تعلیم کا قتل

اللہ رکھیو کا قتل علاقے میں تعلیم کے لیے خطرہ بن گیا ہے

tauceeph@gmail.com

علم کی راہ میں ایک اور استاد قربان ہوا۔ پنجاب اور بلوچستان کی سرحد سے متصل کشمور کی تحصیل کندھ کوٹ کے گوٹھ کرم پورکا مکین اللہ رکھیو نندوانی کچے کے علاقے کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا عزم رکھتا تھا۔ اللہ رکھیو کی پوسٹنگ نصر اللہ خان بجرانی گاؤں میں تھی۔ اس علاقے میں عمومی طور پر ڈاکوؤں کو آزادانہ طور پر اپنے اہداف پورا کرنے کی آزادی ہے۔

ڈاکوؤں نے نصر اللہ بجرانی گاؤں No Go Area قرار دیا ہوا ہے اور اس پرائمری اسکول میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ اللہ رکھیو نندوانی نے عہد کیا ہوا تھا کہ وہ اسکول جا کر اپنا فریضہ پورا کریں گے۔ اللہ رکھیو کی ایک وڈیو کی سوشل میڈیا پر خوب پذیرائی ہوئی تھی۔ اس وڈیو میں اللہ رکھیو موٹر سائیکل پر سوار ڈبل بیرل گن کندھے پر لگائے ہوئے نظر آرہا تھا۔

اﷲ رکھیو نے یہ بندوق اپنی حفاظت کے لیے حاصل کی تھی۔ اﷲ رکھیو نندوانی کی یہ جرات ڈاکوؤں کو پسند نہیں آئی۔ گزشتہ ہفتہ ان ڈاکوؤں نے کندھ کوٹ کے علاقے مگسی کرم پور روڈ پر نندوانی گاؤں سے متصل سڑک پر اس استاد پر اندھا دھند گولیاں برسائیں اور ڈاکو اس وقت تک گولیاں چلاتے رہے جب تک انھیں تشفی ہوگئی کہ اللہ رکھیو نندوانی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

یہ ظالم ڈاکو انتہائی اطمینان سے موٹر سائیکل پر سوار ہوکر اپنی کمین گاہ میں روپوش ہوگئے۔ پولیس افسروں نے حسب معمول دعویٰ کیا کہ فورس کے وقوعہ پر پہنچنے سے پہلے ڈاکو جاچکے تھے۔

پرائمری اسکول کے ایک استاد کے مرنے کی خبریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو ضلع میں ایک شور سا مچ گیا۔ سندھ کی مزاحمتی روایات کے مطابق اللہ رکھیو کے رشتے داروں نے کندھ کوٹ روڈ پر دھرنا دیا اور قاتلوں کی گرفتاری تک تدفین سے انکارکیا، اس مظاہرے میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی۔

اللہ رکھیو کے بھائیوں مٹھل نندوانی اور مولا بخش نندوانی کا کہنا ہے کہ جو شخص گھر سے نکلتا ہے وہ غیر محفوظ ہوجاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کشمور، جیکب آباد اور لاڑکانہ کی شاہراہوں پر سفر کرنے والا محفوظ نہیں ہے۔ سندھ کی انتظامیہ کی روایت کے مطابق افسروں کی یقین دہانی پر لواحقین اللہ رکھیو کی تدفین پر آمادہ ہوئے۔

سندھ کی سول سوسائٹی کے متحرک رکن اور انسانی حقوق کی تنظیم HRCP کی مرکزی کونسل کے رکن امداد کھوسو نے اللہ رکھیو کی بہادری پر انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اللہ رکھیو نے علم کی راہ میں قربانی دی ہے۔

اس استاد کو ملک کا سب سے بڑا اعزاز ملنا چاہیے۔ امداد کھوسو نے صورتحال کی سنگینی کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ 8 فروری کے انتخابات کے بعد گھوٹکی، شکار پور، کندھ کوٹ اور جیکب آباد اضلاع میں ڈاکوؤں کی سرگرمیاں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہیں۔ ان ڈاکوؤں کا نشانہ خاص طور پر دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد، خواتین اور بچے ہیں۔

یہ ڈاکو اب ڈبل کیبن گاڑیوں میں نہیں آتے بلکہ موٹر سائیکلوں میں دن کے وقت شہروں اورگاؤں میں آتے ہیں۔ یہ افراد عام طور پر خواتین اور بچوں کو آسانی سے اغواء کر کے ساتھ لے جاتے ہیں، ان مغویوں کی رہائی کے لیے لاکھوں کروڑوں روپے طلب کیے جاتے ہیں۔ ڈاکو ان مغویوں کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہیں۔ ان وڈیوز میں ان مغویوں پر تشددکی وڈیو بھی شامل ہوتی ہیں تاکہ لواحقین ان کے مطالبے کو پورا کریں۔

اس علاقے کے صحافی بھی محفوظ نہیں ہیں۔ صحافی اگر ڈاکوؤں کی چیرہ دستیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں مغویوں کی رہائی کے لیے عسکری کارروائی کے بجائے بات چیت سے مغویوں کی رہائی کی کوشش کرتی ہیں اور عمومی طور پر ڈاکوؤں کے مطالبات مان لیے جاتے ہیں۔


امداد کھوسو کا کہنا ہے کہ جب مغوی رہائی پاتے ہیں تو پولیس افسر اس رہائی کو اپنا کارنامہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جیکب آباد، کندھ کوٹ، کشمور اور اطراف کے اضلاع کے امیر ہندو خاندانوں میں سے بیشتر اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان میں سے کئی خاندان بھارت جا کر آباد ہوئے ہیں۔ کچھ خلیجی ممالک، سنگاپور، یورپ، امریکا اور کینیڈا کی شہریت اختیار کر چکے ہیں۔

گزشتہ پندرہ دنوں میں ٹی وی چینلز پر چلنے والے مواد کا معروضی تجزیہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رات کو سکھر ملتان روڈ موٹر وے ایم 5 پر سفر انتہائی خطرناک ہوگیا ہے۔ اس شاہراہ پر ڈاکوؤں کی اندھا دھند فائرنگ سے متعدد ٹرکوں اور کاروں کے ٹائر برسٹ ہوئے۔ ڈاکوکچھ افراد کو اغواء کر کے لے گئے اور بھاری تاوان طلب کیا۔ جنھوں نے تاوان دیا وہ رہا ہوگئے اور کچھ ابھی تک قید میں ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی نے گزشتہ سال کے اوائل میں حقائق معلوم کرنے کے لیے ایک ٹیم اس علاقے میں بھیجی تھی۔ اس ٹیم کے رکن ایچ آر سی پی سندھ کے وائس چیئرمین خضر حبیب کا کہنا ہے کہ پولیس کے افسران نے بتایا تھا کہ ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ ہے اور اس اسلحے میں انٹی ایئرکرافٹ گن بھی شامل ہیں، مگر پولیس کے پاس ناکارہ بکتربند گاڑیاں اور پرانا اسلحہ ہے، یوں ڈاکوؤں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق کچے کے ڈاکو 1 سال میں 400 افراد اغوا کرچکے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند روزکے دوران کچے کے ڈاکوؤں کے ہاتھوں 2 یرغمالی مارے جاچکے ہیں۔ سندھ حکومت اور پولیس کے بلند و بانگ دعوؤں کے اور 250 آپریشنز کے باوجود کچے میں مختلف ڈاکو گروہ آزادانہ وارداتیں کرنے میں مصروف ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق کندھ کوٹ اورکشمور کے کچے کے علاقے میں تیغانی، جاگیرانی، شر، بھیو، بھنگوار گینگ اب بھی موجود ہیں۔

ڈاکوؤں کے حملے میں 11 پولیس اہلکار شہید اور اتنے ہی زخمی ہوچکے ہیں جب کہ پولیس کارروائی میں 23 ڈاکو ہلاک اور 160 گرفتار کیے گئے ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق بالائی سندھ کے لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں 35 سے 40 افراد ڈاکوؤں کی تحویل میں ہیں۔ آزاد ذرایع کے مطابق سکھر اور لاڑکانہ ڈویژنز میں اس وقت ڈاکوؤں کی تحویل میں 200 سے زائد افراد موجود ہیں۔ آزاد ذرایع کے مطابق دونوں ڈویژنز میں ہر ماہ 20سے 30 افراد تاوان کے عوض آزاد ہوتے ہیں۔

پنجاب اور سندھ کی حکومتیں ہر سال ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کا اعلان کرتی ہیں۔ دونوں حکومتیں اس آپریشن کے لیے کروڑوں روپے کی گرانٹ جاری کرنے کا اعلان کرتی ہیں۔ ہفتہ پندرہ دن دونوں صوبوں کی پولیس کچے کے علاقہ میں آپریشن کرتی ہے۔

ڈاکوؤں کی گرفتاریوں اور ان کی کمین گاہوں کو تباہ کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ پھر اچانک کسی شہری یا پولیس والے کے اغواء کی خبر ٹی وی چینل، سوشل میڈیا اور اخبارات کی زینت بنتی ہے۔ حقائق کے تجزیے سے واضح ہوتا ہے کہ ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن محض نمائشی کارروائی تھی۔

اس علاقے کی تاریخ اور سیاسی خاندانوں کی تاریخ جاننے والے محققین کی یہ رائے ہے کہ بااثر سیاسی خاندان ڈاکوؤں کے سرپرست ہیں۔ ان خاندانوں کو کراچی اور اسلام آباد کی سرپرستی حاصل کی۔ اللہ رکھیو نندوانی کا قتل تعلیم کا قتل ہے۔ پاکستان اور اطراف کے ممالک کے طلبہ اور اساتذہ اللہ رکھیو کے قتل پر رنجیدہ ہیں مگر اس کے ساتھ ہی سندھ حکومت کی سرد مہری لوگوں کو مایوس کر رہی ہے۔

وزیر داخلہ ضیاء لنجار نے متعلقہ پولیس افسر سے رپورٹ طلب کر کے اپنا فریضہ پورا کیا مگر اصولی طور پر تو سندھ کے وزیر اعلیٰ اور کابینہ کے وزراء کو کندھ کوٹ جاکر اللہ رکھیو کے خاندان کے لواحقین سے تعزیت کرنی چاہیے اور وزیر داخلہ کو اس وقت تک اس علاقے میں اپنا کیمپ لگانا چاہیے جب تک کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کامیاب نا ہوجائے۔

اللہ رکھیو کا قتل علاقے میں تعلیم کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔ کندھ کوٹ کے مکین چاہتے ہیں کہ صدر آصف زرداری کندھ کوٹ آئیں اور ڈاکوؤں کے خلاف حقیقی آپریشن شروع کرائیں تاکہ پھر کوئی استاد قتل نا ہو۔
Load Next Story