سفر جنوب کے
سرائیکی سے مہکتے جنوبی پنجاب کے تاریخی وثقافتی مقامات میں گزری ساعتیں
باتیں تو جنوب کی ہوں گی اور یقیناً بہت سی ہوں گی مگر میں جس بات سے ڈرتا تھا، وہی کام ہوتا جا رہا ہے۔ میں مقروض اور بہت مقروض ہوتا جا رہا ہوں۔ سنا تھا سرائیکی ایک میٹھی زبان ہے مگر سرائیکی خود کس قدر مہربان، مہمان نواز اور محبت کرنے والے ہیں، یہ کبھی اندازہ نہ ہو سکا۔ جنوبی پنجاب کے اس ٹور میں شہزاد علی اگر نہ ملتے تو شاید یہ کبھی اندازہ ہی نہ ہوپاتا کہ انسانیت کس قدر خوب صورت شے ہے، سرائیکی کس قدر خوب صورت لوگ ہیں۔
اگرچہ کہ پلان میں صرف بھونگ اور اوچ شریف شامل تھے مگر میرے ذہن میں جتوئی کی سکینہ الصغریٰ مسجد بھی تھی جو ذرا دوڑ لگا کر دیکھی جا سکتی تھی۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ خاص اس مسجد کے لیے بعد میں اس طرف نہ آیا جا سکتا تھا۔ جب اوچ شریف میں آنکھوں کی اچھی طرح تسکین ہو چکی تو فوری طور پر ڈاکٹر مزمل ہاشمی کو کال ملایا اور عرض کی کہ اوچ سے اس مسجد کی جانب کیسے سفر کیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے جو سفری راہ نمائی کی سو کی مگر ایک نمبر سینڈ کر دیا کہ یہ شہزاد علی ہیں۔
ان سے رابطہ کرو۔ میں شہزاد علی سے رابطہ کیا کرتا، ان کا خود ہی فون آ گیا اور مسجد تک جانے کی پوری ہدایات جاری کر دیں۔ ہم مسجد پہنچے تو ایک طرف شہزاد علی اپنی سرائیکی روایات کے مطابق ہاتھ جوڑے دروازے پر ہی کھڑے تھے۔ یہاں مجھے وہ واقعہ یاد آ گیا جو تارڑ صاحب نے ایک بار سنایا تھا۔ تارڑ صاحب کہتے ہیں کہ ایک بار عابدہ پروین نے انھیں اپنے اسلام آباد والے گھر میں کھانے پر مدعو کیا۔ جب وہ گھر پہنچے تو دروازے پر عابدہ پروین کو ان کے شوہر اور بیٹیوں کے ہمراہ ہاتھ جوڑے کھڑا پایا۔ عابدہ پروین نے تارڑ صاحب کو بتایا کہ ہمارے یہاں مہمان کے استقبال کا یہی طریقہ ہے کہ اپنے اہل وعیال کے ہمراہ دروازے پر ہاتھ جوڑے اس کو خوش آمدید کہا جائے۔
میں اکثر یہ سوچتا تھا کہ عابدہ پروین نے تارڑ صاحب کو خوش آمدید کیسے کہا ہوگا اور کوئی ہاتھ جوڑے مہمان کو کیسے خوش آمدید کہتا ہوگا۔ یہ وہ باتیں تھیں جو کم از کم میری عقل میں تو نہ آتی تھیں مگر اس شام جب شہزاد علی نے ہمیں ہاتھ جوڑ کر جتوئی مسجد میں خوش آمدید کہا تو مانو جیسے آنکھیں بھیگ سی گئی ہوں۔ وہ ہمیں مسجد کے اُس اُس کونے میں لے کر گئے جہاں ایک عام مسافر کو جانے کی اجازت نہیں۔ مغرب کی نماز مسجد میں ادا کر چکنے کے بعد شہزاد علی ہمیں اپنی ہی بائیک پر بٹھا کر جتوئی شہر لے گئے۔
خاص محبتوں میں گوندھا ہوا ایسا لذیذ کھانا کھلایا جس کا ذائقہ یقیناً آخری سانسوں تک زبان پر رہے گا۔ شہزاد علی نے یہیں پر اختتام نہیں کیا۔ انھیں چوں کہ جتوئی کی گاڑیوں کا علم تھا تو وقت کے مطابق ہمیں جتوئی اڈے پر لے آئے اور ہمیں لاہور جانے والی گاڑی پر بٹھا دیا جس نے مجھے ملتان اتارنا تھا۔ ہم جب اپنی گاڑی میں بیٹھے اس کے چلنے کا انتظار کر رہے تھے تو شہزاد علی ایک بار پھر گاڑی میں ہمارے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔ ہمیں ایک شاپر زبردستی تھما دیا جس میں دورانِ سفر کھانے پینے کی کچھ چیزیں تھیں۔ یہ خاص محبتیں شاید قدرت نے سیاحوں نے حصے میں ہی لکھی ہیں۔ صرف ایسے سیاحوں کے حصے میں جن کے میزبان وسیب واسی ہوں، سرائیکی ہوں۔
شہزاد علی سے جان پہچان ذرا بھی نہ تھی اور نہ ڈاکٹر صاحب میرے کچھ لگتے ہیں مگر آپ ان سرائیکیوں کی بے وقوفی دیکھیں کہ ملتان کا ایک ڈاکٹر میری ایک کال پر اپنے سب کام کاج چھوڑ کر شہزاد علی کو میرے پیچھے لگا دیتا کہ اس نمونے کو سنبھالو ورنہ اس شام کے پہر میں مسجد دیکھنا اور پھر جتوئی سے واپس ملتان جانا ناممکن ہوگا اور شہزاد علی کیسا بے وقوف ہے کہ ڈاکٹر صاحب اسے میرا نام صرف حارث بتاتے ہیں اور شہزاد علی مجھے فوراً جان جاتا ہے اور ڈاکٹر صاحب سے کنفرم کرتا ہے کہ کیا یہ حارث بٹ ہے۔
تصدیق ہونے پر یہ شہزاد علی جو جتوئی سے بھی پیچھے کسی قصبے علی پور میں تھا، وہاں سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور فوراً اپنے آپ کو ہماری خدمت میں دے دیتا ہے اور پھر ہمارے ملتان پہنچ جانے تک ہم سے رابطے میں بھی رہتا ہے کہ میں مقررہ وقت پر ملتان پہنچا بھی ہوں یا نہیں؟ یہ محبتوں کے قرض میں کیسے اتاروں گا؟
بات بہت پرانی ہے۔ کم از کم چودہ پندرہ سال پرانی تو ہوگی یعنی دن میرے طالبِ علمی کے تھے، ہاسٹل کے تھے۔ لائبریری میں کسی سنڈے میگزین میں دو سیاحتی مضامین پڑھے۔ ایک چنیوٹ کے عمر حیات محل کے بارے میں تھا اور دوسرا صادق آباد کی بھونگ مسجد کے بارے میں۔ میں ان دنوں فیصل آباد میں تھا اور چنیوٹ وہاں سے قریب ہی تھا تو اپنے ایک دوست کے ساتھ عمر حیات محل دیکھنے کے لیے نکل پڑا۔ صادق آباد کے بارے معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ یہ پنجاب اور سندھ کی سرحد پر ہے اور پنجاب کی طرف یہ آخری شہر ہے۔
میرا روم میٹ غفران انھی علاقوں کا تھا۔ غفران جو تب بھی میرے دل کے بہت قریب تھا، اب بھی میرے دل کے بہت قریب ہے۔ قصہ مختصر میں صادق آباد نہ جا سکا مگر بھونگ کا نام میرے دل پر نقش ہو گیا۔ ہم آخری سال میں تھے تو غفران کے کچھ کلاس فیلوز نے جنوب کی طرف سفر کیا۔ واپسی پر میں نے سب کی تصاویر دیکھیں تو حسد کے مارے بس خاموش ہی بیٹھا رہا۔ آپ کو خواہ برا لگے مگر حقیقت یہی ہے کہ میں بھلا کا ایک حاسد انسان ہوں۔ میں اشتیاق سے بھونگ مسجد کی تصاویر دیکھتا رہا اور چپ رہا۔ یہ بات شاید 2009 کے آخر یا 2010 کے شروع کی ہے۔
بھونگ کبھی میرے دل و دماغ سے گیا ہی نہیں۔ میں نے اسے کبھی جانے بھی نہیں دیا۔ جانے دیتا بھی تو کیسے؟ بھونگ مسجد نے مجھے اپنے حصار میں لے رکھا تھا اور اب جب کہ میں بھونگ مسجد دیکھ چکا ہوں، اس کے سونے کے اوراق سے سجے محرابوں سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر چکا ہوں تو جی بار بار وہیں جانے کو چاہتا ہے۔
میں جو اس وقت بالائی پنجاب کے بالکل کونے میں بیٹھا پنجاب کے بالکل آخری قصبے بھونگ کی مسجد کو یاد کرتا ہوں تو دل اداس سا ہو جاتا ہے کہ نہ جانے اب کبھی بھونگ کو دیکھنا نصیب ہو گا بھی یا نہیں۔ سیالکوٹ سے بھونگ جانے کے لیے بارہ گھنٹے کا سفر درکار اور پھر ہم پنجاب کے قدرے ٹھنڈے علاقے میں رہنے والے سال کے مخصوص دنوں میں ہی جنوب کی طرف جا سکتے ہیں۔ وہاں کی گرمی ہمارے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ آج جب کہ چودہ پندرہ سال کی مسلسل خواہش کے بعد میں بھونگ دیکھ چکا ہوں تو دل کی کیفیت وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔ پہلے بھونگ مسجد دیکھنے کی خواہش تھی، اب بھونگ مسجد، اس کے محرابوں سے، اس کے نقش و نگار سے، اس کی میناکاری سے نہ صرف محبت ہے بلکہ عشق ہے۔
سیالکوٹ سے صادق آباد کی گاڑی کا پتا کیا تو معلوم ہوا کہ شام چھ بجے گاڑی چلے گی اور صبح چھے بجے مبلغ ستائیس سو روپے کے عوض ہمیں صادق آباد پہنچا دے گی۔ فروری کا آغاز ہوچکا تھا، موسم اور دن قدرے کھل چکے تھے البتہ کبھی کبھی بارش کا موسم بن جاتا۔ محکمۂ موسمیات نے بھی اتوار کے دن جنوبی پنجاب میں بادل چھائے رہنے کی پیش گوئی کی تھی مگر ہم نکل پڑے کہ اب اور انتظار نہ ہوتا تھا۔ گاڑی ٹھیک چھے بجے لاری اڈے سے نکل پڑی۔ لاہور میں بیس منٹ کا ایک ریسٹ تھا۔ میں نے موقع کو غنیمت جانا اور چپلی کباب کھانے نکل پڑا۔ لاہور میں نیازی اڈے کے بالکل سامنے چارسدہ کی مشہور چپل کا بورڈ لگا تھا۔
نہ جانے کیوں جب سے میں نے پشاور کے چپلی کباب کھائے ہیں، جہاں کہیں بھی چپلی کباب کا بورڈ دیکھتا ہوں تو کھانے کے لیے بیٹھ جاتا ہوں۔ حالاںکہ بورڈ چپل کا تھا مگر میرے ذہن میں چپل کباب چل رہے تھے اور میں بے وقوف سڑک پار کر کے اسی دکان میں داخل ہوگیا۔
سامنے دیکھا تو چپلوں کے ڈھیر لگے تھے جنھیں دیکھ کر یقیناً ہنسی آئی۔ پھر غور سے دکان کا نام پڑا تو ہنسی مزید گہری ہو گئی۔ قدرت کو شاید اس وقت میری خوشی منظور تھی۔ ساتھ والے ہوٹل میں بھی چپلی کباب بن رہے تھے۔ میں وہیں کھانے کے لیے بیٹھ گیا۔ میرے پاس کُل بیس منٹ تھے۔ میں نے چپلی کباب کھائے، چائے پی اور سڑک پار کر کے اپنی گاڑی کے پاس پہنچ گیا۔ ٹھیک نو بجے گاڑی لاہور ٹرمینل سے نکل پڑی اور صادق آباد کی طرف گام زن ہوگئی۔
اگرچہ کہ میں بھی ان ہی لوگوں میں سے ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ نیند تو بس اپنے ہی بستر پر آتی ہے یا اچھی نیند اپنے ہی بستر پر آتی ہے مگر رفتہ رفتہ میرا یہ نظریہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ سکون بے شک اپنے ہی بستر پر ہے مگر اب سفر کی نیند مجھے بہت مزہ دینے لگی ہے۔
سفر میں تو میں ہمیشہ سے سوتا ہی تھا مگر نہ جانے کیوں اور سفری نیند مزید گہری اور مزے کی ہوتی جا رہی ہے۔ ان گرمیوں میں جب چترال کی جانب گام زن تھا تو منزل پر پہنچ کر محترم شاہ جی جو پشاور سے بذریعہ چترال پہنچے تھے، مجھ سے سفر کے بارے پوچھا کہ جانی سفر کیسا رہا۔ میرے بجائے میرا دوسرا ہم سفر بولا،''یہ بندہ تو لاہور سے چترال تک بس سوتا ہی آیا ہے۔'' میری خوش قسمتی دیکھیں کہ میں چترال سے کیلاش کے سفر میں جو کچھ ہی دیر بعد شروع ہو گیا تھا، ایک بار پھر سوگیا۔ بہت پہلے سفر کرنا بہت برا لگتا تھا۔
اب بھی شاید اگر مجبوری میں سفر کرنا پڑے تو میرے لیے مشکل ہو مگر سیاحتی سفر مجھے بہت سکون دیتا ہے۔ سیالکوٹ سے صادق آباد کا بارہ گھنٹے کے سفر نے مجھے ذرا بھی تھکان نہیں دی۔ صبح چھ بجے جب صادق آباد اترا تو طبعیت پر ذرا بھی ناگواری کے اثرات نہ تھے۔ ایسا بھی نہ تھا کہ یہ بارہ گھنٹے میں نے سو کر ہی گزارے بلکہ درمیان درمیان میں آنکھ کھلتی بھی رہی تھی۔ میں ان لمحوں میں ہلکا پھلکا میوزک سنتا، تیزی سے پیچھے جاتی ہوئی سفر کو تکتا رہتا، کوئی کتاب پڑھتا اور کچھ دیر کے بعد پھر سو جاتا۔ نہ جانے کون کون سے شہر گزر رہے تھے اور میں وسطی پنجاب سے جنوبی پنجاب میں داخل ہو گیا۔ رات کے نہ جانے کس پہر آنکھ کھلی۔ آنکھ کھلی تو یہ کوئی لاری اڈا سا معلوم ہوا جو بالکل بند تھا۔ سب دکانیں بند تھیں مگر ایک چائے کی ریڑھی لگی ہوئی تھی۔ فروری کی خنک زدہ رات میں چائے والا ایک ریڑھی پر چائے بنا رہا تھا۔ رات کے شاید تین بج رہے تھے۔
اتنی رات گئے اس چائے والے کے یہاں اتنا رش ہونا اس بات کی دلیل تھا کہ یہ چائے بہت مزے کی ہوگی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خان پور شہر کا مشہور چائے والا ہے اور گاڑی والا بھی صرف چائے پینے کے واسطے ہی یہاں رکا ہے۔ میرا بھی دل چاہا کہ چائے نوش کروں مگر سستی کے مارے بیٹھا رہا۔ گاڑی والے نے چائے پی اور گاڑی صادق آباد کی طرف فراٹے بھرنے لگی۔ یقینی طور پر مجھے سونا ہی تھا۔ میں نے اپنی گرم چادر کندھوں پر ڈالی اور پھر سو گیا۔ آنکھ تب کھلی جب ڈرائیور نے آواز لگائی ''صادق آباد والی سواریاں نیچے اتر جائیں۔'' اگرچہ کہ میرا ارادہ کچھ اور سونے کا تھا مگر مجبوری تھی، نیچے اترنا ہی پڑا۔ گھڑی اس وقت چھے بجا رہی تھی۔ خان پور کی طرح صادق آباد میں بھی چائے کی ریڑھیاں لگی ہوئی تھیں۔
یہ میرے لیے جنوبی پنجاب کی پہلی منفرد چیز تھی۔ میں نے آج سے پہلے ریڑھیوں پر چائے فروش ہوتے نہ دیکھی تھی۔ میں نے ساتھ ہی دکان کے سامنے کھڑی ریڑھی والے سے چائے کا ایک کپ لیا اور پینے لگا۔ مختلف ریڑھیوں والوں نے اپنی اپنی ریڑھی کے پاس گھی کے خالی کنستر میں آگ لگا رکھی تھی۔ یہ ایک قسم کی گاہک کو دعوت تھی کہ اس ٹھنڈے موسم میں آگ کے مزے لیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ کوئی آگ تاپنے آئے گا تو چائے بھی بنوا ہی لے گا۔ مؤذن کی صدائیں ہر طرف پھیل رہیں تھیں جو سب کو کام یابی کی جانب بھلا رہا تھا۔
میرا ذاتی تجربہ ہے کہ سفر میں انسان ذرا رب کے کچھ زیادہ ہی قریب ہوتا ہے۔ خوشی خوشی مؤذن کی صدا کا جواب دیا اور ساتھ ہی بنی مسجد کی جانب چلا پڑا۔ مسجد سے باہر نکلا تو صبح کی سرخی کچھ کچھ پھیلنا شروع ہوگئی تھی۔ اتنی دیر میں علی عمر ساہیوال سے صادق آباد ریلوے اسٹیشن پہنچ چکا تھا اور اب وہ ریلوے اسٹیشن سے لاری اڈے کی طرف آ رہا تھا۔
صادق آباد کے لاری اڈے سے آپ کو ہر طرح کی گاڑی میسر آئے گی۔ شہر کے لاری اڈے سے اوپر پنجاب کو جاتی گاڑیاں بھی ملیں گی اور نیچے کراچی کی طرف بھی۔ لاری اڈے سے ہی بھونگ شہر جانے کو معلومات لیں تو پتا چلا کہ ہر طرح کی سواری میسر ہے۔ سواریوں کے حساب سے چلنے والی ہائی ایس ہو یا پھر ایک اچھی پرائیویٹ گاڑی یا پھر چنگ چی رکشہ، ہر طرح کی گاڑی آپ کو اسی لاری اڈا سے ملے گی۔ ایک پرائیویٹ گاڑی کا پتہ کیا تو صاحب چار ہزار مانگ رہے تھے۔ میں نے فوراً چنگ چی والے سے بات کی۔ اس نے سولہ سو روپے مانگے اور پندرہ سو میں مان گیا۔
مجھے پیسے معقول لگے۔ واضح رہے کہ صادق آباد سے بھونگ کا فاصلہ تقریباً 28 کلو میٹر ہے۔ اگرچہ کہ میرے بیگ میں جیکٹ تھی مگر اس کی ضرورت نہ پڑی۔ گرم چادر موجود تھی، اسی کو اپنے گرد لپیٹ کر بس ناک ڈھانپ لی۔ صبح کا وقت تھا اور آسمان پر بادل چھائے تھے۔ صادق آباد سے بھونگ جانے والی سڑک تقریباً حالی تھی۔ گنے کی فصل تیار کھڑی تھی۔ سڑک کی حالت بھی اچھی تھی تو 28 کلومیٹر کا یہ سفر چنگ چی پر زیادہ محسوس نہیں ہوا۔ بھونگ بازار میں داخل ہوئے تو ابھی تک سڑک پر صفائی پروگرام چل رہا تھا۔ بھونگ مسجد کا مرکزی دروازہ اب مکمل طور پر بازار کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ یہ دروازہ اب بند ہے۔ چنگ چی والے نے ایک دوسرے چھوٹے دروازے کے سامنے چنگ چی روک دی۔
جب سورج چڑھتا ہے تو ساری دنیا کو دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح جب بارش کے بعد آسمان پر دھنک بنتی ہے تو اس کے گہرے رنگ سب اندھوں کو بھی دکھائی دیتے ہیں۔ دھنک کے رنگ یا تو بہت گہرے ہوتے ہیں یا پھر دھنک ہوتی ہی نہیں ہے مگر ایک جگہ ایسی ہے جہاں دھنک کے رنگ واقعی ماند پڑ جاتے ہیں۔ اگر آپ نے دھنک سے بھی زیادہ خوب صورت رنگ دیکھنے ہوں تو جنوبی پنجاب کی بھونگ مسجد دیکھنے کے لیے نکل پڑیں۔ بھونگ مسجد جہاں دنیا کے سب رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ جہاں چاروں سُو بس قدرت کے رنگ ہی بکھرے پڑے ہیں۔ ایسے رنگ جو کبھی مانند نہیں پڑے۔ ایسے رنگ جو مانند پڑ ہی نہیں سکتے۔
تمام مساجد اللہ کا گھر ہیں، اس لحاظ سے سب ہی خوب صورت ہیں، قابلِ احترام ہیں مگر خوب صورتی کے اعتبار سے جو مقام بھونگ مسجد کے حصے میں آیا ہے وہ شاید ہی کسی مسجد کو میسر آیا ہو۔ مسجد کی خوبصورتی انسان کو دنگ کر دینے والی ہے۔ سردار رئیس غازی محمد نے 1932 میں اس مسجد کی بنیاد رکھی۔ انھیں بشارت دی گئی تھی کہ وہ اس جگہ پر مسجد تعمیر کریں۔ مسجد کا کل رقبہ تقریباً پانچ ایکڑ ہے۔ مسجد ایسی خوب صورت ہے کہ اسے بنانے میں پچاس سال لگے یعنی 1982 میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی مگر حقیقت میں مسجد کی خوبصورتی پر کام اب بھی جاری ہے۔ مسجد کے کشادہ صحن، اس کی میناکاری، قیمتی پتھر، نگینے الغرض کس کس خوب صورت شے کا ذکر کیا جائے۔
سب کچھ ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ مسجد کو تعمیر کرتے وقت اس کا کوئی خاص نقشہ نہیں بنوایا گیا تھا۔ رئیس غازی محمد ایک سیاح بھی تھے۔ وہ سیاحت کی غرض سے دنیا کے مختلف ممالک کا دودہ کرتے اور وہاں سے واپسی پر اپنے تجربات، وہاں کی عمارات کی تصاویر اپنے تعمیراتی عملے سے شئیر کرتے۔ مسجد میں آپ کو ایرانی رنگ بھی نظر آتا ہے اور سینٹرل ایشیا کا بھی۔ مسجد کشمیر سمیت چاروں صوبوں کی ثقافت کی بھی ترجمانی کرتی ہے۔ مسجد میں ایک وقت میں تقریباً چار ہزار کے قریب نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔
صحن میں نمازیوں کی گنجائش اس کے علاوہ ہے۔ مسجد کے بہت سے دروازے تھے مگر اب سب کو سیکیوریٹی وجوہات کی بنیاد پر بند کر دیا گیا ہے۔ صرف ایک دروازے کھلا ہے۔ بڑا دروازہ جو بازار کی طرف ہے وہ سربراہان مملکت یا بیرون ملک سے آئے وفود کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دروازے کے اوپر ایک بڑا سا خوب صورت اسمِ محمدﷺ لکھا ہے۔
آپ مسجد میں داخل ہوں تو یہ بالکل بھی اپنے آپ کو آپ پر عیاں نہیں کرتی۔ آگے بڑے بڑے درخت ہیں۔ آپ بازار کے دروازے سے مسجد میں داخل ہوں تو آپ کے سامنے ایک بڑا سا فوارہ آئے گا جس کے پیچھے پہلی منزل کے برابر بڑا سا قرآن ایک رحل پر کھلا رکھا ہے۔ یہاں سورت العق کی ابتدائی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ یہ قرآن اور رحل دونوں پتھروں سے بنائے گئے ہیں۔ یہ منظر اس قدر دل کو پکڑ لینے والا ہے کہ جی چاہتا ہے آپ اسی قرآن کے سائے میں پورا دن گزار دیں۔
اسی رحل کے نیچے سے گزر کر آپ سامنے کے دروازہ سے اندر جا سکتے ہیں مگر سامنے کا یہ دروازہ بھی بند ہے۔ آپ کو بائیں جانب بنے راستے سے گزرنا پڑے گا۔ اسی جانب رئیس غازی محمد کے چھے بیٹوں کے بڑے بڑے گھر ہیں۔ رئیس غازی محمد کے یہی چھ بیٹے مسجد کے سارے معاملات دیکھتے ہیں۔ مسجد اپنے مالی معاملات کے لیے کسی پر انحصار نہیں کرتی۔ تقریباً دس مربع میل زرعی زمین مسجد کے لیے مختصر کی گئی ہے۔ زمین پر باغ ہیں جن سے ہونے والی آمدنی سے مسجد کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔
اس کے بعد بھی اگر مسجد کو کبھی مالی معاونت کی ضرورت پڑے تو رئیس کے یہی چھے بیٹے مل کر اس ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ رئیس کے گھر کے سامنے بھی مسجد میں داخلے کا ایک دروازہ ہے جہاں سیڑھیاں ایک دائرے کی صورت بنی ہوئی ہیں۔ مسجد میں داخلے کے لیے اب یہی ایک دروازہ استعمال ہوتا ہے۔ دائیں جانب بنی سڑھیاں آپ کو مسجد کے مرکزی ہال کی طرف لے جاتی ہیں جب کہ نیچے کے حصے میں بنے مدرسے میں طلباء قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
پہلی منزل پر آپ ایک ڈھکے ہوئے صحن سے گزر کر ایک ہال میں داخل ہوتے ہیں تو کسی شیش محل کا احساس ہوتا ہے۔ چھت سمیت ہر طرف شیشے کا ہی کام ہے۔ کام بھی ایسا کہ انسان دھنگ رہ جائے۔ یہیں سے آپ مرکزی ہال کی جانب بڑھتے ہیں۔ کم از کم میں نے آج تک کسی مسجد کا ایسا ہال نہیں دیکھا۔ پہلی ہی نظر میں یہ مرکزی ہال آپ کو فلم مغلِ اعظم کی یاد دلاتا ہے۔ محرابوں پر سونے کے اوراق چڑھائے گئے ہیں۔
خوب صورت لال ایرانی قالین ہال کی خوب صورتی کو چار چاند لگاتے ہیں۔ یہاں بھی دیواروں پر خوب صورت شیشے کا کام کیا گیا ہے۔ رہی سہی کسر فانوس پوری کر دیتے ہیں۔ چھت سے ہی جب آپ باہر کی جانب بڑے گیٹ پر نظر ڈالیں تو بیرونی صحن میں بنے اسی قرآن اور رحل کے پیچھے جب دروازے کے اوپر لکھا اسمِ محمدﷺ ایک ہی فریم میں آتا ہے تو زبان سے سبحان اللہ ضرور نکلتا ہے۔
بھونگ مسجد سے نکلنے کو جی نہ چاہتا تھا مگر وقت کم تھا اور مقابلہ سخت۔ دن چھوٹا تھا اور ابھی ہمیں بھونگ سے صادق آباد جانا تھا اور پھر اوچ شریف۔ مسجد کے باہر ہی بازار لگا تھا۔ اب اتنا وقت تو تھا ہی کہ بندہ بازار میں سے سے گزرتا ہوا دو تین دکانیں ہی اندر سے دیکھ لے۔ اب یہاں سے ایک اجرک لینا تو بنتا تھا۔ ایک سندھی اجرک خریدیں گئی اور پھر ہم اسی چنگ چی پر واپس صادق آباد آ گئے۔
ہمارا منہ اب اوچ شریف کی طرف تھا۔ صادق آباد لاری اڈے سے گاڑی اوچ شریف جانے کو تیار تھی جس کا کرایہ سات سو روپے تھا مگر شنید تھی کہ یہ گاڑی بہت دیر کر دے گی۔ صادق آباد سے ملتان فیصل مورز کی گاڑی بیس منٹ کے بعد نکل رہی تھی۔ کرایہ چودہ سو روپے تھا۔ یہاں کرایہ زیادہ تھا مگر وقت کی بچت ہو جانی تھی۔ ہم نے وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور چپ چاپ ملتان کی ٹکٹ کٹوا لی۔ ناشتہ ہم دونوں میں سے کسی نے نہ کیا تھا اور سامنے ٹرک ہوٹل تھا۔ سادی ماش کی دال کی پلیٹ لگوائی۔ دال شکل سے ہی بدمزہ لگ رہی تھی۔ چکن کی گریوی کا تڑکا بھی دال کے ذائقے کو بہتر نہ کر سکا۔ ماش کی دال ہمارے منہ میں جانے تک بالکل سفید تھی۔
اندر جا کر نہ جانے اس کا رنگ کیسا ہوا ہو۔ ہوٹل والے سے شکایت کرنے پر پتہ چلا کہ یہ تو یہاں کی بہت مشہور سفید دال ہے۔ نہ جانے کن لوگوں نے اسے مشہور کروا دیا تھا۔ جن لوگوں یہ دال پسند تھی، ان کے ذائقے پر بھی حیرت ہے۔ چائے کا ایک کپ پیا اور اتنے میں گھڑی نے گیارہ بجا دئیے اور گاڑی ملتان کی طرف چل دی جس نے ہمیں اوچ شریف میں عین موٹر وے پر ہی اتار دیا۔ ڈرائیور بھائی صاحب فرمانے لگے کہ یہاں سے سیڑھیاں نیچے اتر جائیں۔ اوچ شریف کی سڑک تو موٹر وے سے کافی نیچے تھی۔ گاڑی میں بیٹھ کر تو سیڑھیاں نظر نہ آئیں مگر ذرا جھک کر دیکھا تو ایک قدم جتنی چوڑھی سیڑھیاں نیچے اتر رہی تھیں۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے ان پر قدم رکھا اور پھر نیچے اوچ شریف کی سڑک پر پہنچ گئے۔
سڑک پر پہنچے تو سامنے ایک فرشتہ ہمارا منتظر تھا۔ یقیناً وہ ایک فرشتہ ہی تھا اور اگر وہ کوئی عام انسان تھا تو آپ یقین مانیں اس دن وہ وہاں خود نہیں کھڑا ہوا تھا بلکہ اس پر وحی کی گئی تھی۔ اسے وہاں بھیجا گیا تھا کہ جاؤ اوچ شریف کے ٹول پلازہ پر جا کر کھڑے ہوجاؤ۔ وہاں ایک نکما اور سست ترین بٹ آنے والا ہے۔ جسے کچھ بھی نہیں پتا۔ جو دل کے کسی کونے میں مسجد سکینہ الصغریٰ جانے کی خواہش دبائے بیٹھا ہے (اس وقت تک میں نے علی عمر کو بھی نہیں بتایا کہ جتوئی کے قریب بھی کوئی مسجد ہے جسے دیکھنا چاہیے) وہ فرشتہ موٹر سائیکل پر تھا۔ اس سے اوچ شریف کے مزارات اور پھر واپس اسی جگہ پر آنے کا کرایہ تین سو روپے طے پایا۔ ہم بائیک پر بیٹھے اور کچھ ہی دیر کے بعد ہم اوچ شریف کے مزارات پر پہنچ گئے۔
معلوم نہیں کہ آپ کے نزدیک اوچ شریف کا ابتدائی تعارف کیا ہے۔ یہاں کے صوفیاء کرام یا پھر وہ ٹوٹے ہوئے مزارات جن کو پنجند نے 1817 میں تباہ کردیا تھا۔ کم از کم میرے نزدیک تو اوچ شریف کا سب سے پہلا تعارف تو بابا بلّھے شاہ ہی ہیں۔
سید بلھے شاہ کا آبائی وطن علاقہ بہاولپور کا مشہور گاؤں اُچ گیلانیاں ہے۔ آپ کے اجداد میں جو بزرگ سب سے پہلے 887 عیسوی میں حلب سے آ کر اُوچ شریف میں آباد ہوئے وہ حضرت شیخ بندگی محمد غوث تھے۔ ان سے اڑھائی سو سال قبل بخاری سادات کے بزرگوں میں سید جلال الدین سرخ بخاری ملتان آ کر حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی کے دست پرست پر بیعت ہوئے اور ان سے خرقہ خلافت حاصل کر کے ان کے ارشاد کی بنا پر اوچ شریف میں آباد ہوئے۔
تسی اُچے تہاڈی ذات وی اچی، تسی وچ اُچ دے راہندے
اسی قصوری، ساڈی ذات قصوری، اسی وچ قصور دے راہندے
اوچ شہر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس شہر کا حوالہ 550 قبل مسیح تک جاتا ہے۔ کسی زمانے میں اوچ ایک سلطنت کا نام تھا۔ پانچ دریاؤں کے سنگم پر واقع شہر اوچ کبھی علم و عرفان کا شہر تھا مگر آج کا اوچ شریف جنوبی پنجاب کا ایک انتہائی پس ماندہ شہر ہے۔ تحصیل احمد پور شرقیہ ہے جبکہ ضلع بہاولپور ہے۔ یہاں 370 ہجری میں صوفیاء کرام کی آمد شروع ہوئی۔
ماضی میں شہر کے کئی نام تھے مگر جب جلال الدین بخاری سرخ پوش نے راجا دیو سنگھ سے یہ شہر حاصل کیا تو اسے راجا کی بیٹی اوچا رانی کی نسبت سے اوچ کا نام دیا۔ جلال الدین بخاری چوں کہ خود بھی ایک صوفی بزرگ تھے، اس لیے ساتھ شریف کا اضافہ بھی کر دیا۔ جلال الدین بخاری 595 ہجری میں بخارا شہر میں پیدا ہوئے اور 690 ہجری میں یہیں اوچ شریف میں ہی فوت ہوئے۔ اوچ شریف کا واحد مزار جو اپنی اصلی حالت میں موجود ہے وہ حضرت جلال الدین سرخ پوش کا ہی ہے۔
جلال الدین بخاری سرخ پوش کے مزار کے ساتھ ہی ان کی پوتی بی بی جیوندی کا مقبرہ ہے۔ بی بی جیوندی کا مقبرہ خراسان کے حکم راں محمد دلشاد نے پندرہویں صدی عیسوی کے آخر میں تعمیر کروایا تھا۔ یہ اوچ شریف کا ایک نمایا مقبرہ ہے۔ مقبرہ ہشت پہلو پر پکی اینٹوں سے بنایا گیا ہے جس کے ہر کونے پر برج ہیں۔ محراب والی کھڑکیوں والے چھوٹے ہشت پہلو پر ایک گنبد اوپر اٹھایا گیا تھا۔
بیرونی حصے کو سفید اور نیلے رنگ کی کاشی ٹائیلون سے مزین کیا گیا ہے۔ گو کہ مقبرہ جزوء طور پر منہدم ہوچکا ہے لیکن اس کا ہم آہنگ ڈیزائن اس کی اصل ترتیب کو تصور کرنا آسان بنایا ہے۔ مقبرے کا ڈیزائن ملتان میں شاہ رکن عالم کے مزار سے کافی ملتا جلتا ہے جو 1320 اور 1324 عیسوی کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا۔ 1817 عیسوی میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے مقبرے کی ساخت کو بدقسمتی سے کافی نقصان پہنچا تھا۔ یہ مقبرہ یونیسکو کی عالمی ثقافتی فہرست میں شامل ہے۔
بی بی جیوندی کے مزار کے ساتھ ہی مقبرہ بہاول حلیم ہے۔ یہ مقبرہ چودھویں صدی کے وسط میں تعمیر ہوا۔ آپ نہ صرف اپنے دور کی نمایاں علمی و ادبی شخصیت تھے بلکہ مدرسہ بہایا اوچ کے نامور استاد تھے۔ آپ سید جلال الدین بخاری جہان گشت کے استاد تھے۔ روایت ہے کہ ان کا مقبرہ ان کے نام ور شاگرد نے بنوایا تھا۔ 1817 عیسوی میں شدید سیلاب نے اس علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور جس ٹیلے پر یہ مقبرہ کھڑا تھا اس کا آدھا حصہ بہہ گیا۔ مقبرہ ہشت پہلو تیرہ فٹ چوڑی دیواروں پر مشتمل ہے۔ ہر پہلو پر برج اور ایک گنبد ہے جو ہشت پہلو سے اوپر اٹھایا گیا ہے۔
بہاول حلیم کے مقبرے کے جنوب مغرب میں تعمیر کردہ سلسلے کا تیسرا مقبرہ اس معمار کا ہے جس نے مذکورہ بالا دو مقبرے تعمیر کیے تھے۔ اس روایت کے پیش نظر یہ مقبرہ ان دونوں کا ہم عصر ہے۔ اسے چوکور بنیاد پر بنایا گیا ہے اور اس کا گنبد ہشت پہلو بنیاد پر رکھا گیا ہے۔ اس مقبرہ کی تعمیر میں بھی روغنی ٹائلوں کا استعمال انتہائی مہارت اور خوب صورتی سے کیا گیا ہے۔1817 عیسوی میں سیلاب کی وجہ سے اس مقبرے کی ساخت کو بھی بدقسمتی سے کافی نقصان پہنچا ہے۔
گنبد کے ساتھ محراب والے دریچے ہیں۔ مقبرہ کو خوب صورت کاشی ٹائلوں سے انتہائی دل کش انداز میں آراستہ کیا گیا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے مقبرہ کو بدقسمتی سے کافی نقصان پہنچ چکا ہے۔
اوچ شریف کے مزارات دیکھ چکے تو گھڑی تین بجا چکی تھی۔ علی عمر نے ہیڈ پنجند دیکھنے کی خواہش کی۔ بقول علی عمر وہاں پانچ دریا ملتے ہیں حالاں کہ وہ کوئی اور جگہ تھی۔ تب میں نے اسے جتوئی کی ایک مسجد کے بارے بتایا۔ وہاں جانے کا راستہ کیسا تھا اور کیسے جایا جا سکتا تھا، میں خود بھی اس بارے مکمل طور پر لا علم تھا۔ اسی فرشتہ صفت بائیک والے سے بھی راہ نمائی لی مگر اس کی بات مجھے ذرا سمجھ نہ آئی۔
ایسا نہیں ہے کہ مجھے سرائیکی زبان سمجھ نہیں آتی۔ سمجھ میں لیتا ہوں مگر بولی نہیں جاتی۔ ہاسٹل میں رہنے کا آپ کو کم از کم اتنا فائدہ تو ہوتا ہی ہے کہ بہت سی زبانیں آپ سمجھ لیتے ہیں۔ میں نے فوراً ملتان والے ڈاکٹر مزمل کو فون ملایا۔ انھوں نے کچھ آسان راستہ سمجھایا کہ اوچ شریف سے بذریعہ علی پور جتوئی پہنچو۔ وہاں سے کوئی گاڑی پکڑو جو کوٹلہ رحم علی سے گزرے۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے کم از کم دو گاڑیاں بدلنی پڑتی تھیں۔ وہ بائیک والا ہمیں مزارات سے اوچ ملتان روڈ پر لے آیا۔
اب ہمیں یہاں کسی ایسی گاڑی کا انتظار کرنا تھا جو ملتان کا رہی ہو۔ بائیک والے کو پتا نہیں کیا سوجھی کہ اس نے ہمیں علی پور چھوڑنے کی حامی بھر دی، جس کے بدلے اس نے ایک ہزار روپے کا ہدیہ مانگ لیا۔ میں نے فوراً ہامی بھرلی کیوںکہ اگر کسی لوکل گاڑی کا انتظار کرتے جس کے دور دور تک کوئی اثرات نظر نہ آتے تھے، ہمیں شام شاید یہیں پڑ جاتی۔ بائیک والا نہ جانے کیا کیا قصے کہانیاں سنایا رہا۔ میں بھی اس سے راستوں کے بارے پوچھتا رہا۔ راستے میں ہی ہیڈ پنجند بھی آ گیا۔ یہاں کے پانی کم از کم پانچ دریاؤں کے پانی تو کسی صورت بھی محسوس نہ ہوتے تھے۔
یہاں ایک یادگاری تصویر بنائی اور بنا وقت ضائع کیے آگے بڑھ گئے۔ ہم باتیں کرتے جاتے تھے کہ علی پور آ گیا۔ ہمارے سامنے ایک بڑی بس جا رہی تھی۔ اسی بائیک والے نے ذرا شور مچانا شروع کردیا اور کنڈیکٹر کو ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کر دیا۔ یہ بس ڈیرہ غازی خان کا رہی تھی۔ اسی نے بتایا کہ ڈیرہ غازی خان جانے والی ہر گاڑی جتوئی شہر اور پھر کوٹلہ رحم علی شاہ سے گزر کر جاتی ہے۔
ہم فوراً بائیک سے اترے، ایک ہزار روپے کا نوٹ دیا اور بس میں سوار ہوگئے۔ مجھے بعد میں افسوس ہوا کہ نہ اس سے نام پوچھا اور نہ اس کے ساتھ کوئی فوٹو بنا سکا۔ وہ ایک شریف اور سادہ سا بندہ تھا۔ وہ شخص اگر ہمیں بائیک پر اوچ شریف سے علی پور نہ لاتا تو مسجد سکینہ الصغریٰ دیکھ پانا ناممکن ہوتا۔ اگر وہ میری طرح کا کوئی اکھڑا ہوا، اپنے کام سے کام رکھنے والا بندہ ہوتا تو کب کا ہمیں اوچ ملتان روڈ پر اتار کر جاچکا ہوتا مگر وہ تو ایک سادہ دیہاتی سرائیکی تھا جس تک شاید ابھی زمانے کی چالاکیاں نہیں پہنچی تھیں۔ ہم ڈیرہ غازی خان والی گاڑی میں بیٹھے اور پھر میں نے پیچھے اس کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔ شاید یہی خود غرضی ہے کہ جب سامنے منزل نظر آتی ہے تو بعض لوگ بوجھ محسوس ہوتے ہیں۔
گاڑی کے آخر پر سیٹ ملی تو آس پاس کے لوگوں سے معلومات لینے لگے۔ تسلی ہوئی جب سب لوگوں نے بتایا کہ گاڑی مسجد کے پاس سے ہی گزرے گی بس پانچ دس منٹ کی واک کرنا پڑے گی۔ یہ لوکل بس بالکل ایسے ہی تھی جیسی ہمارے یہاں ہر شہر میں چلتی ہیں بلکہ یہ کہنا شاید زیادہ مناسب ہو گا کہ چلتی کم تھی، رکتی زیادہ تھی۔ کبھی مونگ پھلی ریوڑی بیچنے والا کوئی بس میں چڑھ آتا تو کبھی کوئی منجن بیچنے والا۔ بس نہ ہوئی ہماری قومی اسمبلی ہوگئی۔ کچھ اسٹاپ بعد میرے ساتھ ایک سِیل ککڑ صاحب بیٹھ گئے جس کی گردن خاصی لمبی تھی۔ اپنے مالک کی گود میں بیٹھا تھا، شاید اسی لیے شریف تھا ورنہ مجھے کاٹ کھانے میں ذرا دیر نہ کرتا۔ اسی دوران موبائل چیک کیا تو ڈاکٹر صاحب نے میسج باکس میں شہزاد علی کا نمبر بھیج رکھا تھا۔ رابطہ ہوا تو معلوم پڑا کہ وہ کسی کام سے علی پور میں تھے۔
ہم نے انھیں مسجد میں ہی ملنے کا کہا تاکہ وہ بھی کام آسانی سے نمٹالیں کیوںکہ ضرورت ہمیں ان کی واپسی پر پڑنا تھی۔ گاڑی نے جتوئی کے علی المرتضیٰ چوک میں بریک لگائی تو کنڈیکٹر نے جتوئی والے، جتوئی والے کا شور مچا دیا۔ میرے بھی ہوسٹل میں ایک لڑکا رہتا تھا جس کا نام کچھ تھا مگر چوں کہ وہ جتوئی سے تھا، اس لیے سب اسے جتوئی ہی کہتے تھے۔ مگر یہ تو پندرہ سال پرانی بات ہے۔ نہ جانے اب وہ کہاں ہوگا۔ کوئی ہمیں یاد کرے یا نہ کرے مگر ہم تو سب کو یاد کرنا فرضِ عین سمجھتے ہیں۔ کچھ ہی دیر بھی کوٹلہ رحم علی شاہ اسٹاپ بھی آ گیا۔ ہم نیچے اترے تو درختوں کے پیچھے سے مسجد کے مینار صاف دکھائی دے رہے تھے۔
اگر آپ جنوبی پنجاب کی سیاحت کو نکلیں ہیں تو جتوئی شہر کے ایک چھوٹے سے قصبے کوٹلہ رحم علی میں بنی سکینہ الصغریٰ مسجد دیکھے بنا گھر آنا یقیناً زیادتی ہوگی۔ مسجد کی بنیاد 31 جنوری 2006 میں ڈاکٹر اسماعیل احمد حسین بخاری نے اپنے چھوٹے بھائی سید شکیل احمد حسین کے ساتھ رکھی تھی۔ مسجد کا نام دونوں بھائیوں کی والدہ اور پھوپی کے ناموں کو جوڑ کر رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر بخاری جو 1975 سے امریکا میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک عرصے سے خواہش تھی کہ وہ اپنے آبائی علاقے میں ایک عظیم الشان مسجد قائم کریں۔ مسجد سکینہ الصغریٰ جسے نہ صرف ترک انجنیئر نے تعمیر کروایا بلکہ اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والا سامان اور کاری گر بھی ترکی سے ہی آئے۔
مسجد کو آیا صوفیہ کی طرز پر ہی تعمیر کیا گیا ہے۔ آپ جتوئی سے ڈیرہ غازی خان کو جاتی گاڑی میں اگر سوار ہوں تو آپ کو کوٹلہ رحم علی شاہ سٹاپ پر ہی اترنا پڑے گا۔ یہیں سے آپ کو مسجد کے بلندوبالا مینار بھی نظر آنا شروع ہوجائیں گے جن کی بلندی تقریباً 55 فٹ ہے۔ کوٹلہ اسٹاپ سے تقریباً پانچ منٹ پیدل چلنے کے بعد آپ مسجد سکینہ الصغریٰ میں داخل ہوجائیں گے۔ مسجد کا رقبہ 52 ایکڑ ہے جس کے آغاز پر ہی دو بڑے بڑے لان ہیں، جہاں پودوں کی تراش خراش ایسے کی گئی ہے کہ بڑا سا لفظ اللہ اور اسمِ محمد وجود میں آ چکا ہے۔ مسجد تین منزلہ ہے۔ نماز نیچے والی منزل میں ہوتی ہے۔ اوپر والی دونوں منازل عام طور پر بند ہوتی ہیں جنھیں صرف سیاحوں کے لیے کھولا جاتا ہے۔
زیریں منزل کے علاوہ آپ بالائی منزل سے بھی سیڑھیوں کے ذریعے مسجد میں داخل ہوسکتے ہیں۔ مرکزی ہال کے درمیان میں ایک بڑا سا جھومر لگا ہے جو واقعی میں مسجد کے ماتھے کا جھومر ہے۔ مسجد کے اندر آپ کو جنوبی پنجاب کا روایتی نیلا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ آپ اگر زیریں منزل سے مسجد میں داخل ہوں تو جھومر کے پاس جا کر لیٹ جائیں۔ آپ کی نگاہ سیدھا اوپر والے گنبد پر جائے گی۔
پہلی منزل کے ہال پر بالکل ویسے ہی چاروں خلفائے راشدینؓ کے ناموں کے علاوہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے نام کی خطاطی کی گئی ہے جس طرح ترکی کی آیا صوفیہ میں۔ مسجد کا گنبد بھی آیا صوفیہ جیسا ہے اور مینار بھی۔ مسجد پر پہلی نظر ڈالتے ہی آپ پہچان جاتے ہیں کہ اسے آیا صوفیہ کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ مسجد کے ساتھ ہی ایک اسکول بھی بنایا گیا ہے جہاں مستحق بچوں کو ہاسٹل کی سہولت بھی دی گئی ہے۔ بچے اسکول میں دینی تعلیم کے علاوہ دنیوی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔ مسجد کو ڈیڑھ سال کے قلیل عرصے میں تعمیر کیا گیا ہے۔
اگرچہ کہ پلان میں صرف بھونگ اور اوچ شریف شامل تھے مگر میرے ذہن میں جتوئی کی سکینہ الصغریٰ مسجد بھی تھی جو ذرا دوڑ لگا کر دیکھی جا سکتی تھی۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ خاص اس مسجد کے لیے بعد میں اس طرف نہ آیا جا سکتا تھا۔ جب اوچ شریف میں آنکھوں کی اچھی طرح تسکین ہو چکی تو فوری طور پر ڈاکٹر مزمل ہاشمی کو کال ملایا اور عرض کی کہ اوچ سے اس مسجد کی جانب کیسے سفر کیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے جو سفری راہ نمائی کی سو کی مگر ایک نمبر سینڈ کر دیا کہ یہ شہزاد علی ہیں۔
ان سے رابطہ کرو۔ میں شہزاد علی سے رابطہ کیا کرتا، ان کا خود ہی فون آ گیا اور مسجد تک جانے کی پوری ہدایات جاری کر دیں۔ ہم مسجد پہنچے تو ایک طرف شہزاد علی اپنی سرائیکی روایات کے مطابق ہاتھ جوڑے دروازے پر ہی کھڑے تھے۔ یہاں مجھے وہ واقعہ یاد آ گیا جو تارڑ صاحب نے ایک بار سنایا تھا۔ تارڑ صاحب کہتے ہیں کہ ایک بار عابدہ پروین نے انھیں اپنے اسلام آباد والے گھر میں کھانے پر مدعو کیا۔ جب وہ گھر پہنچے تو دروازے پر عابدہ پروین کو ان کے شوہر اور بیٹیوں کے ہمراہ ہاتھ جوڑے کھڑا پایا۔ عابدہ پروین نے تارڑ صاحب کو بتایا کہ ہمارے یہاں مہمان کے استقبال کا یہی طریقہ ہے کہ اپنے اہل وعیال کے ہمراہ دروازے پر ہاتھ جوڑے اس کو خوش آمدید کہا جائے۔
میں اکثر یہ سوچتا تھا کہ عابدہ پروین نے تارڑ صاحب کو خوش آمدید کیسے کہا ہوگا اور کوئی ہاتھ جوڑے مہمان کو کیسے خوش آمدید کہتا ہوگا۔ یہ وہ باتیں تھیں جو کم از کم میری عقل میں تو نہ آتی تھیں مگر اس شام جب شہزاد علی نے ہمیں ہاتھ جوڑ کر جتوئی مسجد میں خوش آمدید کہا تو مانو جیسے آنکھیں بھیگ سی گئی ہوں۔ وہ ہمیں مسجد کے اُس اُس کونے میں لے کر گئے جہاں ایک عام مسافر کو جانے کی اجازت نہیں۔ مغرب کی نماز مسجد میں ادا کر چکنے کے بعد شہزاد علی ہمیں اپنی ہی بائیک پر بٹھا کر جتوئی شہر لے گئے۔
خاص محبتوں میں گوندھا ہوا ایسا لذیذ کھانا کھلایا جس کا ذائقہ یقیناً آخری سانسوں تک زبان پر رہے گا۔ شہزاد علی نے یہیں پر اختتام نہیں کیا۔ انھیں چوں کہ جتوئی کی گاڑیوں کا علم تھا تو وقت کے مطابق ہمیں جتوئی اڈے پر لے آئے اور ہمیں لاہور جانے والی گاڑی پر بٹھا دیا جس نے مجھے ملتان اتارنا تھا۔ ہم جب اپنی گاڑی میں بیٹھے اس کے چلنے کا انتظار کر رہے تھے تو شہزاد علی ایک بار پھر گاڑی میں ہمارے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔ ہمیں ایک شاپر زبردستی تھما دیا جس میں دورانِ سفر کھانے پینے کی کچھ چیزیں تھیں۔ یہ خاص محبتیں شاید قدرت نے سیاحوں نے حصے میں ہی لکھی ہیں۔ صرف ایسے سیاحوں کے حصے میں جن کے میزبان وسیب واسی ہوں، سرائیکی ہوں۔
شہزاد علی سے جان پہچان ذرا بھی نہ تھی اور نہ ڈاکٹر صاحب میرے کچھ لگتے ہیں مگر آپ ان سرائیکیوں کی بے وقوفی دیکھیں کہ ملتان کا ایک ڈاکٹر میری ایک کال پر اپنے سب کام کاج چھوڑ کر شہزاد علی کو میرے پیچھے لگا دیتا کہ اس نمونے کو سنبھالو ورنہ اس شام کے پہر میں مسجد دیکھنا اور پھر جتوئی سے واپس ملتان جانا ناممکن ہوگا اور شہزاد علی کیسا بے وقوف ہے کہ ڈاکٹر صاحب اسے میرا نام صرف حارث بتاتے ہیں اور شہزاد علی مجھے فوراً جان جاتا ہے اور ڈاکٹر صاحب سے کنفرم کرتا ہے کہ کیا یہ حارث بٹ ہے۔
تصدیق ہونے پر یہ شہزاد علی جو جتوئی سے بھی پیچھے کسی قصبے علی پور میں تھا، وہاں سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور فوراً اپنے آپ کو ہماری خدمت میں دے دیتا ہے اور پھر ہمارے ملتان پہنچ جانے تک ہم سے رابطے میں بھی رہتا ہے کہ میں مقررہ وقت پر ملتان پہنچا بھی ہوں یا نہیں؟ یہ محبتوں کے قرض میں کیسے اتاروں گا؟
بات بہت پرانی ہے۔ کم از کم چودہ پندرہ سال پرانی تو ہوگی یعنی دن میرے طالبِ علمی کے تھے، ہاسٹل کے تھے۔ لائبریری میں کسی سنڈے میگزین میں دو سیاحتی مضامین پڑھے۔ ایک چنیوٹ کے عمر حیات محل کے بارے میں تھا اور دوسرا صادق آباد کی بھونگ مسجد کے بارے میں۔ میں ان دنوں فیصل آباد میں تھا اور چنیوٹ وہاں سے قریب ہی تھا تو اپنے ایک دوست کے ساتھ عمر حیات محل دیکھنے کے لیے نکل پڑا۔ صادق آباد کے بارے معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ یہ پنجاب اور سندھ کی سرحد پر ہے اور پنجاب کی طرف یہ آخری شہر ہے۔
میرا روم میٹ غفران انھی علاقوں کا تھا۔ غفران جو تب بھی میرے دل کے بہت قریب تھا، اب بھی میرے دل کے بہت قریب ہے۔ قصہ مختصر میں صادق آباد نہ جا سکا مگر بھونگ کا نام میرے دل پر نقش ہو گیا۔ ہم آخری سال میں تھے تو غفران کے کچھ کلاس فیلوز نے جنوب کی طرف سفر کیا۔ واپسی پر میں نے سب کی تصاویر دیکھیں تو حسد کے مارے بس خاموش ہی بیٹھا رہا۔ آپ کو خواہ برا لگے مگر حقیقت یہی ہے کہ میں بھلا کا ایک حاسد انسان ہوں۔ میں اشتیاق سے بھونگ مسجد کی تصاویر دیکھتا رہا اور چپ رہا۔ یہ بات شاید 2009 کے آخر یا 2010 کے شروع کی ہے۔
بھونگ کبھی میرے دل و دماغ سے گیا ہی نہیں۔ میں نے اسے کبھی جانے بھی نہیں دیا۔ جانے دیتا بھی تو کیسے؟ بھونگ مسجد نے مجھے اپنے حصار میں لے رکھا تھا اور اب جب کہ میں بھونگ مسجد دیکھ چکا ہوں، اس کے سونے کے اوراق سے سجے محرابوں سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر چکا ہوں تو جی بار بار وہیں جانے کو چاہتا ہے۔
میں جو اس وقت بالائی پنجاب کے بالکل کونے میں بیٹھا پنجاب کے بالکل آخری قصبے بھونگ کی مسجد کو یاد کرتا ہوں تو دل اداس سا ہو جاتا ہے کہ نہ جانے اب کبھی بھونگ کو دیکھنا نصیب ہو گا بھی یا نہیں۔ سیالکوٹ سے بھونگ جانے کے لیے بارہ گھنٹے کا سفر درکار اور پھر ہم پنجاب کے قدرے ٹھنڈے علاقے میں رہنے والے سال کے مخصوص دنوں میں ہی جنوب کی طرف جا سکتے ہیں۔ وہاں کی گرمی ہمارے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ آج جب کہ چودہ پندرہ سال کی مسلسل خواہش کے بعد میں بھونگ دیکھ چکا ہوں تو دل کی کیفیت وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔ پہلے بھونگ مسجد دیکھنے کی خواہش تھی، اب بھونگ مسجد، اس کے محرابوں سے، اس کے نقش و نگار سے، اس کی میناکاری سے نہ صرف محبت ہے بلکہ عشق ہے۔
سیالکوٹ سے صادق آباد کی گاڑی کا پتا کیا تو معلوم ہوا کہ شام چھ بجے گاڑی چلے گی اور صبح چھے بجے مبلغ ستائیس سو روپے کے عوض ہمیں صادق آباد پہنچا دے گی۔ فروری کا آغاز ہوچکا تھا، موسم اور دن قدرے کھل چکے تھے البتہ کبھی کبھی بارش کا موسم بن جاتا۔ محکمۂ موسمیات نے بھی اتوار کے دن جنوبی پنجاب میں بادل چھائے رہنے کی پیش گوئی کی تھی مگر ہم نکل پڑے کہ اب اور انتظار نہ ہوتا تھا۔ گاڑی ٹھیک چھے بجے لاری اڈے سے نکل پڑی۔ لاہور میں بیس منٹ کا ایک ریسٹ تھا۔ میں نے موقع کو غنیمت جانا اور چپلی کباب کھانے نکل پڑا۔ لاہور میں نیازی اڈے کے بالکل سامنے چارسدہ کی مشہور چپل کا بورڈ لگا تھا۔
نہ جانے کیوں جب سے میں نے پشاور کے چپلی کباب کھائے ہیں، جہاں کہیں بھی چپلی کباب کا بورڈ دیکھتا ہوں تو کھانے کے لیے بیٹھ جاتا ہوں۔ حالاںکہ بورڈ چپل کا تھا مگر میرے ذہن میں چپل کباب چل رہے تھے اور میں بے وقوف سڑک پار کر کے اسی دکان میں داخل ہوگیا۔
سامنے دیکھا تو چپلوں کے ڈھیر لگے تھے جنھیں دیکھ کر یقیناً ہنسی آئی۔ پھر غور سے دکان کا نام پڑا تو ہنسی مزید گہری ہو گئی۔ قدرت کو شاید اس وقت میری خوشی منظور تھی۔ ساتھ والے ہوٹل میں بھی چپلی کباب بن رہے تھے۔ میں وہیں کھانے کے لیے بیٹھ گیا۔ میرے پاس کُل بیس منٹ تھے۔ میں نے چپلی کباب کھائے، چائے پی اور سڑک پار کر کے اپنی گاڑی کے پاس پہنچ گیا۔ ٹھیک نو بجے گاڑی لاہور ٹرمینل سے نکل پڑی اور صادق آباد کی طرف گام زن ہوگئی۔
اگرچہ کہ میں بھی ان ہی لوگوں میں سے ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ نیند تو بس اپنے ہی بستر پر آتی ہے یا اچھی نیند اپنے ہی بستر پر آتی ہے مگر رفتہ رفتہ میرا یہ نظریہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ سکون بے شک اپنے ہی بستر پر ہے مگر اب سفر کی نیند مجھے بہت مزہ دینے لگی ہے۔
سفر میں تو میں ہمیشہ سے سوتا ہی تھا مگر نہ جانے کیوں اور سفری نیند مزید گہری اور مزے کی ہوتی جا رہی ہے۔ ان گرمیوں میں جب چترال کی جانب گام زن تھا تو منزل پر پہنچ کر محترم شاہ جی جو پشاور سے بذریعہ چترال پہنچے تھے، مجھ سے سفر کے بارے پوچھا کہ جانی سفر کیسا رہا۔ میرے بجائے میرا دوسرا ہم سفر بولا،''یہ بندہ تو لاہور سے چترال تک بس سوتا ہی آیا ہے۔'' میری خوش قسمتی دیکھیں کہ میں چترال سے کیلاش کے سفر میں جو کچھ ہی دیر بعد شروع ہو گیا تھا، ایک بار پھر سوگیا۔ بہت پہلے سفر کرنا بہت برا لگتا تھا۔
اب بھی شاید اگر مجبوری میں سفر کرنا پڑے تو میرے لیے مشکل ہو مگر سیاحتی سفر مجھے بہت سکون دیتا ہے۔ سیالکوٹ سے صادق آباد کا بارہ گھنٹے کے سفر نے مجھے ذرا بھی تھکان نہیں دی۔ صبح چھ بجے جب صادق آباد اترا تو طبعیت پر ذرا بھی ناگواری کے اثرات نہ تھے۔ ایسا بھی نہ تھا کہ یہ بارہ گھنٹے میں نے سو کر ہی گزارے بلکہ درمیان درمیان میں آنکھ کھلتی بھی رہی تھی۔ میں ان لمحوں میں ہلکا پھلکا میوزک سنتا، تیزی سے پیچھے جاتی ہوئی سفر کو تکتا رہتا، کوئی کتاب پڑھتا اور کچھ دیر کے بعد پھر سو جاتا۔ نہ جانے کون کون سے شہر گزر رہے تھے اور میں وسطی پنجاب سے جنوبی پنجاب میں داخل ہو گیا۔ رات کے نہ جانے کس پہر آنکھ کھلی۔ آنکھ کھلی تو یہ کوئی لاری اڈا سا معلوم ہوا جو بالکل بند تھا۔ سب دکانیں بند تھیں مگر ایک چائے کی ریڑھی لگی ہوئی تھی۔ فروری کی خنک زدہ رات میں چائے والا ایک ریڑھی پر چائے بنا رہا تھا۔ رات کے شاید تین بج رہے تھے۔
اتنی رات گئے اس چائے والے کے یہاں اتنا رش ہونا اس بات کی دلیل تھا کہ یہ چائے بہت مزے کی ہوگی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خان پور شہر کا مشہور چائے والا ہے اور گاڑی والا بھی صرف چائے پینے کے واسطے ہی یہاں رکا ہے۔ میرا بھی دل چاہا کہ چائے نوش کروں مگر سستی کے مارے بیٹھا رہا۔ گاڑی والے نے چائے پی اور گاڑی صادق آباد کی طرف فراٹے بھرنے لگی۔ یقینی طور پر مجھے سونا ہی تھا۔ میں نے اپنی گرم چادر کندھوں پر ڈالی اور پھر سو گیا۔ آنکھ تب کھلی جب ڈرائیور نے آواز لگائی ''صادق آباد والی سواریاں نیچے اتر جائیں۔'' اگرچہ کہ میرا ارادہ کچھ اور سونے کا تھا مگر مجبوری تھی، نیچے اترنا ہی پڑا۔ گھڑی اس وقت چھے بجا رہی تھی۔ خان پور کی طرح صادق آباد میں بھی چائے کی ریڑھیاں لگی ہوئی تھیں۔
یہ میرے لیے جنوبی پنجاب کی پہلی منفرد چیز تھی۔ میں نے آج سے پہلے ریڑھیوں پر چائے فروش ہوتے نہ دیکھی تھی۔ میں نے ساتھ ہی دکان کے سامنے کھڑی ریڑھی والے سے چائے کا ایک کپ لیا اور پینے لگا۔ مختلف ریڑھیوں والوں نے اپنی اپنی ریڑھی کے پاس گھی کے خالی کنستر میں آگ لگا رکھی تھی۔ یہ ایک قسم کی گاہک کو دعوت تھی کہ اس ٹھنڈے موسم میں آگ کے مزے لیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ کوئی آگ تاپنے آئے گا تو چائے بھی بنوا ہی لے گا۔ مؤذن کی صدائیں ہر طرف پھیل رہیں تھیں جو سب کو کام یابی کی جانب بھلا رہا تھا۔
میرا ذاتی تجربہ ہے کہ سفر میں انسان ذرا رب کے کچھ زیادہ ہی قریب ہوتا ہے۔ خوشی خوشی مؤذن کی صدا کا جواب دیا اور ساتھ ہی بنی مسجد کی جانب چلا پڑا۔ مسجد سے باہر نکلا تو صبح کی سرخی کچھ کچھ پھیلنا شروع ہوگئی تھی۔ اتنی دیر میں علی عمر ساہیوال سے صادق آباد ریلوے اسٹیشن پہنچ چکا تھا اور اب وہ ریلوے اسٹیشن سے لاری اڈے کی طرف آ رہا تھا۔
صادق آباد کے لاری اڈے سے آپ کو ہر طرح کی گاڑی میسر آئے گی۔ شہر کے لاری اڈے سے اوپر پنجاب کو جاتی گاڑیاں بھی ملیں گی اور نیچے کراچی کی طرف بھی۔ لاری اڈے سے ہی بھونگ شہر جانے کو معلومات لیں تو پتا چلا کہ ہر طرح کی سواری میسر ہے۔ سواریوں کے حساب سے چلنے والی ہائی ایس ہو یا پھر ایک اچھی پرائیویٹ گاڑی یا پھر چنگ چی رکشہ، ہر طرح کی گاڑی آپ کو اسی لاری اڈا سے ملے گی۔ ایک پرائیویٹ گاڑی کا پتہ کیا تو صاحب چار ہزار مانگ رہے تھے۔ میں نے فوراً چنگ چی والے سے بات کی۔ اس نے سولہ سو روپے مانگے اور پندرہ سو میں مان گیا۔
مجھے پیسے معقول لگے۔ واضح رہے کہ صادق آباد سے بھونگ کا فاصلہ تقریباً 28 کلو میٹر ہے۔ اگرچہ کہ میرے بیگ میں جیکٹ تھی مگر اس کی ضرورت نہ پڑی۔ گرم چادر موجود تھی، اسی کو اپنے گرد لپیٹ کر بس ناک ڈھانپ لی۔ صبح کا وقت تھا اور آسمان پر بادل چھائے تھے۔ صادق آباد سے بھونگ جانے والی سڑک تقریباً حالی تھی۔ گنے کی فصل تیار کھڑی تھی۔ سڑک کی حالت بھی اچھی تھی تو 28 کلومیٹر کا یہ سفر چنگ چی پر زیادہ محسوس نہیں ہوا۔ بھونگ بازار میں داخل ہوئے تو ابھی تک سڑک پر صفائی پروگرام چل رہا تھا۔ بھونگ مسجد کا مرکزی دروازہ اب مکمل طور پر بازار کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ یہ دروازہ اب بند ہے۔ چنگ چی والے نے ایک دوسرے چھوٹے دروازے کے سامنے چنگ چی روک دی۔
جب سورج چڑھتا ہے تو ساری دنیا کو دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح جب بارش کے بعد آسمان پر دھنک بنتی ہے تو اس کے گہرے رنگ سب اندھوں کو بھی دکھائی دیتے ہیں۔ دھنک کے رنگ یا تو بہت گہرے ہوتے ہیں یا پھر دھنک ہوتی ہی نہیں ہے مگر ایک جگہ ایسی ہے جہاں دھنک کے رنگ واقعی ماند پڑ جاتے ہیں۔ اگر آپ نے دھنک سے بھی زیادہ خوب صورت رنگ دیکھنے ہوں تو جنوبی پنجاب کی بھونگ مسجد دیکھنے کے لیے نکل پڑیں۔ بھونگ مسجد جہاں دنیا کے سب رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ جہاں چاروں سُو بس قدرت کے رنگ ہی بکھرے پڑے ہیں۔ ایسے رنگ جو کبھی مانند نہیں پڑے۔ ایسے رنگ جو مانند پڑ ہی نہیں سکتے۔
تمام مساجد اللہ کا گھر ہیں، اس لحاظ سے سب ہی خوب صورت ہیں، قابلِ احترام ہیں مگر خوب صورتی کے اعتبار سے جو مقام بھونگ مسجد کے حصے میں آیا ہے وہ شاید ہی کسی مسجد کو میسر آیا ہو۔ مسجد کی خوبصورتی انسان کو دنگ کر دینے والی ہے۔ سردار رئیس غازی محمد نے 1932 میں اس مسجد کی بنیاد رکھی۔ انھیں بشارت دی گئی تھی کہ وہ اس جگہ پر مسجد تعمیر کریں۔ مسجد کا کل رقبہ تقریباً پانچ ایکڑ ہے۔ مسجد ایسی خوب صورت ہے کہ اسے بنانے میں پچاس سال لگے یعنی 1982 میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی مگر حقیقت میں مسجد کی خوبصورتی پر کام اب بھی جاری ہے۔ مسجد کے کشادہ صحن، اس کی میناکاری، قیمتی پتھر، نگینے الغرض کس کس خوب صورت شے کا ذکر کیا جائے۔
سب کچھ ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ مسجد کو تعمیر کرتے وقت اس کا کوئی خاص نقشہ نہیں بنوایا گیا تھا۔ رئیس غازی محمد ایک سیاح بھی تھے۔ وہ سیاحت کی غرض سے دنیا کے مختلف ممالک کا دودہ کرتے اور وہاں سے واپسی پر اپنے تجربات، وہاں کی عمارات کی تصاویر اپنے تعمیراتی عملے سے شئیر کرتے۔ مسجد میں آپ کو ایرانی رنگ بھی نظر آتا ہے اور سینٹرل ایشیا کا بھی۔ مسجد کشمیر سمیت چاروں صوبوں کی ثقافت کی بھی ترجمانی کرتی ہے۔ مسجد میں ایک وقت میں تقریباً چار ہزار کے قریب نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔
صحن میں نمازیوں کی گنجائش اس کے علاوہ ہے۔ مسجد کے بہت سے دروازے تھے مگر اب سب کو سیکیوریٹی وجوہات کی بنیاد پر بند کر دیا گیا ہے۔ صرف ایک دروازے کھلا ہے۔ بڑا دروازہ جو بازار کی طرف ہے وہ سربراہان مملکت یا بیرون ملک سے آئے وفود کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دروازے کے اوپر ایک بڑا سا خوب صورت اسمِ محمدﷺ لکھا ہے۔
آپ مسجد میں داخل ہوں تو یہ بالکل بھی اپنے آپ کو آپ پر عیاں نہیں کرتی۔ آگے بڑے بڑے درخت ہیں۔ آپ بازار کے دروازے سے مسجد میں داخل ہوں تو آپ کے سامنے ایک بڑا سا فوارہ آئے گا جس کے پیچھے پہلی منزل کے برابر بڑا سا قرآن ایک رحل پر کھلا رکھا ہے۔ یہاں سورت العق کی ابتدائی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ یہ قرآن اور رحل دونوں پتھروں سے بنائے گئے ہیں۔ یہ منظر اس قدر دل کو پکڑ لینے والا ہے کہ جی چاہتا ہے آپ اسی قرآن کے سائے میں پورا دن گزار دیں۔
اسی رحل کے نیچے سے گزر کر آپ سامنے کے دروازہ سے اندر جا سکتے ہیں مگر سامنے کا یہ دروازہ بھی بند ہے۔ آپ کو بائیں جانب بنے راستے سے گزرنا پڑے گا۔ اسی جانب رئیس غازی محمد کے چھے بیٹوں کے بڑے بڑے گھر ہیں۔ رئیس غازی محمد کے یہی چھ بیٹے مسجد کے سارے معاملات دیکھتے ہیں۔ مسجد اپنے مالی معاملات کے لیے کسی پر انحصار نہیں کرتی۔ تقریباً دس مربع میل زرعی زمین مسجد کے لیے مختصر کی گئی ہے۔ زمین پر باغ ہیں جن سے ہونے والی آمدنی سے مسجد کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔
اس کے بعد بھی اگر مسجد کو کبھی مالی معاونت کی ضرورت پڑے تو رئیس کے یہی چھے بیٹے مل کر اس ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ رئیس کے گھر کے سامنے بھی مسجد میں داخلے کا ایک دروازہ ہے جہاں سیڑھیاں ایک دائرے کی صورت بنی ہوئی ہیں۔ مسجد میں داخلے کے لیے اب یہی ایک دروازہ استعمال ہوتا ہے۔ دائیں جانب بنی سڑھیاں آپ کو مسجد کے مرکزی ہال کی طرف لے جاتی ہیں جب کہ نیچے کے حصے میں بنے مدرسے میں طلباء قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
پہلی منزل پر آپ ایک ڈھکے ہوئے صحن سے گزر کر ایک ہال میں داخل ہوتے ہیں تو کسی شیش محل کا احساس ہوتا ہے۔ چھت سمیت ہر طرف شیشے کا ہی کام ہے۔ کام بھی ایسا کہ انسان دھنگ رہ جائے۔ یہیں سے آپ مرکزی ہال کی جانب بڑھتے ہیں۔ کم از کم میں نے آج تک کسی مسجد کا ایسا ہال نہیں دیکھا۔ پہلی ہی نظر میں یہ مرکزی ہال آپ کو فلم مغلِ اعظم کی یاد دلاتا ہے۔ محرابوں پر سونے کے اوراق چڑھائے گئے ہیں۔
خوب صورت لال ایرانی قالین ہال کی خوب صورتی کو چار چاند لگاتے ہیں۔ یہاں بھی دیواروں پر خوب صورت شیشے کا کام کیا گیا ہے۔ رہی سہی کسر فانوس پوری کر دیتے ہیں۔ چھت سے ہی جب آپ باہر کی جانب بڑے گیٹ پر نظر ڈالیں تو بیرونی صحن میں بنے اسی قرآن اور رحل کے پیچھے جب دروازے کے اوپر لکھا اسمِ محمدﷺ ایک ہی فریم میں آتا ہے تو زبان سے سبحان اللہ ضرور نکلتا ہے۔
بھونگ مسجد سے نکلنے کو جی نہ چاہتا تھا مگر وقت کم تھا اور مقابلہ سخت۔ دن چھوٹا تھا اور ابھی ہمیں بھونگ سے صادق آباد جانا تھا اور پھر اوچ شریف۔ مسجد کے باہر ہی بازار لگا تھا۔ اب اتنا وقت تو تھا ہی کہ بندہ بازار میں سے سے گزرتا ہوا دو تین دکانیں ہی اندر سے دیکھ لے۔ اب یہاں سے ایک اجرک لینا تو بنتا تھا۔ ایک سندھی اجرک خریدیں گئی اور پھر ہم اسی چنگ چی پر واپس صادق آباد آ گئے۔
ہمارا منہ اب اوچ شریف کی طرف تھا۔ صادق آباد لاری اڈے سے گاڑی اوچ شریف جانے کو تیار تھی جس کا کرایہ سات سو روپے تھا مگر شنید تھی کہ یہ گاڑی بہت دیر کر دے گی۔ صادق آباد سے ملتان فیصل مورز کی گاڑی بیس منٹ کے بعد نکل رہی تھی۔ کرایہ چودہ سو روپے تھا۔ یہاں کرایہ زیادہ تھا مگر وقت کی بچت ہو جانی تھی۔ ہم نے وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور چپ چاپ ملتان کی ٹکٹ کٹوا لی۔ ناشتہ ہم دونوں میں سے کسی نے نہ کیا تھا اور سامنے ٹرک ہوٹل تھا۔ سادی ماش کی دال کی پلیٹ لگوائی۔ دال شکل سے ہی بدمزہ لگ رہی تھی۔ چکن کی گریوی کا تڑکا بھی دال کے ذائقے کو بہتر نہ کر سکا۔ ماش کی دال ہمارے منہ میں جانے تک بالکل سفید تھی۔
اندر جا کر نہ جانے اس کا رنگ کیسا ہوا ہو۔ ہوٹل والے سے شکایت کرنے پر پتہ چلا کہ یہ تو یہاں کی بہت مشہور سفید دال ہے۔ نہ جانے کن لوگوں نے اسے مشہور کروا دیا تھا۔ جن لوگوں یہ دال پسند تھی، ان کے ذائقے پر بھی حیرت ہے۔ چائے کا ایک کپ پیا اور اتنے میں گھڑی نے گیارہ بجا دئیے اور گاڑی ملتان کی طرف چل دی جس نے ہمیں اوچ شریف میں عین موٹر وے پر ہی اتار دیا۔ ڈرائیور بھائی صاحب فرمانے لگے کہ یہاں سے سیڑھیاں نیچے اتر جائیں۔ اوچ شریف کی سڑک تو موٹر وے سے کافی نیچے تھی۔ گاڑی میں بیٹھ کر تو سیڑھیاں نظر نہ آئیں مگر ذرا جھک کر دیکھا تو ایک قدم جتنی چوڑھی سیڑھیاں نیچے اتر رہی تھیں۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے ان پر قدم رکھا اور پھر نیچے اوچ شریف کی سڑک پر پہنچ گئے۔
سڑک پر پہنچے تو سامنے ایک فرشتہ ہمارا منتظر تھا۔ یقیناً وہ ایک فرشتہ ہی تھا اور اگر وہ کوئی عام انسان تھا تو آپ یقین مانیں اس دن وہ وہاں خود نہیں کھڑا ہوا تھا بلکہ اس پر وحی کی گئی تھی۔ اسے وہاں بھیجا گیا تھا کہ جاؤ اوچ شریف کے ٹول پلازہ پر جا کر کھڑے ہوجاؤ۔ وہاں ایک نکما اور سست ترین بٹ آنے والا ہے۔ جسے کچھ بھی نہیں پتا۔ جو دل کے کسی کونے میں مسجد سکینہ الصغریٰ جانے کی خواہش دبائے بیٹھا ہے (اس وقت تک میں نے علی عمر کو بھی نہیں بتایا کہ جتوئی کے قریب بھی کوئی مسجد ہے جسے دیکھنا چاہیے) وہ فرشتہ موٹر سائیکل پر تھا۔ اس سے اوچ شریف کے مزارات اور پھر واپس اسی جگہ پر آنے کا کرایہ تین سو روپے طے پایا۔ ہم بائیک پر بیٹھے اور کچھ ہی دیر کے بعد ہم اوچ شریف کے مزارات پر پہنچ گئے۔
معلوم نہیں کہ آپ کے نزدیک اوچ شریف کا ابتدائی تعارف کیا ہے۔ یہاں کے صوفیاء کرام یا پھر وہ ٹوٹے ہوئے مزارات جن کو پنجند نے 1817 میں تباہ کردیا تھا۔ کم از کم میرے نزدیک تو اوچ شریف کا سب سے پہلا تعارف تو بابا بلّھے شاہ ہی ہیں۔
سید بلھے شاہ کا آبائی وطن علاقہ بہاولپور کا مشہور گاؤں اُچ گیلانیاں ہے۔ آپ کے اجداد میں جو بزرگ سب سے پہلے 887 عیسوی میں حلب سے آ کر اُوچ شریف میں آباد ہوئے وہ حضرت شیخ بندگی محمد غوث تھے۔ ان سے اڑھائی سو سال قبل بخاری سادات کے بزرگوں میں سید جلال الدین سرخ بخاری ملتان آ کر حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی کے دست پرست پر بیعت ہوئے اور ان سے خرقہ خلافت حاصل کر کے ان کے ارشاد کی بنا پر اوچ شریف میں آباد ہوئے۔
تسی اُچے تہاڈی ذات وی اچی، تسی وچ اُچ دے راہندے
اسی قصوری، ساڈی ذات قصوری، اسی وچ قصور دے راہندے
اوچ شہر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس شہر کا حوالہ 550 قبل مسیح تک جاتا ہے۔ کسی زمانے میں اوچ ایک سلطنت کا نام تھا۔ پانچ دریاؤں کے سنگم پر واقع شہر اوچ کبھی علم و عرفان کا شہر تھا مگر آج کا اوچ شریف جنوبی پنجاب کا ایک انتہائی پس ماندہ شہر ہے۔ تحصیل احمد پور شرقیہ ہے جبکہ ضلع بہاولپور ہے۔ یہاں 370 ہجری میں صوفیاء کرام کی آمد شروع ہوئی۔
ماضی میں شہر کے کئی نام تھے مگر جب جلال الدین بخاری سرخ پوش نے راجا دیو سنگھ سے یہ شہر حاصل کیا تو اسے راجا کی بیٹی اوچا رانی کی نسبت سے اوچ کا نام دیا۔ جلال الدین بخاری چوں کہ خود بھی ایک صوفی بزرگ تھے، اس لیے ساتھ شریف کا اضافہ بھی کر دیا۔ جلال الدین بخاری 595 ہجری میں بخارا شہر میں پیدا ہوئے اور 690 ہجری میں یہیں اوچ شریف میں ہی فوت ہوئے۔ اوچ شریف کا واحد مزار جو اپنی اصلی حالت میں موجود ہے وہ حضرت جلال الدین سرخ پوش کا ہی ہے۔
جلال الدین بخاری سرخ پوش کے مزار کے ساتھ ہی ان کی پوتی بی بی جیوندی کا مقبرہ ہے۔ بی بی جیوندی کا مقبرہ خراسان کے حکم راں محمد دلشاد نے پندرہویں صدی عیسوی کے آخر میں تعمیر کروایا تھا۔ یہ اوچ شریف کا ایک نمایا مقبرہ ہے۔ مقبرہ ہشت پہلو پر پکی اینٹوں سے بنایا گیا ہے جس کے ہر کونے پر برج ہیں۔ محراب والی کھڑکیوں والے چھوٹے ہشت پہلو پر ایک گنبد اوپر اٹھایا گیا تھا۔
بیرونی حصے کو سفید اور نیلے رنگ کی کاشی ٹائیلون سے مزین کیا گیا ہے۔ گو کہ مقبرہ جزوء طور پر منہدم ہوچکا ہے لیکن اس کا ہم آہنگ ڈیزائن اس کی اصل ترتیب کو تصور کرنا آسان بنایا ہے۔ مقبرے کا ڈیزائن ملتان میں شاہ رکن عالم کے مزار سے کافی ملتا جلتا ہے جو 1320 اور 1324 عیسوی کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا۔ 1817 عیسوی میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے مقبرے کی ساخت کو بدقسمتی سے کافی نقصان پہنچا تھا۔ یہ مقبرہ یونیسکو کی عالمی ثقافتی فہرست میں شامل ہے۔
بی بی جیوندی کے مزار کے ساتھ ہی مقبرہ بہاول حلیم ہے۔ یہ مقبرہ چودھویں صدی کے وسط میں تعمیر ہوا۔ آپ نہ صرف اپنے دور کی نمایاں علمی و ادبی شخصیت تھے بلکہ مدرسہ بہایا اوچ کے نامور استاد تھے۔ آپ سید جلال الدین بخاری جہان گشت کے استاد تھے۔ روایت ہے کہ ان کا مقبرہ ان کے نام ور شاگرد نے بنوایا تھا۔ 1817 عیسوی میں شدید سیلاب نے اس علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور جس ٹیلے پر یہ مقبرہ کھڑا تھا اس کا آدھا حصہ بہہ گیا۔ مقبرہ ہشت پہلو تیرہ فٹ چوڑی دیواروں پر مشتمل ہے۔ ہر پہلو پر برج اور ایک گنبد ہے جو ہشت پہلو سے اوپر اٹھایا گیا ہے۔
بہاول حلیم کے مقبرے کے جنوب مغرب میں تعمیر کردہ سلسلے کا تیسرا مقبرہ اس معمار کا ہے جس نے مذکورہ بالا دو مقبرے تعمیر کیے تھے۔ اس روایت کے پیش نظر یہ مقبرہ ان دونوں کا ہم عصر ہے۔ اسے چوکور بنیاد پر بنایا گیا ہے اور اس کا گنبد ہشت پہلو بنیاد پر رکھا گیا ہے۔ اس مقبرہ کی تعمیر میں بھی روغنی ٹائلوں کا استعمال انتہائی مہارت اور خوب صورتی سے کیا گیا ہے۔1817 عیسوی میں سیلاب کی وجہ سے اس مقبرے کی ساخت کو بھی بدقسمتی سے کافی نقصان پہنچا ہے۔
گنبد کے ساتھ محراب والے دریچے ہیں۔ مقبرہ کو خوب صورت کاشی ٹائلوں سے انتہائی دل کش انداز میں آراستہ کیا گیا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے مقبرہ کو بدقسمتی سے کافی نقصان پہنچ چکا ہے۔
اوچ شریف کے مزارات دیکھ چکے تو گھڑی تین بجا چکی تھی۔ علی عمر نے ہیڈ پنجند دیکھنے کی خواہش کی۔ بقول علی عمر وہاں پانچ دریا ملتے ہیں حالاں کہ وہ کوئی اور جگہ تھی۔ تب میں نے اسے جتوئی کی ایک مسجد کے بارے بتایا۔ وہاں جانے کا راستہ کیسا تھا اور کیسے جایا جا سکتا تھا، میں خود بھی اس بارے مکمل طور پر لا علم تھا۔ اسی فرشتہ صفت بائیک والے سے بھی راہ نمائی لی مگر اس کی بات مجھے ذرا سمجھ نہ آئی۔
ایسا نہیں ہے کہ مجھے سرائیکی زبان سمجھ نہیں آتی۔ سمجھ میں لیتا ہوں مگر بولی نہیں جاتی۔ ہاسٹل میں رہنے کا آپ کو کم از کم اتنا فائدہ تو ہوتا ہی ہے کہ بہت سی زبانیں آپ سمجھ لیتے ہیں۔ میں نے فوراً ملتان والے ڈاکٹر مزمل کو فون ملایا۔ انھوں نے کچھ آسان راستہ سمجھایا کہ اوچ شریف سے بذریعہ علی پور جتوئی پہنچو۔ وہاں سے کوئی گاڑی پکڑو جو کوٹلہ رحم علی سے گزرے۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے کم از کم دو گاڑیاں بدلنی پڑتی تھیں۔ وہ بائیک والا ہمیں مزارات سے اوچ ملتان روڈ پر لے آیا۔
اب ہمیں یہاں کسی ایسی گاڑی کا انتظار کرنا تھا جو ملتان کا رہی ہو۔ بائیک والے کو پتا نہیں کیا سوجھی کہ اس نے ہمیں علی پور چھوڑنے کی حامی بھر دی، جس کے بدلے اس نے ایک ہزار روپے کا ہدیہ مانگ لیا۔ میں نے فوراً ہامی بھرلی کیوںکہ اگر کسی لوکل گاڑی کا انتظار کرتے جس کے دور دور تک کوئی اثرات نظر نہ آتے تھے، ہمیں شام شاید یہیں پڑ جاتی۔ بائیک والا نہ جانے کیا کیا قصے کہانیاں سنایا رہا۔ میں بھی اس سے راستوں کے بارے پوچھتا رہا۔ راستے میں ہی ہیڈ پنجند بھی آ گیا۔ یہاں کے پانی کم از کم پانچ دریاؤں کے پانی تو کسی صورت بھی محسوس نہ ہوتے تھے۔
یہاں ایک یادگاری تصویر بنائی اور بنا وقت ضائع کیے آگے بڑھ گئے۔ ہم باتیں کرتے جاتے تھے کہ علی پور آ گیا۔ ہمارے سامنے ایک بڑی بس جا رہی تھی۔ اسی بائیک والے نے ذرا شور مچانا شروع کردیا اور کنڈیکٹر کو ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کر دیا۔ یہ بس ڈیرہ غازی خان کا رہی تھی۔ اسی نے بتایا کہ ڈیرہ غازی خان جانے والی ہر گاڑی جتوئی شہر اور پھر کوٹلہ رحم علی شاہ سے گزر کر جاتی ہے۔
ہم فوراً بائیک سے اترے، ایک ہزار روپے کا نوٹ دیا اور بس میں سوار ہوگئے۔ مجھے بعد میں افسوس ہوا کہ نہ اس سے نام پوچھا اور نہ اس کے ساتھ کوئی فوٹو بنا سکا۔ وہ ایک شریف اور سادہ سا بندہ تھا۔ وہ شخص اگر ہمیں بائیک پر اوچ شریف سے علی پور نہ لاتا تو مسجد سکینہ الصغریٰ دیکھ پانا ناممکن ہوتا۔ اگر وہ میری طرح کا کوئی اکھڑا ہوا، اپنے کام سے کام رکھنے والا بندہ ہوتا تو کب کا ہمیں اوچ ملتان روڈ پر اتار کر جاچکا ہوتا مگر وہ تو ایک سادہ دیہاتی سرائیکی تھا جس تک شاید ابھی زمانے کی چالاکیاں نہیں پہنچی تھیں۔ ہم ڈیرہ غازی خان والی گاڑی میں بیٹھے اور پھر میں نے پیچھے اس کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔ شاید یہی خود غرضی ہے کہ جب سامنے منزل نظر آتی ہے تو بعض لوگ بوجھ محسوس ہوتے ہیں۔
گاڑی کے آخر پر سیٹ ملی تو آس پاس کے لوگوں سے معلومات لینے لگے۔ تسلی ہوئی جب سب لوگوں نے بتایا کہ گاڑی مسجد کے پاس سے ہی گزرے گی بس پانچ دس منٹ کی واک کرنا پڑے گی۔ یہ لوکل بس بالکل ایسے ہی تھی جیسی ہمارے یہاں ہر شہر میں چلتی ہیں بلکہ یہ کہنا شاید زیادہ مناسب ہو گا کہ چلتی کم تھی، رکتی زیادہ تھی۔ کبھی مونگ پھلی ریوڑی بیچنے والا کوئی بس میں چڑھ آتا تو کبھی کوئی منجن بیچنے والا۔ بس نہ ہوئی ہماری قومی اسمبلی ہوگئی۔ کچھ اسٹاپ بعد میرے ساتھ ایک سِیل ککڑ صاحب بیٹھ گئے جس کی گردن خاصی لمبی تھی۔ اپنے مالک کی گود میں بیٹھا تھا، شاید اسی لیے شریف تھا ورنہ مجھے کاٹ کھانے میں ذرا دیر نہ کرتا۔ اسی دوران موبائل چیک کیا تو ڈاکٹر صاحب نے میسج باکس میں شہزاد علی کا نمبر بھیج رکھا تھا۔ رابطہ ہوا تو معلوم پڑا کہ وہ کسی کام سے علی پور میں تھے۔
ہم نے انھیں مسجد میں ہی ملنے کا کہا تاکہ وہ بھی کام آسانی سے نمٹالیں کیوںکہ ضرورت ہمیں ان کی واپسی پر پڑنا تھی۔ گاڑی نے جتوئی کے علی المرتضیٰ چوک میں بریک لگائی تو کنڈیکٹر نے جتوئی والے، جتوئی والے کا شور مچا دیا۔ میرے بھی ہوسٹل میں ایک لڑکا رہتا تھا جس کا نام کچھ تھا مگر چوں کہ وہ جتوئی سے تھا، اس لیے سب اسے جتوئی ہی کہتے تھے۔ مگر یہ تو پندرہ سال پرانی بات ہے۔ نہ جانے اب وہ کہاں ہوگا۔ کوئی ہمیں یاد کرے یا نہ کرے مگر ہم تو سب کو یاد کرنا فرضِ عین سمجھتے ہیں۔ کچھ ہی دیر بھی کوٹلہ رحم علی شاہ اسٹاپ بھی آ گیا۔ ہم نیچے اترے تو درختوں کے پیچھے سے مسجد کے مینار صاف دکھائی دے رہے تھے۔
اگر آپ جنوبی پنجاب کی سیاحت کو نکلیں ہیں تو جتوئی شہر کے ایک چھوٹے سے قصبے کوٹلہ رحم علی میں بنی سکینہ الصغریٰ مسجد دیکھے بنا گھر آنا یقیناً زیادتی ہوگی۔ مسجد کی بنیاد 31 جنوری 2006 میں ڈاکٹر اسماعیل احمد حسین بخاری نے اپنے چھوٹے بھائی سید شکیل احمد حسین کے ساتھ رکھی تھی۔ مسجد کا نام دونوں بھائیوں کی والدہ اور پھوپی کے ناموں کو جوڑ کر رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر بخاری جو 1975 سے امریکا میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک عرصے سے خواہش تھی کہ وہ اپنے آبائی علاقے میں ایک عظیم الشان مسجد قائم کریں۔ مسجد سکینہ الصغریٰ جسے نہ صرف ترک انجنیئر نے تعمیر کروایا بلکہ اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والا سامان اور کاری گر بھی ترکی سے ہی آئے۔
مسجد کو آیا صوفیہ کی طرز پر ہی تعمیر کیا گیا ہے۔ آپ جتوئی سے ڈیرہ غازی خان کو جاتی گاڑی میں اگر سوار ہوں تو آپ کو کوٹلہ رحم علی شاہ سٹاپ پر ہی اترنا پڑے گا۔ یہیں سے آپ کو مسجد کے بلندوبالا مینار بھی نظر آنا شروع ہوجائیں گے جن کی بلندی تقریباً 55 فٹ ہے۔ کوٹلہ اسٹاپ سے تقریباً پانچ منٹ پیدل چلنے کے بعد آپ مسجد سکینہ الصغریٰ میں داخل ہوجائیں گے۔ مسجد کا رقبہ 52 ایکڑ ہے جس کے آغاز پر ہی دو بڑے بڑے لان ہیں، جہاں پودوں کی تراش خراش ایسے کی گئی ہے کہ بڑا سا لفظ اللہ اور اسمِ محمد وجود میں آ چکا ہے۔ مسجد تین منزلہ ہے۔ نماز نیچے والی منزل میں ہوتی ہے۔ اوپر والی دونوں منازل عام طور پر بند ہوتی ہیں جنھیں صرف سیاحوں کے لیے کھولا جاتا ہے۔
زیریں منزل کے علاوہ آپ بالائی منزل سے بھی سیڑھیوں کے ذریعے مسجد میں داخل ہوسکتے ہیں۔ مرکزی ہال کے درمیان میں ایک بڑا سا جھومر لگا ہے جو واقعی میں مسجد کے ماتھے کا جھومر ہے۔ مسجد کے اندر آپ کو جنوبی پنجاب کا روایتی نیلا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ آپ اگر زیریں منزل سے مسجد میں داخل ہوں تو جھومر کے پاس جا کر لیٹ جائیں۔ آپ کی نگاہ سیدھا اوپر والے گنبد پر جائے گی۔
پہلی منزل کے ہال پر بالکل ویسے ہی چاروں خلفائے راشدینؓ کے ناموں کے علاوہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے نام کی خطاطی کی گئی ہے جس طرح ترکی کی آیا صوفیہ میں۔ مسجد کا گنبد بھی آیا صوفیہ جیسا ہے اور مینار بھی۔ مسجد پر پہلی نظر ڈالتے ہی آپ پہچان جاتے ہیں کہ اسے آیا صوفیہ کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ مسجد کے ساتھ ہی ایک اسکول بھی بنایا گیا ہے جہاں مستحق بچوں کو ہاسٹل کی سہولت بھی دی گئی ہے۔ بچے اسکول میں دینی تعلیم کے علاوہ دنیوی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔ مسجد کو ڈیڑھ سال کے قلیل عرصے میں تعمیر کیا گیا ہے۔