حکومت کے لیے سیاسی و معاشی مشکلات
یہ ہماری تاریخ کے پہلے الیکشن تھے جس میں بعد از نتائج کوئی بھی پارٹی حکومت سنبھالنے کے لیے تیار نہیں تھی
میاں نواز شریف اگر اکتوبر 2023میں خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس لوٹے تھے تو ہم سب کو پتا تھا کہ وہ چوتھی بار وزیراعظم بننے ہی کے لیے لوٹے ہیں، لیکن یہ تو الیکشن کے غیرممکنا نتائج ہی تھے جن کی وجہ سے انھوں نے اپنا ارادہ بدل دیا،وہ اگر اپنے آپ کو ان حالات میں وزیراعظم کے منصب کے لیے پیش کرتے تو شاید پاکستان پیپلزپارٹی انھیں قبول نہ کرتی ، کیونکہ بلاول، آصف علی زرداری نے اپنی ساری انتخابی مہم اُنکے ممکنا طور پر چوتھی بار وزیراعظم بنائے جانے کے خلاف ہی چلائی تھی۔
اسپلٹ مینڈیٹ نے سارا منظر نامہ ہی بدل ڈالا۔ یہ ہماری تاریخ کے پہلے الیکشن تھے جس میں بعد از نتائج کوئی بھی پارٹی حکومت سنبھالنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ PTI نے بھی حکومت بنانے سے انکار کردیا تھا۔ ایسی صورت میں ایک حل تو یہ تھا کہ سارے ملک میں دوبارہ الیکشن کرائے جاتے مگر ملک کے مالی حالات اس کی قطعاً اجازت نہیں دے رہے تھے اوراس طرح غیر یقینی حالات کو مزید برقرار بھی نہیں رکھا جاسکتا تھا۔ دوبارہ الیکشن کروانے کے بعد بھی نتائج اگر اسی سے ملتے جلتے ہوتے تو پھر کیا کیا جاتا۔یہی سوچ کر مسلم لیگ نون اورپاکستان پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے پر راضی کیا گیا۔
بلاول بھٹو گرچہ اس تجویز کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے لیکن اپنے والد کی وجہ سے وہ مشروط طور پراس کے لیے تیار ہوگئے۔ اول تو انھوں نے کابینہ کا حصہ بننے سے انکار کردیا مگر پاور فل آئینی عہدوں پراپنے لوگ مقررکرنے کی شرائط پیش کردیں۔
اس طرح پیپلزپارٹی حکومت کے اچھے کاموں کا کریڈٹ لینے میں تو حصے دار بن گئی مگر ناکامیوں کے بوجھ سے خود کو مکمل طور پرعلیحدہ کرلیا۔ایک طرف اس نے آصف علی زرداری کو ایک بار پھر صدر مملکت کے عہدے پربراجمان کروالیا اوردوسری طرف بلوچستان کی حکومت بھی حاصل کرلی ۔ حالانکہ بلوچستان میں مسلم لیگ نون اورJUI والے اگر چاہتے تو بڑی آسانی سے حکومت بناسکتے تھے اور اسطرح وہ پیپلزپارٹی کی بلیک میلنگ سے خود کو بچاسکتے تھے۔
پاکستان پیپلزپارٹی ہمیشہ سے سیاسی بساط پر اپنی چالیں بڑی ہنرمندی اورہشیاری سے چلاکرتی ہے، وہ اپنی سیاست کی قربانی کبھی بھی دینے کوتیار نہیں ہوتی ۔ 2008کے انتخابات میں بھی جب پاکستان پیپلزپارٹی کو پرویز مشرف کے خلاف مواخذے کی تحریک لانے کے لیے پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت درکار تھی تو مسلم لیگ نون ہی نے زرداری کے ہاتھوں بیعت کرکے کابینہ میں شمولیت اختیار کرلی تھی، حالانکہ بعد ازاں زرداری صاحب کے صدر مملکت بننے کے بعد اختلافات پیدا ہوئے اور مسلم لیگ نون نے بھی کابینہ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
حکومت کی عددی قوت برقرار رکھنے کے لیے آصف علی زرداری نے ایم کیوایم اور دیگر چھوٹی پارٹیوں سے سمجھوتہ کرلیا اوراسطرح اپنی مقررہ مدت پوری کرلی۔ MQM کی طرف سے آنکھیں دکھانے اورساتھ چھوڑجانے پر انھوں نے مسلم لیگ ق کو اپنا رفیق اور ساتھی بنالیا اور پرویز الٰہی کو نائب وزیراعظم کے عہدے سے بھی سرفراز کر دیا۔اسی دن سے قوم انھیں مفاہمت اوردوستی کا بادشاہ تصورکرنے لگی تھی۔آج بھی اگر پیپلزپارٹی موجودہ حکومت کا ساتھ دے رہی ہے تو وہ بھی جناب زرداری صاحب کے اسی مفاہمت اوردوستی والے فارمولے کے تحت ہی ممکن ہوپایا ہے۔
مسلم لیگ نو ن کو بھی کسی حد تک یہ اطمینان اوریقین ہے کہ جب تک آصف علی زرداری صدرمملکت کے عہدے پرقائم ہیں یہ حکومت چلتی رہے گی۔ اس میں اتار چڑھاؤضرور آتے رہیں گے مگر ساتھ ہی ساتھ PTI کی جارحانہ حکمت عملی کا بھی بطریق احسن مقابلہ ہوتا رہے گا۔
پیپلزپارٹی کابینہ کا حصہ نہ رہتے ہوئے بھی اپنے تمام مطالبات منواتی رہے گی جس طرح اس نے حالیہ دنوں میں ارسا کے چیئرمین کی تقرری کودباؤ ڈال کرچوبیس گھنٹوں میں منسوخ بھی کروالیا۔وہ آیندہ آنے والے دنوں میں بھی اسی حکمت عملی کے تحت حکومت پر اپنا دباؤ جاری رکھے گی۔
ملک کو درپیش سخت مالی مشکلات میں وہ کسی حد تک شہبازشریف کا ساتھ تو دیتی رہے گی لیکن عوام کے ردعمل پر اپنی سیاست اورساکھ کی قربانی ہرگز نہیں دے گی۔اسے بخوبی اندازہ ہے کہ IMF سے مالی مدد حاصل کرنے کے لیے حکومت کے پاس اس کی کڑی شرائط ماننے کے سوا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیںہے مگرنتیجے میں اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے وہ وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کا ساتھ ہرگز نہیں دے گی۔
اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اسٹیل ملز اورPIA جیسے ادارے ایک عرصے سے مسلسل خسارے میں چل رہے ہیں لیکن وہ ان کی نجکاری کی کوششوں میں ہمیشہ حائل ہوتی رہے گی،وہ مزدوروں کے حقوق کے نام پراپنی سیاست چمکاتی رہے گی جب تک کہ ان کا حال بھی ایسا نہ ہوجائے کہ اُسے کوئی خریدنے والا بھی باقی نہ رہے۔
نئی حکومت کو بنے ابھی ایک ماہ بھی نہیں ہوا ہے لیکن اُسے سخت مشکلات کا سامنا ہے۔کہنے کو پاکستان پیپلزپارٹی اس حکومت کا حصہ ہے لیکن وہ حکومت کی کسی بھی کام میں مددگار نہیں ہے بلکہ وہ اُس کے ہرکام کوبڑی تنقیدی نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔
جہاں بھی اس کے مفادات پرکوئی ضرب آئیگی وہ فوراً اس سے علیحدہ ہوجانے کی دھمکیاں دے سکتی ہے۔ جتنی مجبور اورلاچار یہ حکومت ہے شاید ہی اس سے پہلے کوئی حکومت رہی ہوگی۔ ایک طرف اسے سخت مالی بحران کا سامنا ہے تو دوسری طرف IMF سے کیے جانے والے معاہدوں کے نتیجے میںممکنا عوامی ردعمل اور غیض وغضب کا احتمال۔پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت نہ رکھنے کی وجہ سے اُسے اتحادی سیاسی جماعتوں کی بلیک میلنگ کا بھی ڈر اورخوف ہروقت طاری رہے گا۔
ایسے میں وہ اگر چاہے تو بھی ایک اچھی اور بہتر کارکردگی دکھا نہیں پائے گی۔میاں شہباز شریف کو یہ دوسرا موقعہ ملا ہے یا اُن کے سرپر آن پڑا ہے کہ وہ کارکردگی کے بل بوتے پر خود کو منواسکیں۔فی الحال تو وہ بڑی دانشمندی اور احتیاط سے کا م کررہے ہیں مگر آنے والے دنوں میں کیا صورتحال ہوتی ہے کسی کو بھی پتا نہیں ہے۔ اُنکے پاس ہنی مون گذارنے کا کوئی پیریڈ نہیں ہے۔ بلکہ پہلے دن سے ہی قوم کی بہت توقعات اُن سے وابستہ ہیں۔
اسے برسراقتدار آتے ہیں معاشی معاملات کے سدھار کے لیےIMF کے وفدسے بات چیت کا مرحلہ درپیش آگیا ہے اورحسب معمول اس وفد نے بھی ایک بار پھرحکومت سے بجلی مہنگی کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔جس مہنگی بجلی کے سبب ہمارے لوگ پہلے ہی سخت نالاں اورپریشان ہیں اسے مزید مہنگا کردیاگیا تو عوام کا ریکشن کیا ہوگا۔
یہ سوچنااب میاں محمد شہباز شریف کا کام ہے نہ کہ انھیں وزیراعظم بنانے والوں کا ۔وہ اکیلے ہی اِن سارے کاموں کے ذمے دار قرار پائیںگے ۔ جنھوں نے انھیں اس مشکل میں ڈالا ہے وہ تو پہلے ہی خود کو تمام حکومتی کاموں سے علیحدہ اوربری الذمہ کرچکے ہیں۔