جنگ شروع ہونے کو ہے
اٹلی نے تو 2006ء کا مہا مقابلہ جیت کر اپنے مداحوں کے لیے جشن کا سامان کر دیا مگر ارجنٹینی دیوانے تا حال منتظر ہیں ۔۔۔
روشنی میں تاریکی گھل رہی تھی۔
اُس پر یاسیت کا بوجھ تھا۔ آنکھوں میں نمی۔ سر جُھکا ہوا۔ کاندھے ڈھلکے ہوئے۔
وہ جنگ جُو، جس کے جوتوں کی رگڑ سے فتح کا جن نمودار ہوتا، جس کا حملہ دشمن کی دفاعی دیوار تہس نہس کر ڈالتا، جو برق رفتاری سے خندقیں پھلانگ جاتا؛ اُس رات شکستگی کی تصور معلوم ہوتا تھا۔ وہ عظیم سپاہ سالار، جس کی فسوں گری نے چار برس قبل میکسیکو معرکہ اپنے نام کیا، مغربی جرمنی کو کانٹے کے مقابلے میں شکست دی، 8 جولائی 1990ء کو جیسے کسی سحر کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ کسی منتر نے اُسے باندھ لیا۔
اُس پریشان کن شام، اُس آخری معرکے میں مہان ڈیگو میرا ڈونا بے بس نظر آیا۔ اسے دو اہم کھلاڑیوں سے محروم ہونا پڑا۔ دشمن غالب آ گیا۔ روم کے قدیم اکھاڑے میں اختتامی بگل بجا۔ 1986ء میں شکست کا کرب سہنے والے مغربی جرمنی نے فتح کا جھنڈے اٹلی کی زمین پرگاڑ دیا۔ جرمن قوم رقصاں تھی اور ارجنٹینا کے آسمان سے اداسی گر رہی تھی۔
تو جولائی 1990ء کی اس رات میراڈونا صدمے سے ڈھے رہا تھا۔ لاطینی امریکا خاموش تھا۔ سنہری ٹرافی یورپ چلی گئی۔ ٹھیک اُسی شکستہ رات، فٹ بال سے میرے بے انت عشق کا آغاز ہوا۔ اور اُسے مہمیز کیا امریکا میں ہونیوالے 1994ء ورلڈ کپ نے جہاں اٹلی کے رابرٹو بجیو کی برق رفتاری نے آنکھیں خیرہ کر دیں۔ وہ عظیم ترین میں سے ایک تھا۔ انوکھا اور پھرتیلا۔ مگر 17جولائی کو کیلی فورنیا میں منعقدہ آخری مقابلے میں، ایک بار پھر آنسوئوں کا مینہ برسا۔ آہ، عظیم میراڈونا کی طرح رابرٹو بجیو بھی سر جُھکائے کھڑا تھا۔ وہ سنسنی خیز لمحات میں پنالٹی شوٹ مس کر گیا۔ معرکہ برازیل کے نام رہا۔
برازیل، فٹ بال کا تخت۔ 5ورلڈ کپ مقابلوں کا فاتح، عظیم پیلے کا دیس۔ کروڑوں دلوں میں دھڑکنے والا برازیل، جس نے روماریو اور رونالڈو جیسے جادوگر پیدا کیے، مجھے مبہوت تو کرتا ہے کہ اُس جیسی مضبوط ٹیم کا تصور محال ہے، مگر باصلاحیت کھلاڑیوں کی وہ دھرتی دل میں گھر نہیں کر سکی۔ دل کے دروازے پر غم زدہ میراڈونا اور رابرٹو بجیو جو کھڑے تھے!
اٹلی نے تو 2006ء کا مہا مقابلہ جیت کر اپنے مداحوں کے لیے جشن کا سامان کر دیا مگر ارجنٹینی دیوانے تا حال منتظر ہیں۔ کیا انتظار تمام ہونے کو ہے؟ کیا لائنل میسی، جو کم سنی میں عظمت اپنے نام کر چکا، میراڈونا کا جانشین ثابت ہو گا؟
یہ جاننے کے لیے تو تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ البتہ فٹ بال دیوانوں کا انتظار تمام ہونے کو ہے۔ ہوشیار باش۔ مقابلوں کا آغاز ہوا جاتا ہے۔ مقابلے کیا ہیں، عالمی جنگ سمجھیں۔ میدان برازیل کا۔ گھمسان کا رن پڑے گا۔ 32 ملک ٹکرا رہے ہیں۔ محاذ جنگ سے خبروں کا تانتا بندھا رہے گا۔ سپاہی عزم و ہمت کی داستان رقم کریں گے۔ وہ چوکس اور چوکنے ہیں۔ غلطی کا کوئی امکان نہیں۔ فتح کے لیے پورا زور لگانا ہو گا۔ زخموں کو بُھلا کر، اختلافات سے بالاتر ہو کر عظیم مقصد کے لیے لڑنا ہو گا۔ اور یہ عظیم مقصد ہے؛ سنہری ٹرافی۔ جس کی چاہت نے مقابلے میں شریک ہر ملک کو دیوانہ بنا رکھا ہے۔
کیا فٹ بال کا جنون مصائب میں الجھے، زخمی، پریشان حال پاکستان کو بھی لپیٹ میں لینے والا ہے؟
پاکستان فٹ بال، جسے لیاری نے کئی ہیرے عطا کیے، گزشتہ چند عشروں سے ''کوما'' میں ہے۔ حکومتی غفلت اِسے لے ڈوبی۔ معیاری فٹ بال تیار کرنے کے سوا ہم اِس کھیل میں کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکے البتہ ''ورلڈ کپ بخار'' ایسا مرض ہے، بچنا جس سے محال ہے۔ کئی ممالک میں تو اس کھیل کو مذہب کا درجہ حاصل ہے۔ کھلاڑیوں کو دیوتا تصور کیا جاتا ہے۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میں براہ راست نشر ہونیوالے ورلڈ کپ مقابلوں نے عزیز ہم وطنو کو اِس کھیل کا دل دادہ بنایا۔ نیا ہزاریہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا انقلاب ساتھ لایا۔ آج ہم میں سے کئی یہ بات جانتے ہیں کہ پرتگالی شہزادہ، رونالڈو ہسپانوی کلب ریال میڈرڈ سے کھیلتا ہے۔ اکھڑ مزاج وین رونی مانچسٹر یونائیٹڈ کا حصہ ہے۔
ارجنٹینی میسی بارسلونا کے مداحوں کے دل میں دھڑکتا ہے۔ تو لکھ لیجیے، اِس بار پاکستان میں فٹ بال کی دیوانگی عروج پر ہو گی۔ کوئی برازیل کے گُن گائے۔ کوئی فرانس کے لیے گنگنائے گا۔ کسی کی امیدوں کا محور اسپین ہو گا۔ تو کوئی پرتگالی کھلاڑیوں سے آس لگائے گا۔ مقابلے دل چسپ ہوں گے۔ برازیلی ٹیم، جو فیورٹ ہے، کاکا اور روبینو جیسے سیماب صفت کھلاڑیوں سے محروم ہے۔ مگر پیلے کا دعوی ہے کہ نیمار جونیئر اگر سنبھل کر کھیلا تو برازیل کا پیلے ثابت ہو گا۔ گروپ ڈی کو موت کا گروپ جانیے۔ انگلینڈ، اٹلی، یوروگوائے اور کوسٹریکا ٹکرائیں گی۔ اگر آپ ''اپ سیٹ'' کے خواہاں ہیں، تو یہ گروپ آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔ پھر انگلینڈ کو ایشلے کول اور مائیکل کیرک کی خدمات حاصل نہیں۔ ارجنٹینی ٹیم، جسے مضبوط ترین امیدوار کے طور پر دیکھا جارہا ہے، ٹیویز کے بغیر میدان میں اتری ہے۔فرانسیسی امیدوں کا محور 'انجرڈ ' ریبری بھی میدان سے باہر رہ گیا۔
یاد آیا؛ میزبان برازیل میں حالات گمبھیر ہیں۔ انتشار ہی انتشار۔ ریلیاں۔ ہڑتالیں۔ جلسے جلوس۔ جلائو گھیرائو۔ کچھ کو خدشہ ہے؛ کہیں تشدد کی لہر رنگ میں بھنگ نہ ڈال دے۔ البتہ ہمیں امید ہے کہ فٹ بال کے عُشاق برازیلی مقابلوں کو سبوتاژ کرنے سے باز رہیں گے۔ ہماری طرح تھوڑی ہیں کہ جسے چاہتے ہیں، اُسے قبر میں اتار کر دم لیتے ہیں۔
عزیز، بگل بجنے کو ہے۔ دنیا تو دیوانی ہو ہی چکی، امید ہے کہ ہمارے بھائی بند بھی 12 جون تا 13 جولائی؛ اِن مقابلوں سے خوب لطف اندوز ہونگے اور یہ اچھا ہی ہے۔ ذہنی پراگندگی سے محفوظ رہیں گے۔ توجہ کچھ عرصے کے لیے الزامات کی سیاست سے ہٹ جائے گی۔ کھوکھلے حکومتی وعدوں کا صدمہ کچھ زائل ہوگا۔ دیواروں پر لکھے فرقہ وارانہ نعرے ماند پڑینگے۔ شاید عورتوں کو اینٹوں سے قتل کرنیوالوں کی توجہ بھی بھٹک جائے، شاید ہڑتالوں کا غم تھوڑا گھٹ جائے۔ عمران خان کون سی کہانی سُنا رہے ہیں، میاں صاحب کس ملک کے دورے پر ہیں، طاہر القادری کے کیا ارادے ہیں، شدت پسند نے حملوں کا کیا جواز پیش کیا، میڈیا آزاد ہے یا نہیں، اِن معاملات سے کچھ دیر جان چھوٹ جائے گی کہ برازیل میں طبل جنگ بج گیا۔ محاذ گرم ہے۔ دیکھئے، اِس بار کس کی آنکھوں میں نمی ہوتی ہے!!...
نوٹ: عزیزو، ورلڈ کپ کا سحر اپنی جگہ، مگر اپنی پیاری حکومت کو بُھلانا شاید سہل نہ ہو۔ لوڈشیڈنگ ہمیں بار بار اُن کی یاد دلائے گی۔ گرتا وولٹیج ہمارا وولٹیج بڑھائے گا۔ ممکن ہے، ہم بھی سڑکوں پر نکل کر لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے داروں کی طرح نظمیں، غزلیں گانے لگیں۔
اُس پر یاسیت کا بوجھ تھا۔ آنکھوں میں نمی۔ سر جُھکا ہوا۔ کاندھے ڈھلکے ہوئے۔
وہ جنگ جُو، جس کے جوتوں کی رگڑ سے فتح کا جن نمودار ہوتا، جس کا حملہ دشمن کی دفاعی دیوار تہس نہس کر ڈالتا، جو برق رفتاری سے خندقیں پھلانگ جاتا؛ اُس رات شکستگی کی تصور معلوم ہوتا تھا۔ وہ عظیم سپاہ سالار، جس کی فسوں گری نے چار برس قبل میکسیکو معرکہ اپنے نام کیا، مغربی جرمنی کو کانٹے کے مقابلے میں شکست دی، 8 جولائی 1990ء کو جیسے کسی سحر کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ کسی منتر نے اُسے باندھ لیا۔
اُس پریشان کن شام، اُس آخری معرکے میں مہان ڈیگو میرا ڈونا بے بس نظر آیا۔ اسے دو اہم کھلاڑیوں سے محروم ہونا پڑا۔ دشمن غالب آ گیا۔ روم کے قدیم اکھاڑے میں اختتامی بگل بجا۔ 1986ء میں شکست کا کرب سہنے والے مغربی جرمنی نے فتح کا جھنڈے اٹلی کی زمین پرگاڑ دیا۔ جرمن قوم رقصاں تھی اور ارجنٹینا کے آسمان سے اداسی گر رہی تھی۔
تو جولائی 1990ء کی اس رات میراڈونا صدمے سے ڈھے رہا تھا۔ لاطینی امریکا خاموش تھا۔ سنہری ٹرافی یورپ چلی گئی۔ ٹھیک اُسی شکستہ رات، فٹ بال سے میرے بے انت عشق کا آغاز ہوا۔ اور اُسے مہمیز کیا امریکا میں ہونیوالے 1994ء ورلڈ کپ نے جہاں اٹلی کے رابرٹو بجیو کی برق رفتاری نے آنکھیں خیرہ کر دیں۔ وہ عظیم ترین میں سے ایک تھا۔ انوکھا اور پھرتیلا۔ مگر 17جولائی کو کیلی فورنیا میں منعقدہ آخری مقابلے میں، ایک بار پھر آنسوئوں کا مینہ برسا۔ آہ، عظیم میراڈونا کی طرح رابرٹو بجیو بھی سر جُھکائے کھڑا تھا۔ وہ سنسنی خیز لمحات میں پنالٹی شوٹ مس کر گیا۔ معرکہ برازیل کے نام رہا۔
برازیل، فٹ بال کا تخت۔ 5ورلڈ کپ مقابلوں کا فاتح، عظیم پیلے کا دیس۔ کروڑوں دلوں میں دھڑکنے والا برازیل، جس نے روماریو اور رونالڈو جیسے جادوگر پیدا کیے، مجھے مبہوت تو کرتا ہے کہ اُس جیسی مضبوط ٹیم کا تصور محال ہے، مگر باصلاحیت کھلاڑیوں کی وہ دھرتی دل میں گھر نہیں کر سکی۔ دل کے دروازے پر غم زدہ میراڈونا اور رابرٹو بجیو جو کھڑے تھے!
اٹلی نے تو 2006ء کا مہا مقابلہ جیت کر اپنے مداحوں کے لیے جشن کا سامان کر دیا مگر ارجنٹینی دیوانے تا حال منتظر ہیں۔ کیا انتظار تمام ہونے کو ہے؟ کیا لائنل میسی، جو کم سنی میں عظمت اپنے نام کر چکا، میراڈونا کا جانشین ثابت ہو گا؟
یہ جاننے کے لیے تو تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ البتہ فٹ بال دیوانوں کا انتظار تمام ہونے کو ہے۔ ہوشیار باش۔ مقابلوں کا آغاز ہوا جاتا ہے۔ مقابلے کیا ہیں، عالمی جنگ سمجھیں۔ میدان برازیل کا۔ گھمسان کا رن پڑے گا۔ 32 ملک ٹکرا رہے ہیں۔ محاذ جنگ سے خبروں کا تانتا بندھا رہے گا۔ سپاہی عزم و ہمت کی داستان رقم کریں گے۔ وہ چوکس اور چوکنے ہیں۔ غلطی کا کوئی امکان نہیں۔ فتح کے لیے پورا زور لگانا ہو گا۔ زخموں کو بُھلا کر، اختلافات سے بالاتر ہو کر عظیم مقصد کے لیے لڑنا ہو گا۔ اور یہ عظیم مقصد ہے؛ سنہری ٹرافی۔ جس کی چاہت نے مقابلے میں شریک ہر ملک کو دیوانہ بنا رکھا ہے۔
کیا فٹ بال کا جنون مصائب میں الجھے، زخمی، پریشان حال پاکستان کو بھی لپیٹ میں لینے والا ہے؟
پاکستان فٹ بال، جسے لیاری نے کئی ہیرے عطا کیے، گزشتہ چند عشروں سے ''کوما'' میں ہے۔ حکومتی غفلت اِسے لے ڈوبی۔ معیاری فٹ بال تیار کرنے کے سوا ہم اِس کھیل میں کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکے البتہ ''ورلڈ کپ بخار'' ایسا مرض ہے، بچنا جس سے محال ہے۔ کئی ممالک میں تو اس کھیل کو مذہب کا درجہ حاصل ہے۔ کھلاڑیوں کو دیوتا تصور کیا جاتا ہے۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میں براہ راست نشر ہونیوالے ورلڈ کپ مقابلوں نے عزیز ہم وطنو کو اِس کھیل کا دل دادہ بنایا۔ نیا ہزاریہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا انقلاب ساتھ لایا۔ آج ہم میں سے کئی یہ بات جانتے ہیں کہ پرتگالی شہزادہ، رونالڈو ہسپانوی کلب ریال میڈرڈ سے کھیلتا ہے۔ اکھڑ مزاج وین رونی مانچسٹر یونائیٹڈ کا حصہ ہے۔
ارجنٹینی میسی بارسلونا کے مداحوں کے دل میں دھڑکتا ہے۔ تو لکھ لیجیے، اِس بار پاکستان میں فٹ بال کی دیوانگی عروج پر ہو گی۔ کوئی برازیل کے گُن گائے۔ کوئی فرانس کے لیے گنگنائے گا۔ کسی کی امیدوں کا محور اسپین ہو گا۔ تو کوئی پرتگالی کھلاڑیوں سے آس لگائے گا۔ مقابلے دل چسپ ہوں گے۔ برازیلی ٹیم، جو فیورٹ ہے، کاکا اور روبینو جیسے سیماب صفت کھلاڑیوں سے محروم ہے۔ مگر پیلے کا دعوی ہے کہ نیمار جونیئر اگر سنبھل کر کھیلا تو برازیل کا پیلے ثابت ہو گا۔ گروپ ڈی کو موت کا گروپ جانیے۔ انگلینڈ، اٹلی، یوروگوائے اور کوسٹریکا ٹکرائیں گی۔ اگر آپ ''اپ سیٹ'' کے خواہاں ہیں، تو یہ گروپ آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔ پھر انگلینڈ کو ایشلے کول اور مائیکل کیرک کی خدمات حاصل نہیں۔ ارجنٹینی ٹیم، جسے مضبوط ترین امیدوار کے طور پر دیکھا جارہا ہے، ٹیویز کے بغیر میدان میں اتری ہے۔فرانسیسی امیدوں کا محور 'انجرڈ ' ریبری بھی میدان سے باہر رہ گیا۔
یاد آیا؛ میزبان برازیل میں حالات گمبھیر ہیں۔ انتشار ہی انتشار۔ ریلیاں۔ ہڑتالیں۔ جلسے جلوس۔ جلائو گھیرائو۔ کچھ کو خدشہ ہے؛ کہیں تشدد کی لہر رنگ میں بھنگ نہ ڈال دے۔ البتہ ہمیں امید ہے کہ فٹ بال کے عُشاق برازیلی مقابلوں کو سبوتاژ کرنے سے باز رہیں گے۔ ہماری طرح تھوڑی ہیں کہ جسے چاہتے ہیں، اُسے قبر میں اتار کر دم لیتے ہیں۔
عزیز، بگل بجنے کو ہے۔ دنیا تو دیوانی ہو ہی چکی، امید ہے کہ ہمارے بھائی بند بھی 12 جون تا 13 جولائی؛ اِن مقابلوں سے خوب لطف اندوز ہونگے اور یہ اچھا ہی ہے۔ ذہنی پراگندگی سے محفوظ رہیں گے۔ توجہ کچھ عرصے کے لیے الزامات کی سیاست سے ہٹ جائے گی۔ کھوکھلے حکومتی وعدوں کا صدمہ کچھ زائل ہوگا۔ دیواروں پر لکھے فرقہ وارانہ نعرے ماند پڑینگے۔ شاید عورتوں کو اینٹوں سے قتل کرنیوالوں کی توجہ بھی بھٹک جائے، شاید ہڑتالوں کا غم تھوڑا گھٹ جائے۔ عمران خان کون سی کہانی سُنا رہے ہیں، میاں صاحب کس ملک کے دورے پر ہیں، طاہر القادری کے کیا ارادے ہیں، شدت پسند نے حملوں کا کیا جواز پیش کیا، میڈیا آزاد ہے یا نہیں، اِن معاملات سے کچھ دیر جان چھوٹ جائے گی کہ برازیل میں طبل جنگ بج گیا۔ محاذ گرم ہے۔ دیکھئے، اِس بار کس کی آنکھوں میں نمی ہوتی ہے!!...
نوٹ: عزیزو، ورلڈ کپ کا سحر اپنی جگہ، مگر اپنی پیاری حکومت کو بُھلانا شاید سہل نہ ہو۔ لوڈشیڈنگ ہمیں بار بار اُن کی یاد دلائے گی۔ گرتا وولٹیج ہمارا وولٹیج بڑھائے گا۔ ممکن ہے، ہم بھی سڑکوں پر نکل کر لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے داروں کی طرح نظمیں، غزلیں گانے لگیں۔