پاکستان ایک نظر میں یہ قتل ہے

میں شاید ان پھنسے ہوئے لوگوں کی اذیت کا ٹھیک سے اندازہ نہیں لگا سکتا لیکن انسان ہونے کے ناطےان کی تکلیف سمجھ سکتا تھا۔


طحہ خان June 12, 2014
میں شاید ان پھنسے ہوئے لوگوں کی اذیت کا ٹھیک سے اندازہ نہیں لگا سکتا لیکن انسان ہونے کے ناطے ان کی تکلیف سمجھ سکتا تھا۔ فوٹو فائل

کراچی ایئرپورٹ پر حملے نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ہر شخص دعائے خیر میں مصروف تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاک فوج نے چارج سنبھال لیا اور تقریباًً 6-5 گھنٹوں میں دشمنوں کو نیست کو نعبود کردیا۔پھر اگلے روز شہر کے حالات معمول کے مطابق چلنے لگے، کاروبار کھل گیا لوگ دفتر چلے گئے وغیرہ ۔ میں بھی اپنی زندگی میں مگن ہوگیا۔ آفس گیا کام ختم کیا اور گھر کی راہ لی۔ گھر پہنچ کر میں ٹی وی کھول کر بیٹھ گیا جو میرے اور میرے جیسے بہت سے لوگوں کا معمول ہے۔ پھر اچانک چینل تبدیل کرتے ہوئے میری نظر سے شاہ زیب خانرادہ کا پروگرام گزرا اور تب مجھے پتہ چلا کہ ایئرپورٹ کے پاس کے اولڈ اسٹوریج میں اب بھی سات بیگناہ لوگ پھنسے ہوئے ہیں جن کے گھر والے صبح سے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ۔ لیکن حکومتی عہدایدوں کی جانب سے کوئی بھی ان کی داد رسی یا کسی قسم کی مدد کے لئے نہیں آیا۔ یہاں تک کہ رات ہوگئی۔ جب ہمارے میڈیا نے پہنچ کر چیخ چیخ کر حکومت، آرمی اور سول ایوی ایشن والوں کو جگایا تو تب جاکر سیاسی جماعتوں کے نمائندے اپنی سیاست چمکانے کے لئے میدان میں اتر آئے۔ میرا دل چیخ چیخ کر بول رہا تھا کہ بھائی کوئی تو اِن معصوم لوگوں کی جان بچانے کے لیے جائے ،مگر سب بے سود۔۔۔

میں شاید ان پھنسے ہوئے لوگوں کی اذیت کا ٹھیک سے اندازہ نہیں لگا سکتا لیکن انسان ہونے کے ناطے ان کی تکلیف سمجھ سکتا تھا۔ کچھ دیر بعد مجھے پتہ چلا کہ اندر سے کسی لڑکے نے( جو پرسوں رات سے پھنسے تھے ) شام 7 بجے اپنے رشتہ داروں کو مدد کے لیے فون کیا تھااور لیکن بدقسمتی سے حکومتی نمائندوں کو شاہ زیب کے پروگرام کے بعد خیال آیا۔ پھر ڈھیروں کالز آئیں، ہر سیاسی جماعت کے نمائندے آئے لیکن نہیں آئی تو وہ مشینین جن کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔

میں یہ بات بتاتا چلوں کہ میں شہر کے تمام صنعتی ایریا کی اچھی طرح سے واقفیت رکھتا ہوں ۔ ایئرپورٹ کے اطراف میں پورٹ قاسم، لانڈھی اور کورنگی جیسے بڑے صنعتی ایریا ہیں ، پھر فیڈرل بی انڈسٹریل ایریا اور پھر سہراب گوٹھ بھی زیادہ دور نہیں ہیں ۔ اگر آپ کا گزر سہراب گوٹھ سے حیدرآباد جانے والی سڑک سے ہوا ہے تو آپ بخوبی جانتے ہونگے کہ سہراب گوٹھ کے اطراف میں کوئی اربوں روپے کی ہیوی مشینری کھڑی ہیں۔ اسی طرح شہر کے مختلف صنعتی ایریا میں جتنی بھی بڑی بڑی کمپنیز ہیں سب کے پاس تقریباً ایک نہ ایک ٹریکٹر تو ہے۔

چلیں اب اصل مدعے کی طرف آتا ہوں۔ یہاں حکومتی نمائندوں سے امیدیں لگانا تو بیکار ہی ہیں ۔مجھے تو یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہورہا تھا کہ ہماری عوام کو کیا ہو گیا ہے۔ اطراف میں اتنی بڑی بڑی انڈسٹریز ہونے کے باوجود کوئی مدد کے لیئے نہیں آرہا تھا۔کسی کمپنی کے مالکان یا مینیجمنٹ کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ اپنے کسی بندے کو بول دے کہ بھائی یہ ٹریکٹر یا مشین کھڑی ہے تم لے کر جائو اور لوگوں کو نکالو۔ ارے سب چھوڑیں جتنی بھی مینیو فیکچرنگ کمپنی ہوتی ہیں ان سب کے پاس آگ سے بچاؤ کے دستانے اور حفاظتی جوتے ضرور ہوتے ہیں، لیکن پریشان حال لوگوں کی مدد کے لیے وہ بھی نہیں بھیجا جاسکا؟ ۔میں اس وقت اندر ہی اندر اپنے آپ کو بھی کوس رہا تھا کہ کیونکہ میرے جیسے بہت سے لوگ صرف ایک تماش بین بن کر ٹی وی پر براہِ راست مناظر دیکھ رہے تھے ۔

لیکن آخر کار مجھے وہ فرشتہ صفت لوگ نظر آہی گئے جن کا انتطار تھا ۔ جی ہاں یہ وہی لوگ ہیں جنھیں میں نے سیلاب زدگان کے ساتھ کھڑے دیکھا، زلزلے میں لوگوں کو بچاتے دیکھا یہاں تک کہ کوئی چھوٹی سے ایکسڈنٹ پہ دوسروں کے لیے لڑتے دیکھا اور یہی نہیں بلکہ قربانی کے جانور کو جب ذرا بھی غلط طریقے سے ذبح کیا جا رہا ہوتا تو قصائی سے بھی لڑتے دیکھا، جب کے جانور بھی انکا نہیں ہوتا۔میں اِن لوگوں کو ہی تلاش کر رہا تھااور اس کے لئے مجھے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑی۔ وہ سب تو وہیں موجود تھے، کوئی کھانا لے کر آ گیا تھا، کوئی ہتھوڑا، کوہی بیلچہ اور پھاوڑا۔ غرض کے جو جتنا کر سکتا تھااس نے کیا۔ حکومتی نمائندوں کی تو بات ہی مت کیجئے ان لوگوں کے پاس سوائے جھوٹے وعدوں اور تسلیوں کے ہوتا ہی کیا ہے۔ لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ فائربریگیڈ کا عملہ کیوں نہیں آیا؟ کوئی ٹینکر والا کیوں نہیں آیا؟ ، کوئی بڑی تنخواہ والا، سینئیر مینجمنٹ کا بندہ کیوں نہیں آیا؟ غرض کے ہر وہ شخص جس کو وہاں ہونا تھا مگر نہیں پہنچا ، باقی تو سب ہی موجود تھے۔

درحقیقیت ہم آپس میں ہی بٹ چکے ہیں، امیروں کو اپنے پیسوں کی ہی پڑی ہے اور غریب عوام پستی چلی جا رہی ہے۔ سب کو اپنا الو سیدھا کرنے کی فکر پڑی ہے جس کا خمیازہ عوام کو بھگتا پڑتا ہے۔ جیسا کہ کولڈ اسٹوریج میں ہوا ۔ میرے نزدیک یہ سراسر قتل ہے اور اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے۔ ہر ظلم کی انتہا ہوتی ہے اگر حکومتی کوتاہیاں اسی تواتر سے جاری رہیں تو وہ دن دور نہیں جب عوامی عدالت میں ہر سیاستدان سر جھکائے سزا کا منتظر کھڑا ہوگا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں