آئی ایم ایف پہ ختم آئی ایم ایف سے شروع
انسان کی جبلت یہ ہے کہ ایک بار کسی علت کا عادی ہو جائے تو اس سے چھٹکارا حاصل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے
اپنے زمانے کے مشہور و معروف استاد شاعر ابراہیم ذوق کا ایک شعر ضرب المثل کی طرح مشہور ہے؛
اے ذوق دیکھ دخترِ رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
شاعرانہ تعلی اپنی جگہ لیکن انسان کی جبلت یہ ہے کہ ایک بار کسی علت کا عادی ہو جائے تو اس سے چھٹکارا حاصل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ کسی شے کا نشہ ہو یا قرض کی مئے یا آسان قرضوں کی لت، کوئی بھی ایک بار لگ جائے تو چھٹکارا بہت مشکل ہے۔وطن عزیز کو آسان قرضوں کی لت یوں تو کافی پرانی ہے لیکن آہستہ آہستہ قرضوں کی آسان فراہمی مشکل سے مشکل تر ہوتی گئی اور قرضوں کا حجم بڑھتا چلا گیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ جس پھرتی اور آسانی سے 20/ 30 سال پہلے آئی ایم ایف اور دنیا کے دوسرے قرض دینے والے اداروں سے بڑے بڑے قرض آسانی سے مل جاتے تھے، اب وہ عیاشی تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ لیکن کیا کیجیے کہ ملکی معیشت، حکمران طبقہ اور اشرافیہ کو آسان قرضوں کی لت لگی ہوئی ہے، اب کریں تو کیا؟ وقت گزارے کے لیے پچھلی دو دہائیوں کے دوران یہی صورت نظر آئی: پرانے قرض کی ادائیگی کے لیے نیا قرض اور اپنے جاری اخراجات، خساروں اور بیڈ گورننس کے ہرجانے کے لیے مزید نیا قرض۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے قرضوں کے ایک پہاڑ کے ساتھ کئی پہاڑ کھڑے ہو گئے۔
پی ڈی ایم حکومت کا آخری کام بھی آئی ایم ایف کے ساتھ نئے عبوری قرض پروگرام کی تیاری اور منظوری کا بندوبست تھا۔ نئے قرض پر مبارک سلامت کے ساتھ پی ڈی ایم حکومت روانہ ہوئی تو نگران حکومت کا فرض اولین یہی تھا کہ جیسے بھی ہو آئی ایم ایف کے ساتھ نو ماہ کا عبوری پروگرام ہر صورت کامیاب کیا جائے۔ نگران حکومت اور کن کن اشاریوں میں کامیاب رہی، معلوم نہیں لیکن آئی ایم ایف پروگرام کی حد تک وہ ضرور کامیاب رہی کہ بخیر و عافیت پروگرام تقریباً مکمل کر دیا۔
اب ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ مزید ریلیز ہونے کے لیے آخری ریویو جاری ہے، امید ہے کہ یہ ریویو کامیاب ہو جائے گا۔نئی اتحادی حکومت اقتدار میں آئی تو آتے ہی اس نے ببانگ دہل اقرار کیا کہ آئی ایم ایف کے نئے قرض پروگرام کے بغیر گزارا نہیں۔ خلاف معمول پہلی بار ن لیگ اسحاق ڈار کے علاؤہ کسی نئے چہرے پر قانع ہوئی۔نئی مالیاتی ٹیم نے حلف اٹھاتے ہی یہ ہدف لے کر آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔ البتہ عوام اور آئی ایم ایف کو یہ چتاونی بھی دے دی کہ اب کی بار مختصر یا عبوری قرض پروگرام سے کام نہیں چلے گا۔
اس لیے حکومت وقت کھلے دل و دماغ کے ساتھ ایک طویل مدتی آئی ایم ایف قرض پروگرام کی خواہاں ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف بار بار قوم کو یہ بتلانے میں کوشاں ہیں کہ ہر سطح پر طویل مدتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ البتہ انھوں نے یہ یاد دہانی نہیں کروائی کہ پچھلے 40 سالوں کے درمیان آج کا حکمران اتحاد ہی کسی نہ کسی شکل میں زیادہ تر برسر اقتدار رہا۔ یہ اصلاحات اس وقت کیوں نہ ہو پائیں؟ رات گئی بات گئی کہ مصداق پرانی باتیں کون یاد رکھے! اب یاد رکھنے کی یہی بات ہے کہ آئی ایم ایف کے بغیر گزارا نہیں اور وہ بھی ایک لمبے قرض والا پروگرام۔کہنا بہت آسان ہے کہ ہمیں ایڈ نہیں ٹریڈ چاہیے۔
حکمران اشرافیہ کے لیڈرز یہ نعرہ پسندیدہ ترانے کی طرح اکثر کہتے نظر آتے ہیں لیکن ملکی معیشت کے خد و خال، اس کا بوسیدہ ڈھانچہ اور معیشت کے تمام کرداروں کا چلن اس امر کا گواہ ہے کہ پاکستان نے اپنی گلوبل ٹریڈ بڑھانے کے لیے پچھلے 30 سالوں کے دوران کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی۔ ایکسپورٹ باسکٹ لے دے کر ٹیکسٹائلز، لیدر اور چاول کی برآمدات پر اٹک کر رہ گئی ہے، دنیا بھر میں کیمیکلز ،انجینئرنگ، کمیونیکیشنز، جہاز رانی، اسٹیل اور ان سے جڑی ہائی ٹیک ٹریڈ کا حجم کھربوں ڈالر تک ہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران گاہے معدنیات کے ذخائر کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ کہ ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے یہ معدنیات ہی کافی ہیں، اور کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔یہ شہرہ رہا کہ کئی دوست ممالک ان معدنیات کے لیے سرمایہ کاری کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ لیکن پھر وہی...رات گئی بات گئی۔
وطن عزیز میں پبلک سیکٹر کارپوریشنز کا معاملہ اس قدر سیدھا سادہ نہیں کہ یوں آسانی سے حل ہو جائے۔ ان پبلک سیکٹر کارپوریشنز کے بل بوتے پر سیاسی اشرافیہ نے اپنے اپنے وقت میں خوب سیاست چمکائی۔ ان کی سیاست تو پھلی پھولی تاہم قوم 700 سے ایک ہزار ارب روپے سالانہ ہرجانے کی صورت میں ادا کر رہی ہے۔
کچھ یہی حال انرجی سیکٹر کا بھی ہے۔کس کس کا ذکر کریں، پنجابی زبان کا ایک محاورہ یاد آتا ہے جہیڑا بھنو لال اے ( یعنی تربوزوں کے اس ڈھیر میں جسے چیر کر دیکھو لال ہے).ایک طرف ملکی معیشت کا یہ عالم ہے، دوسری طرف نئی حکومت کی ترجیحات کچھ یوں ہیں ،پنجاب میں نگہبان فوڈ پروگرام کے تحت 30 ارب روپے رمضان پیکیج کی نذر ہو گئے۔
سندھ حکومت نے نوید دی ہے کہ وہ چند ہفتوں میں ڈیڑھ درجن نئی بسیں چلا کر عوام کو ریلیف دے گی۔ یہ سنے سنائے، آزمائے ہوئے سیاسی نسخے ہیں جن سے ماضی میں کوئی تبدیلی معیشت میں رونما ہوئی نہ اب ہونے کا امکان ہے۔ تاہم سیاسی استحکام سمیت جو مشکل کام ہیں حکومت اگر ان پر توجہ کر سکے اور پانچ سے سات سال پوری لگن کے ساتھ کوششیں جاری رکھے تو شاید معیشت اور گورننس میں کچھ بہتری آئے۔ ورنہ ماضی کی طرح ہر حکومت آئی ایم ایف کے پروگرام کے ساتھ ختم اور ہر نئی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام سے شروع ہوتی رہے گی۔
اے ذوق دیکھ دخترِ رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
شاعرانہ تعلی اپنی جگہ لیکن انسان کی جبلت یہ ہے کہ ایک بار کسی علت کا عادی ہو جائے تو اس سے چھٹکارا حاصل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ کسی شے کا نشہ ہو یا قرض کی مئے یا آسان قرضوں کی لت، کوئی بھی ایک بار لگ جائے تو چھٹکارا بہت مشکل ہے۔وطن عزیز کو آسان قرضوں کی لت یوں تو کافی پرانی ہے لیکن آہستہ آہستہ قرضوں کی آسان فراہمی مشکل سے مشکل تر ہوتی گئی اور قرضوں کا حجم بڑھتا چلا گیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ جس پھرتی اور آسانی سے 20/ 30 سال پہلے آئی ایم ایف اور دنیا کے دوسرے قرض دینے والے اداروں سے بڑے بڑے قرض آسانی سے مل جاتے تھے، اب وہ عیاشی تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ لیکن کیا کیجیے کہ ملکی معیشت، حکمران طبقہ اور اشرافیہ کو آسان قرضوں کی لت لگی ہوئی ہے، اب کریں تو کیا؟ وقت گزارے کے لیے پچھلی دو دہائیوں کے دوران یہی صورت نظر آئی: پرانے قرض کی ادائیگی کے لیے نیا قرض اور اپنے جاری اخراجات، خساروں اور بیڈ گورننس کے ہرجانے کے لیے مزید نیا قرض۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے قرضوں کے ایک پہاڑ کے ساتھ کئی پہاڑ کھڑے ہو گئے۔
پی ڈی ایم حکومت کا آخری کام بھی آئی ایم ایف کے ساتھ نئے عبوری قرض پروگرام کی تیاری اور منظوری کا بندوبست تھا۔ نئے قرض پر مبارک سلامت کے ساتھ پی ڈی ایم حکومت روانہ ہوئی تو نگران حکومت کا فرض اولین یہی تھا کہ جیسے بھی ہو آئی ایم ایف کے ساتھ نو ماہ کا عبوری پروگرام ہر صورت کامیاب کیا جائے۔ نگران حکومت اور کن کن اشاریوں میں کامیاب رہی، معلوم نہیں لیکن آئی ایم ایف پروگرام کی حد تک وہ ضرور کامیاب رہی کہ بخیر و عافیت پروگرام تقریباً مکمل کر دیا۔
اب ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ مزید ریلیز ہونے کے لیے آخری ریویو جاری ہے، امید ہے کہ یہ ریویو کامیاب ہو جائے گا۔نئی اتحادی حکومت اقتدار میں آئی تو آتے ہی اس نے ببانگ دہل اقرار کیا کہ آئی ایم ایف کے نئے قرض پروگرام کے بغیر گزارا نہیں۔ خلاف معمول پہلی بار ن لیگ اسحاق ڈار کے علاؤہ کسی نئے چہرے پر قانع ہوئی۔نئی مالیاتی ٹیم نے حلف اٹھاتے ہی یہ ہدف لے کر آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔ البتہ عوام اور آئی ایم ایف کو یہ چتاونی بھی دے دی کہ اب کی بار مختصر یا عبوری قرض پروگرام سے کام نہیں چلے گا۔
اس لیے حکومت وقت کھلے دل و دماغ کے ساتھ ایک طویل مدتی آئی ایم ایف قرض پروگرام کی خواہاں ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف بار بار قوم کو یہ بتلانے میں کوشاں ہیں کہ ہر سطح پر طویل مدتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ البتہ انھوں نے یہ یاد دہانی نہیں کروائی کہ پچھلے 40 سالوں کے درمیان آج کا حکمران اتحاد ہی کسی نہ کسی شکل میں زیادہ تر برسر اقتدار رہا۔ یہ اصلاحات اس وقت کیوں نہ ہو پائیں؟ رات گئی بات گئی کہ مصداق پرانی باتیں کون یاد رکھے! اب یاد رکھنے کی یہی بات ہے کہ آئی ایم ایف کے بغیر گزارا نہیں اور وہ بھی ایک لمبے قرض والا پروگرام۔کہنا بہت آسان ہے کہ ہمیں ایڈ نہیں ٹریڈ چاہیے۔
حکمران اشرافیہ کے لیڈرز یہ نعرہ پسندیدہ ترانے کی طرح اکثر کہتے نظر آتے ہیں لیکن ملکی معیشت کے خد و خال، اس کا بوسیدہ ڈھانچہ اور معیشت کے تمام کرداروں کا چلن اس امر کا گواہ ہے کہ پاکستان نے اپنی گلوبل ٹریڈ بڑھانے کے لیے پچھلے 30 سالوں کے دوران کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی۔ ایکسپورٹ باسکٹ لے دے کر ٹیکسٹائلز، لیدر اور چاول کی برآمدات پر اٹک کر رہ گئی ہے، دنیا بھر میں کیمیکلز ،انجینئرنگ، کمیونیکیشنز، جہاز رانی، اسٹیل اور ان سے جڑی ہائی ٹیک ٹریڈ کا حجم کھربوں ڈالر تک ہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران گاہے معدنیات کے ذخائر کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ کہ ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے یہ معدنیات ہی کافی ہیں، اور کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔یہ شہرہ رہا کہ کئی دوست ممالک ان معدنیات کے لیے سرمایہ کاری کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ لیکن پھر وہی...رات گئی بات گئی۔
وطن عزیز میں پبلک سیکٹر کارپوریشنز کا معاملہ اس قدر سیدھا سادہ نہیں کہ یوں آسانی سے حل ہو جائے۔ ان پبلک سیکٹر کارپوریشنز کے بل بوتے پر سیاسی اشرافیہ نے اپنے اپنے وقت میں خوب سیاست چمکائی۔ ان کی سیاست تو پھلی پھولی تاہم قوم 700 سے ایک ہزار ارب روپے سالانہ ہرجانے کی صورت میں ادا کر رہی ہے۔
کچھ یہی حال انرجی سیکٹر کا بھی ہے۔کس کس کا ذکر کریں، پنجابی زبان کا ایک محاورہ یاد آتا ہے جہیڑا بھنو لال اے ( یعنی تربوزوں کے اس ڈھیر میں جسے چیر کر دیکھو لال ہے).ایک طرف ملکی معیشت کا یہ عالم ہے، دوسری طرف نئی حکومت کی ترجیحات کچھ یوں ہیں ،پنجاب میں نگہبان فوڈ پروگرام کے تحت 30 ارب روپے رمضان پیکیج کی نذر ہو گئے۔
سندھ حکومت نے نوید دی ہے کہ وہ چند ہفتوں میں ڈیڑھ درجن نئی بسیں چلا کر عوام کو ریلیف دے گی۔ یہ سنے سنائے، آزمائے ہوئے سیاسی نسخے ہیں جن سے ماضی میں کوئی تبدیلی معیشت میں رونما ہوئی نہ اب ہونے کا امکان ہے۔ تاہم سیاسی استحکام سمیت جو مشکل کام ہیں حکومت اگر ان پر توجہ کر سکے اور پانچ سے سات سال پوری لگن کے ساتھ کوششیں جاری رکھے تو شاید معیشت اور گورننس میں کچھ بہتری آئے۔ ورنہ ماضی کی طرح ہر حکومت آئی ایم ایف کے پروگرام کے ساتھ ختم اور ہر نئی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام سے شروع ہوتی رہے گی۔