غذائی درآمدات
پاکستان کے معاشی مسائل کا ایک اہم ترین سبب وہ غذائی درآمدات بھی ہیں جن کا نعم البدل پاکستان میں تیار ہو سکتا ہے
پاکستان کے معاشی مسائل کا ایک اہم ترین سبب وہ غذائی درآمدات بھی ہیں جن کا نعم البدل پاکستان میں تیار ہو سکتا ہے لیکن کیوں نہیں تیار کیا جا رہا، اس کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں۔
یہ تو متبادل کی بات ہے لیکن گندم، چینی کا کیا کریں، گندم کیوں 30 یا 35 لاکھ میٹرک ٹن درآمد کر رہے ہیں اور اربوں ڈالر صرف کر رہے ہیں، آج کل ملک میں چینی کی قلت نہیں ہے لیکن کبھی مصنوعی قلت پیدا کر کے لاکھوں ٹن چینی بھی برآمد کرتے رہے ہیں اور پھرکھربوں روپے کی چائے پی جاتی ہے، چائے کی پتی کی ملک میں پیداوار بھی ممکن اور یہ پیداوار جلد ازجلد بڑھانے کی ضرورت ہے اور مسالہ جات ہمارے یہاں کھانے میں اس کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔
ان تمام کو لے کر آج گفتگو کا آغازکرتے ہیں اور یہ چند اشیا ایسی ہیں جوکہ فوڈ گروپ کی ان اشیا میں سے ہیں جوکہ اپنی درآمدی مالیت کے لحاظ سے روز بہ روز بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور اربوں کھربوں روپے ان کی درآمدات پر صرف ہورہے ہیں۔
بات شروع کرتے ہیں ملک کریم ملک فوڈ بچوں کی درآمدی غذائی اشیا سے، بچوں کے لیے بند ڈبوں میں دودھ اس کے علاوہ مختلف اقسام مختلف غیر ملکی برانڈز کے نام سے بچوں کی ملک فوڈ اور دیگر غذائی اشیا جوکہ بڑے پیمانے پر درآمد کی جاتی ہیں، ملک میں خریدی جاتی ہیں اور ان کے دام روز بہ روز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔، لیکن پاکستان میں ان کے متبادل کی پیداوار برائے نام ہی ہے۔
ابھی کی بات ہے جب بچوں کی غیر ملکی برانڈز کی قیمت گوگل میں سرچ کر رہا تھا تو قیمتیں کچھ یوں آ رہی تھیں، مثلاً 7 ہزار، 4 ہزار 7 سو روپے، 5 ہزار 4 سو، 2 ہزار 9 سو روپے، دو ہزار تین سو روپے۔ کیا ان میں سے کوئی ایک مناسب قیمت ہے جو کہ کسی غریب کی پہنچ میں ہو، کوئی مزدور اپنی دیہاڑی جیب میں ڈال کر دکان پر جائے اپنے بچے کے لیے کوئی دودھ منتخب کرے۔ اپنے گھرانے کی رات کی روٹی قربان کرے۔ اپنے آنسوؤں کو روکے اپنا دل سخت کرے اور اس بات پر یقین بھی کر رہا ہو کہ یہ درآمدی غذائی نعمت یہ بچوں کی غذا اس کے پیارے بچے کے لیے کتنی ضروری ہے۔
یہ سب سوچ کر جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے، کچھ کڑکڑاتے ہوئے نوٹ کا لمس محسوس کرتا ہے، اس کے چہرے کی رونق دوبالا ہو جاتی ہے۔ یہ سوچ کر بانچھیں کھل جاتی ہیں کہ اس کے من کی مراد پوری ہونے والی ہے۔
جیب سے ہاتھ ڈال کر نوٹ نکالے گا، دکاندار کو تھمائے گا، دکاندار سے بچے کے لیے دودھ کا ڈبا لے کر اپنے سر پر اٹھائے گا۔ دوڑ کر اپنے گھر جیسے ہی پہنچے گا گھر میں خوشی کے شادیانے بج جائیں گے لیکن یہ کیا ہوا جیب سے رقم نکال کر دکاندار کے ہاتھ میں رکھی اس نے سختی سے دھتکار دیا یہ چند سو روپے ہیں ان میں ہزاروں روپے کا بچوں کے دودھ کا ڈبہ کیسے دے دوں؟ جا بھائی اپنا کام کر۔
میرے ملک کا ہر غریب ہاری، کاشتکار، مزدور، دیہاڑی دار، دکانوں کا ملازم، دفترکا ملازم، غریب سرکاری ملازم، سفید پوش طبقہ، 90 فی صد غریب عوام کے بچے غذائی قلت کا شکار ہو رہے ہیں، مناسب غذا سے محروم ہیں، بچوں کی غذا خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں دودھ کی پیداوار کا پانچواں بڑا ملک، آخر دودھ سے بنی بچوں کی غذا کی پیداوار میں کیوں نہیں آگے بڑھا۔ جس کے کارن ہر سال اربوں روپے کی ملک کریم ملک فوڈ بچوں کی غذا وغیرہ درآمد کرتے ہیں۔
پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران اس مد کی درآمدی مقدار 24 ہزار 5 سو میٹرک ٹن تھی اور مالیت 20 ارب 90 کروڑ50 لاکھ روپے تھی۔ جن ممالک سے ہم درآمد کرتے ہیں انھوں نے اس کی قیمت گزشتہ برس کے مقابلے میں بڑھا دی ہے۔ ہمیں اگر قرضوں کے بوجھ سے نکلنا اور آیندہ 5 یا 10 سالوں میں ملک کو ترقی یافتہ بنانا ہے تو ان سب پر توجہ دینا ضروری ہے۔
قیام پاکستان کے بعد کئی منصوبے بنائے گئے کچھ کامیاب بھی ہوئے لیکن اہم شعبہ فوڈ یا غذائیت اس کی مناسب منصوبہ بندی نہ ہو سکی۔اب ہم چائے کی طرف آتے ہیں گزشتہ 8 ماہ کے دوران ایک لاکھ 80 ہزار پانچ سو میٹرک ٹن چائے کی درآمد کر کے ایک کھرب 24 ارب 54 کروڑ60 لاکھ روپے صرف کرچکے ہیں۔
گزشتہ 8 ماہ کے دوران پاکستان نے 27 لاکھ 58 ہزار 3 سو میٹرک ٹن گندم درآمد کر لی ہے۔ 2 کھرب25 ارب 78 کروڑ30 لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ ادھر سندھ کابینہ نے کسان کارڈ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ملک بھر کے کسانوں کو ہر طرح کی سہولت مہیا کی جائے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ گندم اگائیں تو ہم گزشتہ کئی سالوں سے گندم کے درآمدی ملک بنے ہوئے ہیں اس کی جگہ گندم کے برآمدی ملک بن سکتے ہیں۔
اس میں کسی قسم کی کوئی مشکل نہیں ہے۔ صرف کسانوں کے مسائل کا حل دفتروں میں کرنے کے بجائے ان کے کھیتوں میں جا کر کسانوں سے مل کر ان کے مسائل کا حل تلاش کریں، تو لازماً پاکستان بڑھتے ہوئے درآمدی بلوں سے چھٹکارا حاصل کر لے گا۔
یہ تو متبادل کی بات ہے لیکن گندم، چینی کا کیا کریں، گندم کیوں 30 یا 35 لاکھ میٹرک ٹن درآمد کر رہے ہیں اور اربوں ڈالر صرف کر رہے ہیں، آج کل ملک میں چینی کی قلت نہیں ہے لیکن کبھی مصنوعی قلت پیدا کر کے لاکھوں ٹن چینی بھی برآمد کرتے رہے ہیں اور پھرکھربوں روپے کی چائے پی جاتی ہے، چائے کی پتی کی ملک میں پیداوار بھی ممکن اور یہ پیداوار جلد ازجلد بڑھانے کی ضرورت ہے اور مسالہ جات ہمارے یہاں کھانے میں اس کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔
ان تمام کو لے کر آج گفتگو کا آغازکرتے ہیں اور یہ چند اشیا ایسی ہیں جوکہ فوڈ گروپ کی ان اشیا میں سے ہیں جوکہ اپنی درآمدی مالیت کے لحاظ سے روز بہ روز بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور اربوں کھربوں روپے ان کی درآمدات پر صرف ہورہے ہیں۔
بات شروع کرتے ہیں ملک کریم ملک فوڈ بچوں کی درآمدی غذائی اشیا سے، بچوں کے لیے بند ڈبوں میں دودھ اس کے علاوہ مختلف اقسام مختلف غیر ملکی برانڈز کے نام سے بچوں کی ملک فوڈ اور دیگر غذائی اشیا جوکہ بڑے پیمانے پر درآمد کی جاتی ہیں، ملک میں خریدی جاتی ہیں اور ان کے دام روز بہ روز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔، لیکن پاکستان میں ان کے متبادل کی پیداوار برائے نام ہی ہے۔
ابھی کی بات ہے جب بچوں کی غیر ملکی برانڈز کی قیمت گوگل میں سرچ کر رہا تھا تو قیمتیں کچھ یوں آ رہی تھیں، مثلاً 7 ہزار، 4 ہزار 7 سو روپے، 5 ہزار 4 سو، 2 ہزار 9 سو روپے، دو ہزار تین سو روپے۔ کیا ان میں سے کوئی ایک مناسب قیمت ہے جو کہ کسی غریب کی پہنچ میں ہو، کوئی مزدور اپنی دیہاڑی جیب میں ڈال کر دکان پر جائے اپنے بچے کے لیے کوئی دودھ منتخب کرے۔ اپنے گھرانے کی رات کی روٹی قربان کرے۔ اپنے آنسوؤں کو روکے اپنا دل سخت کرے اور اس بات پر یقین بھی کر رہا ہو کہ یہ درآمدی غذائی نعمت یہ بچوں کی غذا اس کے پیارے بچے کے لیے کتنی ضروری ہے۔
یہ سب سوچ کر جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے، کچھ کڑکڑاتے ہوئے نوٹ کا لمس محسوس کرتا ہے، اس کے چہرے کی رونق دوبالا ہو جاتی ہے۔ یہ سوچ کر بانچھیں کھل جاتی ہیں کہ اس کے من کی مراد پوری ہونے والی ہے۔
جیب سے ہاتھ ڈال کر نوٹ نکالے گا، دکاندار کو تھمائے گا، دکاندار سے بچے کے لیے دودھ کا ڈبا لے کر اپنے سر پر اٹھائے گا۔ دوڑ کر اپنے گھر جیسے ہی پہنچے گا گھر میں خوشی کے شادیانے بج جائیں گے لیکن یہ کیا ہوا جیب سے رقم نکال کر دکاندار کے ہاتھ میں رکھی اس نے سختی سے دھتکار دیا یہ چند سو روپے ہیں ان میں ہزاروں روپے کا بچوں کے دودھ کا ڈبہ کیسے دے دوں؟ جا بھائی اپنا کام کر۔
میرے ملک کا ہر غریب ہاری، کاشتکار، مزدور، دیہاڑی دار، دکانوں کا ملازم، دفترکا ملازم، غریب سرکاری ملازم، سفید پوش طبقہ، 90 فی صد غریب عوام کے بچے غذائی قلت کا شکار ہو رہے ہیں، مناسب غذا سے محروم ہیں، بچوں کی غذا خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں دودھ کی پیداوار کا پانچواں بڑا ملک، آخر دودھ سے بنی بچوں کی غذا کی پیداوار میں کیوں نہیں آگے بڑھا۔ جس کے کارن ہر سال اربوں روپے کی ملک کریم ملک فوڈ بچوں کی غذا وغیرہ درآمد کرتے ہیں۔
پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران اس مد کی درآمدی مقدار 24 ہزار 5 سو میٹرک ٹن تھی اور مالیت 20 ارب 90 کروڑ50 لاکھ روپے تھی۔ جن ممالک سے ہم درآمد کرتے ہیں انھوں نے اس کی قیمت گزشتہ برس کے مقابلے میں بڑھا دی ہے۔ ہمیں اگر قرضوں کے بوجھ سے نکلنا اور آیندہ 5 یا 10 سالوں میں ملک کو ترقی یافتہ بنانا ہے تو ان سب پر توجہ دینا ضروری ہے۔
قیام پاکستان کے بعد کئی منصوبے بنائے گئے کچھ کامیاب بھی ہوئے لیکن اہم شعبہ فوڈ یا غذائیت اس کی مناسب منصوبہ بندی نہ ہو سکی۔اب ہم چائے کی طرف آتے ہیں گزشتہ 8 ماہ کے دوران ایک لاکھ 80 ہزار پانچ سو میٹرک ٹن چائے کی درآمد کر کے ایک کھرب 24 ارب 54 کروڑ60 لاکھ روپے صرف کرچکے ہیں۔
گزشتہ 8 ماہ کے دوران پاکستان نے 27 لاکھ 58 ہزار 3 سو میٹرک ٹن گندم درآمد کر لی ہے۔ 2 کھرب25 ارب 78 کروڑ30 لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ ادھر سندھ کابینہ نے کسان کارڈ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ملک بھر کے کسانوں کو ہر طرح کی سہولت مہیا کی جائے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ گندم اگائیں تو ہم گزشتہ کئی سالوں سے گندم کے درآمدی ملک بنے ہوئے ہیں اس کی جگہ گندم کے برآمدی ملک بن سکتے ہیں۔
اس میں کسی قسم کی کوئی مشکل نہیں ہے۔ صرف کسانوں کے مسائل کا حل دفتروں میں کرنے کے بجائے ان کے کھیتوں میں جا کر کسانوں سے مل کر ان کے مسائل کا حل تلاش کریں، تو لازماً پاکستان بڑھتے ہوئے درآمدی بلوں سے چھٹکارا حاصل کر لے گا۔