پس منظر بھی ہوتا ہے ہر منظر کا
اشعار کی کہانی، شعرا ء کی زبانی
''شاعری جزو است پیغمبری'' جیسی معتبر سند رکھنے کے باوجود ایک طویل عرصے تک سخن وری کو عموماً، حقائق سے ماورا تخیلات کی منظوم لفظی عکس بندی سے تعبیر کیا جاتا رہا، مگر:
ؔ یہ بات تب کی ہے جب چارہ گر نہ تھا کوئی
چوںکہ بعد ازآں ''انجمن پنجاب'' کے بامقصد موضوعاتی مشاعروں سے شروع ہونے والا شاعری کا ارتقائی سفر جب ''ترقی پسند تحریک'' سے ہوتا ہوا، انسانی زندگی کے تمام ممکنہ حقائق بیان کرتی ''جدید شاعری'' کی منزل تک پہنچا، تو عوامی شعور کی سطح اس قدر بلند ہوچکی تھی کہ ''حلقۂ احبابِ ذوق'' میں وہی شاعری معیاری، مضبوط اور لازوال تصور کی جانے لگی جو ایک جیتے جاگتے انسانی معاشرے کے بے لاگ اور حقیقی تصویر کو اس عمدگی سے پیش کرسکے کہ بقول سیمابؔ اکبر آبادی:
؎کہانی میری رودادِجہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
ایک ''شعر ساز'' اپنے گرد و پیش میں رونما ہونے والے حالات وواقعات کو معاشرے کے دیگر عام افراد کی نسبت زیادہ باریکی سے دیکھتا اور زیادہ شدت سے محسوس کرتا ہے، اس لیے بیشتر اوقات وہ اپنی ''دیدہ وری'' کے مرہونِ منت بعض مشاہدات و واقعات یا پھر کسی شخصیت سے متاثر ہونے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جذبات و محسوسات کو شعوری طور پر باقاعدہ کسی عنوان کے تحت شاعرانہ انداز میں بیان کرتا ہے، جب کہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اچانک کسی منظر، واقعے یا کسی شخصی رویے کو لاشعوری اور غیرارادی طور پر اپنی موزونی طبع کے باعث وہ شعری صورت میں قلم بند کرتا ضرور ہے، مگر اضطراری کیفیت میں کہے گئے ان اشعار کا پس منظر اسی تک محدود رہتا ہے۔
یوں شعری مطالعہ کا ذوق رکھنے والے حضرات تک شعر تو پہنچتا ہے مگر اس کا صحیح پس منظر نہیں پہنچ پاتا۔ سخن وری کی متعین روایات، قلتِ وقت اور خوف ضخامت کے پیش نظر، ایسا ممکن بھی نہیں تھا کہ مبنی بر حقائق اشعار کا پس منظر بھی اشعار کے ساتھ شعری مجموعے میں بیان کیا جا سکے، لیکن جابجا ایسے تحریری واقعات زیرمطالعہ ضرور آتے رہے جن میں گاہے بگاہے، برسبیل تذکرہ بعض اشعار کی وجہ تخلیق تک دسترس ہوتی رہی، مگر کسی ایک آدھ ادبی مضمون کے علاوہ تاحال ایسی کوشش منظرعام پر نہیں آسکی جس میں اس نوعیت کے موضوع کے پیش نظر باقاعدہ کوئی تحقیقی کام کیا گیا ہو۔
شعری قارئین کے اسی ذوقِ تجسس کی تشفی کے لیے ذیل کے مضمون میں ہم ادبی انٹرویوز، آپ بیتیوں، سوانح عمریوں اور مختلف ادبی مضامین سے اخذ کردہ چند ایسے ہی اشعار کی شان نزول، ان اشعار کے خالق شعراء کی زبانی بیان کر رہے ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اٹھایا جا سکا، تاکہ قارئین نہ صرف ان اشعار کی وجہ تخلیق کو سمجھتے ہوئے ان کی حقیقی روح سے آشنا ہوسکیں، بلکہ ان اشعار کے فکری و معنوی مفاہیم سے بھی بہتر طور پر لطف اندوز ہو سکیں۔ بقول شاعر:
؎دیکھنے والے کبھی غور سے دیکھیں تو سہی
ایک منظر، پسِ منظر بھی ہوا کرتا ہے!!
علامہ فضل حق خیرآبادی کی داستان حیات پر مبنی کتاب کی مصنفہ سلمٰی سیہول لکھتی ہیں کہ علامہ فضلَ حق فارسی شاعری میں فرقتی ؔجب کہ اردو شاعری میں آرزو ؔتخلص کرتے تھے۔ اپنے دور کی نمایاں علمی و ادبی شخصیت ہونے کے سبب ان کے مومن خان مومنؔ سے انتہائی دوستانہ تعلقات تھے۔ سید احمد شہید کی جانب سے ان دنوں ''تحریک مجاہدین'' اپنے عروج پر تھی۔
قطع نظر اس کے کہ مومنؔ اس تحریک کے حمایتی اور فضل حق مخالف تھے، دونوں کے دوستانہ مراسم پر یہ نظریاتی اختلاف اثرانداز نہ ہوسکا۔ حالاںکہ اسی دور میں تحریک مجاہدین کی شرعی حیثیت پر علامہ فضل حق اور مولوی اسماعیل دہلوی کے مابین مراسلاتی مناظرہ بھی جاری تھا۔ ایک روز حکیم مومن اؔور علامہ فضل حق شطرنج کی بازی کھیل رہے تھے کہ کھیل کے دوران علامہ کے ذہن میں تحریک مجاہدین سے متعلق اعتراض کا نیا نکتہ آیا۔ اسی وقت ایک آدمی کو لکھ کردیا کہ جاؤ اور مولوی اسماعیل سے جواب لاؤ۔ وہ گیا، حضرت کسی کام میں مصروف تھے۔ خادم واپس آگیا۔ شطرنج سے آنکھ اٹھا کر پوچھا، ''جواب لائے؟''، وہ بولا ''ابھی جواب نہیں لکھا، تحریر دے آیا ہوں۔'' اس پر علامہ فضل حق مسکرا کے بولے ''بس ہو گیا جواب۔'' یہ بات حکیم مومن ؔکو ناگوار گزری، کیوںکہ مومن ؔخان اور مولوی اسماعیل دہلوی پیر بھائی تھے۔ مومن ؔخان نے نہ چاہتے ہوئے بوجھل دل سے بساطِ شطرنج لپیٹ دی اور علامہ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ شعر پڑھ کر چل دیے:
؎لے نام آرزوؔ کا تو دل کو نکال دیں!!
مومنؔ نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم
ترک تعلقات کو چند ہی روز گزرے کہ علامہ کے دل کو مومن ؔخان کی یاد ستانے لگی۔ چناںچہ مومن ؔکے گھر گئے اور رنجش دور کر کے انہیں گلے سے لگا لیا جس پر مومن ؔنے درج ذیل شعر کہا:
؎ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کے ہوگئے لاچار جی سے ہم
ضیائؔ الدین احمد برنی نے اپنے تحریر کردہ خاکوں پر مبنی کتاب ''عظمت رفتہ'' میں نواب سائلؔ دہلوی کے خاکے میں لکھا ہے کہ نواب صاحب بتاتے ہیں کہ مرزا غالبؔ کا ایک شعر ہے:
؎ کرتے ہو مجھ کو منع قدم بوسی کے لیے
کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں؟
اس شعر کی تشریح میں تمام شارحین کلام غالب نے لکھا ہے کہ مرزا کا یہ شعر آنحضرت ﷺ کے واقعۂ معراج کے موضوع سے متعلق ہے، جب کہ شعر کے حقیقی پس منظر کا اس قیاسی مفروضے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ مذکورہ شعر کا حقیقی پس منظر کچھ یوں ہے کہ ''آسمان جاہ'' ایک مغل شہزادہ تھا، جو گردش حاِلات کے ہاتھوں ملازم ہوکر دلی کی ایک مال دار خاتون کے ہاں اپنا گزر بسر کر رہا تھا۔
اس بی صاحبہ کے پاس مرزا غالبؔ کا بھی آنا جانا تھا۔ ایک روز جو غالبؔ بی صاحبہ کے ہاں پہنچے تو دیکھا کہ ان کا ملازم ''آسمان جاہ'' ان کے پاؤں دبا رہا تھا۔ غالبؔ کو شوخی سوجھی، اور بی صاحبہ کو مخاطب کرکے کہنے لگے،''لائیے! میں دبا دوں''، مگر بی صاحبہ نے اجازت نہ دی۔ اس پر انہوں نے ملازم ''آسمان جاہ'' کے نام کی رعایت سے بر جستہ یہ شعر فرمایا:
؎ کرتے ہو مجھ کو منع قدم بوسی کے لیے
کیا ''آسمان'' کے بھی برابر نہیں ہوں میں؟
رفیق مارہروی اپنی کتاب ''بزمِ داغ ؔ'' میں لکھتے ہیں کہ ایک روز ایک شخص فارسی میں تحریر شدہ مثنوی ''یوسف و زلیخا'' لے کر مرزا داغؔ کے حضور پیش ہوئے۔ مثنوی میں چند واقعات کی رنگین تصاویر بھی شامل تھیں۔ مرزا ایک تصویر پر پہنچے تو اسے دیر تک دیکھتے رہے۔ تصویر میں منظر یہ تھا کہ حضرت یوسفؑ جا رہے ہیں اور زلیخا اپنے ایک ہاتھ سے ان کا دامن تھام کر ان کو روک رہی ہے، جب کہ دوسرا ہاتھ زلیخا کا دل پر رکھا ہوا ہے۔ حضرت نے تھوڑی دیر تک تصویر کو غور سے دیکھنے کے بعد فرمایا:
؎ہاتھ نکلے اپنے دونوں کام کے
دل کو تھاما، ان کا دامن تھام کے
استاد داغ ؔنے دوسرے مصرعے میں دکھایا کہ عاشق نے پہلے اپنے محبوب کے دامن کو تھام کر پھر اپنے دل کو تھاما ہے۔ یہاں دل کو تھامنے سے مراد جاتی ہوئی زندگی سے ہے، یعنی عاشق نے زندگی سے زیادہ محبوب کو اہمیت دی اور پہلے اس کو جانے سے روکا۔
احسنؔ مارہروی اپنے استا د مرزاداغ ؔکی صحبت میں گزرے اپنے شب و روز بیان کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک شام استاد فرمانے لگے کہ کئی برس پہلے ہم سعد آباد، ضلع متھرا میں اپنے دوست اور شاگرد کنور اعتمادؔ علی خان کے ہاں مہمان تھے۔ دوران قیام، ان کی کوٹھی کے برآمدے میں جب ہم خوش گپیوں میں مصروف تھے، تو اسی اثناء میں ان کا ایک بچہ جو سات آٹھ سال کا تھا، کھیل کھیل میں ایک کرسی پر چڑھا اور برآمدے میں لٹکے بلبل کے پنجرے کا دروازہ کھول کر بلبل کو باہر نکال، ایک ڈورے سے اس کا پاؤں باندھ کر ہوا میں اسے اڑانے لگا۔ کنور صاحب اس کی شرارت سے محظوظ ہونے لگے کہ میری طبیعت مچل اٹھی اور میں نے اس منظر کی عکاسی کچھ اس طرح شعری انداز میں کی:
؎پر کے بدلے پاؤں باندھا بلبلِ ناشاد کا!!
کھیل کے دن ہیں، لڑکپن ہے ابھی صیاد کا
فصاحت جنگ جلیل ؔمانک پوری کی حیات و خدمات کے عنوان سے تحریر کتاب میں علی احمد جلیلی رقم طراز ہیں کہ استاد جلیل ؔہر ماہ بازار سے چڑیاں خرید کر منگواتے، جن کے لیے ایک پنجرہ مخصوص تھا۔ جب پنجرہ چڑیوں سے بھر جاتا تو وہ صحن میں بیٹھ کر پنجرے کا دروازہ کھولتے اور چڑیوں کو رہا کر دیتے۔ یہ سکون آور منظر انہیں بہت محظوظ کرتا۔ ایک مرتبہ یوں ہوا کہ پنجرے کا دروازہ کھولا گیا تو سب چڑیاں اُڑ گئیں مگر ایک چڑیا جو ناتواں و شکستہ پر تھی وہ اڑ نہ سکی۔ تاہم اس کے لیے دانہ پانی کا انتظام کیا گیا تاکہ وہ اُڑنے کے قابل ہوسکے۔ اس صورت حال سے متاثر ہوکر جلیلؔ مانک پوری نے درج ذیل شعر کہا:
؎اُس گرفتار کی پوچھو نہ تڑپ جس کے لیے
در قفس کا ہو کھلا، طاقتِ پرواز نہ ہو!!!
سید ازھر شاہ قیصرؔ اپنی کتاب ''یادگارِ زمانہ ہیں یہ لوگ'' میں لکھتے ہیں کہ برطانیہ کی شاہی تاریخ میں پہلی بار اپنی محبت کی خاطر تختِ شاہی سے دست بردار ہونے والے ڈیوک کی ایک تصویر اخبار میں شائع ہوئی، جس میں وہ اپنی محبوبہ مسز سمپسن کے ساتھ کرکٹ کے ایک میچ میں عوام کے درمیان موجود ہے اور مجمع کے ایک کونے پر اپنی محبوبہ کے ساتھ کھڑا مسکرا رہا ہے۔ سیمابؔ اکبرآبادی نے تصویر دیکھ کر درج ذیل شعر ارشاد فرمایا:
؎سر بَر قدمِ حُسن، قدم بَر کلہ و تاج
دیوانہ بڑی شان سے دیوانہ بنا ہے
مظہر محمود شیرانی کی مرتب کردہ، حکیم ڈاکٹر سید محمود احمد برکاتی کی یادداشتوں کے مجموعہ ''جادہ نسیاں'' میں حکیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک محفل میں سیمابؔ اکبرآبادی سے پوچھا کہ آپ کا ایک شعر ہے:
؎تم نے تو اپنے حسن کو محفوظ کرلیا
ہم کس کے ساتھ عمرِمحبت بسر کریں؟
اس کے کیا معنی ہوئے؟ اس پر سیماب ؔمسکرائے اور کہنے لگے کہ عہدِجوانی میں مجھے جس خاتون سے محبت تھی، اس سے شادی کا خواہش مند تھا، لیکن اس خاتون نے تاعمر تنہا رہنے اور شادی نہ کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ اس پر میں نے کہا کہ آپ کا ارادہ نہ سہی، لیکن ہمارا تو ہے، اور پھر ہم نے محبت آپ سے کی ہے اب شادی کس سے کریں؟ لیکن میرے تمام تر اصرار کے باوجود وہ اپنے فیصلے پر قائم رہی، جس سے دل برداشتہ ہوکر میں نے مذکورہ شعر تحریر کیا۔
اخلاق احمد دہلوی اپنی کتاب ''یادوں کا سفر'' میں لکھتے ہیں کہ نئی نادان محل روڈ پر بیخود ؔموہانی ہواخوری کے لیے سیر کو جایا کرتے تھے۔ دورانِِ چہل قدمی انہوں نے دیکھا کہ راستے میں موجود کچھ مکانوں کے ملبے پر چند خواتین آتیں، تھوڑی دیر ٹھہر کے گریہ وزاری کرتیں اور پھر لوٹ جاتیں۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ان کے پاس ان تباہ شدہ مکانوں کے علاوہ رہنے کا کوئی اور ٹھکانا نہیں رہ گیا۔ بیخودؔ مرحوم یہ دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور اپنے محسوسات کو اس طرح شعر ی سانچے میں ڈھالا:
؎ نشیمن پھونکنے والے ہماری زندگی یہ ہے
کبھی روئے، کبھی سجدے کیے خاکِ نشیمن پر
اردو زبان میں اپنی نوعیت کے منفرد خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی اپنی خاکوں پر مبنی کتاب ''گنجینۂ گوہر'' میں لکھتے ہیں کہ داغ ؔکے شاگرد بیخودؔ دہلوی بتاتے ہیں کہ جن دنوں میں ایک نوابی ریاست کے دربار سے بطور درباری شاعر وابستہ تھا، وہاں رات کو محفل شعروسخن کے ساتھ مئے نوشی کا دور بھی چلتا تھا۔ نواب صاحب کی منظورنظر مغنیائیں محفل میں موجود مقربین کو جام پیش کرتی تھیں۔ بطور درباری شاعر میری اس محفل میں موجودگی بھی ضروری ہوتی تھی اور مئے نوشی سے بچنا بھی لازمی ہوتا تھا، جب کہ نواب صاحب کے سامنے جام لینے سے انکار کی مجال بھی نہ تھی۔ چناںچہ میں جام وصول تو کرتا مگر حاضرین محفل سے نظر بچا کر دکھانے کے لیے منہ تک لے جاتا اور چپکے سے اپنے گریبان میں الٹ دیتا۔ اس صورت حال کے پیش نظر میں نے درج ذیل شعر کہا:
؎ بیخود ؔکے لب بھی تر نہ ہوئے مے سے عمر بھر
آلودۂ شراب گریبان ہی رہا
برسبیل تذکرہ، بیخودؔ صاحب کے اسی شعر کا ذکر جب مجاز ؔکے سامنے کیا گیا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ اس کی وجہ بیخود صاحب کے ہاتھوں کا رعشہ ہے۔