اردو ہے جس کا نام

صدیوں کی کاوشوں سے جب زبان اردو نے باقاعدہ علمی و ادبی حیثیت حاصل کر لی تو متعصب ہندوؤں کو یہ احساس ہوا کہ ’’اردو ۔۔۔

najmalam.jafri@gmail.com

اردو زبان جس تہذیبی و معاشرتی پس منظر میں معرض وجود میں آئی وہ تھوڑا بہت علم اور معلومات رکھنے والوں کو اچھی طرح معلوم ہے۔ زبانوں کا اگرچہ کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر اردو کو تقریباً ابتدا ہی سے مسلمانوں کی زبان قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اردو ہندو مسلم دونوں کی معاشرتی ضرورت تھی اور ہے اور اس کی ترقی و ترویج میں بھی دونوں نے اہم کردار ادا کیا۔

صدیوں کی کاوشوں سے جب زبان اردو نے باقاعدہ علمی و ادبی حیثیت حاصل کر لی تو متعصب ہندوؤں کو یہ احساس ہوا کہ ''اردو تو مسلمان ہے'' انھوں نے اردو کے خلاف سازشوں کا آغاز کر دیا۔ 1898ء میں ہندوؤں کے ایک وفد نے اتر پردیش (یوپی) کے انگریز لیفٹیننٹ گورنر سے ایک ملاقات میں ہندی کو عدالتی زبان بنانے پر اصرار کیا۔ یہ ابتدا تھی مگر برصغیر میں اردو ہندی تنازعہ باقاعدہ اپریل 1900ء میں اس وقت شروع ہوا جب لیفٹیننٹ گورنر نے دیوناگری رسم الخط کے نفاذ کا باقاعدہ ریزولوشن جاری کر دیا۔ اس تنازعے کا ایک مخصوص سیاسی و تاریخی پس منظر ہے جس کا اصل ہدف ہندوستان کے مسلمان تھے کیونکہ ان کا تاریخی، دینی اور ادبی ذخیرہ اس زبان میں وافر مقدار میں تھا۔ اور اس ریزولوشن کا مقصد دراصل مسلمانوں کو ان کے علمی و مذہبی سرمایے سے محروم کرنا تھا۔

قصہ مختصر یہ کہ پورے برصغیر میں اردو ہندی تنازعہ زور پکڑ گیا جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے اور اجلاس ہوئے جن میں اس صورتحال کے خلاف قراردادیں پیش اور منظور کی گئیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انگریزوں نے بہت پہلے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا تھا کہ اگر برصغیر پر حکومت کرنی ہے تو یہاں کی وہ زبان جو مشترکہ ہے یعنی اردو ضرور سیکھنی چاہیے پھر انھوں نے خود ہی حالات کو دیکھتے ہوئے اردو کو دفتری زبان بھی قرار دیا تھا پھر آخر یہ ریزولوشن کیوں جاری کیا؟ بات دراصل یہ ہے کہ مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے علاوہ یہ صورتحال تمام قوموں (ہندوستانی) کی عام بول چال کی حیثیت سے ان کے درمیان رابطے کی زبان بن چکی تھی لہٰذا انگریز ہندوستانی اقوام کے اتحاد کو پارہ پارہ کر کے ''لڑاؤ اور حکومت کرو'' کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔

اردو ہندی تنازعہ تو وقت کے ساتھ ساتھ سرد پڑ گیا مگر اس نے مسلمانان برصغیر کو بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کر دیا۔ یہی وہ تنازعہ تھا جو دو قومی نظریہ اور بالآخر پاکستان کی بنیاد بنا۔ اور اب قیام پاکستان کے بعد (جو کام ہندی یا دیوناگری رسم الخط نہ کر سکا تھا) انگریزی نے جو نقصان اور اردو اور اس کے رسم الخط کو پہنچایا وہ ''شاید'' ناقابل تلافی ہو۔ انگریزوں نے اردو کو رائج کر کے خاصے فوائد حاصل کیے جس میں برصغیر کے مقامی لوگوں کو ان کے بارے میں خیالات اور ان کے آیندہ ارادوں سے واقفیت بھی شامل ہے۔

برصغیر کی آزادی کے لیے ابتدا میں جو جدوجہد کی گئی وہ ہندو مسلم دونوں نے مشترکہ طور پر کی تھی اس مسلم ہندو اتحاد نے انگریزوں کو ہوشیار کر دیا کہ اگر ان کا اتحاد قائم رہا تو حکومت برطانیہ کو بہت جلد یہاں سے اپنا بستر گول کرنا پڑے گا اور سونے کی وہ چڑیا جس نے تاج برطانیہ کی ڈوبی کشتی کو نہ صرف پار لگایا تھا بلکہ مزید کالونیاں بنا کر ان کا سورج کبھی غروب نہ ہونے دیا۔ لہٰذا انھوں نے اس اتحاد کو توڑ کر اپنی حکومت کو استحکام بخشنے کا جو منصوبہ بنا تھا اور ''اختتام اتحاد'' کی حد تک تو ایسا کامیاب ہوا کہ پھر آج تک ان دونوں قوموں کے درمیان اتحاد و اتفاق تو بڑی بات اچھے پڑوسیوں والے تعلقات بھی قائم نہ ہو سکے۔ مگر تمام تر کوششوں کے باوجود انگریزوں کو برصغیر بالآخر چھوڑنا پڑا۔

اس سلسلے میں اردو پر جو حملہ ہوا تھا (دیوناگری رسم الخط کا) اس کے بجائے ہم نے تاج برطانیہ کے در پردہ عزائم کو رومن رسم الخط کو تیزی سے اپنا کر پورا کرنے کا عزم صمیم کر لیا ہے اور یوں ان کا مقصد اب پورا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اور یہ سب کچھ بڑے منظم طور پر ہو رہا ہے اور ہم جو کسی بھی مسئلے پر کسی بھی وقت سنجیدگی اختیار کرنے کو تیار نہیں اس صورت حال سے بھی لاتعلق ہیں۔ ہمیں نہ اپنے معاشرتی، نہ دینی اور نہ روایتی تشخص کے گم ہو جانے کا احساس ہے اور نہ فکر۔ آج یہ صورتحال ہے کہ بارہویں جماعت کے طلبا نہ صحیح اردو پڑھ سکتے ہیں اور نہ بول سکتے ہیں لکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا (لیکن اب بھی کوئلے کی کان سے ہیرے نکل آتے ہیں)

دس برس قبل تک بھی انگریزی ذریعہ تعلیم کے اسکولوں میں اردو مباحثے بیت بازی، مقابلہ شعر گوئی یا کلام شعرا کو تحت اللفظ پڑھنے کے مقابلے منعقد ہوا کرتے تھے اس کے علاوہ محفل میلاد بھی اکثر اسکولوں میں بڑے اہتمام سے ہوا کرتی تھی مگر آج کسی اسکول میں بلکہ کالج تک میں کچھ نہیں ہوتا کچھ اسکولوں میں میلاد شریف کی محفل ہوتی ضرور ہے مگر اس کی نظامت، تقاریر (سیرت طیبہ پر) سب انگریزی میں حتیٰ کہ اب تو نعتیں بھی انگریزی زبان میں پڑھی جا رہی ہیں اور جو نعتیں اردو میں پڑھی جاتی ہیں وہ لکھی رومن میں ہوتی ہیں یہاں تک کہ محفل میلاد شریف کے اختتام پر دعا بھی انگریزی میں کرائی جاتی ہے۔ اس صورتحال میں وہ تعلیمی ادارے پیش پیش ہیں جو ہر صورت پاکستانی ثقافت کو مغربی ثقافت میں تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہیں مقصد صرف اور صرف حصول دولت ہے۔


یہ ہماری قوم کا مزاج بن چکا ہے کہ پیسہ کماؤ چاہے اس کے لیے کچھ بھی داؤ پر لگانا پڑے۔ جب تعلیمی ادارے ہی ہمارے بچوں کو، طلبہ کو اپنی روایات، ثقافت، زبان اور سب سے بڑھ کر اپنے وطن سے پیار کرنا نہیں سکھائیں گے تو اور کسی سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔ حکومتوں اور سیاستدانوں (عوامی نمایندوں) نے تو کچھ نہ کرنا ہی اپنا مقصد حیات بنا لیا ہے۔ عوام بے چارے سوچ سوچ کر اور چیخ چیخ کر تھک چکے ہیں۔ پھر جن کو علم و آگہی تک رسائی سے محروم رکھا گیا ہے وہ تو صرف جیسے تیسے زندہ رہنے کو ہی اصل زندگی سمجھتے ہیں اس سے آگے کی وہ سوچتے ہیں اور نہ سوچ سکتے ہیں۔ مسئلہ تو باشعور اور حالات سے باخبر اور لکھنے پڑھنے والوں کا ہے کیونکہ بقول محسنؔ بھوپالی مرحوم

ہماری جان پہ دہرا عذاب ہے محسنؔ

کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے

لہٰذا ہم جیسے اس بھیانک صورتحال پر سوچتے بھی ہیں جلتے بھی ہیں کڑھتے بھی ہیں اور لکھتے بھی ہیں مگر کیا کوئی یہ سب پڑھتا ہے؟ کسی پر اس کا اثر ہوتا ہے؟ یا یہ سب ''نقار خانے میں طوطی کی آواز'' ہی ثابت ہوتا ہے۔

اردو جو پاکستان کی قومی زبان قرار دی گئی تو صرف اردو کی محبت میں نہیں بلکہ اس زبان کی خصوصیات کے باعث (ورنہ قائد اعظم تو خود بھی اچھی اردو بول نہیں سکتے تھے) کیونکہ بابائے قوم اپنی ذہانت و معاشرتی و سیاسی شعور کی بنا پر اچھی طرح جانتے تھے۔ بابائے قوم کے بعد آنے والے اگر ذرا بھی اخلاص سے کام لیتے تو وہ آئین سے بھی پہلے اردو کے نفاذ کو یقینی بناتے، ذریعہ تعلیم، عدالتی اور دفتری کارروائی اردو میں ہوتی تو یہ قوم ایک متحد و منظم قوم ہوتی۔ قیام پاکستان کے وقت تو سب مسلمان تھے نہ کوئی پنجابی، بلوچی، سندھی یا مہار نہ تھا اور سب کا مقصد ایک آزاد مسلم ریاست کا قیام تھا۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان میں اردو نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ بھی کہ اردو ''پاکستان کی قومی زبان'' ہے اگر اس کو ابتدا ہی میں ہر سطح پر نافذ کر دیا جاتا تو یہ قومی یکجہتی کا سبب بنتی مگر بوجوہ بڑی خاموشی سے کام کرنے والوں نے کام کر دکھایا اور رفتہ رفتہ ملک سے اردو کو غائب کرنا شروع کردیا۔ 66 سال میں اردو جو اب سے کئی صدیوں پہلے درباری زبان رہ چکی (ابراہیم عادل شاہ نے 1521ء میں اردو کو درباری زبان قرار دیا تھا) اور جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں ذریعہ تعلیم کے طور پر کامیاب تجربہ ثابت ہو چکی (اس جامعہ کے فارغ التحصیل طلبہ نے دنیا بھر میں خوب نام پیدا کیا) مگر اب پھر 25 سال کے لیے اس کا نفاذ ٹال دیا گیا۔ جس کا مقصد صاف یہ ہے کہ آیندہ تین نسلیں جب اردو سے نابلد معاشرے کا حصہ بن جائیں گی تو پھر بھلا اردو پڑھنے لکھنے اور سمجھنے والے کہاں رہ جائیں گے اور اس کے نفاذ کا مطالبہ تو خیال و خواب ہی ہو گا۔

آج پاکستانی عوام کیا چاہتے ہیں؟ یہ کون پوچھتا ہے بلکہ عوام کا تو اب یہ حال ہے کہ ''ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم'' کی زندہ تصویر بنے ہوئے ہیں۔ اردو کے نفاذ کو مزید روکنے کے لیے جو اضافہ ہوا ہے اس پر کسی جانب سے کوئی پرجوش اور بھرپور ردعمل کا مظاہرہ نہ ہونا بھی ہماری بے حسی اور مستقبل پر نظر نہ رکھنے کی واضح مثال ہے۔

(جاری ہے)
Load Next Story