جمہوریت خطرے میں
پاکستان اس وقت جس بحران سے گزر رہا ہے اس کا آغاز تو2007 سے ہوا لیکن2014 میں شدت پکڑ گیا
موجودہ وزیر خزانہ جو نیدر لینڈ سے تعلق رکھتے ہیں امریکی بینک جے پی مورگن کے سابق بینکار ہیں۔ یہ نوے کی دہائی کی بات ہے جب وزیر اعظم اور صدر دونوں کی بیک وقت چھٹی ہو گئی تو نگران وزیر اعظم کے لیے قرعہ فال معین قریشی کا نکلا جو آئی ایم ایف کے سابق نائب صدر اور امریکی گرین کارڈ ہولڈر تھے۔ اس وقت سنگاپور میں تھے۔
پہلے تو انھوں نے نگران وزیر اعظم بننے سے انکار کیا پھر آخر کار حامی بھرلی۔ چنانچہ معین قریشی کے پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی نہ صرف ان کا شناختی کارڈ تیار کروایا گیا بلکہ ان کے گھر والوں کی مشاورت سے شیروانی بھی تیار کروا لی گئی جسے پہن کر انھوں نے نگران وزیر اعظم کا حلف اٹھانا تھا۔ ذرا جنرل ایوب خان کے دور کے وزیر خزانہ محمد شعیب کو یاد کریں جن کا تعلق امریکا سے زیادہ پاکستان سے کم تھا۔ دوسرے وزیر خزانہ جنرل مشرف دور میں شوکت عزیز تھے۔ جو امریکی سٹی بینک کے ملازم تھے جب کہ ان کی بیگم صاحبہ کا تعلق بھارتی صوبے بہار سے تھا ۔
ان کا بیرون ملک تعلق اتنا موثر تھا کہ وہ نہ صرف وزیر خزانہ بنے بلکہ بعد میں وہ وزیر اعظم کے عہدے پر بھی ترقی پا گئے۔ لیکن یہ وزیر اعظم ہوں یا وزرائے خزانہ یہ دیے گئے ایجنڈے کی تکمیل کے بعد پھر لوٹ کر واپس نہیں آئے۔ ویسے بھی جو عالمی اسٹیبلشمنٹ کے کل پرزے ہوں ان کی نظروں میں پاکستان کی کیا حیثیت و اہمیت۔ وہ پاکستان جو عالمی سامراج کی ان دیکھی زنجیروں میں اپنے قیام سے ہی جکڑا ہوا ہے وقت کے ساتھ ساتھ اس طوق غلامی نے اس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے کہ ایسا ملک جسے اپنی آزادی کے صرف 25سالوں میں توڑ دیا گیا۔
اس کی غلامی میں کسے شک و شبہ ہو سکتا ہے۔ باقی پاکستان کو مغربی پاکستان کی شکل میں اس لیے برقرار رکھا گیا کہ امریکی سامراج کو سوویت یونین کے خاتمے کے لیے موجودہ پاکستان کی ضرورت تھی۔ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ایسے ہی بلاوجہ دھمکی نہیں دی گئی تھی کہ خبردار وہ ریڈ لائن کراس کرتے ہوئے بقیہ پاکستان پر قبضہ کی جرات نہ کرے۔
امریکی صدر جوبائیڈن کہتے ہیں کہ امریکا میں جمہوریت خطرے میں ہے۔ ان کا اشارہ گزشتہ انتخابات میں میں ٹرمپ کے حامیوں کا کیپیٹل ہل پر حملہ کی طرف تھا۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات میں جیت کے لیے امریکی نسل پرست گوروں کے تعصبات کو بھر پور طور پر اس طرح جگایا کہ وہ پوری شدت سے سامنے آگئے۔
یہ تعصبات سوئے تو پہلے بھی نہیں تھے۔ صرف خوابیدہ سے تھے۔ سابق بلیک امریکی صدر اوباما کے مسلسل دو بار منتخب ہونے پر نسل پرست گوروں کے تعصبات پر جلتی پر تیل کا کام کیا جس کو ٹرمپ نے گزشتہ انتخابات میں اپنی جیت کے لیے بھر پور طور پر استعمال کیا۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق ٹرمپ کے چاہنے والوں کو اس پر کوئی افسوس نہیں بلکہ وہ پھر سے اسے ووٹ دینے کے دل و جان سے تیار ہیں۔ تازہ ترین تجزئیے کے مطابق ٹرمپ کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جمہوریت صرف امریکا میں کمزور نہیں ہو رہی بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسے پوری دنیا میں کمزور کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ عالمی سامراج کی دنیا پر صدیوں کی بالا دستی کمزور ہوتی جارہی ہے۔ غزہ جنگ کو ہمیں اس پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ پاکستان سمیت عالمی سامراج کی حقیقت پوری دنیا پر کھل چکی ہے۔
امریکی انٹیلی جنس کے مطابق غزہ پر مسلسل حملوں کے باوجود حماس جنگجو اسرائیل کے لیے ایک طویل مدت تک مسئلہ بنے رہیں گے۔ مشرق وسطی سے پاکستان پورا خطہ ایک بہت بڑے Transformationکے عمل سے گزرنے والا ہے۔ برصغیر کی تقسیم ایک انتہائی خاص آسمانی اثرات کے تحت ہوئی تھی۔ اگلے چند برسوں میں ہم اس نحس دور سے باہر نکلنا شروع ہو جائیں گے۔ عالمی سامراجی حکمت عملی کے تحت مقامی سامراج کمزور ہونا شروع ہو جائے گا۔
پاکستان اس وقت جس بحران سے گزر رہا ہے اس کا آغاز تو2007 سے ہوا لیکن2014 میں شدت پکڑ گیا یہ بحران 2025-26تک جاری رہے گا۔ خان صاحب کے حوالے سے اپریل مئی جولائی اگست غیر معمولی طور پر اہم مہینے ہیں۔
اگلے دو سے تین سال پوری دنیا کے لیے خطرناک ہیں۔ خاص طور پر عالمی جنگ کے حوالے سے جس کے اثرات کا آغاز اس سال اگست سے ہو جائے گا۔
پہلے تو انھوں نے نگران وزیر اعظم بننے سے انکار کیا پھر آخر کار حامی بھرلی۔ چنانچہ معین قریشی کے پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی نہ صرف ان کا شناختی کارڈ تیار کروایا گیا بلکہ ان کے گھر والوں کی مشاورت سے شیروانی بھی تیار کروا لی گئی جسے پہن کر انھوں نے نگران وزیر اعظم کا حلف اٹھانا تھا۔ ذرا جنرل ایوب خان کے دور کے وزیر خزانہ محمد شعیب کو یاد کریں جن کا تعلق امریکا سے زیادہ پاکستان سے کم تھا۔ دوسرے وزیر خزانہ جنرل مشرف دور میں شوکت عزیز تھے۔ جو امریکی سٹی بینک کے ملازم تھے جب کہ ان کی بیگم صاحبہ کا تعلق بھارتی صوبے بہار سے تھا ۔
ان کا بیرون ملک تعلق اتنا موثر تھا کہ وہ نہ صرف وزیر خزانہ بنے بلکہ بعد میں وہ وزیر اعظم کے عہدے پر بھی ترقی پا گئے۔ لیکن یہ وزیر اعظم ہوں یا وزرائے خزانہ یہ دیے گئے ایجنڈے کی تکمیل کے بعد پھر لوٹ کر واپس نہیں آئے۔ ویسے بھی جو عالمی اسٹیبلشمنٹ کے کل پرزے ہوں ان کی نظروں میں پاکستان کی کیا حیثیت و اہمیت۔ وہ پاکستان جو عالمی سامراج کی ان دیکھی زنجیروں میں اپنے قیام سے ہی جکڑا ہوا ہے وقت کے ساتھ ساتھ اس طوق غلامی نے اس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے کہ ایسا ملک جسے اپنی آزادی کے صرف 25سالوں میں توڑ دیا گیا۔
اس کی غلامی میں کسے شک و شبہ ہو سکتا ہے۔ باقی پاکستان کو مغربی پاکستان کی شکل میں اس لیے برقرار رکھا گیا کہ امریکی سامراج کو سوویت یونین کے خاتمے کے لیے موجودہ پاکستان کی ضرورت تھی۔ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ایسے ہی بلاوجہ دھمکی نہیں دی گئی تھی کہ خبردار وہ ریڈ لائن کراس کرتے ہوئے بقیہ پاکستان پر قبضہ کی جرات نہ کرے۔
امریکی صدر جوبائیڈن کہتے ہیں کہ امریکا میں جمہوریت خطرے میں ہے۔ ان کا اشارہ گزشتہ انتخابات میں میں ٹرمپ کے حامیوں کا کیپیٹل ہل پر حملہ کی طرف تھا۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات میں جیت کے لیے امریکی نسل پرست گوروں کے تعصبات کو بھر پور طور پر اس طرح جگایا کہ وہ پوری شدت سے سامنے آگئے۔
یہ تعصبات سوئے تو پہلے بھی نہیں تھے۔ صرف خوابیدہ سے تھے۔ سابق بلیک امریکی صدر اوباما کے مسلسل دو بار منتخب ہونے پر نسل پرست گوروں کے تعصبات پر جلتی پر تیل کا کام کیا جس کو ٹرمپ نے گزشتہ انتخابات میں اپنی جیت کے لیے بھر پور طور پر استعمال کیا۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق ٹرمپ کے چاہنے والوں کو اس پر کوئی افسوس نہیں بلکہ وہ پھر سے اسے ووٹ دینے کے دل و جان سے تیار ہیں۔ تازہ ترین تجزئیے کے مطابق ٹرمپ کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جمہوریت صرف امریکا میں کمزور نہیں ہو رہی بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسے پوری دنیا میں کمزور کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ عالمی سامراج کی دنیا پر صدیوں کی بالا دستی کمزور ہوتی جارہی ہے۔ غزہ جنگ کو ہمیں اس پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ پاکستان سمیت عالمی سامراج کی حقیقت پوری دنیا پر کھل چکی ہے۔
امریکی انٹیلی جنس کے مطابق غزہ پر مسلسل حملوں کے باوجود حماس جنگجو اسرائیل کے لیے ایک طویل مدت تک مسئلہ بنے رہیں گے۔ مشرق وسطی سے پاکستان پورا خطہ ایک بہت بڑے Transformationکے عمل سے گزرنے والا ہے۔ برصغیر کی تقسیم ایک انتہائی خاص آسمانی اثرات کے تحت ہوئی تھی۔ اگلے چند برسوں میں ہم اس نحس دور سے باہر نکلنا شروع ہو جائیں گے۔ عالمی سامراجی حکمت عملی کے تحت مقامی سامراج کمزور ہونا شروع ہو جائے گا۔
پاکستان اس وقت جس بحران سے گزر رہا ہے اس کا آغاز تو2007 سے ہوا لیکن2014 میں شدت پکڑ گیا یہ بحران 2025-26تک جاری رہے گا۔ خان صاحب کے حوالے سے اپریل مئی جولائی اگست غیر معمولی طور پر اہم مہینے ہیں۔
اگلے دو سے تین سال پوری دنیا کے لیے خطرناک ہیں۔ خاص طور پر عالمی جنگ کے حوالے سے جس کے اثرات کا آغاز اس سال اگست سے ہو جائے گا۔