رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ملکی استحکام کیلئے خصوصی دعائیں کی جائیں

چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان و خطیب بادشاہی مسجد لاہور کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں خصوصی لیکچر

فوٹو : وسیم نیاز

مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد ایک معروف عالم دین ہیں۔اس وقت آپ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان کے چیئرمین اور بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب اور امام کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

''رمضان المبارک'' کی آمد پر ''ایکسپریس فورم'' میں ''استقبال رمضان'' کے حوالے سے مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد کے خصوصی لیکچر کا اہتمام کیا گیا جس کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِیَامُ۔

وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرُ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ

(البقرۃ:183,184 )

''اے ایمان والو! جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزہ فرض کیا گیا تھا اسی طرح تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے اس امید پر کہ تم پرہیز گار ہو جاؤ۔ (یہ روزے کے) چند گنے ہوئے دن ہیں۔ (کوئی بڑی مدت نہیں) پھرجو کوئی تم میں بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اس کے لیے اجازت ہے کہ دوسرے دنوں میں روزے رکھ کر روزے کے دنوں کی گنتی پوری کر لے اور جو لوگ ایسے ہوں کہ ان کے لیے روزہ رکھنا ناقابل برداشت ہو (جیسے نہایت بوڑھا آدمی کہ نہ تو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو نہ یہ توقع رکھتا ہے کہ آگے چل کر قضاء کر سکے گا) تو اس کے لیے روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دینا ہے ۔پھر اگر کوئی( معذور)اپنی خوشی سے کچھ زیادہ کرے (یعنی زیادہ مسکینوں کو کھلائے)تو یہ اس کے لیے مزید اجر و ثواب کا موجب ہو گا۔لیکن اگر تم سمجھ بوجھ رکھتے ہوکہ روزہ رکھنا تمہارے لیے (ہر حال میں )بہتر ہے''۔

حدیث: الصوم لی وانا اجزی بہ

ترجمہ: (نبیؐ نے فرمایا) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لیے ہے اور اس کا بدلہ میں ہی دوں گا۔

رمضان المبارک نزول قرآن اوراللہ تعالیٰ کی رحمتیں لوٹنے کا مہینہ ہے جس میں بندے اللہ تعالیٰ کی بندگی کی طرف محنت کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں اپنی بندگی کے لیے ہی بھیجا ہے انسان تو چند روز کا مہمان ہے ،اپنی مہلت اور مدت مکمل ہونے کے بعد سفر آخرت پر روانہ ہو گا۔ خوش نصیب ہے وہ انسان جو یاد الٰہی میں اپنا وقت گزارے ،اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے ہر لمحہ بے قرار رہے ،جس کا ہر عمل سنت نبوی ؐ کے مطابق ہو اور جس کا ہر کام شریعت مطہرہ کے مطابق ہو تو ایسے انسان دنیا میں بھی کامیاب ہونگے اور آخرت میں بھی ۔ رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کو منانے کا مہینہ ہے ۔

رمضان المبارک کی فضیلت

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : جب ماہ رمضان المبارک شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ (متفق علیہ)

اولہ رحمۃ ، اوسطہ مغفرۃ ، وآخرہ عتق من النار

حضرت نبی کریم ؐ کا فرمان ہے کہ رمضان کا پہلاعشرہ رحمت ہے ،درمیانی عشرہ مغفرت اور آخری عشرہ آگ سے نجات کاذریعہ ہے (حدیث)

صحابہ کرام ؓ فرماتے ہیں کہ جب بھی ماہ رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو ہم رسول اللہ ؐ کے اعمال میں تین باتوں کا اضافہ محسوس کرتے۔ پہلی بات یہ کہ آپؐ عبادت میں بہت زیادہ کوشاں اور جستجو فرمایا کرتے حالانکہ آپ ؐ کی عام دنوں کی عبادت بھی ایسی تھی کہ آپؐ کے قدم مبارک پر ورم ا ٓ جاتا تھا تو رمضان المبارک میں آپؐ کی عبادت اس سے زیادہ ہو جایا کرتی تھی۔ دوسری بات یہ کہ اللہ رب العزت کے راستے میں خوب خرچ فرماتے تھے، اپنے ہاتھوں کو بہت کھول دیتے تھے یعنی بہت کھلے دل کے ساتھ صدقہ اور خیرات کیا کرتے تھے ،تیسری بات یہ کہ آپؐ مناجات میں بہت زیادہ گریہ زاری فرمایا کرتے تھے ،آپ ؐ رمضان المبارک میں ان اعمال کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔

اپنے جسم کو تھکائیں ،ہمارے جسم دنیا کے کام کے لیے روز تھکتے ہیں زندگی میں کوئی ایسا وقت بھی آئے کہ یہ اللہ کی عبادت میں تھک جایا کریں۔ کوئی ایسا وقت آئے کہ ہماری آنکھیں نیند کو ترس جائیں اور ہم اپنے آپ کو سمجھائیں کہ اگر تم اللہ کی رضا کے لیے جاگو گے تو قیامت کے دن اللہ رب العزت کا دیدار نصیب ہو گا، یہ آنکھیں آج جاگیں گی تو کل قبر کے اندر میٹھی نیند سوئیں گی۔

جو لوگ اپنے گناہ معاف کروانا چاہتے ہیں، اللہ کا قرب حاصل کرناچاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ جب روزہ رکھیں تو ان کا روزہ محض کھانے پینے سے رکنے تک محدود نہ ہوبلکہ روزہ دار کی آنکھیں، زبان، کان، شرم گاہ، دل، دماغ غرض کے سر سے لے کر پاؤں تک ہر چیزروزہ دار ہو۔

حدیث میں آتاہے کہ جو انسان روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے پانچ انعامات عطا ء فرماتے ہیں۔ روزہ دارکے لیے پہلا انعام ،روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں مشک وعنبر سے زیادہ پسندیدہ ہے ،دوسرا انعام، سمندر کی تہہ میں رہنے والی مچھلیاں روزہ دار کے لیے دعا کرتی ہیں ،تیسراانعام ، شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے،چوتھا انعام ،روزہ دارکے لیے جنت کو سجایا جاتا ہے ،پانچواں انعام ،روزہ دار کی دن رات کی عبادت اور دعاؤں کو اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ آپ ؒرمضان میں 63مرتبہ قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتے تھے، ایک قرآن پاک دن میں پڑھتے ،ایک قرآن پاک رات میں پڑھتے اور تین قرآن تراویح میں سنایا کرتے تھے۔

جبرائیل ؑ کی دعاء پر آمین

حضورنبی کریم ؐ ایک مرتبہ خلاف عادت منبر پر تشریف لے جارہے تھے تو آپؐ نے آمین فرمایا۔ جب دوسراقدم مبارک رکھا پھر آمین فرمایا۔ جب تیسرا قدم مبارک رکھا تب بھی آمین فرمایا۔ صحابہ کرامؓ نے آمین کی وجہ دریافت کی تو آپؐ نے فرمایا سنو! حضرت جبرائیل ؑ تشریف لائے اور فرمایا کہ ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کو رمضان المبارک کا مہینہ نصیب ہواور وہ اپنی مغفرت نہ کروا سکا۔ آپؐ نے بھی آمین فرمایا ،دوسری مرتبہ حضرت جبرائیل ؑ نے فرمایا ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے ماں باپ یا کوئی ایک حیات ہو اور وہ انکی خدمت کر کے مغفرت نہ کروا سکے، آپؐ نے بھی آمین فرمایا ،تیسری مرتبہ حضرت جبرائیل ؑ نے فرمایا ہلاک ہو جائے وہ شخص جو آپؐ کا نام مبارک سنے تو درود نہ بھیجے، آپؐ نے بھی آمین فرمایا۔

رمضان المبارک برکتوں کا مہینہ

حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک کے مہینے میں اتنی برکات کا نزول ہوتا ہے کہ بقیہ پورے سال کی برکتوں کو رمضان المبارک کی برکتوں کے ساتھ وہ نسبت بھی نہیں جو قطرے کو سمندر کے ساتھ ہوتی ہے ۔ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک اس مہینے میں نازل فرمایا بلکہ جتنی بھی آسمانی کتابیں نازل ہوئیں سب کی سب رمضان المبارک میں نازل کی گئیں ۔ کوئی کتاب چار رمضان المبارک کو ،کوئی ستائیس رمضان المبارک کو ،اللہ اکبر اس مہینے کو اللہ کے کلام سے بہت زیادہ مناسبت ہے لہٰذا اس میں قرآن پاک کی خوب تلاوت کرنی چاہیے ۔

سلف صالحین اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے یوں عبادت کیاکرتے تھے جیسے کوئی کسی روٹھے ہوئے کو مناتا ہے سبحان اللہ!روٹھے ہوئے رب کو مناتے تھے۔ اگر کوئی غلام بھاگ جائے تو پھر پکڑا جائے تواپنے مالک کے سامنے آتا ہے تو کیا کرتا ہے،اپنے مالک کے سامنے آکر ہاتھ جوڑتا ہے اپنے مالک کے پاؤں پکڑلیتا ہے اور کہتا ہے کہ اے میرے مالک آپ درگزر فرمائیں آئندہ احتیاط کروں گا ۔ رمضان المبارک میں ہم اللہ رب العزت کے سامنے اسی طرح اپنے ہاتھ جوڑیں ،سربسجود ہو جائیں اور عرض کریں کہ اے اللہ! ہم نادم ہیں ،شرمندہ ہیں۔ جو کوتاہیاں اب تک کر بیٹھے ہیں ان کو تو معاف کردے ،آئندہ زندگی ہم تقویٰ اور پرہیزگاری کے ساتھ گزرانے کی کوشش کریں گے۔

رمضان المبارک ہم سب کے لیے خیر وبرکت ،رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک کی ستائیسویں شب کو اللہ تعالیٰ نے نعمت عظمیٰ وطن عزیز پاکستان عطا فرمایا جس پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو قائم و دائم رکھے اور ترقیاں عطا فرمائے ۔ماہ رمضان میں ملکی سلامتی اور استحکام کیلئے خصوصی دعائیں کریں۔ شب قدر مناجات اور اللہ تعالیٰ کو منانے کی رات ہے،آئیں مل کر توبہ استغفار اور رجوع الی اللہ کریں۔ پوری پاکستانی قوم اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگے ،موجودہ حالات میں رجو ع الی اللہ ہی تمام مشکلات کا حل ہے۔ رمضان المبارک قبولیت کا مہینہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو بھی دعا مانگو گے اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت عطاء فرمائیں گے۔

رمضان المبارک ہم سب کے لیے خیر و برکت کا مہینہ ہے۔ امت مسلمہ کی کامیابی اور خوشحالی کا راز اسلام اور قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل کرنے میں پوشید ہ ہے۔ امت مسلمہ اسلام اور قرآن پاک پر عمل کر کے ساری مشکلات پر قابو پا سکتی ہے۔ آج دنیا کی بڑھتی ہوئی مشکلات کی ایک بڑی وجہ اسلام سے رو گردانی ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنی زندگی اسلام کے تابع کرے ،قرآن اور اسلام ہی تمام دنیا کے تمام لوگوں کو قلبی سکون دے سکتے ہیں ۔

روزہ دار کی فضیلت

حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک دروازے کا نام ریان ہے اور اس دروازے سے صرف روزہ داروں کا ہی داخلہ ہو سکے گا۔

روزہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے ایمان کے ساتھ شریعت کو سچ جانتے ہوئے اور طلب ثواب کی خاطر رمضان کا روزہ رکھا اسکے وہ گناہ بخش دیے جائیں گے جو اس نے پہلے کیے تھے ۔

روزہ بندے کی سفارش کرے گا

حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : روزہ اور قرآن دونوں بندے کے لیے شفاعت کریں گے ۔

جان بوجھ کر روزہ نہ رکھنا

جان بوجھ کر روزہ نہ رکھنا انتہائی محرومی اور شقاوت کی بات ہے ،ایک حدیث میں ہے :من افطر یومامن رمضان من غیررخصۃ ولامرض لم یقض عنہ صوم الدھر کلہ وان صامہ (مشکاۃ:۲۰۱۳) یعنی جو شخص بلا کسی عذر کے ایک دن بھی ماہ رمضان کا روزہ چھوڑے گاتو پوری زندگی کے روزے بھی اس ایک دن کے روزے کے ثواب کی تلافی نہ کر سکیں گے ۔اگر کسی سے قصداََ روزہ نہ رکھنے کا گناہ صادر ہوگیا ہے تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کرے ،گڑ گڑائے ،پشیمانی کا اظہار کر ے اور جتنی جلدی ہوسکے چھوڑے ہوئے روزوں کا قضا کر لے۔

فوائد روزہ

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : '' روزہ رکھنا ایک بہت بڑی نیکی ہے ، جس سے ملکیت کو تقویت حاصل ہوتی ہے (ملک فرشتے کو کہتے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے انسان میں ہر طرح کے اوصاف (عادات)رکھے ہیں، اس کے وجود میں ملکیت یعنی فرشتوں کے اوصاف، بہیمیت یعنی حیوانوں کے اوصاف، سبعیت یعنی درندوں کے اوصاف اور شیطنت یعنی جنات و شیاطین کے اوصاف موجود ہیں۔ کمال انسانیت کا تقاضایہ ہے کہ انسان کے اندر کا فرشتہ اس کے باقی اوصاف پر غالب آجائے ) روزہ سے انسان کی بہیمیت کمزور ہوتی ہے ،یہ طبیعت کی سرکشی کو مغلوب کرنے ،روح کو پاکیزہ اور صاف کرنے کا بہترین نسخہ ہے جو کہ روحانی اطباء نے تجویز کیا ہے ''۔

روزے کا فدیہ

آج کل بہت سے افراد روزوں کا فدیہ اس طور پر دیتے ہیں کہ کسی شخص کو پیسے دے کر روزہ رکھوا دیتے ہیں ۔اس طرح نہ تو فدیہ ادا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی شخص کسی کی طرف سے روزہ رکھ سکتا ہے ،بالفرض اگر وہ رمضان کے روزے کسی شخص کی طرف سے رکھتا بھی ہے ،تو رمضان کے روزے رکھنا تو ہر مسلمان پر فرض ہے ،تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے فرض روزے کے ساتھ کسی دوسرے انسان کا روزہ بھی رکھ لے ؟روزہ ان عبادات میں سے ہے جو کسی کی طرف سے ادا نہیں کیا جا سکتا ۔جس پر فرض کیا گیا ،وہ خود ہی ادا کرے گا تو ہی ادا ہوگا۔رہی بات فدیہ کی تو فدیہ ایک صدقہ ہے ،جوکسی مستحق صدقہ کو دینا ضروری ہے۔یہ فدیہ پونے دو کلو آٹا یا اس کی قیمت ادا کرنے سے ادا ہو جائے گا۔اور یہ فدیہ صرف ان حضرات کی طرف سے دیا جا سکتا ہے جو یا تو وفات پا گئے ہوں اور انہوں نے روزے نہ رکھے ہوں یا اس قدر معذور ہوں کہ آئندہ زندگی میں( آرام دہ موسم میں بھی) کبھی روزہ نہ رکھ سکتے ہوں۔

ایام رمضان کیلئے خاص دعائیں

پہلاعشرہ رحمت :

رَبِِّ اغْفِرْ وارْحمْ و انْت خیْرُ الرّٰحِمِیْنْ

ترجمہ: اے میرے رب مجھے بخش دے ،مجھ پر رحم فرما،تو سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے

دوسرا عشرہ مغفرت:

اَسَتَغْفِرُاللّٰہَ رَبّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبِِ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِ

ترجمہ: میں اللہ سے تمام گناہوں کی بخشش مانگتا /مانگتی ہوں جو میرا رب ہے،اور اسی کی طرف رجوع کرتا/کرتی ہوں

تیسرا عشرہ نجات :

اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوُّاتُحِبُّ الْعَفْوَفَاعْفُ عَنَّا


ترجمہ: اے اللہ بے شک تو معاف کرنے والا ہے معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس ہمیں معاف فرمادے

لیلۃ القدر کی فضیلت

مناجات اور فضیلتوں کی رات، قرآن پاک میں پوری سورۃ نازل ہوئی جسے سورۃ القدر کہتے ہیں

اناانزلنہ فی لیلۃ القدر

ترجمہ : بے شک ہم نے قرآن (پاک) کو شب قدر میں اتارا ہے ،آپ کو معلوم ہے کہ شب قدر کیا ہے ؟

شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات میں فرشتے اور روح القدس اپنے پروردگار کے حکم سے ہر اَمرخیر کو لے کر اترتے ہیں ، وہ (شب) سراپا سلام ہے وہ شب قدر طلوع فجر تک رہتی ہے ۔ یہ سورۃ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی جس میں پانچ آیات ، 30کلمات اور 121حروف ہیں۔

حضرت ابوہریرہ ؓ نبی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا جو کوئی رمضان میں (راتوںکو) ایمان رکھ کر اور ثواب کے لیے عبادت کرے اس کے اگلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں ۔

لیلۃ القدر بڑی عظمت و بزرگی، بڑی خیر و برکت والی ہے۔ یہ مناجات اور فضیلتوں کی رات ہے، اسی رات میں قرآن مجید نازل ہوا اور اسی رات میں آسمان سے زمین پر فرشتے اترتے ہیں۔ اسے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے، اسے اگر ''سید اللیالی '' تمام راتوں کی سردار کہا جائے تو بجا ہے ۔

شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا ارشاد: کہا گیا ہے کہ انسانوں کے سردار آدم ؑ ہیں۔عربوں کے سردار حضرت محمدؐہیں ۔ اہل فارس کے سردار حضرت سیدنا سلمان فارسی ؓ ہیں۔ رومیوں کے سردار حضرت صہیبؓ ہیں۔ حبشیوں کے سردار حضرت بلال حبشی ؓ ہیں۔تمام شہروں کا سردار مکہ مکرمہ ہے ۔ تمام وادیوں کی سردار بیت المقدس ہے۔ تمام دنوں کا سردار جمعۃ المبارک ہے اور تمام راتوں کی سردار لیلۃ القدر ہے ۔

جمہور علماء کا مؤقف ہے کہ لیلۃ القدر امت محمدیہؐ کے ساتھ خاص ہے ۔ کسی اور امت کو یہ رات عطاء نہیں کی گئی۔ حدیث شریف میں اسی مؤقف کے تائید ہوتی ہے:

ان اللہ وھب لامتی لیلۃ القدر لم یعطھا من کان قبلھم(الدر المنثور جلدنمبر 6صفحہ نمبر 371)

حضرت امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ انہوں نے ایک ثقہ و معتبر عالم سے یہ بات سنی کہ رسول اللہ ؐ کو اگلے لوگوں کی عمریں بتلائیں گئیں توآپ علیہ السلام نے اپنی امت کے لوگوں کی عمروں کو کم سمجھااور یہ خیال کیا کہ میری عمر کے لوگ (اتنی سی عمر میں )ان پہلے لوگوں کے برابر عمل نہ کر سکیں گے تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو لیلۃ القدر عطاء فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔

حضرت مجاہد ؓ فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک عبادت گزار شخص کا یہ حال تھا کہ وہ ساری رات عبادت میں مشغول رہتا اور صبح ہوتے ہی دشمن سے جہاد کے لیے نکل جاتا دن بھر جہاد میں مشغول رہتا ایک ہزار مہینے اس نے اسی عبادت میں گزار دئیے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ''لیلۃ القدر خیرمن الف شہر'' لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔

اس رات کو لیلۃ القدر کہنے کی وجوہات

پہلی وجہ: لیلۃ القدر میں جو لفظ ''قدر''ہے اس کے معنی تقدیر و حکم کے ہیں چونکہ اس رات میں تمام مخلوقات کے لیے جو کچھ تقدیر ازلی میں لکھا ہے اس کا جو حصہ اس سال میں رمضان سے اگلے رمضان تک پیش آنے والا ہے وہ ان فرشتوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے جو کائنات کے تدبیر اور تنقیدامور کے لیے مامور ہیں اس لیے اس رات کا نام لیلۃ القدر رکھا گیا ۔

دوسری وجہ : ''قدر'' کے ایک معنی عظمت و شرافت کے بھی آتے ہیں چنانچہ عربوں کا ایک مقولہ ہے ''لفلان قدر عند فلان''فلاں شخص کی فلاں شخص کے نزدیک بڑی قدر ہے یعنی یہ شخص اس کے نزدیک بہت بزرگ اورمرتبہ والا ہے چونکہ یہ رات بھی عظمت و شرافت والی ہے اس لیے اس کا نام ''لیلۃ القدر ''رکھا گیا ،پھر اسی رات میں عظمت و بزرگی کے ہونے کے بھی دو احتمال ہیں :

(1) جو شخص اس رات میں عبادت کرتا ہے وہ اللہ کے ہاں بزرگی والا بن جاتا ہے ۔

(2) جو عبادت اس رات میں کی جاتی ہے وہ دوسری راتوں کی عبادت سے شرف و مرتبہ میں بہت بڑھ جاتی ہے ۔

تیسری وجہ : ''قدر''کے ایک معنی تنگی کے آتے ہیں چونکہ اس رات میں زمین پر فرشتے اس قدر زیادہ تعداد میں اترتے ہیں کہ زمین باوجوداپنی وسعت کے تنگ پڑ جاتی ہے اس لیے اس رات کا نام ''لیلۃ القدر ''رکھا گیا۔

لیلۃ القدر میں قرآن پاک کا نزول

قرآن پاک کے نزول کی بنا پر جو فضیلت اس رات کو حاصل ہے اس کے بعد کسی اور فضیلت کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔

ایک شبہ کا ازالہ

قرآن مجید میں قرآن کے نازل ہونے کا اشارہ تین وقتوں کی طرف کیا گیا ہے

(1) رمضان میں نازل ہوا (2) شب قدر میں نازل ہوا (3) شب برأت میں نازل ہوا

تو ان تینوں اوقات میں کیسے مطابقت ہوگی؟

جواب : لوح محفوظ سے قرآن مجید کا نزول ''بیت العزت ''میں (کہ وہ ایک جگہ ہے آسمان دنیا پر اور ملائکہ ذی قدر سے گھری ہوئی ہے )

شب قدر میں ہوا جو کہ رمضان کے مہینہ میں واقع ہے اور پھر اس کا نسخہ نقل کر کے آسمان دنیا پر پہنچانے کا فرشتوں کو حکم دیا گیا شب برأت میں ۔

حضرت ابن عباس ؓ نقل کر تے ہیں کہ جب لیلۃ القدر کی شب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ جبرائیل ؑ کو حکم دیتے ہیں ،چنانچہ وہ ملائکہ کے جھرمٹ میں زمین کی طرف اترتے ہیں ،ان ملائکہ کے پاس سبز جھنڈے ہوتے ہیں جو وہ بیت اللہ کی چھت پر گاڑھ دیتے ہیں ،جبرائیل ؑ کے 100پر ہیں جن میں سے وہ دو پر صرف اسی رات کھولتے ہیں وہ دو پر مشرق و مغرب سے تجاوز کر جاتے ہیں،جبرائیل ؑ امین اس رات فرشتوں کو ابھارتے ہیں چنانچہ وہ فرشتے ہر اس بندے سے سلام کرتے ہیں جو کھڑا ہو (عبادت کے لیے )یا بیٹھا ہو (عبادت کے لیے) نماز پڑھ رہا ہو یا ذکر میں مشغول ہواور ان لوگوں سے مصافحہ کرتے اور ان کی دعاؤں پر آمین کہتے ہیں یہاں تک صبح ہو جاتی ہے ،پھر جب صبح ہوجاتی ہے تو جبرائیل ؑ فرشتوں کو آوازدیتے ہیں کہ بس اب چلو ،فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے جبرائیل ؑ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے مومنوں کی ضروریات کے بارے میں کیا فیصلہ فرمایا ہے ؟ جبرائیل امین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں نظررحمت سے دیکھتے ہوئے ان سے درگزرفرما کر انہیں بخش دیا ہے سوائے چار شخصوں کے ،صحابہ کرام کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہؐ وہ چار اشخاص کون ہیں آپؐ نے فرمایا

(1) شراب خور (2) والدین کا نافرمان (3) رشتے ناطے توڑنے والا (4) مشاحن۔

ہم نے عرض کیا یارسول اللہ ؐ مشاحن سے کون مراد ہے ؟ فرمایامصارم یعنی کینہ ور

لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر

مفسرین کرام فرماتے ہیں لیلۃ القدر کے ہزار مہینوں سے بہتر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس ایک رات میں کی جانے والی عبادت ان ہزار راتوں کی عبادت سے بہترہے جن میں لیلۃ القدر نہ ہو ،ایک ہزار مہینوں کے 83سال اور 4ماہ بنتے ہیں تو اس لحاظ سے معلوم ہواکہ جس نے اس رات کوپالیااس نے83سال عبادت میں گزار دئیے۔

لیلۃ القدر میں خیرو برکات اور امن و سلامتی

اللہ نے لیلۃ القدر کو ''سلام '' فرمایاکہ یہ رات سراپا سلامتی ہے ،مفسرین اس کا ایک مطلب یہ بتاتے ہیں کہ فرشتے اس رات ابتداء سے لے کر صبح صادق تک فوج در فوج آسمان سے زمین پر اترتے رہتے ہیں اور شب بیداروں عبادت گزاروں کو سلام کرتے ہیں، امام شعبی ؒ فرماتے ہیں فرشتوں کے سلام کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے، اس میں امت محمدیہ کی بڑی فضیلت ہے کیونکہ فرشتے پہلے صرف انبیاء پر اترتے تھے وحی لے کر ،اب امت محمدیہ پر اترتے ہیں سلام کرنے کیلئے اور دعاء کرنے کے لئے۔

لیلۃ القدر میں عبادت کرنے سے اگلے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں

حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی ؐ نے فرمایا جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی امید سے عبادت کے لیے کھڑا ہو گا اسکے پچھلے سب گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہؐ سے لیلۃ القدر کے بارے میں سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا وہ رمضان میں ہوتی ہے تم اسے رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو وہ طاق راتوں میں ہوتی ہے، جوشخص اس شب میں اس کی جستجو میں کھڑا ہوتا ہے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے اور اسے یہ شب نصیب بھی ہوجائے تواس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔

لیلۃ القدر میں شب بیداری کیسے کی جائے

شب قدر میں توجہ اور خشوع و خضوع کے ساتھ جب تک تھکاوٹ نہ ہو تو اپنے رب کو یاد کرتے رہیں چاہے نوافل کی صورت میں یاتلاوت ،ذکرو اذکار،توبہ واستغفاراور دعاء کی صورت میں ۔

اعتکاف رضائے الٰہی کے حصول کا بہترین ذریعہ

رمضان المبارک میں تمام عبادات کا محور رضائے الٰہی کا حصول اور قرب خداوندی ہی ہوتا ہے، اعتکاف کا اصل مقصد یہ ہے کہ بندہ صرف اللہ رب العٰالمین کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرے اور شب قدر کو تلاش کرے ،ساری مصروفیات کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہو جائے، ہمیں چاہیے کہ ہم دوران اعتکاف تلاوت قرآن، ذکر الٰہی ،نفلی عبادات ،قضاء نمازیں اور دعاؤں کا خاص اہتمام کریں۔

صدقہ الفطر ادا کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے

صدقہ فطر رمضان شروع ہونے سے لیکر نماز عید سے پہلے تک ادا کر دینا چاہیے اگر کسی وجہ سے نماز عید تک صدقہ فطر ادا نہ کر سکا ہو تو اسکے بعد بھی دیا جا سکتا ہے لیکن اس کی ادائیگی میں جلدی کرنی چاہیے ،ہمیں چاہیے کہ مخلوق خداکی دل کھول کر امداد کریں ،اللہ تعالیٰ خدمت انسانیت کے کام کرنے والوں کو اپنا محبوب رکھتا ہے ۔

لیلۃ القدر کی خاص دعاء

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ؐ سے عرض کیا کہ مجھے بتائیے کہ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کونسی رات شب قدر ہے تو میں اس رات اللہ سے کیاعرض کروں اور کیا دعا مانگوں ،آپؐ نے فرمایایہ عرض کرو '' اللھم انک عفوتحب العفوفاعف عنی '' اے میرے اللہ تو بہت معاف کرنے والا ہے اور بڑا کرم فرمانے والاہے اور معاف کردینا تجھے پسند ہے بس تو میری خطائیں معاف فرما دے۔
Load Next Story