آئی ایم ایف معاہدہ امید کی کرن پھوٹی ہے
بلاشبہ آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ روپے پر دباؤ میں کمی کا باعث بنے گا
پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ بجلی اور گیس کی قیمتیں بروقت بڑھانے کا وعدہ کیا ہے،آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ رواں سال ترقی معمولی رہنے کی توقع اور افراط زر ہدف سے کافی زیادہ ہے جب کہ دوسری جانب ایف بی آر نے نئے قرض پروگرام کے لیے خصوصی ریونیو پلان تیارکر لیا ہے، جون میں نئے بجٹ کے ساتھ اہم ترین ٹیکس اقدامات کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں، جس کے لیے فنانس بل کے ذریعے نو لاکھ دکانداروں کو فکس ٹیکس میں لانے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔
بلاشبہ آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ روپے پر دباؤ میں کمی کا باعث بنے گا اور پاکستان کو دوست ممالک سے مدد ملنے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔ آئی ایم ایف نے بجلی، گیس اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافے اور سبسڈیز کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جس سے مہنگائی میں اضافے کا امکان ہے مگر دوسری جانب درآمدات کھولنے سے مارکیٹ اور صنعتوں کی سپلائی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی، کیونکہ افراط زر پر مثبت اثر پڑے گا۔
نو منتخب حکومت پہلے اپنے مالیاتی، اقتصادی اور انتظامی شعبوں کو درست کرے اور ٹیکس نیٹ کو مزید وسعت دینے پر کامیابی سے عملدرآمد کے لیے فوری اقدامات اٹھائے، کیونکہ ایک چیلنجنگ کاروباری ماحول سرمایہ کاری کو روکتا ہے، جیسا کہ مسابقتی مارکیٹوں میں مضبوط ریاستی موجودگی ہے۔ ٹیکس کی خرابیاں پیداواری سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی بھی کرتی ہیں اور رئیل اسٹیٹ جیسے غیر تجارتی شعبوں کی حمایت کرتی ہیں۔
پیداواری اثاثوں کی فروخت میں تیزی لانا یا غیر ملکی سرمایہ کاری کے سودوں کو منتخب طور پر راغب کرنا قلیل مدت میں انتہائی ضروری زرمبادلہ کے ذخائر لا سکتا ہے، لیکن دیرپا اثرات کے لیے کم سرمایہ کاری اور پیداواری نمو میں کمی کے پیچھے بنیادی مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہوگی۔
پاکستان میں توانائی کا شعبہ جس میں بجلی، گیس اور پٹرولیم شامل ہیں معیشت پر روز بروز بھاری پڑتا چلا جارہا ہے اور مہنگی ہوتی ہوئی توانائی عوام کی قوتِ خرید اور مقامی معیشت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔
بجلی کے شعبے پر اپنی رپورٹ میں عالمی بینک نے انکشاف کیا ہے کہ ریاست نے بجلی کے پیداواری شعبے سے جو معاہدے کیے ہیں اس کی وجہ سے خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں بجلی بہت زیادہ مہنگی ہے۔ حکومت کی جانب سے بجلی مہنگی کرنے اور بجلی کی چوری کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن کے باوجود گردشی قرضوں میں کسی طور کمی نہیں ہو رہی ہے۔
ایک طرف بجلی کی قیمت بہت زیادہ ہے تو دوسری طرف سرکارکی ملکیت میں موجود تقسیم کارکمپنیوں میں نااہلی اقربا پروری اور بد عنوانی کی وجہ سے حالات نہایت مخدوش ہیں۔ نقصان میں چلنے والی ان ڈسکوزکو پہلے صوبوں کے حوالے کرنے کی بات کی گئی مگر اب عالمی بینک اور ایس آئی ایف سی کی مشاورت سے طویل مدتی معاہدے کے تحت نجی شعبے کے حوالے کرنے پر عمل کیا جارہا ہے، ٹیرف میں حالیہ اضافے نے غریب صارفین کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے نقصانات کو محدود کرنے میں مدد کی ہے۔
خوش قسمتی سے پاکستان کو سستے ترین پن بجلی اور شمسی توانائی کے وسائل تک رسائی حاصل ہے۔ ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، جو صرف اسی صورت میں آئے گی جب تقسیم اور ترسیل کے نظام میں دیرینہ مسائل کو حل کیا جائے گا، خاص طور پر زیادہ نجی شراکت داری کے ذریعے۔ اس کے علاوہ، اخراجات کی وصولی کے لیے ضروری ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کو سیاست سے بچانا ہوگا، تاکہ طویل مدت میں سرمایہ کاروں کے لیے قابل اعتماد ترغیبات فراہم کی جا سکیں۔
جس طرح سے آئی ایم ایف کے تمام مطالبات 'من وعن' مان لیے گئے اور ان پر عمل کرنے کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے۔ ان پر عمل کے بعد عوام کا کیا حشر ہوگا؟ ہمارے عوام بد حال ہوچکے ہیں اور مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے سونامی میں غوطے کھا رہے ہیں، لیکن دوسری طرف مراعات یافتہ طبقے کے موجودہ حالات میں بھی وارے نیارے ہی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے عوام کو قربانی کا بکرا بنانا سب سے آسان ہے، اسی لیے تو وہ آئے دِن عوام پر پٹرول ، بجلی، گیس ، ٹیکس اور مہنگائی کے بم گرا رہے ہیں۔ نا انصافی کی حد ہے کہ بزرگ شہریوں کی زندگیوں کو بھی اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے۔
عام ادویات کے ساتھ ساتھ جان بچانے والی ادویات جوکہ اِ ن بزرگوں کی خوراک کا لازمی حصہ بن چکی ہیں، ان کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہو چکا ہے۔ حکومت معیشت کو ''استحکام'' دینے کے لیے بزرگوں کی پنشن کی رقم کو ''صحت بخش دوائی'' کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے، حکومت کا آئی پی پیز پر تو کوئی بس نہیں چلتا مگر بے چارے بے بس پنشنر ان کے ''نشانہ ستم'' کی زد میں ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری ملکی معیشت کی تباہی اور عوام کے مسائل میں اضافے کی وجہ آئی پی پیز معاہدے ہی ہیں۔ نہ جانے حکومت اِن ''لاڈلوں'' کی طرف کب توجہ دے گی؟
رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ریٹیل جیسے کم ٹیکس والے شعبوں سے صوبائی اور مقامی سطح پر مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے جس سے ممکنہ طور پر جی ڈی پی میں مزید 3 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ اخراجات کی بچت عوامی وسائل کے زیادہ موثر انتظام سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ خسارے میں چلنے والے زیادہ تر سرکاری اداروں کی نجکاری کی جانی چاہیے۔ زراعت اور توانائی کے شعبوں میں ناقص اہداف پر مبنی سبسڈیز میں کٹوتی کی جانی چاہیے جب کہ غریب ترین افراد کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔ وفاقی اور صوبائی اخراجات کے درمیان فرق کو بھی کم کیا جانا چاہیے۔
ان اقدامات سے سالانہ جی ڈی پی میں مزید 3 فیصد کی بچت ہوسکتی ہے۔پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے اور شعبہ زراعت نے مشکل ترین حالات میں بھی پاکستان کی معیشت کو زمین بوس نہیں ہونے دیا۔ عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ شعبہ پانچ فیصد سے بھی زیادہ کی شرح سے ترقی کر رہا ہے۔ پاکستان نے ڈالر کی اسمگلنگ کو بھی کامیابی سے روک دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے اب جو مطالبات سامنے رکھے ہیں اس پر پاکستان نے ماہانہ بنیاد پر جن اقدامات کی تحریری طور پر یقین دہانی کرائی ہے، ان کے مطابق رواں ماہ مارچ میں گیس مزید مہنگی کردی گئی ہے۔
ٹیکسٹائل اور لیدر سیکٹر کے ٹیئر ون میں آنے والے پرچون فروشوں پر جی ایس ٹی کی 15 فیصد کی شرح کو بڑھا کر 18 فیصد کیا جائے گا۔ چینی پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی پانچ روپے فی کلو گرام بڑھائی جاسکے گی، مشینری کی درآمد پر ایک فیصد ایڈوانس ٹیکس کا اضافہ کردیا جائے گا۔ را مٹیریل کی درآمد پر ایڈوانس ٹیکس میں 0.5 فیصد اضافہ کیا جاسکے گا اور سپلائر ز اور کنسٹرکشن پر بھی ود ہولڈنگ ٹیکس کو بڑھایا جائے گا۔
آج کے دور میں ادارے ایک دوسرے کے ساتھ انٹر لنک ہیں اسی طرح سے اشیاء کی قیمتیں بھی ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں۔ ایک چیزکی قیمت بڑھے تو ہر چیزکی قیمت پر اس کا اثر پڑتا ہے، البتہ کسی چیزکی قیمت میں کمی ہو جائے تو دوسری اشیاء اپنی جگہ پر مستقل مزاج رہتی ہیں۔ پرچون فروش پر 15 فیصد جی ایس ٹی کو بڑھا کر 18 فیصد کیا جائے گا تو اس کا براہ راست بوجھ عام صارف پر ہوگا۔ صرف انھی مطالبات اور یقین دہانیوں کو مد نظر رکھا جائے تو یہ قومی بجٹ سے پہلے منی بجٹ لانے کے مترادف ہے۔ اسی سے عوام کی چیخیں نکل جائیں گی۔
سالانہ بجٹ میں تو شہریوں کا حشر نشر ہو جائے گا۔ ہمارے مالیاتی اداروں کی طرف سے آئی ایم ایف کو تسلی دی گئی ہے کہ لاہور، اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں ریٹیلرز کو رجسٹر کرنے کے لیے گھر گھر جا کر مہم چلائی جائے گی۔ یہ اچھا اقدام ہے ٹیکس نیٹ میں جتنے بھی زیادہ سے زیادہ لوگ آ جائیں بہتر ہے۔ کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ٹیکس نیٹ کا دائرہ کار بڑھایا جائے اس میں نئے ٹیکس دہندگان کو شامل کیا جائے۔
اب ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے ایک روڈ میپ بنانے کی ذمے داری نئی حکومت کی ہے، جس کے تحت زراعت، صنعت، تجارت، سرمایہ کاری اور برآمدات کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی معیشت کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کا فوری انخلاء بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہونا چاہیے، کیونکہ وطن عزیزکی معیشت اور سیکیورٹی ہمارے لیے سب سے مقدم ہے۔
بلاشبہ آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ روپے پر دباؤ میں کمی کا باعث بنے گا اور پاکستان کو دوست ممالک سے مدد ملنے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔ آئی ایم ایف نے بجلی، گیس اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافے اور سبسڈیز کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جس سے مہنگائی میں اضافے کا امکان ہے مگر دوسری جانب درآمدات کھولنے سے مارکیٹ اور صنعتوں کی سپلائی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی، کیونکہ افراط زر پر مثبت اثر پڑے گا۔
نو منتخب حکومت پہلے اپنے مالیاتی، اقتصادی اور انتظامی شعبوں کو درست کرے اور ٹیکس نیٹ کو مزید وسعت دینے پر کامیابی سے عملدرآمد کے لیے فوری اقدامات اٹھائے، کیونکہ ایک چیلنجنگ کاروباری ماحول سرمایہ کاری کو روکتا ہے، جیسا کہ مسابقتی مارکیٹوں میں مضبوط ریاستی موجودگی ہے۔ ٹیکس کی خرابیاں پیداواری سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی بھی کرتی ہیں اور رئیل اسٹیٹ جیسے غیر تجارتی شعبوں کی حمایت کرتی ہیں۔
پیداواری اثاثوں کی فروخت میں تیزی لانا یا غیر ملکی سرمایہ کاری کے سودوں کو منتخب طور پر راغب کرنا قلیل مدت میں انتہائی ضروری زرمبادلہ کے ذخائر لا سکتا ہے، لیکن دیرپا اثرات کے لیے کم سرمایہ کاری اور پیداواری نمو میں کمی کے پیچھے بنیادی مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہوگی۔
پاکستان میں توانائی کا شعبہ جس میں بجلی، گیس اور پٹرولیم شامل ہیں معیشت پر روز بروز بھاری پڑتا چلا جارہا ہے اور مہنگی ہوتی ہوئی توانائی عوام کی قوتِ خرید اور مقامی معیشت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔
بجلی کے شعبے پر اپنی رپورٹ میں عالمی بینک نے انکشاف کیا ہے کہ ریاست نے بجلی کے پیداواری شعبے سے جو معاہدے کیے ہیں اس کی وجہ سے خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں بجلی بہت زیادہ مہنگی ہے۔ حکومت کی جانب سے بجلی مہنگی کرنے اور بجلی کی چوری کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن کے باوجود گردشی قرضوں میں کسی طور کمی نہیں ہو رہی ہے۔
ایک طرف بجلی کی قیمت بہت زیادہ ہے تو دوسری طرف سرکارکی ملکیت میں موجود تقسیم کارکمپنیوں میں نااہلی اقربا پروری اور بد عنوانی کی وجہ سے حالات نہایت مخدوش ہیں۔ نقصان میں چلنے والی ان ڈسکوزکو پہلے صوبوں کے حوالے کرنے کی بات کی گئی مگر اب عالمی بینک اور ایس آئی ایف سی کی مشاورت سے طویل مدتی معاہدے کے تحت نجی شعبے کے حوالے کرنے پر عمل کیا جارہا ہے، ٹیرف میں حالیہ اضافے نے غریب صارفین کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے نقصانات کو محدود کرنے میں مدد کی ہے۔
خوش قسمتی سے پاکستان کو سستے ترین پن بجلی اور شمسی توانائی کے وسائل تک رسائی حاصل ہے۔ ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، جو صرف اسی صورت میں آئے گی جب تقسیم اور ترسیل کے نظام میں دیرینہ مسائل کو حل کیا جائے گا، خاص طور پر زیادہ نجی شراکت داری کے ذریعے۔ اس کے علاوہ، اخراجات کی وصولی کے لیے ضروری ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کو سیاست سے بچانا ہوگا، تاکہ طویل مدت میں سرمایہ کاروں کے لیے قابل اعتماد ترغیبات فراہم کی جا سکیں۔
جس طرح سے آئی ایم ایف کے تمام مطالبات 'من وعن' مان لیے گئے اور ان پر عمل کرنے کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے۔ ان پر عمل کے بعد عوام کا کیا حشر ہوگا؟ ہمارے عوام بد حال ہوچکے ہیں اور مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے سونامی میں غوطے کھا رہے ہیں، لیکن دوسری طرف مراعات یافتہ طبقے کے موجودہ حالات میں بھی وارے نیارے ہی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے عوام کو قربانی کا بکرا بنانا سب سے آسان ہے، اسی لیے تو وہ آئے دِن عوام پر پٹرول ، بجلی، گیس ، ٹیکس اور مہنگائی کے بم گرا رہے ہیں۔ نا انصافی کی حد ہے کہ بزرگ شہریوں کی زندگیوں کو بھی اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے۔
عام ادویات کے ساتھ ساتھ جان بچانے والی ادویات جوکہ اِ ن بزرگوں کی خوراک کا لازمی حصہ بن چکی ہیں، ان کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہو چکا ہے۔ حکومت معیشت کو ''استحکام'' دینے کے لیے بزرگوں کی پنشن کی رقم کو ''صحت بخش دوائی'' کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے، حکومت کا آئی پی پیز پر تو کوئی بس نہیں چلتا مگر بے چارے بے بس پنشنر ان کے ''نشانہ ستم'' کی زد میں ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری ملکی معیشت کی تباہی اور عوام کے مسائل میں اضافے کی وجہ آئی پی پیز معاہدے ہی ہیں۔ نہ جانے حکومت اِن ''لاڈلوں'' کی طرف کب توجہ دے گی؟
رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ریٹیل جیسے کم ٹیکس والے شعبوں سے صوبائی اور مقامی سطح پر مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے جس سے ممکنہ طور پر جی ڈی پی میں مزید 3 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ اخراجات کی بچت عوامی وسائل کے زیادہ موثر انتظام سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ خسارے میں چلنے والے زیادہ تر سرکاری اداروں کی نجکاری کی جانی چاہیے۔ زراعت اور توانائی کے شعبوں میں ناقص اہداف پر مبنی سبسڈیز میں کٹوتی کی جانی چاہیے جب کہ غریب ترین افراد کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔ وفاقی اور صوبائی اخراجات کے درمیان فرق کو بھی کم کیا جانا چاہیے۔
ان اقدامات سے سالانہ جی ڈی پی میں مزید 3 فیصد کی بچت ہوسکتی ہے۔پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے اور شعبہ زراعت نے مشکل ترین حالات میں بھی پاکستان کی معیشت کو زمین بوس نہیں ہونے دیا۔ عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ شعبہ پانچ فیصد سے بھی زیادہ کی شرح سے ترقی کر رہا ہے۔ پاکستان نے ڈالر کی اسمگلنگ کو بھی کامیابی سے روک دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے اب جو مطالبات سامنے رکھے ہیں اس پر پاکستان نے ماہانہ بنیاد پر جن اقدامات کی تحریری طور پر یقین دہانی کرائی ہے، ان کے مطابق رواں ماہ مارچ میں گیس مزید مہنگی کردی گئی ہے۔
ٹیکسٹائل اور لیدر سیکٹر کے ٹیئر ون میں آنے والے پرچون فروشوں پر جی ایس ٹی کی 15 فیصد کی شرح کو بڑھا کر 18 فیصد کیا جائے گا۔ چینی پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی پانچ روپے فی کلو گرام بڑھائی جاسکے گی، مشینری کی درآمد پر ایک فیصد ایڈوانس ٹیکس کا اضافہ کردیا جائے گا۔ را مٹیریل کی درآمد پر ایڈوانس ٹیکس میں 0.5 فیصد اضافہ کیا جاسکے گا اور سپلائر ز اور کنسٹرکشن پر بھی ود ہولڈنگ ٹیکس کو بڑھایا جائے گا۔
آج کے دور میں ادارے ایک دوسرے کے ساتھ انٹر لنک ہیں اسی طرح سے اشیاء کی قیمتیں بھی ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں۔ ایک چیزکی قیمت بڑھے تو ہر چیزکی قیمت پر اس کا اثر پڑتا ہے، البتہ کسی چیزکی قیمت میں کمی ہو جائے تو دوسری اشیاء اپنی جگہ پر مستقل مزاج رہتی ہیں۔ پرچون فروش پر 15 فیصد جی ایس ٹی کو بڑھا کر 18 فیصد کیا جائے گا تو اس کا براہ راست بوجھ عام صارف پر ہوگا۔ صرف انھی مطالبات اور یقین دہانیوں کو مد نظر رکھا جائے تو یہ قومی بجٹ سے پہلے منی بجٹ لانے کے مترادف ہے۔ اسی سے عوام کی چیخیں نکل جائیں گی۔
سالانہ بجٹ میں تو شہریوں کا حشر نشر ہو جائے گا۔ ہمارے مالیاتی اداروں کی طرف سے آئی ایم ایف کو تسلی دی گئی ہے کہ لاہور، اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں ریٹیلرز کو رجسٹر کرنے کے لیے گھر گھر جا کر مہم چلائی جائے گی۔ یہ اچھا اقدام ہے ٹیکس نیٹ میں جتنے بھی زیادہ سے زیادہ لوگ آ جائیں بہتر ہے۔ کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ٹیکس نیٹ کا دائرہ کار بڑھایا جائے اس میں نئے ٹیکس دہندگان کو شامل کیا جائے۔
اب ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے ایک روڈ میپ بنانے کی ذمے داری نئی حکومت کی ہے، جس کے تحت زراعت، صنعت، تجارت، سرمایہ کاری اور برآمدات کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی معیشت کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کا فوری انخلاء بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہونا چاہیے، کیونکہ وطن عزیزکی معیشت اور سیکیورٹی ہمارے لیے سب سے مقدم ہے۔