لاڑکانہ پیرس کب بنے گا۔۔۔

شہریوں کا بلاول بھٹو زرداری سے سوال


شہریوں کا بلاول بھٹو زرداری سے سوال۔ فوٹو : فائل

سندھ میں پچھلے کئی سالوں سے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت اور لاڑکانہ ان کا گڑھ ہے۔

شہری پہلے اس بات پر فخر کرتے اور خود کو خوش قسمت سمجھتے تھے کہ پاکستان کے دو سابق وزراء اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا تعلق اسی شہر سے ہے لیکن ان کا یہ فخر خاک میں مل گیا ہے۔ لاڑکانہ کی جو صورت حال ہے اس کا مختصر احوال جاننے کے بعد کوئی بھی استغفار کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لاڑکانہ شہر کی کوئی یونین کونسل یا کالونی ایسی نہیں جسے ماڈل قرار دیا جا سکے۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو اپنے دور اقتدار میں لاڑکانہ کو پیرس بنانا چاہتے تھے، لیکن بد قسمتی سے ان کا خواب نہ تو ان کی بیٹی شہید بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن کر پورا کر سکیں اور نہ ہی ان کے بعد پیپلز پارٹی اقتدار میں ہونے کے باوجود شرمندۂ تعبیر کر سکی ہے۔ جس نے لاڑکانہ نہیں دیکھا، اس کی نظر میں یہ شہر نہایت خوب صورت اور جدید ہوگا لیکن اگر کوئی ایک بار اس شہر کا دورہ کر لے تو وہ دوبارہ یہاں آنے سے پناہ ہی مانگے گا۔

اگر کسی شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے 50 ارب سے زاید کا بجٹ خرچ کیا گیا ہو اور پھر بھی شہر میں ہر طرف گندگی کے ڈھیر، سیوریج کا پانی کھڑا ہو، تمام سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں، شدید گرمی میں 16 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہو، شہر میں کروڑوں روپے کی لاگت سے بنایا گیا نیو بس ٹرمینل ویران اور شہر کے اندر بارہ سے زاید غیر قانونی ٹرانسپورٹ اڈے قائم ہوں، 7 ہزار چنگ چی رکشہ، 3 ہزار گدھا گاڑیاں ٹریفک کی روانی میں خلل کا سبب ہوں اور ٹریفک کے اژدھام میں شہری کئی کئی گھنٹے پھنسے رہتے ہوں، تجاوزات کی بھر مار یہاں تک ہو کہ ہر گلی ہر محلے میں تعمیر شدہ گھر کا بیت الخلاء 5 فٹ باہر، پبلک پارکس ایریا پر قبضہ مافیا کا راج ہو، آئے روز حادثات معمول ہوں، کھیلوں کے میدان کھنڈر میں تبدیل ہو چکے ہوں۔

قبرستان تک قبضہ مافیا کی نذر ہوگئے ہوں اور مردے دفنانے کے لیے شہر خاموشاں بھی دست یاب نہ ہو، شہر بھر میں مضر صحت اشیاء اور منشیات کی فروخت کا سلسلہ جاری ہو، سرکاری اسپتالوں میں جعلی ادویات کا استعمال اور وہاں تعینات معالجین اسپتالوں کی بجائے اپنے نجی کلینکس اور میڈیکل سینٹرز کو ترجیح دیں، شعبہ حادثات میں ڈاکٹروں کی مبینہ غفلت کے باعث اموات کی شرح میں اضافہ اور اسی وجہ سے آئے روز ہنگامہ آرائی معمول ہو، خطیر رقم کے باوجود سرکاری ڈائیلاسیز سینٹر کی مشینری خراب اور شہری علاج کے غرض سے سکھر، گمبٹ اور کراچی جانے پر مجبور ہوں اور ایسا شہر جو پاکستان میں ایڈز اور ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد میں دوسرے نمبر پر ہو، 12 سو سے زاید پرائمری اسکولوں میں سے تین سو اسکول بند ہوں۔

ضلع کے 32 میں سے 26 تھانے زبوں حال اور پولیس اہل کار خود خوف اور تکالیف میں ڈیوٹی کرنے پر مجبور اور ان کا شہریوں سے رویہ بھی ناخوش گوار ہو اور خود لاڑکانہ کے شہری اپنا شہر چھوڑ کر دوسرے شہروں میں بسنے کو ترجیح دیتے ہوں، تو یقینا یہ ایک المیہ اور بے ضمیر بیورو کریسی اور متعلقہ حکم رانوں سمیت نصف درجن سے زاید منتخب نمائندوں کے منہ پر تمانچہ ہے۔ بس اتنا کہنا کافی ہو گا کہ اب شہری لاڑکانہ کو موئن جو دڑو بھی نہیں کہہ سکتے کیوں کہ موئن جو دڑو بھی انتہائی تہذیب یافتہ شہر تھا۔ لاڑکانہ کو گندگی، بیت الخلاء، چنگچی رکشوں ، گدھے گاڑیوں اور ایڈز کا شہر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ سارے مسائل آج کے نہیں بلکہ ان مسائل کو تو کئی سال گذر گئے جن کی کئی بار نشان دہی بھی کی گئی، لیکن بے ضمیر متعلقہ حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

شہری حیران اس بات ہوتے ہیں کہ وہی لوگ بار بار اقتدار میں کس طرح آ جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مرکزی رہنما ایم این اے فریال تالپور نے شہریوں کے دیرینہ مسئلے سیوریج کے نظام کی بحالی کے لیے ایک بار پھر 81 کروڑ روپے کے بجٹ کی منظوری حاصل کرلی ہے، جو کہ سندھ حکومت رواں سال میں لاڑکانہ پر خرچ کرے گی۔ لیکن شہری بلاول بھٹو کا وہ وعدہ نہیں بھولے کہ جس میں بلاول بھٹو نے شہریوں سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر ماہ لاڑکانہ کا دورہ کر کے اس شہر کو اپنے نانا شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خواب کے مطابق پیرس بنائیں گے۔



دوسری جانب ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ گھنور علی لغاری اور ایس ایس پی خالد مصطفیٰ کورائی نے بھی شہر سے تجاوزات کے خاتمے کے لیے آپریشن شروع کیا ہوا ہے جس کے اب تک تو کوئی مثبت نتائج تو سامنے نہیں آئے کیوں کہ اب تک کسی بڑی مچھلی پر نہ تو ہاتھ ڈالا گیا ہے اور نہ ہی شہر کی خوب صورتی میں کوئی اضافہ ہوا ہے۔ البتہ شہری کچھ پر امید ضرور ہیں کہ انہیں ایس ایس پی اور ڈی سی لاڑکانہ خلوص نیت سے کوشش ضرور کرتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن انہیں سوائے ایم این اے فریال تالپور کے کسی اور منتخب نمائندے کی سپورٹ حاصل نہیں۔

شہر کے بے پناہ مسائل سے لاڑکانہ کے صحافیوں کو بھی بری ذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا، صحافیوں کے آپس کے اختلافات کے باعث انہوں نے بھی شہری مسائل کو اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح ان کی ذمہ داری بنتی تھی۔ صحافیوں کی باہمی چپقلش سے نہ صرف حکم رانوں بلکہ بیورو کریسی نے بھی فائدہ اٹھایا۔ لیکن اب کئی سالوں کے بعد لاڑکانہ کے سینئر صحافیوں محمد عاشق پٹھان، محمود پٹھان، ظفر ابڑو، و دیگر کی کوششوں سے تمام صحافیوں کے اختلافات ختم ہو گئے ہیں اور پچھلے دنوں لاڑکانہ پریس کلب کی جنرل باڈی کا اجلاس سینئر صحافی ظفر ابڑو کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں نئے سال 2014-15 کے لیے متفقہ طور پر نئی باڈی منتخب کی گئی جس کے مطابق پریس کلب کے صدر کے لیے سید بابو اقبال، نائب صدر طارق درانی، جنرل سیکرٹری مرتضیٰ کلہوڑو، جوائنٹ سیکریٹری شیراز محمود پٹھان اور خزانچی کے لیے حنیف سہاگ کو منتخب کیا گیا، جب کہ ورکنگ کمیٹی کے لیے سیدصابر شاہ، ندیم سومرو، معشوق اوڈھانو، سرکش سدھایو، سلامت ابڑو، تیمور جتوئی کو منتخب کیا گیا۔

بعدازاں نومنتخب عہدے دار صحافیوں نے ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ گھنور علی لغاری اور ایس ایس پی لاڑکانہ خالد مصطفی کورائی سے ملاقات کر کے صحافی کالونی سمیت دیگر مسائل پر گفتگو کی۔ سید اقبال بابو کا کہنا ہے کہ اب ساری توجہ شہر کے اہم مسائل کو حل کرنے پر مرکوز ہوگی تاکہ اپنی ذمہ داری نبھا کر اپنی کوتاہی کا ازالہ کیا جا سکے جب کہ شہریوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ مسائل حل کر کے حکمراں، بیورو کریسی اور منتخب نمایندے اپنا فرائض پورا کریں تاکہ دنیا وآخرت میں کامیاب ہو سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں