خیر بخش مری اور حسین شہید سہروردی
مہمان نوازی کی ایک بڑی علامت تھے اور زبان چاہے اُردو استعمال کرتے یا انگریزی ہمیشہ بڑی فصیح اور شائستہ ہوا کرتی
کچھ ہی عرصہ پہلے تک قومی اسمبلی کی یہ مسلّمہ روایت رہی ہے کہ اس کا ایک اجلاس کسی بھی ایسے شخص کے انتقال کے بعد جو اپنی زندگی میں چاہے ایک بار ہی سہی اس ایوان کا رکن رہا ہو، اُس کی موت کے سوگ میں منعقد نہیں کیا جاتا۔ ایک حوالے سے گویا ایک دن اس کی یاد سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ مذکورہ روایت کے اتباع میں بعض اوقات یوں بھی ہوا کہ قومی اسمبلی کے کسی ایسے سیشن کے پہلے دن کا اجلاس جو اس شخص کی وفات کے کئی ہفتے کے بعد منعقد ہونے کو طلب کیا گیا تھا، مرحوم کی روح کو ایصال ثواب کے لیے فاتحہ پڑھنے کے بعد ملتوی کر دیا گیا۔
میں ذاتی طور پر روایات کی بہت زیادہ پابندی نہیں کرتا۔ پھر بھی کچھ ایسی رسوم و روایات ہیں جن کی خوبصورتی اور اہمیت کو میں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ صرف اور صرف ثقافتی اور سماجی حوالوں سے سراہنا شروع ہو گیا ہوں۔ قومی اسمبلی کے ایک پورے اجلاس کا کسی مرحوم رکن کے لیے فاتحہ خوانی کے بعد ملتوی کر دینا اس کے باوجود کبھی ہضم نہیں کر پایا۔
میرا بنیادی اعتراض ہمیشہ یہ رہا کہ قومی اسمبلی کا کوئی اجلاس منعقد کرنے کے لیے سرکاری خزانے سے خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ موت برحق ہے مگر زندگی کا کاروبار چلتے رہنا چاہیے۔ ویسے بھی اجلاس کو ملتوی کرنے کے بجائے زیادہ بہتر نہیں کہ اس کے ابتدائی لمحات کسی مرحوم رکن اسمبلی کی ذات اور سیاسی کیریئر کی اچھی اور اہم باتوں کو یاد کرنے کے لیے مختص کر دیے جائیں۔ شاید میرے جیسے سنکی لوگوں کے مسلسل اعتراضات سے تنگ آ کر قومی اسمبلی نے اس روایت کی پیروی بالآخر ترک کر دی ہے۔
منگل کی رات خبر آئی کہ نواب خیر بخش مری انتقال فرما گئے۔ بدھ کی صبح قومی اسمبلی کی طرف جاتے ہوئے مجھے پورا یقین تھا کہ چند تقاریر کے ذریعے بلوچستان کے اس اہم رہنما کا ذکر ضرور کیا جائے گا۔ میں اس وقت یقینا بہت حیران ہوا جب محض دعائے فاتحہ کے بعد بجٹ پر معمول کی بحث شروع کروا دی گئی۔ نواب خیر بخش مری کی موت کے بارے میں قومی اسمبلی کی رسمی مگر سرسری کارروائی نے بلکہ مجھے ایک بار پھر سمجھا دیا کہ بلوچی بولنے والے نوجوانوں کے دلوں میں ان دنوں احساس بیگانی اتنی شدت سے کیوں محسوس کیا جا رہا ہے۔
میں اپنی زندگی میں مری صاحب سے کبھی نہیں ملا۔ بلوچستان کے معاملات سے صحافیانہ دلچسپی رکھنے کی وجہ سے ان کا ذکر البتہ بہت سنا ہے۔ ان کے بدترین سیاسی دشمن اور نقاد بھی ہمیشہ اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ اپنے سخت گیر نظریات کے باوجود مرحوم ذاتی طور پر بے پناہ نفیس انسان تھے۔ دھیمے مگر انتہائی منطقی انداز میں اپنے نکتہ نظر کو سمجھانے کی کوشش کرتے۔
مہمان نوازی کی ایک بڑی علامت تھے اور زبان چاہے اُردو استعمال کرتے یا انگریزی ہمیشہ بڑی فصیح اور شائستہ ہوا کرتی۔ ان کی ذات میں نمایاں اشرافی صفات سے قطع نظر سیاست کے میرے جیسے ادنیٰ طالب علم کے لیے اہم بات یہ بھی رہی کہ بلوچ نوجوانوں کے بے تحاشہ انتہاء پسند اور نظام کہنہ کے نمایندہ سیاست دانوں کے بارے میں انتہائی سخت زبان استعمال کرنے والے طالب علم بھی اگر کسی بزرگ رہنما کا ذکر مؤدبانہ عزت و احترام سے کیا کرتے تو وہ صرف اور صرف نواب خیر بخش مری تھے۔
شاید ان کی اسی خوبی کو ذہن میں رکھتے ہوئے 1991ء کے اواخر میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے مرحوم آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کی بھرپور معاونت سے یہ فیصلہ کیا کہ نواب صاحب کو افغانستان سے پاکستان لوٹ آنے پر آمادہ کیا جائے۔ ان دونوں کو پورا یقین تھا کہ اگر بلوچستان کے اس بااثر سردار کو عزت و احترام کے ساتھ وطن واپس لایا جا سکے تو وہ اس صوبے میں بڑھتی ہوئی بیگانگی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مرحوم تاج محمد جمالی ان دنوں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔ جمالی صاحب کو روایتی بلوچ سیاستدان ''اپنا'' نہیں سمجھتے تھے۔
جمالی خاندان کو سندھی ثقافت و روایت کا نمایندہ سمجھا جاتا ہے۔ اس خاندان نے تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ بلوچستان کو ''قلات ریاست'' کی صورت کسی نہ کسی طرح ''خودمختار'' رکھنے کے خواہش مند بلوچ اس تاریخ کو آج بھی نہیں بھولے ہیں۔ تاج جمالی کے مخالفین کا خیال تھا کہ خیر بخش مری کو پاکستان لانے کی سوچ انھوں نے غلام اسحاق خان اور مرحوم آصف نواز جنجوعہ کے ذہن میں ڈالی ہے۔ نواب خیر بخش مری کو بلوچستان واپس لا کر جمالی خاندان دراصل بلوچ سیاست میں اپنی ''معتبری'' قائم کرنا چاہ رہا ہے۔ تاج جمالی کے مخالفین کو ہرگز خبر نہ تھی کہ خیر بخش مری کے ساتھ دوستانہ تعلقات دراصل اس وقت کی عسکری قیادت ایک دور رس ذہن کے ساتھ قائم کرنا چاہ رہی تھی۔
بہرحال جب یہ طے ہو گیا کہ خیر بخش مری کو افغانستان سے واپس پاکستان لانا ہے تو تلاش اس شخص کی شروع ہو گئی جو انھیں اس بات پر آمادہ کر سکے۔ اس حوالے سے کئی لوگوں کو آزمانے کے بعد دریافت یہ ہوا کہ راجن پور کے میر بلخ شیر مزاری وہ واحد شخص ہیں جو خیر بخش مری سے کوئی بات منوا سکتے ہیں۔ پیر پگاڑا کے ذریعے ان سے اس ضمن میں روابط استوار کیے گئے اور بالآخر میر صاحب ایک سرکاری طیارہ لے کر خیر بخش مری کو پاکستان لے آئے۔ میر بلخ شیر مزاری کے اس کردار کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں اس وقت ہرگز حیران نہ ہوا جب اپریل 1992ء میں غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت کو برطرف کر دینے کے بعد حامد ناصر چٹھہ کے بجائے انھیں قائم مقام وزیر اعظم بنا دیا۔
نواز شریف اور غلام اسحاق خان کی اقتدار سے محرومی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ اس ملک کی وزیر اعظم بن گئیں۔ بعد ازاں سردار فاروق خان لغاری ایوان صدر چلے گئے۔ میں نے کئی ملاقاتوں میں انھیں نواب خیر بخش مری کو وطن واپس لانے کی یاد دلائی۔ وہ ہمیشہ چپ رہے۔ میں نے اپنے تئیں یہ باور کر لیا کہ شاید میر بلخ شیر مزاری کے ساتھ لغاری خاندان کے روایتی تنائو کی وجہ سے وہ اس معاملے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ جنرل مشرف کے زمانے میں بلوچستان کے حوالے سے مرکزی حکومت کی ترجیحات بالکل مختلف ہو گئیں۔ پھر نواب اکبر بگٹی والا واقعہ ہو گیا۔ اس کے بعد بلوچستان کا ذکر تو بہت ہوتا ہے مگر وہاں کے ٹھوس سیاسی معاملات کو حقیقی معنوں میں سمجھنے کی سنجیدہ کوششیں نظر نہیں آتیں۔
ہاں گزشتہ حکومت کے آخری دنوں میں خورشید شاہ نے ایک مرتبہ میرے سامنے یہ اعتراف کیا تھا کہ بلوچستان میں معاملات کو سلجھانے کے لیے خیر بخش مری سے رجوع کرنا ضروری ہے اور وہ اس ضمن میں کچھ کرنے کو بے چین ہیں۔ زیادہ تفصیلات میں جائے بغیر فی الوقت میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میری دانست میں نواب خیر بخش مری کا بلوچستان میں وہی مقام و مرتبہ تھا جو ایک زمانے میں مرحوم مشرقی پاکستان میں حسین شہید سہروردی کے بارے میں نظر آتا تھا۔ ان کے 1960ء کی دہائی میں اس دُنیا سے چلے جانے کے بعد پاکستان اپنے دونوں حصوں کے درمیان موجود ایک اہم سیاسی پل سے محروم ہو گیا۔ خدا کرے کے خیر بخش مری کی رحلت کے بعد ہم کبھی بلوچستان کے بارے میں بھی ایسا سوچنے پر مجبور نہ ہو جائیں۔