قومی ریاستوں کی سرحدوں کا زوال
ستر سال ہم نے ریاستی سرپرستی میں دوسروں کی سرحدوں کو پامال کر کے ان کے گھروں میں آگ اور خون کا کھیل کھیلا
آج سے تقریباً سو سال قبل جب دنیا کو قومی ریاستوں میں تقسیم کیا جا رہا تھا تو ایک پر فریب اور جعلی تصور عام کیا گیا کہ ہر ریاست خود مختار ہو گی، اس کا ایک اقتدار اعلیٰ ہو گا اور اس کی سرحدیں عالمی طور پر قابل احترام ہوں گی۔ اس پر فریب اور جعلی اقتدارِ اعلیٰ کی بنیاد پر سب سے پہلے لیگ آف نیشنز قائم کی گئی۔ ہر قومی ریاست کو اس بحث مباحثے کے فورم (Debating Club) میں نمایندگی دے کر یہ ثابت کیا گیا کہ یہ آزاد خود مختار ریاستیں ہیں۔
جھنڈے، قومی ترانے، کرنسی، پاسپورٹ، ویزا ریگولیشن اور سرحدوں کی حفاظت پر مامور مسلح افواج سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی جو غیر منصفانہ تقسیم دنیا میں کی گئی ہے وہ ایک عالمی حقیقت ہے اور ہم ایک دوسرے کی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن اس احترام کی دھجیاں صرف چند سالوں کے بعد جنگِ عظیم دوم میں ہوا میں اڑا دی گئیں۔ نہ کسی کو عالمی سرحدیں یاد رہیں اور نہ ریاستوں کا اقتدار اعلیٰ۔ انسانی خون اس بے دردی کے ساتھ بہایا گیا کہ اس کے بدنما چھینٹے آج بھی قومی ریاستوں کے منہ پر بدنما داغ کی طرح چسپاں ہیں۔ اتنا خون بہانے، شہر برباد کرنے اور بستیاں اجاڑنے کے بعد صرف چند سال سکون کے گزرے، اقوام متحدہ بنی اور ایک بار پھر ریاستوں کو یہ فریب دیا گیا کہ تم خود مختار ہو۔ لیکن اب کی بار اس عالمی دہشت گردی اور بڑی طاقتوں کی غنڈہ گردی نے ایک نیا لبادہ اوڑھ لیا۔
اب سرحدوں کی خلاف ورزی ایک ایسے طریقے سے کی جانے لگی کہ ان قومی ریاستوں کے اندر اپنے پالتو افراد کے ذریعے خانہ جنگی، گوریلا کارروائی، دھونس اور لالچ کے ذریعے اپنے زر خرید حکمرانوں کو مسلط کیا جانے لگا۔ ہر بڑی طاقت نے اپنی ایک خفیہ ایجنسی بنائی اور اس کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ دوسرے ملکوں میں ان کے مفادات کے لیے عام آدمی سے لے کر حکمرانوں تک کو خریدے، مخالف حکومتوں کے خلاف گوریلا کارروائی کے لیے مدد فراہم کرے، ملکوں کو آپس میں لڑائے، نسل، رنگ، زبان اور مذہب کی بنیاد پر لوگوں میں تفریق پیدا کرے اور امن و امان کو تباہ کرے۔ ان خفیہ ایجنسیو ں کا ایک اور کام تھا، کہ وہ نظریاتی طور پر ہونے والی جدوجہد کی مدد کریں۔ کیمونزم اور کارپوریٹ جمہوریت دونوں کی جنگ میں سرحدوں کا احترام خاکستر ہو کر رہ گیا۔
بلکہ جو کوئی کسی دوسرے ملک میں جا کر لڑا وہ ہیرو کہلانے لگا۔ چی گویرا چار سے زیادہ ملکوں میں لڑتا رہا اور آج تک اس کی تصویریں لہرائی جاتی ہیں۔ یہی حال ویت نام، انگولا، چلی، ہنڈوراس، کوریا اور نکارا گوا جیسے ممالک کا تھا جن میں دنیا بھر سے لوگ جا کر لڑتے رہے اور انھوں نے سرحدوں کا احترام خاک میں ملایا، مگر ہیرو کہلائے۔ یہی کیفیت ان عالمی طاقتوں کی تھی جو وہاں اسلحہ بھی سپلائی کرتی رہیں اور جہاں ممکن ہوا، فوجیں بھی اتارتی رہیں۔ یہ سب کچھ پچاس سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا۔ ہر ایک نے اپنے حمایت یافتہ لوگوں کے ایسے گروہ تخلیق کیے جو فنِ حرب اور خصوصاً گوریلا جنگ میں اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے مالک تھے۔
ہر ایسے ملک میں ایسے لوگوں کے منظم گروہ تخلیق کیے گئے جو حکومتوں کو ناکوں چنے چبوانے کی اہلیت رکھتے تھے۔ کسی کو علاقائی آزادی کے نام پر اور کسی کو نظریے کی بنیاد پر منظم کیا گیا۔ اب یہ گروہ اس قدر منظم اور خود مختار ہو گئے تھے کہ ان کے نزدیک قومی ریاستوں کی سرحدوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی تھی۔ اس لیے کہ جب عالمی طاقتیں ہی کسی دوسرے ملک کی سرحدوں کا احترام نہ کرتی ہوں تو یہ لوگ جو نظریاتی چھتری تانے لڑ رہے تھے وہ کیسے سرحدوں کا احترام کرتے۔ افغانستان میں روس آیا تو دنیا بھر سے لوگ وہاں جا کر لڑنے لگے۔ پاکستان کے کتنے گھرانے ایسے ہیں جن کے بیٹے افغان جہاد میں شہید ہوئے اور ان کی میتیں یا تو وہیں دفن کر دی گئیں یا کسی خوش قسمت کو یہاں اپنے ملک کی مٹی نصیب ہوئی۔
ایران عراق جنگ شروع ہوئی تو ایک اور مسلک کے لوگ وہاں ایران کی جانب سے لڑنے چلے گئے۔ ایرانی اگرچہ ایک قومی جنگ لڑ رہے تھے لیکن عقیدت لوگوں کو کہاں تک لے جاتی ہے کہ پاکستان کے ایک شخص کے دو بیٹے ایران عراق جنگ میں شہید ہوئے۔ وہ اسے تہران کے قریب بہشتِ زھرا قبرستان میں دفن کرنا چاہتا تھا، لیکن اسے اجازت نہ دی گئی کہ وہ دونوں ایرانی النسل نہ تھے۔ ایسی ہی کیفیت افغانستان کے جہاد میں موجود تھی۔ قومی ریاستوں اور قومیتوں کا نشہ قائم تھا۔ باہر سے آ کر لڑنے والے محترم تو تھے لیکن زمین پر حق اور احترام زمین پر صدیوں سے بسنے والوں کا ہی مقدم رہا۔
لیکن گیارہ ستمبر نے تو دنیا ہی بدل ڈالی۔ وہ اقوام متحدہ جو عالمی سرحدوں کے تقدس کی ضمانت تھی، اس نے دنیا کے اڑتالیس غنڈوں (نیٹو) کو یہ اجازت دی کہ افغانستان کی سرحدوں کو عالمی ضمیر کے نام پر پامال کر دیا جائے۔ پوری دنیا تماشہ دیکھتی رہی۔ اب کی بار اقوام متحدہ کی اجازت کی بھی ضرورت نہ محسوس کی گئی۔ امریکا اپنے حلیف برطانیہ اور دیگر ممالک کے ہمراہ سرحدیں عبور کرتا عراق میں گھس گیا۔ یوں قومی ریاستوں کی خود مختاری، آزادی اقتدار اعلیٰ اور سرحدوں کے تقدس کا تصور ملیا میٹ ہو گیا۔ اس تصور کو ختم امریکا کے اس اعلان نے بھی کیا کہ ہم جس ملک میں بھی ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جو ہماری قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں انھیں خود جا کر ختم کریں گے۔ ہمیں ریاستوں کی حکومتوں پر اعتبار نہیں۔ ڈرون حملے اسی تصور کی پیداوار تھے جن کا نشانہ سب سے زیادہ پاکستان بنا۔
جب خود ریاستوں نے ہی سرحدوں کے تقدس کا تصور پامال کر دیا تو وہ گروہ جو ان ریاستوں کو اپنا دشمن تصور کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ان ریاستوں کا ظلم اور مسلمانوں کے خلاف پالیسیاں پوری دنیا میں بربریت کو ہوا دیتی ہیں۔ انھوں نے ایک اور راستہ اختیار کر لیا کہ فلسطین کا بدلہ یمن اور افغانستان میں بھی لیا جا سکتا ہے اور افغانستان کا بدلہ لندن اور نیویارک میں بھی۔ پوری دنیا کی ریاستی حکومتوں اور ان کے مقابلے میں کھڑے ہونے والوں کے درمیان ایک واضح تقسیم ہو گئی۔ عراق میں عرب دنیا کے لڑنے والے جا پہنچے اور شام میں ایران نے اپنے تیار کردہ افراد کو بھیج دیا۔ حالات یہاں تک آپہنچے کہ دنیا میں یورپ کے بائیس ممالک ایسے ہیں جہاں سے مسلمان شام میں لڑنے کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ ان میں کئی تو نسلاً گورے ہیں۔ جس کو جس قدر زمین کا ٹکڑا ملا اس نے وہاں ایک ریاست کا اعلان کر دیا۔
اماراتِ اسلامیٔ شام و عراق اور اماراتِ اسلامی افغانستان۔ جہاں جہاں ریاستی دہشتگردی بڑھی وہاں سے لوگ ہجرت کر کے ان گرہوں میں شامل ہوتے گئے۔ چیچنیا، ازبکستان، تاجکستان، صومالیہ، یمن، افغانستان غرض دنیا کے ہر خطے سے لوگ ایک ایسے بڑے گروہ کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو کسی طرح بھی عالمی سرحدوں کا احترام نہیں کرتا بالکل ویسے ہی جیسے عالمی طاقتیں کمزور ملکوں کی سرحدوں کا احترام نہیں کرتیں۔ یہ سرحدیں جو ماڈرن قومی ریاستوں کی علامت تھیں اب کی ان حیثیت صرف نقشے کی لکیروں سے زیادہ نہیں رہ گئی۔ اس کے باوجود بھی دنیا بھر میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ہماری سرزمین، ہمارا علاقہ اور ہماری ریاست دہشتگردی کے لیے کیوں استعمال کی جاتی ہے۔ یہ بیج تو قومی ریاستوں نے خود بویاہے۔
ستر سال ہم نے ریاستی سرپرستی میں دوسروں کی سرحدوں کو پامال کر کے ان کے گھروں میں آگ اور خون کا کھیل کھیلا اور اب ہم کس قدر معصوم خواہش رکھتے ہیں کہ یہ آگ اور خون کا کھیل ہماری سرحدوں میں نہ کھیلا جائے۔ اب تو جو فصل بوئی گئی ہے اسے کاٹنے کے دن ہیں۔ جو بھی ریاست جس کیمپ میں ہو گی اسے دوسرے کیمپ کی ریاستوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز اور یہاں تک کہ ریاستی اداروں کی دخل اندازی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سرحدیں اور ملک و قوم کی خودداری ایک عورت کی عصمت کی طرح ہوتی ہے۔ اس کو ہر کسی سے بچانا فرض ہوتا ہے۔ اگر محلے کا غنڈہ کسی عورت کی عصمت پامال کرتا رہے تو وہ عورت دوسرے محلے کے اوباش لوگوں کی دست برد سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔
جھنڈے، قومی ترانے، کرنسی، پاسپورٹ، ویزا ریگولیشن اور سرحدوں کی حفاظت پر مامور مسلح افواج سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی جو غیر منصفانہ تقسیم دنیا میں کی گئی ہے وہ ایک عالمی حقیقت ہے اور ہم ایک دوسرے کی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن اس احترام کی دھجیاں صرف چند سالوں کے بعد جنگِ عظیم دوم میں ہوا میں اڑا دی گئیں۔ نہ کسی کو عالمی سرحدیں یاد رہیں اور نہ ریاستوں کا اقتدار اعلیٰ۔ انسانی خون اس بے دردی کے ساتھ بہایا گیا کہ اس کے بدنما چھینٹے آج بھی قومی ریاستوں کے منہ پر بدنما داغ کی طرح چسپاں ہیں۔ اتنا خون بہانے، شہر برباد کرنے اور بستیاں اجاڑنے کے بعد صرف چند سال سکون کے گزرے، اقوام متحدہ بنی اور ایک بار پھر ریاستوں کو یہ فریب دیا گیا کہ تم خود مختار ہو۔ لیکن اب کی بار اس عالمی دہشت گردی اور بڑی طاقتوں کی غنڈہ گردی نے ایک نیا لبادہ اوڑھ لیا۔
اب سرحدوں کی خلاف ورزی ایک ایسے طریقے سے کی جانے لگی کہ ان قومی ریاستوں کے اندر اپنے پالتو افراد کے ذریعے خانہ جنگی، گوریلا کارروائی، دھونس اور لالچ کے ذریعے اپنے زر خرید حکمرانوں کو مسلط کیا جانے لگا۔ ہر بڑی طاقت نے اپنی ایک خفیہ ایجنسی بنائی اور اس کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ دوسرے ملکوں میں ان کے مفادات کے لیے عام آدمی سے لے کر حکمرانوں تک کو خریدے، مخالف حکومتوں کے خلاف گوریلا کارروائی کے لیے مدد فراہم کرے، ملکوں کو آپس میں لڑائے، نسل، رنگ، زبان اور مذہب کی بنیاد پر لوگوں میں تفریق پیدا کرے اور امن و امان کو تباہ کرے۔ ان خفیہ ایجنسیو ں کا ایک اور کام تھا، کہ وہ نظریاتی طور پر ہونے والی جدوجہد کی مدد کریں۔ کیمونزم اور کارپوریٹ جمہوریت دونوں کی جنگ میں سرحدوں کا احترام خاکستر ہو کر رہ گیا۔
بلکہ جو کوئی کسی دوسرے ملک میں جا کر لڑا وہ ہیرو کہلانے لگا۔ چی گویرا چار سے زیادہ ملکوں میں لڑتا رہا اور آج تک اس کی تصویریں لہرائی جاتی ہیں۔ یہی حال ویت نام، انگولا، چلی، ہنڈوراس، کوریا اور نکارا گوا جیسے ممالک کا تھا جن میں دنیا بھر سے لوگ جا کر لڑتے رہے اور انھوں نے سرحدوں کا احترام خاک میں ملایا، مگر ہیرو کہلائے۔ یہی کیفیت ان عالمی طاقتوں کی تھی جو وہاں اسلحہ بھی سپلائی کرتی رہیں اور جہاں ممکن ہوا، فوجیں بھی اتارتی رہیں۔ یہ سب کچھ پچاس سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا۔ ہر ایک نے اپنے حمایت یافتہ لوگوں کے ایسے گروہ تخلیق کیے جو فنِ حرب اور خصوصاً گوریلا جنگ میں اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے مالک تھے۔
ہر ایسے ملک میں ایسے لوگوں کے منظم گروہ تخلیق کیے گئے جو حکومتوں کو ناکوں چنے چبوانے کی اہلیت رکھتے تھے۔ کسی کو علاقائی آزادی کے نام پر اور کسی کو نظریے کی بنیاد پر منظم کیا گیا۔ اب یہ گروہ اس قدر منظم اور خود مختار ہو گئے تھے کہ ان کے نزدیک قومی ریاستوں کی سرحدوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی تھی۔ اس لیے کہ جب عالمی طاقتیں ہی کسی دوسرے ملک کی سرحدوں کا احترام نہ کرتی ہوں تو یہ لوگ جو نظریاتی چھتری تانے لڑ رہے تھے وہ کیسے سرحدوں کا احترام کرتے۔ افغانستان میں روس آیا تو دنیا بھر سے لوگ وہاں جا کر لڑنے لگے۔ پاکستان کے کتنے گھرانے ایسے ہیں جن کے بیٹے افغان جہاد میں شہید ہوئے اور ان کی میتیں یا تو وہیں دفن کر دی گئیں یا کسی خوش قسمت کو یہاں اپنے ملک کی مٹی نصیب ہوئی۔
ایران عراق جنگ شروع ہوئی تو ایک اور مسلک کے لوگ وہاں ایران کی جانب سے لڑنے چلے گئے۔ ایرانی اگرچہ ایک قومی جنگ لڑ رہے تھے لیکن عقیدت لوگوں کو کہاں تک لے جاتی ہے کہ پاکستان کے ایک شخص کے دو بیٹے ایران عراق جنگ میں شہید ہوئے۔ وہ اسے تہران کے قریب بہشتِ زھرا قبرستان میں دفن کرنا چاہتا تھا، لیکن اسے اجازت نہ دی گئی کہ وہ دونوں ایرانی النسل نہ تھے۔ ایسی ہی کیفیت افغانستان کے جہاد میں موجود تھی۔ قومی ریاستوں اور قومیتوں کا نشہ قائم تھا۔ باہر سے آ کر لڑنے والے محترم تو تھے لیکن زمین پر حق اور احترام زمین پر صدیوں سے بسنے والوں کا ہی مقدم رہا۔
لیکن گیارہ ستمبر نے تو دنیا ہی بدل ڈالی۔ وہ اقوام متحدہ جو عالمی سرحدوں کے تقدس کی ضمانت تھی، اس نے دنیا کے اڑتالیس غنڈوں (نیٹو) کو یہ اجازت دی کہ افغانستان کی سرحدوں کو عالمی ضمیر کے نام پر پامال کر دیا جائے۔ پوری دنیا تماشہ دیکھتی رہی۔ اب کی بار اقوام متحدہ کی اجازت کی بھی ضرورت نہ محسوس کی گئی۔ امریکا اپنے حلیف برطانیہ اور دیگر ممالک کے ہمراہ سرحدیں عبور کرتا عراق میں گھس گیا۔ یوں قومی ریاستوں کی خود مختاری، آزادی اقتدار اعلیٰ اور سرحدوں کے تقدس کا تصور ملیا میٹ ہو گیا۔ اس تصور کو ختم امریکا کے اس اعلان نے بھی کیا کہ ہم جس ملک میں بھی ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جو ہماری قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں انھیں خود جا کر ختم کریں گے۔ ہمیں ریاستوں کی حکومتوں پر اعتبار نہیں۔ ڈرون حملے اسی تصور کی پیداوار تھے جن کا نشانہ سب سے زیادہ پاکستان بنا۔
جب خود ریاستوں نے ہی سرحدوں کے تقدس کا تصور پامال کر دیا تو وہ گروہ جو ان ریاستوں کو اپنا دشمن تصور کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ان ریاستوں کا ظلم اور مسلمانوں کے خلاف پالیسیاں پوری دنیا میں بربریت کو ہوا دیتی ہیں۔ انھوں نے ایک اور راستہ اختیار کر لیا کہ فلسطین کا بدلہ یمن اور افغانستان میں بھی لیا جا سکتا ہے اور افغانستان کا بدلہ لندن اور نیویارک میں بھی۔ پوری دنیا کی ریاستی حکومتوں اور ان کے مقابلے میں کھڑے ہونے والوں کے درمیان ایک واضح تقسیم ہو گئی۔ عراق میں عرب دنیا کے لڑنے والے جا پہنچے اور شام میں ایران نے اپنے تیار کردہ افراد کو بھیج دیا۔ حالات یہاں تک آپہنچے کہ دنیا میں یورپ کے بائیس ممالک ایسے ہیں جہاں سے مسلمان شام میں لڑنے کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ ان میں کئی تو نسلاً گورے ہیں۔ جس کو جس قدر زمین کا ٹکڑا ملا اس نے وہاں ایک ریاست کا اعلان کر دیا۔
اماراتِ اسلامیٔ شام و عراق اور اماراتِ اسلامی افغانستان۔ جہاں جہاں ریاستی دہشتگردی بڑھی وہاں سے لوگ ہجرت کر کے ان گرہوں میں شامل ہوتے گئے۔ چیچنیا، ازبکستان، تاجکستان، صومالیہ، یمن، افغانستان غرض دنیا کے ہر خطے سے لوگ ایک ایسے بڑے گروہ کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو کسی طرح بھی عالمی سرحدوں کا احترام نہیں کرتا بالکل ویسے ہی جیسے عالمی طاقتیں کمزور ملکوں کی سرحدوں کا احترام نہیں کرتیں۔ یہ سرحدیں جو ماڈرن قومی ریاستوں کی علامت تھیں اب کی ان حیثیت صرف نقشے کی لکیروں سے زیادہ نہیں رہ گئی۔ اس کے باوجود بھی دنیا بھر میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ہماری سرزمین، ہمارا علاقہ اور ہماری ریاست دہشتگردی کے لیے کیوں استعمال کی جاتی ہے۔ یہ بیج تو قومی ریاستوں نے خود بویاہے۔
ستر سال ہم نے ریاستی سرپرستی میں دوسروں کی سرحدوں کو پامال کر کے ان کے گھروں میں آگ اور خون کا کھیل کھیلا اور اب ہم کس قدر معصوم خواہش رکھتے ہیں کہ یہ آگ اور خون کا کھیل ہماری سرحدوں میں نہ کھیلا جائے۔ اب تو جو فصل بوئی گئی ہے اسے کاٹنے کے دن ہیں۔ جو بھی ریاست جس کیمپ میں ہو گی اسے دوسرے کیمپ کی ریاستوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز اور یہاں تک کہ ریاستی اداروں کی دخل اندازی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سرحدیں اور ملک و قوم کی خودداری ایک عورت کی عصمت کی طرح ہوتی ہے۔ اس کو ہر کسی سے بچانا فرض ہوتا ہے۔ اگر محلے کا غنڈہ کسی عورت کی عصمت پامال کرتا رہے تو وہ عورت دوسرے محلے کے اوباش لوگوں کی دست برد سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔