چھوٹی برائی‘ بڑی برائی

جب یہ برسر اقتدار رہتے ہیں اٹھارہ کروڑ حکمرانوں کو کھانے کو اتنا دیتے ہیں کہ زندہ رہنے اور وقت ضرورت کام ۔۔۔

اکیسویں صدی کا دور ہے۔ گلوبل ولیج میں رہائش ہے۔ باتیں 1857ء کی کرتے ہیں جب پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں، خواب انگریز دور کے دیکھتے ہیں جب سر کڑھائی میں تھا۔

Status Quo کے پجاری ہیں، لارا لپا جمہوریت کے کھلاڑی ہیں۔ عرف عام میں مادر زاد اشرافیہ کہلاتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے ان کی ''باتیں'' سگنل فری کوریڈور جیسی، جس پر سے گزرتے وقت وسعت نظر، گہرائی فکر اور روشن خیالی کا احساس ہوتا ہے۔ الیکشن کے بعد ان کا ''عمل'' انڈر پاس جیسا جس میں داخل ہوتے ہی دم گھٹنے لگتا ہے، جلد سے جلد باہر نکلنے کی دھن سوار ہو جاتی ہے۔

جب یہ برسر اقتدار رہتے ہیں اٹھارہ کروڑ حکمرانوں کو کھانے کو اتنا دیتے ہیں کہ زندہ رہنے اور وقت ضرورت کام آئیں۔ مثلاً قومی خزانے میں ٹیکس جمع کر دیں، نئے ٹیکس بلا چوں چرا قبول کریں، اپنے پیروں پر چل کر ووٹ ڈالنے جائیں وغیرہ۔ جب برسر اقتدار اشرافیہ کو الیکشن کے دوران کیا ہوا مکان دینے کا وعدہ یاد دلاتے ہیں تو الٹا سوال کرتے ہیں ''کیا اس وقت آپ کا درختوں پر بسیرا ہے؟'' آدھی تنخواہ کرایہ مکان پر خرچ ہو جاتی ہے۔ آدھی تنخواہ میں سے گھر کا خرچہ نکال کر اتنا بچتا ہے کہ تن ڈھانکنے کے لیے کپڑے بنا لیں یا بچوں کو اسکول میں داخل کرائیں۔ جب کہ دونوں لازمی ہیں۔ یہی ہر گھر کا مسئلہ ہے اور یہی پاکستان کے گھر گھر کا مسئلہ ہے جو 66 سال سے حل نہیں ہوا حالات بد سے بدتر ہی ہوتے گئے۔ اب کیسے حل ہوں گے؟ حل کرنے والے تو وہی پرانے گھاگ ہیں۔

دوسری طرف مادر زاد اشرافیہ کی کنکرنٹ لسٹ ملاحظہ کیجیے:

کھانے کو ملائی بوٹی، پینے کو غالبؔ کا پسندیدہ مشروب، پہننے کو عالمی ڈیزائنر سوٹ، رہنے کو دبئی میں لگژری اپارٹمنٹ، خرچ کرنے کو قومی خزانہ، جمع کرنے کو سوئس بینک، قرضہ خوری کے لیے ورلڈ بینک، قرضے معاف کرانے کے لیے ملکی بینک، ترقیاتی فنڈز کے لفافے میں کروڑوں سرکاری رشوت، لاوارث بلدیاتی ترقیاتی فنڈ، صوابدیدی اختیارات کی پلیٹ پر سجے ہوئے صوابدیدی فنڈز، ایک طرف استحقاق ہی استحقاق اور دوسری فریضہ نہ فرائض۔ کھڑا کھیل فرخ آبادی!

پاکستان کے سیاسی پنڈت اس بات پر متفق ہیں کہ رائج بدترین نظام جمہوریت ہی پاکستان کے لیے موزوں ترین نظام حکومت ہے۔ کیونکہ یہ بہترین آمریت سے بھی بہتر ہوتا ہے۔ فلسفہ مابعد فضولیات کے مطابق یہ چھوٹی برائی، بڑی برائی کا فلسفہ کہلاتا ہے۔ یعنی کیونکہ مارشل لا بڑی برائی ہے اس لیے جمہوریت کے نام پر کی جانے والی ہر برائی چھوٹی برائی ہوتی ہے اس لیے قابل قبول ہوتی ہے۔ع


جمہوریت بھی چھوٹی برائی کا نام ہے

خبردار! اگر کوئی گنہگار ٹارگٹ کلر بڑی برائی یعنی ٹارگٹ کلنگ سے صدق دل سے توبہ کر کے چھوٹی برائی یعنی ٹی ٹی کی نوک پر ڈاکا زنی کا پیشہ اپنانا چاہتا ہے، تو یہ اپنی ذمے داری پر کر سکتا ہے۔ سیاسی پنڈت اس کے ہر گز ذمے دار نہیں ہوں گے۔ بے شک وہ پنڈت ہیں لیکن ہیں تو سیاسی!

ملک کے طاقتور حلقوں کا خیال یہ ہے کہ مارشل لا کا راستہ صرف اور صرف جمہوری روایات کی حامل مستحکم عوامی جمہوریت سے ہی روکا جا سکتا ہے کرپشن مآب لارا لپا جمہوریت سے نہیں۔ آئین کے آرٹیکل چار کم دس آنے سے پہلے دو اور آنے کے بعد دو مارشل لا آچکے ہیں۔ نئی حکومت کی پہلی ہی جمہوری سالگرہ ہوئی ہے لیکن گاہے بگاہے پانچوں مارشل لا کی آمد کے کریکر بھی پھٹ رہے ہیں۔ کون ہے اس پردہ زنگاری میں؟ بس چپ۔گستاخی نہیں۔

پاکستان میں جو بھی برسر اقتدار آتا ہے اس کو پیرس بنانے کا دعویٰ کرتا تھا۔ پیرس کیا بنتا اس کوشش میں آدھا پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ آخر برطانیہ، جاپان سے سبق کیوں نہیں سیکھا جاتا؟ چند جزیروں پر مشتمل جاپان جنگ عظیم کے دوران دو ایٹمی حملے پی گیا۔ سہہ بھی گیا مگر ہمت نہیں ہاری۔ ملک کے کھنڈرات کے درمیان اپنی معیشت کے ملبے پر بیٹھ کر دوبارہ معاشی سپر پاور بننے کا عزم کیا۔ اپنے بچے کھچے وسائل اکٹھے کیے اور اپنی آنے والی نسل کی اعلیٰ تعلیم و تربیت پر جھونک دیے۔ تا کہ ترقی یافتہ جاپان کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل ہوں۔ آج جاپان نہ صرف زندہ ہے بلکہ معاشی سپرپاور بھی۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ میں جاپانی کم قیمت سکہ ین ڈالر کی ناک میں نکیل ڈالے رکھتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اپنے ملک کو ترقی یافتہ بنانا ہے تو اپنی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم و تربیت سے لیس کرو۔ جو پاکستان کے فیوڈل معاشرے میں ناممکن ہے۔ کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے میٹرک پاس کرنا لازم ہے۔ اس کے لیے اسکول میں داخلہ لینا ضروری ہے۔ مسئلے یہ ہے کہ اگر اسکول میں تعلیم دی جانے لگے تو پھر جاگیردار کی بھینسیں کہاں باندھی جائیں گی؟ اور ان کے آگے جمہوری، سیاسی اور اقتصادی بین بجانے والے کہاں سے امپورٹ ہوں گے؟

اب وقت آ گیا ہے کہ قوم کے بزرجمہروں کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا اور حتمی طور پر یہ طے کرنا پڑے گا کہ عقل بڑی ہوتی ہے یا بھینس؟ اگر عقل بڑی ہوتی ہے تو پھر چاہے کشتوں کے پشتے لگ جائیں آخری فیصلہ ہو کر رہے گا۔ روشنی کے مینار اسکول باقی رہیں گے یا مراعات یافتہ بھینسیں!
Load Next Story