شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے

امریکا نے ان جنگجوئوں کے تعاقب میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے شروع کر دیے


Editorial June 13, 2014
امریکا کی طرف سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آخری بار 25 دسمبر 2013 کو ڈرون حملہ کیا گیا، فوٹو: فائل

امریکا نے چھ ماہ بعد شمالی وزیرستان میں ایک بار پھر ڈرون حملے شروع کر دیے ہیں۔گزشتہ روز امریکی ڈرون طیاروں نے شمالی وزیرستان میں چھ گھنٹوں کے دوران دو ڈرون حملے کیے جس سے چار ازبک باشندوں اور دو پنجابی طالبان سمیت 16 افراد مارے گئے۔ چھ ماہ کی خاموشی توڑتے ہوئے ڈرون طیاروں نے پہلا حملہ شمالی وزیرستان میں بدھ رات آٹھ بجے کے قریب تحصیل غلام خان کے علاقے درگاہ منڈی میں ایک گاڑی اور گھر پرکیا جب کہ دوسرے حملے میں رات گئے ڈانڈے درپہ خیل کے علاقے میں پانچ ڈرون طیاروں نے چار گھروں پر 8 میزائل داغے۔ حملوں کے بعد علاقے میں ڈرون طیاروں کی پروازوں سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

امریکا کی طرف سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آخری بار 25 دسمبر 2013 کو ڈرون حملہ کیا گیا جس میں تین افراد مارے گئے تھے۔ امریکا کے حالیہ ڈرون حملے کی دفتر خارجہ سمیت بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین نے شدید مذمت کی ہے۔ ان جماعتوں کا موقف ہے کہ جب بھی ملک میں امن کی کوششیں شروع ہوتی ہیں امریکا حملہ کر کے اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتا ہے' انھوں نے اسے ملک کی سالمیت اور خود مختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج کیا جائے۔ افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد بہت سے جنگجو وہاں سے فرار ہو کر پاکستان آگئے۔

امریکا نے ان جنگجوئوں کے تعاقب میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے شروع کر دیے۔ ان حملوں میں بے گناہ شہریوں سمیت ہائی ویلیو ٹارگٹڈ بھی مارے گئے۔ ایک اطلاع کے مطابق اب تک پاکستانی سرزمین پر امریکا کے 382 ڈرون حملوں میں عام شہریوں سمیت 3600 سے زاید افراد مارے گئے اور 2 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ سابق صدر امریکی جارج ڈبلیو بش کے دور اقتدار میں پاکستان میں 51 جب کہ باراک اوباما کے دور میں 331 ڈرون حملے ہو چکے ہیں۔ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد امریکا سے مطالبہ کیا کہ ڈرون حملوں کا سلسلہ فوری روک دیا جائے کیونکہ ان سے دہشت گردی کم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی جا رہی ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومتی کوششیں بارآور نہیں ہو رہیں۔

کالعدم تحریک طالبان نے بھی حکومت سے مذاکرات شروع کرنے سے قبل یہ مطالبہ کیا کہ ڈرون حملوں کا سلسلہ رکوایا جائے جب تک یہ حملے نہیں رکتے وہ حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ بعض مذہبی جماعتوں نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ڈرون حملوں کا سلسلہ رکوانے کے لیے کوششیں کی جائیں۔ جب حکومت نے طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈالا تو امریکا نے ڈرون حملہ کر کے حکیم اللہ محسود کو مار دیا جس کے بعد طالبان نے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس ڈرون حملے کا ملبہ حکومت پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی۔ حکومت پاکستان نے بھی شدید احتجاج کرتے ہوئے ڈرون حملے رکوانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دیں۔

بالآخر حکومتی کوششیں کامیاب ہوئیں اور اوباما انتظامیہ نے چھ ماہ قبل غیر علانیہ طور پر ڈرون حملوں کا سلسلہ روک دیا جس کے بعد یہ امید پیدا ہو گئی کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کی کوششیں کامیاب ہو جائیں گی۔اس دوران حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے مختلف دور ہوئے مگر یہ کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر تعطل کا شکار ہو گئے۔ طالبان نے مذاکرات کے دوران محدود عرصے کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا جس کا حکومتی حلقوں اور بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے خیرمقدم کیا گیا۔ بعدازاں طالبان نے جنگ بندی کے لیے اپنی دی ہوئی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد مذاکرات کو آگے بڑھانے کے بجائے سیکیورٹی اداروں پر حملے شروع کر دیے۔

یہ حیرت انگیز امر ہے کہ طالبان نے جنگ بندی کی ڈیڈ لائن بھی خود ہی مقرر کی اور سیکیورٹی اداروں پر یکطرفہ حملوں کا فیصلہ بھی خود ہی کیا۔ طالبان کے حملوں کے بعد سیکیورٹی اداروں کو بھی مجبوراً ان کا جواب دینا پڑا۔ سرحد پار سے بھی طالبان نے پاکستان میں داخل ہو کر سیکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اب انھوں نے اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کا سلسلہ وسیع کرتے ہوئے کراچی ایئر پورٹ پر حملہ کر دیا ہے جس کے بعد حکومت مجبور ہو گئی کہ وہ سیکیورٹی معاملات بہتر بنانے کے لیے کوئی فیصلہ کرے۔ اس حملے کے بعد اب یہ خطرہ بڑھ گیا ہے کہ طالبان ملک کے حساس مقامات' ایئر پورٹس' ریلوے اسٹیشن' بس اڈوں سمیت دیگر مقامات کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اس صورت حال سے پورے ملک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

دوسری جانب پاک فوج فارمیشن کمانڈرز کا 72 واں اجلاس بدھ کو جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت ہوا۔ ذرایع کے مطابق عسکری قیادت نے کہا ہے کہ پاک فوج ملکی سلامتی کو لاحق اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہے اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے ہر ضروری اقدام اٹھایا جائے گا۔ اب پوری قوم کی نظریں حکومت پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ ملکی سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے اور لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کیا اقدامات اٹھاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |