دہشت گردی کا سدباب
ملک میں جاری دہشت گردی کے پس پردہ مقاصد و محرکات کا جامع تحقیقات کے ذریعے ٹھوس بنیادوں پر کھوج لگانا ضروری ہے
صدر مملکت آصف علی زرداری نے میر علی حملے کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں سے اپنے شہدا کے خون کا خراج ضرور لیں گے، انھیں منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
وہ شمالی وزیرستان میں شہید ہونے والے لیفٹیننٹ کرنل اور کیپٹن کی نماز جنازہ میں شرکت کے بعد اظہار خیال کررہے تھے۔ دوسری جانب وفاقی وزراء نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر میر علی حملے کے شہدا کے خلاف مہم چلائی جو ملک دشمنی ہے۔
پاکستان کے نمایندہ خصوصی برائے افغانستان نے کہا ہے کہ پاکستان کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان کو افغان پراکسیز کے ذریعے بھارت سے فنڈنگ ہو رہی ہے۔ وطن عزیز ایک بار پھر بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا ہے جس میں بالخصوص سیکیورٹی فورسز کو ہدف بنایا جارہا ہے۔
قومی سیاسی، عسکری اور مذہبی قیادتوں نے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی ان وارداتوں کو دشمن کی جانب سے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی سازش قرار دیا ہے اور آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ ایسی گھناؤنی وارداتوں سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہمارے عزم کو کمزور نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح ایک قومی عزم کے ساتھ ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکی باشندوں کے پاکستان سے انخلاء کا سلسلہ بغیر کسی ردوکد کے شروع کیا گیا ہے جس سے ملک میں امن و خوشحالی کے راستے ہموار ہونے کے قوی امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔
اس لیے اس ارض وطن کے دشمنوں اور بدخواہوں کی جانب سے پاکستان کی ترقی کا سفر روکنے کے لیے اسے دوبارہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانا بعید از قیاس نہیں۔ ویسے تو ہمیں گزشتہ دو دہائیوں سے بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے۔
افغان طالبان اور دوسرے انتہاء پسند گروپوں کی جانب سے پاکستان میں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا گیا اور پھر افغانستان سے پاکستان آنیوالے تحریک طالبان کے لوگوں نے پاکستان میں بھی تحریک طالبان کو دوبارہ منظم کیا اور یہاں ملک کے مختلف علاقوں میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنا کر دہشت گردی کی وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا جن میں بطور خاص ہمارے سیکیورٹی اداروں کے ارکان، تنصیبات اور سیاسی و دینی شخصیات کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا جانے لگا۔
اس دہشت گردی میں ہمارے 80 ہزار سے زائد شہریوں بشمول سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادتیں ہو چکی ہیں اور ہماری معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان الگ سے اٹھانا پڑا ہے ، جب کہ ہمارے ساتھ خدا واسطے کا بیر رکھنے والے کابل کے حکمرانوں کو بھی ہماری انھی اندرونی کمزوریوں کے باعث ہماری سلامتی کے خلاف سازشیں پروان چڑھانے کا موقع ملا جو طالبان دہشت گردوں کو پاک افغان سرحد عبور کرانے کی سہولت کاری کرتے رہے۔
ہمیں طالبان کی موجودہ کابل انتظامیہ سے پاکستان اور خطے میں قیام امن کے لیے کردار ادا کرنے کی اس لیے توقعات وابستہ ہوئی تھیں کہ پاکستان کی جانب سے امریکا اور طالبان کے مابین امن عمل کے لیے موثر کردار ادا کرنے کے نتیجہ میں ہی امریکا کے افغانستان سے انخلاء اور طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کی راہ ہموار ہوئی مگر ان کی جانب سے ہمیں ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا آنے کے بجائے بدترین دشمنی پر مبنی پیغامات موصول ہونا شروع ہو گئے جس کے ذریعے نہ صرف پاکستان کی تضحیک کا اہتمام کیا گیا بلکہ دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے کی بھی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ چنانچہ گزشتہ دو سال سے ہم بالخصوص افغانستان سے پاکستان داخل ہونیوالے دہشت گردوں کی وارداتوں کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔
اسی بنیاد پر پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکی باشندوں کو پاکستان سے واپس بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا جن میں غالب تعداد پاکستان میں گزشتہ 45 سال سے مقیم افغان مہاجرین کی ہے جو یہاں ناجائز کاروبار' بھتہ خوری اور دہشت گردی کی وارداتوں تک میں ملوث تھے۔ پاکستان کے اس فیصلے پر بھی کابل انتظامیہ کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا اور اس فیصلے کی مزاحمت کا عندیہ دیا گیا۔
اس لیے اب غیرقانونی مقیم افغانوں کو پاکستان سے نکالنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو ممکنہ طور پر یہ طالبان کا وہی ردعمل ہو سکتا ہے جس کا کابل کی طالبان انتظامیہ کی جانب سے عندیہ دیا گیا تھا جب کہ ملک کے دو صوبوں میں دہشت گردی کی وارداتیں ہونا بھی معنی خیز ہے ۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت طالبان دہشت گردوں کو سہولتیں فراہم کی جاتی رہیں جو اس پارٹی کے تخریبی' احتجاجی مظاہروں میں بھی شریک ہوتے رہے۔
میدان جنگ ہو یا پُر امن حالات دونوں میدانوں میں ملکی اوربین الاقوامی سطح کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ Pro-active approachکے ذریعے ان مذہبی دہشت گردتنظیموں کاقلع قمع کرنے کے لیے فوجی آپریشن نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح ملکی قوانین میں ضروری قانون سازی نہایت اہم ہے جس کے ذریعے ان مذہبی عسکریت پسند تنظیموں کے دہشت گردوں کو گرفتار کر کے قرار واقعی اور فوری نوعیت کی سزائیں دی جاسکیں۔
تعلیمی یا سیاسی سطح پر ایسی تبدیلیاں لانا ناگزیر ہے جو دہشت گردی کے بیانیہ کا مقابلے کرتے ہوئے اس کے خاتمے کا سبب بنے ۔ اسی طرح بِلاتخصیص تمام غیرملکی فنڈز جو کسی بھی سطح پر کسی تنظیم کے لیے آرہے ہیں انھیں فوراً بند کیا جائے، لیکن یہاں اس نکتے کی وضاحت ضروری ہے کہ اس ملک میں یہ تمام اقدامات اب ناممکن نہیں تو نہایت مشکل کام ضرور ہوگیا ہے، کیونکہ کئیایسی تنظیمیں ہیں جواس وقت ایک ایمپائر کی حیثیت اختیارکر چکی ہیں۔
وہ اقتصادی، دفاعی اور انتظامی طور پر خود کفیل ہوگئی ہیں، اگر اُن کے غیرملکی فنڈز کو روکا بھی جائے، جو بجائے خود ایک مشکل کام ہے تو پھر بھی ان کے لیے کوئی بڑی پریشانی کی بات نہیں۔
دہشت گرد تنظیمیں اس قدر طاقتور ہو چکی ہیں کہ ملک کے مختلف شعبوں میں ان کے ہمدرد اورسہولت کار موجود ہیں، جب تک دہشت گردوں کو اندرون ملک سہولت کاری ملتی رہے گی تب تک دہشت گردی پر قابو پانا مشکل امر ہے اس لیے یہ ناگزیر ہے کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بھی قانون کے شکنجے میں لایا جائے۔ دہشت گرد تنظیمیں بین الاقوامی طاقتور ممالک اور ملکی سطح پر حکومتوں کواپنے مطالبات منظور کرنے پر مجبورکر رہی ہیں ۔تمام ممالک کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ موقف اپنانا اور ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
پاکستان نے غیر دستاویزی تارکین وطن کی اپنے وطن واپسی کے بعد رجسٹرڈ افغان تارکین وطن کو بھی ملک بدر کرنے کے اپنے منصوبے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ پالیسی عسکریت پسندوں کی جانب سے افغانستان کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کے جواب میں تیار کی گئی ہے۔پاکستان گزشتہ 40 برسوں سے تقریباً 50 لاکھ افغان مہاجرین کی انتہائی سخاوت سے میزبانی کررہا ہے اور موجودہ صورتحال کی وجہ سے مہاجرین کی واپسی ضروری ہے۔
ریاستوں اور سرحدی علاقوں کی وزارت کے مطابق پاکستان میں 13 لاکھ رجسٹرڈ افغان، 8 لاکھ نئے رجسٹرڈ افغان اور 7 لاکھ غیر دستاویزی افغان ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قبضے کے بعد اگست 2021سے اب تک غیر دستاویزی طور پر 6 لاکھ نئے افغان پاکستان آئے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ان میں سے 3لاکھ نے پناہ گزینوں کے طور پر رجسٹر ہونے کے لیے افغان مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر سے رجوع کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی ۔
دراصل انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں پاکستان سے افغان مہاجرین کے انخلا کے خلاف بے بنیاد شور شرابا کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کی فنڈنگ کی تحقیقات ہونی چاہیے، تاکہ پس پردہ حقائق آشکار ہوسکیں۔ غیرقانونی مقیم افراد کے ساتھ رجسٹرڈ افغانوں کو بھی وطن واپس چلے جانا چاہیے کیونکہ افغان طالبان حکومت افغانستان میں کافی بہتر کام کررہی ہے، وہاںترقی اور روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہو رہے ہیں۔
ملک میں جاری دہشت گردی کے پس پردہ مقاصد و محرکات کا جامع تحقیقات کے ذریعے ٹھوس بنیادوں پر کھوج لگانا ضروری ہے اور اس حوالے سے کسی قسم کی کمزوری کی نشاندہی ہوتی ہے تو سب سے پہلے اس کا سدباب کیا جائے تاکہ ملک کے دشمنوں اور بد خواہوں کو کھلم کھلا دہشت گردی کے ذریعے ملک میں مزید افراتفری پیدا کرنے کا موقع نہ مل سکے۔دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پوری قوم کو اکٹھا ہو کر اس کا مقابلہ کرنا چاہیے ،ناگزیر ہے کہ عسکری اداروں کے ساتھ ساتھ سول ادارے بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں۔
وہ شمالی وزیرستان میں شہید ہونے والے لیفٹیننٹ کرنل اور کیپٹن کی نماز جنازہ میں شرکت کے بعد اظہار خیال کررہے تھے۔ دوسری جانب وفاقی وزراء نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر میر علی حملے کے شہدا کے خلاف مہم چلائی جو ملک دشمنی ہے۔
پاکستان کے نمایندہ خصوصی برائے افغانستان نے کہا ہے کہ پاکستان کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان کو افغان پراکسیز کے ذریعے بھارت سے فنڈنگ ہو رہی ہے۔ وطن عزیز ایک بار پھر بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا ہے جس میں بالخصوص سیکیورٹی فورسز کو ہدف بنایا جارہا ہے۔
قومی سیاسی، عسکری اور مذہبی قیادتوں نے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی ان وارداتوں کو دشمن کی جانب سے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی سازش قرار دیا ہے اور آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ ایسی گھناؤنی وارداتوں سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہمارے عزم کو کمزور نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح ایک قومی عزم کے ساتھ ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکی باشندوں کے پاکستان سے انخلاء کا سلسلہ بغیر کسی ردوکد کے شروع کیا گیا ہے جس سے ملک میں امن و خوشحالی کے راستے ہموار ہونے کے قوی امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔
اس لیے اس ارض وطن کے دشمنوں اور بدخواہوں کی جانب سے پاکستان کی ترقی کا سفر روکنے کے لیے اسے دوبارہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانا بعید از قیاس نہیں۔ ویسے تو ہمیں گزشتہ دو دہائیوں سے بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے۔
افغان طالبان اور دوسرے انتہاء پسند گروپوں کی جانب سے پاکستان میں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا گیا اور پھر افغانستان سے پاکستان آنیوالے تحریک طالبان کے لوگوں نے پاکستان میں بھی تحریک طالبان کو دوبارہ منظم کیا اور یہاں ملک کے مختلف علاقوں میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنا کر دہشت گردی کی وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا جن میں بطور خاص ہمارے سیکیورٹی اداروں کے ارکان، تنصیبات اور سیاسی و دینی شخصیات کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا جانے لگا۔
اس دہشت گردی میں ہمارے 80 ہزار سے زائد شہریوں بشمول سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادتیں ہو چکی ہیں اور ہماری معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان الگ سے اٹھانا پڑا ہے ، جب کہ ہمارے ساتھ خدا واسطے کا بیر رکھنے والے کابل کے حکمرانوں کو بھی ہماری انھی اندرونی کمزوریوں کے باعث ہماری سلامتی کے خلاف سازشیں پروان چڑھانے کا موقع ملا جو طالبان دہشت گردوں کو پاک افغان سرحد عبور کرانے کی سہولت کاری کرتے رہے۔
ہمیں طالبان کی موجودہ کابل انتظامیہ سے پاکستان اور خطے میں قیام امن کے لیے کردار ادا کرنے کی اس لیے توقعات وابستہ ہوئی تھیں کہ پاکستان کی جانب سے امریکا اور طالبان کے مابین امن عمل کے لیے موثر کردار ادا کرنے کے نتیجہ میں ہی امریکا کے افغانستان سے انخلاء اور طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کی راہ ہموار ہوئی مگر ان کی جانب سے ہمیں ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا آنے کے بجائے بدترین دشمنی پر مبنی پیغامات موصول ہونا شروع ہو گئے جس کے ذریعے نہ صرف پاکستان کی تضحیک کا اہتمام کیا گیا بلکہ دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے کی بھی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ چنانچہ گزشتہ دو سال سے ہم بالخصوص افغانستان سے پاکستان داخل ہونیوالے دہشت گردوں کی وارداتوں کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔
اسی بنیاد پر پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکی باشندوں کو پاکستان سے واپس بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا جن میں غالب تعداد پاکستان میں گزشتہ 45 سال سے مقیم افغان مہاجرین کی ہے جو یہاں ناجائز کاروبار' بھتہ خوری اور دہشت گردی کی وارداتوں تک میں ملوث تھے۔ پاکستان کے اس فیصلے پر بھی کابل انتظامیہ کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا اور اس فیصلے کی مزاحمت کا عندیہ دیا گیا۔
اس لیے اب غیرقانونی مقیم افغانوں کو پاکستان سے نکالنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو ممکنہ طور پر یہ طالبان کا وہی ردعمل ہو سکتا ہے جس کا کابل کی طالبان انتظامیہ کی جانب سے عندیہ دیا گیا تھا جب کہ ملک کے دو صوبوں میں دہشت گردی کی وارداتیں ہونا بھی معنی خیز ہے ۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت طالبان دہشت گردوں کو سہولتیں فراہم کی جاتی رہیں جو اس پارٹی کے تخریبی' احتجاجی مظاہروں میں بھی شریک ہوتے رہے۔
میدان جنگ ہو یا پُر امن حالات دونوں میدانوں میں ملکی اوربین الاقوامی سطح کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ Pro-active approachکے ذریعے ان مذہبی دہشت گردتنظیموں کاقلع قمع کرنے کے لیے فوجی آپریشن نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح ملکی قوانین میں ضروری قانون سازی نہایت اہم ہے جس کے ذریعے ان مذہبی عسکریت پسند تنظیموں کے دہشت گردوں کو گرفتار کر کے قرار واقعی اور فوری نوعیت کی سزائیں دی جاسکیں۔
تعلیمی یا سیاسی سطح پر ایسی تبدیلیاں لانا ناگزیر ہے جو دہشت گردی کے بیانیہ کا مقابلے کرتے ہوئے اس کے خاتمے کا سبب بنے ۔ اسی طرح بِلاتخصیص تمام غیرملکی فنڈز جو کسی بھی سطح پر کسی تنظیم کے لیے آرہے ہیں انھیں فوراً بند کیا جائے، لیکن یہاں اس نکتے کی وضاحت ضروری ہے کہ اس ملک میں یہ تمام اقدامات اب ناممکن نہیں تو نہایت مشکل کام ضرور ہوگیا ہے، کیونکہ کئیایسی تنظیمیں ہیں جواس وقت ایک ایمپائر کی حیثیت اختیارکر چکی ہیں۔
وہ اقتصادی، دفاعی اور انتظامی طور پر خود کفیل ہوگئی ہیں، اگر اُن کے غیرملکی فنڈز کو روکا بھی جائے، جو بجائے خود ایک مشکل کام ہے تو پھر بھی ان کے لیے کوئی بڑی پریشانی کی بات نہیں۔
دہشت گرد تنظیمیں اس قدر طاقتور ہو چکی ہیں کہ ملک کے مختلف شعبوں میں ان کے ہمدرد اورسہولت کار موجود ہیں، جب تک دہشت گردوں کو اندرون ملک سہولت کاری ملتی رہے گی تب تک دہشت گردی پر قابو پانا مشکل امر ہے اس لیے یہ ناگزیر ہے کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بھی قانون کے شکنجے میں لایا جائے۔ دہشت گرد تنظیمیں بین الاقوامی طاقتور ممالک اور ملکی سطح پر حکومتوں کواپنے مطالبات منظور کرنے پر مجبورکر رہی ہیں ۔تمام ممالک کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ موقف اپنانا اور ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
پاکستان نے غیر دستاویزی تارکین وطن کی اپنے وطن واپسی کے بعد رجسٹرڈ افغان تارکین وطن کو بھی ملک بدر کرنے کے اپنے منصوبے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ پالیسی عسکریت پسندوں کی جانب سے افغانستان کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کے جواب میں تیار کی گئی ہے۔پاکستان گزشتہ 40 برسوں سے تقریباً 50 لاکھ افغان مہاجرین کی انتہائی سخاوت سے میزبانی کررہا ہے اور موجودہ صورتحال کی وجہ سے مہاجرین کی واپسی ضروری ہے۔
ریاستوں اور سرحدی علاقوں کی وزارت کے مطابق پاکستان میں 13 لاکھ رجسٹرڈ افغان، 8 لاکھ نئے رجسٹرڈ افغان اور 7 لاکھ غیر دستاویزی افغان ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قبضے کے بعد اگست 2021سے اب تک غیر دستاویزی طور پر 6 لاکھ نئے افغان پاکستان آئے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ان میں سے 3لاکھ نے پناہ گزینوں کے طور پر رجسٹر ہونے کے لیے افغان مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر سے رجوع کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی ۔
دراصل انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں پاکستان سے افغان مہاجرین کے انخلا کے خلاف بے بنیاد شور شرابا کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کی فنڈنگ کی تحقیقات ہونی چاہیے، تاکہ پس پردہ حقائق آشکار ہوسکیں۔ غیرقانونی مقیم افراد کے ساتھ رجسٹرڈ افغانوں کو بھی وطن واپس چلے جانا چاہیے کیونکہ افغان طالبان حکومت افغانستان میں کافی بہتر کام کررہی ہے، وہاںترقی اور روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہو رہے ہیں۔
ملک میں جاری دہشت گردی کے پس پردہ مقاصد و محرکات کا جامع تحقیقات کے ذریعے ٹھوس بنیادوں پر کھوج لگانا ضروری ہے اور اس حوالے سے کسی قسم کی کمزوری کی نشاندہی ہوتی ہے تو سب سے پہلے اس کا سدباب کیا جائے تاکہ ملک کے دشمنوں اور بد خواہوں کو کھلم کھلا دہشت گردی کے ذریعے ملک میں مزید افراتفری پیدا کرنے کا موقع نہ مل سکے۔دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پوری قوم کو اکٹھا ہو کر اس کا مقابلہ کرنا چاہیے ،ناگزیر ہے کہ عسکری اداروں کے ساتھ ساتھ سول ادارے بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں۔