30لاکھ بچے ہر سال غذائی قلت کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتے ہیںاقوام متحدہ

غذائی قلت پر قابو پانے کے لے آخری بار 1992 میں کانفرنس بلائی گئی جس میں تجویز کئےگئے اقدامات ہر عملدرآمد نہ ہو سکا

غذائی قلت کا شکار سولہ کروڑ سے زائد بچوں کی جسمانی اور ذہنی گروتھ رک جاتی ہے۔ (فائل فوٹو)

عالمی اداروں کی بے بسی کہئیے یا عالمی طاقتوں کی ڈھٹائی کہ دنیا بھر میں اب بھی لاکھوں انسان بالخصوص بچے بھوک اور افلاس کا شکار ہوجاتے ہیں۔


اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 5سال سے کمرعمر 30 لاکھ بچے غذائی قلت کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن بے حسی کا عالم یہ ہے کہ آج سے 22 سال قبل آخری بار 1992 میں اقوام متحدہ کے تحت اس موضوع پر کانفرنس بلائی گئی تھی جس میں غذائی قلت کا شکار ممالک میں کئی اقدامات تجویز کیئے گئے تاہم زیادہ تر صرف کاغذوں پر عملدرآمد کے منتظر رہ گئے، ایف اے او کے سربراہ جوس دا سلوا کا کہنا ہے کہ غذائی قلت کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر کی جانے والی کوششیں ناکافی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 16کروڑ سے زائد بچے غذائی قلت کے باعث اپنی عمر کے مطابق بڑھ نہیں پاتے جسمانی اور ذہنی طور پر پیچھے رہ جاتے ہیں جبکہ تقریباً دس کروڑ بچے کم وزنی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بالآخر عالمی اداروں کو بھوک سے مرتے ان بچوں پر کچھ رحم آہی گیا اور اس سلسلے میں اس سال نومبر میں عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس کا موضوع ہوگا، "مضبوط عہد کریں کہ صحت مند غذا ہوگی سب کے لیے" لیکن اسکے ساتھ ہی ادارہ صحت نے اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ مختلف ممالک میں سیاسی عدم استحکام غذائی قلت کے خاتمے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ صرف مشترکہ کوششوں اور اخلاص نیت سے ہی اس خوفناک صورت حال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
Load Next Story