طلبہ یونین کی بحالی

چیف جسٹس کی اس رولنگ کے بعد طلبہ یونین کی بحالی کے بارے میں طالع آزما حلقوں کا پیدا کردہ ابہام دور ہوا


Dr Tauseef Ahmed Khan March 20, 2024
[email protected]

کیا منتخب حکومتیں طلبہ یونین کی بحالی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کریں گی؟ قائد اعظم یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ میں ایک نشست بلحاظ عہدہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے مختص ہے۔

عموماً سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کرتے مگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا تو قائد اعظم یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے اجلاس میں شرکت کی اور انھوں نے سنڈیکیٹ کے اجلاس میں طلبہ یونین پر پابندی کے بارے میں قانونی پوزیشن کی وضاحت کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ مارشل لاء کے خاتمے کے بعد مارشل لاء کے ضوابط بھی ختم ہوگئے ہیں، یوں اب طلبہ یونین پرکوئی پابندی نہیں ہے۔ چیف جسٹس کی اس رولنگ کے بعد طلبہ یونین کی بحالی کے بارے میں طالع آزما حلقوں کا پیدا کردہ ابہام دور ہوا۔

گزشتہ ماہ قائد اعظم یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کا اجلاس دوبارہ ہوا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے اجلاس میں شرکت کی۔ اب قائد اعظم یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ نے یہ فیصلہ کرلیا کہ یونیورسٹی میں طلبہ یونین کے انتخابات اگست میں ہوںگے۔ یونیورسٹی سنڈیکیٹ نے طلبہ یونین کے دائرہ کار اور طلبہ یونین کے مختلف عہدوں کے امیدواروں کے لیے ایک ضابطہ اخلاق کی منظوری دی تھی۔

ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم ترقی پسند طلبہ کا ایک اجتماع 2017ء میں گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی میں منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس میں ترقی پسند طلبہ کی تنظیم پرو گریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو Progressive Students Collective کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس کی قیادت نے 2019ء میں طلبہ یونین کے بحالی کے لیے ملک گیر مارچ کرنے کا فیصلہ کیا اور بائیں بازو کی دیگر طلبہ تنظیموں کو طلبہ ایکشن کمیٹی میں متحد کیا گیا۔

طلبہ ایکشن کمیٹی کے اراکین نے اس بات پر اتفاق رائے بھی کیا تھا کہ طلبہ یونین کی بحالی کے علاوہ یونیورسٹی طالبات کو جنسی ہراسگی کے واقعات سے بچانے کے لیے Harassment Committee کے قیام کے مطالبہ کو بھی شامل کیا جائے، یوں پورے ملک میں طلبہ نے جلوس نکالے۔ ان جلوسوں میں خواتین اور بائیں بازوکی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کے علاوہ سول سوسائٹی کی تنظیموں نے بھرپور حصہ لیا۔ یوں اس دن الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کا سب سے اہم موضوع طلبہ یونین کی بحالی تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے فوراً ٹویٹر تک بیانیہ کا اجراء کیا۔ انھوں نے اس بیانیے میں عہد کیا کہ ان کی حکومت جلدی طلبہ یونین کے انتخابات کا اعلان کرے گی، مگر یہ وعدہ دیگر وعدوں کی طرح وفا نہ ہوا ۔

جب طلبہ ایکشن کمیٹی نے طلبہ یونین کی بحالی کا دن منایا تھا تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یہ اعلان کیا کہ سندھ میں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے قانون بنایا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کی صوبہ سندھ کی حکومت نے طلبہ یونین کی بحالی کا مسودہ جاری کیا لیکن کووڈ 19 کی بناء پر اس مسودے پر کھل کر بحث نہیں ہوئی، جب حالات بہتر ہوئے تو کراچی کی سول سوسائٹی نے اس مسودے کا بغور جائزہ لیا۔

کراچی پریس کلب اور زیبسٹ میں ہونے والے مشاورتی اجلاسوں میں طلبہ، اساتذہ اور طلبہ یونین کے مختلف ادوار کے سابق نمایندوں نے شرکت کی اور مسودہ میں ترامیم تجویزکی گئیں، یوں سندھ اسمبلی نے طلبہ یونین کی بحالی کے لیے قانون منظورکیا۔

اس قانون کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ اس مسودہ میں طلبہ یونین کے مختلف عہدوں کے لیے طالبات کی نمایندگی 50 فیصد کردی گئی ہے مگر وفاق اور دیگر صوبوں میں اس ضمن میں کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔ سندھ کی یونیورسٹیوں کے امور کے سابقہ وزیر اسماعیل راہو نے سندھ کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے اجلاس میں طلبہ یونین کی بحالی کا ایجنڈا رکھا تھا مگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر بیشتر وائس چانسلر صاحبان طلبہ یونین کی بحالی کے لیے تیار نہ ہوئے۔

چوتھے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے جب اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک بہت بڑی مزاحمتی تحریک فعال تھی۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے بنیادی حقوق غضب کیے اور اس تحریک کو کچلنے کے لیے بنیادی حقوق کو پامال کیا گیا۔ آئین کی بحالی کی ایم آر ڈی کی تحریک کو کچلنے کے لیے اندرون سندھ جلسے جلسوں پر گولیاں برسائی گئیں۔ ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان سیکڑوں کارکنوں کوکوڑے مارے گئے۔ جنرل ضیاء الحق حکومت نے مخالفین کو قید کیا۔ احتجاج کرنے والے صحافیوں کو بھی کوڑے مارے گئے۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے اس کے ساتھ طلبہ یونین پر پابندی عائد کردی اور انتخابات کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیا گیا۔

ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تعلیمی اداروں میں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر کو پروان چڑھایا گیا۔ جب 90ء کی دہائی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک رہنما نے طلبہ یونین پر پابندی کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو عدالت نے اسٹے آرڈر جاری کیا ، بعد میں جاری ہونے والے تفصیلی فیصلہ میں طلبہ یونین پر عائد پابندی ختم کردی گئی مگر اس فیصلے کو عام نہیں کیا گیا۔

یہی تصور رہا کہ سپریم کورٹ نے طلبہ یونین کے انتخابات پر پابندی عائد کی ہوئی تھی مگر جب 2008میں رضا ربانی سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوئے تو نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو نے طلبہ یونین کی بحالی کی قرارداد پیش کی تو اس وقت کے اٹارنی جنرل نے جسٹس افضل ظلہ کے تفصیلی فیصلہ کا جائزہ لے کر رائے دی کہ اس فیصلے میں طلبہ یونین پر عائد پابندی ختم کردی گئی ہے۔

ہانک کانگ میں مقیم ایک صحافی نے صدر ممنون حسین کو طلبہ کی بحالی کے لیے عرضداشت بھیجی تھی۔ ایوان صدر نے اس عرضداشت پر وزارت قانون سے رائے طلب کی تو وزارت قانون کے روشن خیال افسر نے واضح رائے دی کہ مارشل لاء کے خاتمے کے بعد یہ پابندی بھی ختم ہوگئی ہے ۔ انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور میں طلبہ یونین کی بحالی کا نکتہ ضرور شامل کرتی ہیں مگر اس نکتے پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔

پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کیا تھا مگر وہ بھی وعدہ پورا نہ کرسکے ۔ طلبہ یونین وہ ادارہ ہے جو نوجوانی میں طلبہ کو برداشت کا حوصلہ دیتا ہے اور طلبہ کی صلاحیتو ں کو مثبت انداز میں ابھارتا ہے۔ ان میں تنظیمی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں اور یہ نوجوان ابتدائی عمروں میں ہی جمہوری کلچر کا حصہ بن جاتے ہیں۔

موجودہ پارلیمنٹ میں ایسے منتخب اراکین شامل ہیں جو نوجوانی میں طلبہ یونین کے عہدیدار تھے۔ بارہویں نئی حکومتوں کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہی وقت ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف جمہوریت کے ابتدائی ادارے کی بحالی کے لیے فوری طور پر اقدامات کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں