پی ٹی آئی کمزور فیصلوں سے بچے

بروقت اچھے فیصلوں کا فائدہ ہوتاہے جب کہ وقت ضایع کرنے سے، موقعے سے فائدہ نہ اٹھانے سے یاکمزور فیصلوں سے نقصان ہوتاہے

gfhlb169@gmail.com

بانی پی ٹی آئی جناب عمران خان کچھ مہینوں بعد72سال کے ہو جائیں گے۔ان کی صحت مثالی ہے اور چاک و چوبند ہیں۔ورزش باقاعدگی سے کرتے ہیں۔ خوراک کا بھی بہت خیال کرتے ہیں لیکن پیرانہ سالی میں صحت کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا۔کوئی ایک جھٹکا بھی جسم کو ناتواں کر سکتا ہے۔

اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ عمر، بانی پی ٹی آئی کی سیاست اور عزائم کا ساتھ نہیں دے رہی۔جناب عمران خان صاحب کو سیاست کے میدان میں تمام فیصلے صحیح کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان کی قیادت میں ان کی پارٹی نے سیاست کے میدان میں بے پناہ مشکلات کے باوجود بہت اچھی کارکردگی دکھائی اور قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔

عوام نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو جتوایا۔یوں پی ٹی آئی ووٹرز نے بھی اپنا فرض بخوبی نبھایا۔ جناب عمران خان کی قیادت اور ان کے ووٹرز کو سراہا جانا چاہیے لیکن انتخابات میں کامیابی کے بعد پی ٹی آئی نے جو فیصلے کیے وہ بظاہر بہت اچھے فیصلے نظر نہیں آتے۔بانی پی ٹی آئی کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کے چاہنے والے سیاسی شعور کی پختگی دکھانے کے بجائے جذبات کی رو میں بہے جاتے ہیں۔وہ کیے گئے فیصلوں کو اس طرح نہیں پرکھتے جس طرح پرکھا جانا چاہیے۔

الیکشن کمیشن کے جاری کردہ انتخابی نتائج کے مطابق کوئی سیاسی پارٹی بھی اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ اکیلے حکومت بنا سکے لیکن پی ٹی آئی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کر کے قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی بن گئی تھی اور ایک اچھا فیصلہ کر کے،تھوڑی سی کوشش اور مصلحت اندیشی سے حکومت بنا سکتی تھی۔اگر غور کریں کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی کس لیے وجود میں آتی ہے۔پارلیمانی اور غیر پارلیمانی دونوں قسم کی جمہوریتوں میں سیاسی پارٹی بنانے کا مقصد انتخابات جیت کر حکومت بنانا ہوتا ہے۔

حکومت بنا کر اپنے منشور پر عمل پیرا ہوتے ہوئے عوام کی بھلائی ،ملک کی ترقی کو یقینی بنانا نصب العین ہوتا ہے۔اگر کوئی سیاسی پارٹی انتخابات جیت کر حکومت نہ بنائے تو وہ کس طرح اپنی پالیسیوں کو نافذالعمل کر سکتی ہے۔سیاست میں ساری جد و جہد ہی اپنی پارٹی کی حکومت بنانے کی ہوتی ہے۔اگر کوئی سیاسی پارٹی حکومت بنا سکتی ہو اور نہ بنائے یا نہ بنا سکے تو یہ ایک کامیاب سیاسی جماعت نہیں کہلا سکتی۔پاکستان تحریکِ انصاف نشستوں کے اعتبار سے قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی۔

اب یہاں سے آگے بڑھنے کے لیے اچھے فیصلے مدد گار ہو سکتے تھے لیکن اچھے فیصلے نہیں ہوئے اور موقع ضایع کر دیا گیا۔انتخابات کے بعد دو ہفتے بہت اہم تھے۔پی ٹی آئی نے ان دو ہفتوں میں بظاہر صحیح فیصلے نہیں کیے۔انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروائے جس کا بہت نقصان ہوا۔پارٹی نشان یعنی بلے کے لیے انٹرا پارٹی الیکشن ناگزیر تھے۔

پی ٹی آئی نے بار بار نوٹس ملنے کے باوجود انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروائے اور اس پر مزید یہ کہ عدالتی کارروائی کے دوران لگتا تھا کہ پی ٹی آئی وکلاء کی تیاری بالکل نہیں تھی۔پی ٹی آئی وکلا پوچھے گئے عدالتی سوالات کا جواب دینے سے قاصر تھے۔ان سے جو ڈاکومنٹس پیش کرنے کو کہا گیا وہ پیش نہ کر سکے۔ایسی تیاری کے بعد نتیجہ ظاہر تھا۔قانونی طور پر سپریم کورٹ کا فیصلہ درست تھا۔عدالتوں کو فیصلے قانون کے مطابق ہی کرنے چاہئیں۔


چونکہ تمام پی ٹی آئی ممبرانِ قومی اسمبلی آزاد حیثیت میں جیت کر آئے تھے اور انھیں قانون کے مطابق کسی پارلیمانی پارٹی کو جوائن کرنا تھا اس لیے یہ فیصلہ مطلوب تھا کہ کون سی پارٹی کا انتخاب کیا جائے۔پہلے خبر آئی کہ تمام پی ٹی آئی ارکان متحدہ مجلسِ عمل میں پارک ہوں گے۔پھر خبر آئی کہ جماعتِ اسلامی سے مذاکرات ہو رہے ہیں،یہ بھی سننے میں آرہا تھا کہ پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین سے بات ہو رہی ہے اور پھر بریکنگ نیوز آئی کہ پی ٹی آئی ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلیاںسنی اتحاد کونسل میں شامل ہوں گے۔

یہ ایک انتہائی کمزور فیصلہ تھا۔سنی اتحاد کونسل نے الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیا۔اس جماعت کے سربراہ جناب حامد رضا صاحب نے خود بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا۔اس جماعت نے خواتین اور اقلیتی نشستوں کے لیے کوئی لسٹ ہی جمع نہیں کروائی۔اس وجہ سے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں مل سکیں۔یہ کمزور فیصلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی میں ٹھوس فیصلے نہیں ہو رہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے متفقہ فیصلہ دیا کہ قانون کی رو سے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں۔

اگر کسی پارٹی کو جوائن ہی کرنا تھا تو جماعتِ اسلامی،سنی اتحاد کونسل سے بہت بہتر چوائس تھا۔جماعت کا دامن ہر حوالے سے صاف اور بے داغ تھا۔جماعتِ اسلامی تمام ایوانوں میں ایک پارلیمانی پارٹی کے طور پر موجود ہے اور ماضی میں دونوں جماعتیں کے پی کے میں اکٹھی کام کرتی رہی ہیں۔سنی اتحاد کونسل کے ساتھ اتحاد ایک بہت کمزور فیصلہ ثابت ہو رہا ہے۔پی ٹی آئی رہنماؤں بیرسٹر علی ظفر اور شیر افضل مروت نے بھی یہ کہہ کر اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ آزاد اراکین کو پارک کرنے کے لیے سنی اتحاد کونسل کا چوائس ہر گز اچھا نہیں تھا اور اس فیصلے پر نظر ثانی کرنی ہو گی۔

پی ٹی آئی میں وکلاء چھائے ہوئے ہیں۔ 9مئی کے واقعات کے بعد پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو اکثر پی ٹی آئی سیاست دان زیرِ زمین چلے گئے اور کچھ گرفتار ہو کر پابندِسلاسل ہوئے۔اس وجہ سے ایک سیاسی خلا پیدا ہوا۔ جس سے دیگر لوگ پی ٹی آئی سیاست دانوں کی غیر موجودگی میں سیاسی رہنماء بن گئے۔ان کی کوئی سیاسی تربیت نہیں ہوئی ہے۔

عوام کے اندر بھی ان کی کوئی پذیرائی نہیں تھی لیکن پی ٹی آئی کی بے پناہ مقبولیت سے فائدہ اٹھا کر یہ نا تجربہ کار لوگ اسمبلیوں میں پہنچ گئے اور اب سینیٹ میں بھی چلے جائیں گے۔سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ اب انھی لوگوں کو جناب عمران خان تک رسائی حاصل ہے۔یہی اب ان کے صلاح کار ہیں۔ جناب عارف علوی صاحب صدارت کے منصب سے فارغ ہو چکے ہیں۔

وہ پارٹی کے بانی ممبران میں سے ایک ہیں۔جہاندیدہ ہیں اور لمبی جدو جہد کر کے پارٹی میں مقام بنایا۔صدارت نے انھیں بہت تجربہ عطا کیا ہے اس لیے مناسب لگتا ہے کہ وہ پرو ایکٹو کردار ادا کریں۔اگر کمزور فیصلے ہوتے رہے تو ناقابلِ تلافی نقصان کا اندیشہ ہے۔

بر وقت اچھے فیصلوں کا فائدہ ہوتا ہے جب کہ وقت ضایع کرنے سے، موقعے سے فائدہ نہ اٹھانے سے یا کمزور فیصلوں سے نقصان ہوتا ہے۔وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنی مشہور نظم گیتاں جلی میں کہا ہے کہ ہر ایک وقت کے حوالے سے قحط زدہ ہے۔کسی کو بھی کافی وقت نہیں دیا گیا۔ صحیح وقت پر صحیح فیصلے کریںکہیں ایسا نہ ہو کہ لمحوں نے خطا کی تھی،صدیوں نے سزا پائی۔

قارئینِ کرام 16مارچ کو میر علی میں ایک چیک پوسٹ پر حملہ ہوا جسے شاید گل بہادر گروپ نے کیا تھا۔اس حملے میں ہمارے دو افسران اور 5جوان شہید ہوئے۔ پاکستان نے اگلی صبح سویرے افغانستان کے اندر حملے کر کے مجرمین کو نشانہ بنایا۔ خدشہ ہے کہ ہمارے جوابی حملے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہو۔ہماری افواج اور پولیس کو الرٹ ہو جانا چاہیے۔خدا پاکستان اور پاکستانیوں کی حفاظت کرے۔
Load Next Story