مودی کی شامت
مودی سرکارنے الیکٹورل بونڈزکے اجراء کاایک ناٹک رچایاتھا جس کی تفصیل یہ ہے کہ ان بونڈزکی خریدوفروخت کامقصد چناؤلڑنا تھا
قانون قدرت ہے کہ ظالم کو اس کے کرتوتوں کی سزا ایک نہ ایک دن ضرور ملتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس معاملے میں بعض اوقات ڈھیل مل جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ جامہ سے باہر ہو جاتا ہے۔ بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی کے ساتھ یہی کچھ ہونے جا رہا ہے۔
مودی کی مثال اس چوہے جیسی ہے جو شراب کے مٹکہ میں گر گیا تھا اور جب وہ باہر نکلا تو نشے میں چور ہونے کی وجہ سے چیخ چیخ کر مسلسل یہی کہہ رہا تھا ''کہاں ہے بلی کہاں ہے بلی؟'' اور پھر اس کا وہی انجام ہوا جو ہونا تھا۔ مسلسل دو مرتبہ چناؤ جیتنے کے بعد وہ اپنی اوقات بھول گیا کہ کبھی وہ چائے والا ہوا کرتا تھا۔
اس کے چمچوں کی چاپلوسی نے اس کا دماغ مزید خراب کر دیا۔ گجرات کے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے قصاب نے ہندوستان کی تاریخی بابری مسجد کو شہید کر کے یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ جو بھی چاہے کرسکتا ہے اور اسے روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں۔ظالم نے صرف بابری مسجد کی شہادت پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ہندوستان کی دیگر مساجد کی شہادت کا سلسلہ بھی جاری رکھا جس میں ہندوستان کے تاریخی شہروں آگرہ اور دلی کی مساجد بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ اس نے مسلمانوں کی نسل کشی کی مہم بھی شروع کر دی۔ بھارت کے مختلف شہروں میں ایک سوچے سمجھے ناپاک منصوبے کے تحت مسلمانوں کی املاک اور کاروبار کی تباہی مودی کا مشغلہ بن گیا جس کے نتیجے میں بھارت کی دوسری اکثریت مسلمانوں کا جینا حرام ہوگیا۔اگر دنیا کے ساتویں عجوبہ تاج محل سے ہونے والی کھربوں روپے کی آمدنی جو غیر ملکی زر مبادلہ کمانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے، مجبوری نہ ہوتی تو مودی اسے بھی کبھی کا ڈھا چکا ہوتا۔
بابری مسجد کے علاوہ اورکئی مساجد کو شہید کرنے کے باوجود مودی کی ہوس ختم نہیں ہوئی اور اس کے بعد اب اس کے مذموم ارادے یہ ہیں کہ متھرا اور کاشی کے شہروں میں بھی موجود تاریخی مساجد کو شہید کردیا جائے۔
قصہ یوں ہے کہ مودی سرکار نے الیکٹورل بونڈز کے اجراء کا ایک ناٹک رچایا تھا جس کی تفصیل یہ ہے کہ ان بونڈز کی خرید و فروخت کا مقصد چناؤ لڑنا تھا۔ بونڈز کے اس گھناؤنے گھوٹالہ کا پول کھل گیا ہے جس میں بھارت کے بڑے بڑے سرمایہ کار شامل ہیں جوکارپوریٹ سیکٹرکے کرتا دھرتا ہیں۔ ان میں امبانی اور اڈانی سرفہرست ہیں۔ یہ وہی امبانی ہے جس کے بیٹے کی شادی کے چرچے دنیا کے کونے کونے میں ہو رہے ہیں۔دراصل الیکشن میں مودی کی زبردست کامیابی کا راز یہی ہے۔ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔
کھوجیوں نے کھوج نکالا کہ یہ کام اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔سچ کی آواز کو دبانے کے لیے مودی سرکار نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ سرکاری میڈیا کی بات تو چھوڑیے اس کے علاوہ دیگر بڑے بڑے پرائیویٹ نجی چینلز پر بھی مودی سرکارکا قبضہ ہے اور اس کی کوشش ہے کہ مودی کے خلاف کوئی لفظ بھی کسی کے کانوں تک کوئی سچ بات نہ پہنچ سکے۔
یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ مودی سرکار نے میڈیا کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔ عملاً تمام ٹی وی چینلز سرکاری بھونپو بنے ہوئے ہیں۔ لے دے کر چند ایسے صحافی اور چینلز نے نہایت ہمت اور جرات سے کام لیتے ہوئے مودی سرکار کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے اور ہر قیمت پر سچ کو عوام تک پہنچانے کا تہیہ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے مودی سرکار بہت پریشان ہے۔ مودی کے الیکٹورل بونڈز کے گھوٹالہ کی بھنک بھارتی سپریم کورٹ تک کے کانوں تک جا پہنچی اور بس پھر کیا تھا کہ مودی کی شامت آگئی۔
سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو ہدایت کی کہ وہ الیکٹورل بونڈز سے متعلق تمام تفصیلات سے عدالت عالیہ کو آگاہ کرے جس کے جواب میں بینک نے 3 ہفتے کی مہلت دینے کی درخواست کی لیکن جب 26 دن گزر جانے کے باوجود بینک نے مطلوبہ معلومات فراہم نہ کی تو سپریم کورٹ نے اس کا سخت نوٹس لیا۔
بینک کے وکیل نے حیلہ بہانہ سے کام لیتے ہوئے کورٹ سے مزید مہلت طلب کی تو کورٹ کا برہم ہونا فطری امر تھا۔ سپریم کورٹ کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تاہم اس نے بینک کو 2 دن کی مزید مہلت دے دی لیکن بینک نے اسی لیت ولعل کا مظاہرہ کیا جس کے بعد کورٹ کے پاس اس کے سوائے اور کوئی چارہ نہیں کہ بینک کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
حجت تمام کرنے کے لیے کورٹ نے بینک کو 24 گھنٹے کا نوٹس دے دیا جس کے بعد بینک کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ کورٹ کا کہنا تھا کہ 2 لاکھ سے بھی زیادہ ملازمین پر مشتمل اسٹیٹ بینک آف انڈیا کورٹ کے حکم کی تعمیل کرنے میں ناکام رہا جس کے بعد کورٹ کے پاس اس کے سوائے اور کوئی چارہ نہیں کہ بینک کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
اسٹیٹ بینک آف انڈیا چونکہ خالصتاً سرکار کے ماتحت ہے، اس لیے اس کے کسی بھی عمل کی ذمے داری سرکار پر عائد ہوتی ہے اور اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ اصل ذمے داری سرکار کے سربراہ ہونے کی وجہ سے نریندر مودی پر عائد ہوتی ہے۔ بینک نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ اس معاملے کو چناؤ سے بہت پہلے طے کیا جائے گا جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ مودی جی کی شامت آگئی ہے۔
مودی کی مثال اس چوہے جیسی ہے جو شراب کے مٹکہ میں گر گیا تھا اور جب وہ باہر نکلا تو نشے میں چور ہونے کی وجہ سے چیخ چیخ کر مسلسل یہی کہہ رہا تھا ''کہاں ہے بلی کہاں ہے بلی؟'' اور پھر اس کا وہی انجام ہوا جو ہونا تھا۔ مسلسل دو مرتبہ چناؤ جیتنے کے بعد وہ اپنی اوقات بھول گیا کہ کبھی وہ چائے والا ہوا کرتا تھا۔
اس کے چمچوں کی چاپلوسی نے اس کا دماغ مزید خراب کر دیا۔ گجرات کے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے قصاب نے ہندوستان کی تاریخی بابری مسجد کو شہید کر کے یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ جو بھی چاہے کرسکتا ہے اور اسے روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں۔ظالم نے صرف بابری مسجد کی شہادت پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ہندوستان کی دیگر مساجد کی شہادت کا سلسلہ بھی جاری رکھا جس میں ہندوستان کے تاریخی شہروں آگرہ اور دلی کی مساجد بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ اس نے مسلمانوں کی نسل کشی کی مہم بھی شروع کر دی۔ بھارت کے مختلف شہروں میں ایک سوچے سمجھے ناپاک منصوبے کے تحت مسلمانوں کی املاک اور کاروبار کی تباہی مودی کا مشغلہ بن گیا جس کے نتیجے میں بھارت کی دوسری اکثریت مسلمانوں کا جینا حرام ہوگیا۔اگر دنیا کے ساتویں عجوبہ تاج محل سے ہونے والی کھربوں روپے کی آمدنی جو غیر ملکی زر مبادلہ کمانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے، مجبوری نہ ہوتی تو مودی اسے بھی کبھی کا ڈھا چکا ہوتا۔
بابری مسجد کے علاوہ اورکئی مساجد کو شہید کرنے کے باوجود مودی کی ہوس ختم نہیں ہوئی اور اس کے بعد اب اس کے مذموم ارادے یہ ہیں کہ متھرا اور کاشی کے شہروں میں بھی موجود تاریخی مساجد کو شہید کردیا جائے۔
قصہ یوں ہے کہ مودی سرکار نے الیکٹورل بونڈز کے اجراء کا ایک ناٹک رچایا تھا جس کی تفصیل یہ ہے کہ ان بونڈز کی خرید و فروخت کا مقصد چناؤ لڑنا تھا۔ بونڈز کے اس گھناؤنے گھوٹالہ کا پول کھل گیا ہے جس میں بھارت کے بڑے بڑے سرمایہ کار شامل ہیں جوکارپوریٹ سیکٹرکے کرتا دھرتا ہیں۔ ان میں امبانی اور اڈانی سرفہرست ہیں۔ یہ وہی امبانی ہے جس کے بیٹے کی شادی کے چرچے دنیا کے کونے کونے میں ہو رہے ہیں۔دراصل الیکشن میں مودی کی زبردست کامیابی کا راز یہی ہے۔ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔
کھوجیوں نے کھوج نکالا کہ یہ کام اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔سچ کی آواز کو دبانے کے لیے مودی سرکار نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ سرکاری میڈیا کی بات تو چھوڑیے اس کے علاوہ دیگر بڑے بڑے پرائیویٹ نجی چینلز پر بھی مودی سرکارکا قبضہ ہے اور اس کی کوشش ہے کہ مودی کے خلاف کوئی لفظ بھی کسی کے کانوں تک کوئی سچ بات نہ پہنچ سکے۔
یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ مودی سرکار نے میڈیا کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔ عملاً تمام ٹی وی چینلز سرکاری بھونپو بنے ہوئے ہیں۔ لے دے کر چند ایسے صحافی اور چینلز نے نہایت ہمت اور جرات سے کام لیتے ہوئے مودی سرکار کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے اور ہر قیمت پر سچ کو عوام تک پہنچانے کا تہیہ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے مودی سرکار بہت پریشان ہے۔ مودی کے الیکٹورل بونڈز کے گھوٹالہ کی بھنک بھارتی سپریم کورٹ تک کے کانوں تک جا پہنچی اور بس پھر کیا تھا کہ مودی کی شامت آگئی۔
سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو ہدایت کی کہ وہ الیکٹورل بونڈز سے متعلق تمام تفصیلات سے عدالت عالیہ کو آگاہ کرے جس کے جواب میں بینک نے 3 ہفتے کی مہلت دینے کی درخواست کی لیکن جب 26 دن گزر جانے کے باوجود بینک نے مطلوبہ معلومات فراہم نہ کی تو سپریم کورٹ نے اس کا سخت نوٹس لیا۔
بینک کے وکیل نے حیلہ بہانہ سے کام لیتے ہوئے کورٹ سے مزید مہلت طلب کی تو کورٹ کا برہم ہونا فطری امر تھا۔ سپریم کورٹ کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تاہم اس نے بینک کو 2 دن کی مزید مہلت دے دی لیکن بینک نے اسی لیت ولعل کا مظاہرہ کیا جس کے بعد کورٹ کے پاس اس کے سوائے اور کوئی چارہ نہیں کہ بینک کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
حجت تمام کرنے کے لیے کورٹ نے بینک کو 24 گھنٹے کا نوٹس دے دیا جس کے بعد بینک کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ کورٹ کا کہنا تھا کہ 2 لاکھ سے بھی زیادہ ملازمین پر مشتمل اسٹیٹ بینک آف انڈیا کورٹ کے حکم کی تعمیل کرنے میں ناکام رہا جس کے بعد کورٹ کے پاس اس کے سوائے اور کوئی چارہ نہیں کہ بینک کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
اسٹیٹ بینک آف انڈیا چونکہ خالصتاً سرکار کے ماتحت ہے، اس لیے اس کے کسی بھی عمل کی ذمے داری سرکار پر عائد ہوتی ہے اور اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ اصل ذمے داری سرکار کے سربراہ ہونے کی وجہ سے نریندر مودی پر عائد ہوتی ہے۔ بینک نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ اس معاملے کو چناؤ سے بہت پہلے طے کیا جائے گا جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ مودی جی کی شامت آگئی ہے۔