور ہیں۔ کچھ سچے اور کچھ جھوٹے۔ اپنی بڑائی کا زعم رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ان کے رویہ کا بہت ذکر ہوا ہے اس میں کچھ واقعات محض زیب داستان ہیں۔ جوش کو اپنی بڑائی دکھانے کا بڑا شوق تھا۔ ان سے مولانا کی جو چوٹیں ہوئی ہیں۔ ان کا بھی ذکر ہوا ہے۔ غنی دہلوی کا بیان ہے ایک دن جوش مولانا عبدالسلام سے ملنے گئے۔ دروازے پر دستک دی۔ مولانا نے اندر سے پوچھا ''کون؟'' جوش نے جواب دیا '' میں۔''

مولانا نے کہا یہاں صرف ایک ''میں'' ہے دوسرے ''میں'' کی گنجائش نہیں۔ پھر جوش نے اپنا نام لیا ''جوش۔'' اندر سے جواب آیا یہاں جوش کی ضرورت نہیں، ہوش چاہیے۔ جوش سے متعلق ایک واقعہ مسعود حسن شہاب نے بھی لکھا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جوش اپنے ایک ہندو دوست کے ساتھ تشریف لائے۔ ہندو دوست نے بہ طور تعارف جب مولانا سے کہا کہ یہ جوش ہیں تو مولانا آگ بگولہ ہو گئے اور بڑے زور زور سے کئی بار لاحول پڑھی اور پھر کہنے لگے۔ ''خدا کی قسم اگر مجھے پہلے معلوم ہو جاتا کہ تم جوش ہو تو میں نورو سے کہتا کہ اس کو کان سے پکڑ کر ترکمان دروازے سے باہر چھوڑ آئے۔'' نورو مولانا کا ملازم تھا جو اس وقت وہاں موجود تھا۔

مولانا عبدالسلام نیازی اپنی نجی زندگی کے بارے میں کبھی گفتگو نہیں کرتے تھے۔ خلیق انجم لکھتے ہیں ''کوئی نہیں جانتا کہ مولانا کہاں کے رہنے والے تھے۔ اس سلسلے میں ان کی قریبی دوستوں کے مختلف بیانات ہیں۔ یہ بھی ایک راز ہے کہ مولانا کس خاندان سے تھے۔ ان کے والد کون تھے، ان کا کیا نام تھا۔ مولانا کی آمدنی کا ذریعہ بھی بہت پراسرار تھا۔ بظاہر ان کی آمدنی اس عطر سے ہوتی تھی جو وہ اپنے معتقدوں کے ہاتھ فروخت کرتے تھے۔ بقول شہاب اس عطر کی شیشی کئی سو روپیہ کی ہوتی تھی اور اسی سے ان کا گزارا ہوتا تھا۔ تاہم عوام و خواص میں مشہور یہ تھا کہ انھیں عطائے دست غیب ہے۔ وہ خوش لباس اور خوش خوراک تھے۔ عمدہ صاف ستھرے کپڑے پہنتے تھے اور اچھی غذا کھاتے تھے۔''

مولانا عبدالسلام نیازی جس طرح اپنے نسب کا حال اپنے ساتھ لے گئے اسی طرح ان کی ابتدائی تعلیم اور کسب کمال کی تفصیلات بھی ایک راز ہیں۔ مسعود حسن شہاب کہتے ہیں کہ صرف اتنا معلوم ہے کہ ان کا علمائے فرنگی محل کے سلسلہ درس سے تعلق تھا۔ مولانا کو تصوف اور اسلامی فلسفے پر غیرمعمولی قدرت حاصل تھی۔ ان کا پسندیدہ موضوع وحدت الوجود تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ دنیا کے ہر علم سے اسے ثابت کر سکتے ہیں یہاں تک کہ ریاضی سے بھی اس کی حقیقت واضح ہو سکتی ہے۔

مسعود حسن شہاب لکھتے ہیں ''ان کی صورت دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ان کا علم و فن سے ایسا تعلق ہو گا۔ داڑھی مونچھ صاف، پرکشش ناک نقشہ، بھاری بھرکم جسم، سفید براق کپڑے پہن کر جب وہ گھر سے نکلتے تھے تو لوگ دیکھتے رہ جاتے۔'' مولانا عبدالسلام نیازی نے شادی بھی کی تھی لیکن کچھ دنوں میں ہی بیوی کو طلاق دے دی۔ انھوں نے ایک تیلی کی لڑکی کو بیٹی بنایا ہوا تھا۔ اسے وہ اپنی سگی بیٹی کی طرح سمجھتے تھے۔ اس کی شادی بھی انھوں نے کی اور اس کی اولاد کو بھی اپنے بچوں کی طرح سمجھا۔

راشد اشرف کی کتاب میں ایک مضمون سید مقصود زاہدی کا ہے۔ انھوں نے مولانا عبدالسلام نیازی کی جو تصویر کھینچی ہے وہ مولانا کی پراسرار شخصیت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ یہ ان کی شخصیت کا دوسرا رخ دکھاتی ہے۔ جو لوگ مولانا نیازی کو جانتے تھے انھوں نے سنی سنائی باتوں پر تو دھیان نہیں دیا لیکن مولانا کی بعض ایسی باتوں کو بھی بیان کیا ہے جو بظاہر ان کی علمی اور صوفیانہ زندگی سے میل نہیں کھاتیں۔ مثال کے طور پر ''مولانا دہلی کی طوائفوں کی نفسیات کے ماہر تھے۔'' رزی جے پوری ان کی ایک محفل کا تذکرہ کرتے ہوئے جس میں قوالوں کی بجائے دس بارہ طوائفیں ہی تھیں لکھتے ہیں ''ان میں ایک رفیقن نامی طوائف بھی تھی۔ غالباً انیس بیس سال کی ہوگی۔

گورا چٹا رنگ، قبول صورت، ناک نقشے سے نک سک۔ مولوی عبدالسلام صاحب کی نظر جیسے ہی اس پر پڑی، کڑک دار آواز میں جل جلالہ فرمایا اور فوراً اپنے پاس بلا کر بٹھا لیا۔ نام پوچھنے پر جب اس نے رفیقن بتایا تو مولانا نے ببانگ بلند فرمایا ''ہوالرفیق الاعلیٰ'' انھوں نے ایک اور محفل کا جس میں رفیقن کا نگراں اور اس کی نانی بھی رفیقن کے ساتھ آئی تھی، حال یوں لکھا ہے۔ ''رفیقن کا نگراں اپنی جگہ سے اٹھا اور مولانا کی دست بوسی کی۔ پھر رفیقن کی نانی نے دست بوسی کی اور رفیقن کی گردن پکڑ کر اس کا سر مولانا کے قدموں پر جھکا دیا۔ اس پر مولانا نے جل جلالہ کا نعرہ لگایا۔'' اسی محفل میں پھر یہ ہوا کہ مولانا رفیقن کو اپنے ہاتھوں سے چائے پلانے لگے۔

اس قسم کے کچھ واقعات کچھ دوسرے مضامین میں بھی نظر آتے ہیں لیکن ان کی نوعیت ایسی ہے کہ مولانا ان سے بہت دور کھڑے نظر آتے ہیں۔ مولانا اپنے مقام سے واقف تھے۔ یہ سچ ہے کہ غصے میں آتے تو زبان قابو میں نہ رہتی۔ جلال کے عالم میں بہت کچھ کہہ جاتے۔ نہ کسی کے علم کے رعب میں آتے، نہ دولت اور عہدے کو خاطر میں لاتے۔ وہ ان سب باتوں سے بے نیاز تھے۔ کبریائی صرف اللہ کی ہے اور کسی کی نہیں۔ مولانا کو اپنی وسعت علمی کا خوب اندازہ تھا اور اسی کے حوالے سے ان کی پہچان تھی۔ وہ رزی جے پور سے فرماتے تھے کہ جب تم کسی سے میرا تذکرہ کرو، جس کو تم اپنی زبان میں تعارف کرانا کہتے ہو تو صرف یہ کہنا کہ ہم دلی کے ایک پڑھے لکھے شخص کو جانتے ہیں جس کا نام عبدالسلام ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں