پانی پیو یہ نعمت رب جلیل ہے
مال روڈ نئی تو بن گئی۔ مگر بہت کچھ بدل گیا۔ پہلے سڑک پتلی تھی مگر بہت کشادہ دل تھی۔
کل جب ہم مال روڈ کے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے مسجد شہدا کے قریب سے گزرے تو ہمیں وہ سبیل بہت شدت سے یاد آئی جس کی صورت یہ تھی کہ یہیں کہیں فٹ پاتھ پہ دو کورے مٹکے پانی کے بھرے رکھے ہیں۔ ایک بوڑھا شخص مونڈھے پر بیٹھا کٹورے میں پانی بھر بھر کر گزرتے ہوئے پیاسوں کو نذر کر رہا ہے ؎
پانی پیو یہ نعمتِ ربِ جلیل ہے
سبیل ہماری تہذیب کا کب سے ایک لازمی جز چلی آ رہی تھی۔ گرمیوں کے موسم میں پیاسوں کو پانی پلانا ثواب کا کام سمجھا جاتا تھا۔ گرمی کے موسم میں کس اہتمام سے جا بجا سبیلوں کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ کتنی سبیلوں پر برف کا ا نتظام بھی ہوتا تھا۔ ایسے بھی تھے جو برف کے پانی سے پیاسوں کو سیراب کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، وہ کورے مٹکوں پر بھروسہ کرتے تھے کہ ان میں بھرا پانی ٹھنڈا ہو گا اور مٹی کی مہک اس ٹھنڈے پانی میں ایک اور ذائقہ پیدا کر دے گی۔ اب تو ہم فریج اور فریزر پر بہت بھروسہ کرتے ہیں۔ سو گھروں سے صراحیاں' ٹھلیاں اور کورے گھڑے غائب ہو گئے ہیں۔ سو اب ہمارے پینے کے پانی سے مٹی کی مہک غائب ہے اور پانی کے اس ذائقے سے اب ہم نا آشنا ہیں۔
تو ہم کہہ رہے تھے کہ اس تہذیب سے نکل کر اب ہم نئے زمانے میں آ گئے ہیں۔ نئے زمانے کی تہذیب پیاسوں کو پانی پلانے کی قائل نہیں ہے۔ سو سبیلیں اب اس شہر میں مشکل سے نظر آئیں گی۔ پرانے لاہور کے کسی نکڑ پر نظر آ جائے تو اسے عجوبہ جانئے۔ مگر ذکر مال روڈ کی سبیل کا تھا۔ اس بوڑھے شخص نے جیتے جی اس سبیل کو قائم رکھا۔ جب وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا تو وہ مونڈھے پہ بیٹھ کر پانی پلانے جو گا بھی نہیں رہا۔ تب اس نے یہ اہتمام کیا کہ اپنی پلنگڑی فٹ پاتھ کے برابر درخت تلے ڈال کر اس پر لیٹا رہتا۔ ایک لڑکا سبیل پر متعین رہتا کہ گلاس یا کٹورا جو بھی مہیا ہے وہ بھر بھر کر پیاسوں کو پیش کر رہا ہے۔
افسوس ہم یہ آپ کو نہیں بتا سکتے کہ کب وہ بزرگ اس دنیا سے سدھارا اور کب وہ سبیل جو مال روڈ پر پرانی تہذیب کی آخری نشانی تھی بند ہوئی۔ بات یہ ہے کہ اب مال روڈ کو دو رویہ بنایا جا رہا تھا۔ اس چکر میں مال اُدھڑ رہی تھی۔ فٹ پاتھ جو پہلے بہت کشادہ ہوا کرتا تھا اور جس کے متصل گھاس کے تختے اور پھولوں کے پودے لہلہاتے نظر آیا کرتے تھے یہ سب کچھ مال کو نیا بنانے کے شوق میں پامال کیا جا رہا تھا۔
مال روڈ نئی تو بن گئی۔ مگر بہت کچھ بدل گیا۔ پہلے سڑک پتلی تھی مگر بہت کشادہ دل تھی۔ اب اس کی کشادگی غائب ہے۔ موٹروں اور اسکوٹروں کا ریلا اس وحشیانہ رنگ سے آیا کہ یہ سڑک اب بہت تنگ نظر آتی ہے۔ اب یہ سواروں کی سڑک ہے۔ پیادہ پِٹ گیا۔ فٹ پاتھ جتنا کچھ رہ گیا ہے اس پر بھی اسے چلنا دشوار نظر آتا ہے۔ اب اس فٹ پاتھ پر پیادے کو چلنے کو رستہ نہیں ملتا اور پیاسے کو پانی نہیں ملتا۔ پھر کیا ملتا ہے۔ ارے بہت کچھ ملتا ہے۔ بس وہ کچھ نہیں ملتا جس کے واسطے سے یہ شاہراہ پہچانی جاتی تھی۔ ارے کہاں کا اسکوٹر' کیسی موٹر' اور موٹر چلتی بھی تھی تو ایسے جیسے ذوالفقار علی خاں کا موٹر چلتا تھا۔ جس کے متعلق علامہ اقبال ہمیں بتا گئے ہیں کہ ؎
موٹر ہے ذوالفقار علی خان کا کیا خموش
اور اس کی صفت یوں بیان کی ؎
ہنگامہ آفرین نہیں اس کا خرامِ ناز
مانند برق تیز' مثال ہوا خموش
پت جھڑ کی دوپہروں میں البتہ اس کے چلنے کا پتہ چلتا تھا۔ پیلے پتے کس اطمینان سے درختوں سے اتر کر مال روڈ پر اپنا بستر بچھا لیتے تھے۔ کوئی کوئی موٹر گزرتا تو ان پتوں کے آرام میں بہت خلل پڑتا۔ کتنی دور تک وہ موٹر کا پیچھا کرتے ' آخر تھک ہار کر پھر مال پر آ کر لیٹ جاتے۔ دوسرا موٹر یا دوسری موٹر گزرے گی تب تک کے لیے راوی پت جھڑ کے لیے چین لکھتا ہے۔
ہاں پھولوں کے موسم کا پتہ ان کیاریوں سے چلتا جو فٹ پاتھ سے متصل گھاس کے تختوں کے بیچ اپنے گل پھول سے شاداب نظر آتیں۔ ہاں کبھی کبھی ہائی کورٹ کے برابر سے گزرتے ہوئے کچھ مسلے ہوئے ننھے ننھے پھول نظر آتے۔ ارے یہ تو مولسری کے پھول ہیں اور اس وقت ہمیں احساس ہوتا کہ یہاں سے لے کر ریگل چوک تک جو درخت کھڑے ہیں۔ انھیں کے بیچ کچھ مولسری کے درخت بھی ہیں۔ اب یہ درخت ہمیں اپنے متعلق کچھ نہیں بتاتے۔ ٹریفک کی گنور دل دیکھ کر انھوں نے اپنی شناخت چھپا لی ہے۔
ارے ہم کس گنتی میں ہیں۔ اس فٹ پاتھ کی زینت تو اصل میں مولانا صلاح الدین احمد تھے۔ جاڑے' گرمی' برسات ہر موسم میں سوٹ بوٹ میں ملبوس ہیٹ لگائے چھڑی ہاتھ میں لیے اس متذکرہ بالا سبیل کے قریب اپنے ''ادبی دنیا'' کے دفتر سے نکلتے اور پرانی انارکلی کی سمت رواں نظر آتے۔ انھیں مقررہ وقت پر نگینہ بیکری پہنچنا ہوتا تھا جہاں ان کے ہمعصر چائے کی پیالی پر ان کے منتظر ہوتے۔ اب ایسا اس سڑک پر کہاں سے لاؤں کہ پیادہ کہیں جسے۔ ویسے تو میں ناصر کاظمی کا نام بھی گنا سکتا ہوں اور زاہد ڈار کا بھی۔
ارے ہم مال روڈ کے ماضی و حال کو کریدنے میں لگ گئے۔ ذکر مال روڈ کی اس اکلوتی سبیل کا تھا جو ہمارے لیے ایک پورے موسم کا استعارہ تھی۔ جس دوپہر کو اس کے فٹ پاتھ پر دو مٹکے نمودار ہوتے تو ہم سمجھ جاتے کہ؎
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
ان دنوں تو مئی کا مہینہ لگتے ہی چوٹی سے ایڑی تک پسینہ بہنے لگتا تھا۔ اب کے مئی عجب آئی۔ آتی گرمیوں کا پتہ ہی نہ چلا۔ پتہ تو اب جون میں آ کر چلا ہے۔ ایسی چلچلاتی دھوپ جس میں ہرن کا رنگ کالا پڑ جاتا ہے اور بقول انیس پیاس ایسی کہ ؎
آب رواں سے منہ نہ اٹھاتے تھے جانور
واضح ہو کہ یہاں آب رواں سے مراد آب رواں ہی ہے۔ ظفر اقبال کا مجموعہ کلام نہیں ہے۔ ویسے کوئی عجب نہیں کہ اس مصرعہ نے اس مجموعہ کی تاریخ نکلتی ہو۔
ہاں ایک تو گرمی' اوپر سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ یک نہ شد دو شد۔ پہلی قیامت موسم کا سندیسہ ہے۔ دوسری قیامت کے لیے ہمیں اپنے ارباب بست و کشاد کا ممنون احسان ہونا چاہیے۔ سبز باغ تو بہت دکھائے جا رہے ہیں کہ لگتا ہے کوئی دن جاتے ہیں گلیوں میں اور گھروں میں بجلی ہی بجلی ہو گی' کب ہو گی۔ یہ مت پوچھئے۔ جس تاریخ کا مژدہ سناتے ہیں وہ تاریخ ہم آپ کو بتائیں تو آپ اس کے سوا اور کیا کہیں گے کہ تا تریاق از عراق آوردہ شود۔ مارگزیدہ مردہ شود۔ مگر ان کا جواب یہ ہے کہ یہ بجلی ہے بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ آتے آتے آئے گی۔ مگر یہ کھیل بھی ...دور لگا...ہے۔ اقبال کا ایک شعر پھر سن لیجیے ؎
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
دہقاں کو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
اس شعر کی تفصیل لمبی ہے۔ وہ پھر کبھی۔
پانی پیو یہ نعمتِ ربِ جلیل ہے
سبیل ہماری تہذیب کا کب سے ایک لازمی جز چلی آ رہی تھی۔ گرمیوں کے موسم میں پیاسوں کو پانی پلانا ثواب کا کام سمجھا جاتا تھا۔ گرمی کے موسم میں کس اہتمام سے جا بجا سبیلوں کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ کتنی سبیلوں پر برف کا ا نتظام بھی ہوتا تھا۔ ایسے بھی تھے جو برف کے پانی سے پیاسوں کو سیراب کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، وہ کورے مٹکوں پر بھروسہ کرتے تھے کہ ان میں بھرا پانی ٹھنڈا ہو گا اور مٹی کی مہک اس ٹھنڈے پانی میں ایک اور ذائقہ پیدا کر دے گی۔ اب تو ہم فریج اور فریزر پر بہت بھروسہ کرتے ہیں۔ سو گھروں سے صراحیاں' ٹھلیاں اور کورے گھڑے غائب ہو گئے ہیں۔ سو اب ہمارے پینے کے پانی سے مٹی کی مہک غائب ہے اور پانی کے اس ذائقے سے اب ہم نا آشنا ہیں۔
تو ہم کہہ رہے تھے کہ اس تہذیب سے نکل کر اب ہم نئے زمانے میں آ گئے ہیں۔ نئے زمانے کی تہذیب پیاسوں کو پانی پلانے کی قائل نہیں ہے۔ سو سبیلیں اب اس شہر میں مشکل سے نظر آئیں گی۔ پرانے لاہور کے کسی نکڑ پر نظر آ جائے تو اسے عجوبہ جانئے۔ مگر ذکر مال روڈ کی سبیل کا تھا۔ اس بوڑھے شخص نے جیتے جی اس سبیل کو قائم رکھا۔ جب وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا تو وہ مونڈھے پہ بیٹھ کر پانی پلانے جو گا بھی نہیں رہا۔ تب اس نے یہ اہتمام کیا کہ اپنی پلنگڑی فٹ پاتھ کے برابر درخت تلے ڈال کر اس پر لیٹا رہتا۔ ایک لڑکا سبیل پر متعین رہتا کہ گلاس یا کٹورا جو بھی مہیا ہے وہ بھر بھر کر پیاسوں کو پیش کر رہا ہے۔
افسوس ہم یہ آپ کو نہیں بتا سکتے کہ کب وہ بزرگ اس دنیا سے سدھارا اور کب وہ سبیل جو مال روڈ پر پرانی تہذیب کی آخری نشانی تھی بند ہوئی۔ بات یہ ہے کہ اب مال روڈ کو دو رویہ بنایا جا رہا تھا۔ اس چکر میں مال اُدھڑ رہی تھی۔ فٹ پاتھ جو پہلے بہت کشادہ ہوا کرتا تھا اور جس کے متصل گھاس کے تختے اور پھولوں کے پودے لہلہاتے نظر آیا کرتے تھے یہ سب کچھ مال کو نیا بنانے کے شوق میں پامال کیا جا رہا تھا۔
مال روڈ نئی تو بن گئی۔ مگر بہت کچھ بدل گیا۔ پہلے سڑک پتلی تھی مگر بہت کشادہ دل تھی۔ اب اس کی کشادگی غائب ہے۔ موٹروں اور اسکوٹروں کا ریلا اس وحشیانہ رنگ سے آیا کہ یہ سڑک اب بہت تنگ نظر آتی ہے۔ اب یہ سواروں کی سڑک ہے۔ پیادہ پِٹ گیا۔ فٹ پاتھ جتنا کچھ رہ گیا ہے اس پر بھی اسے چلنا دشوار نظر آتا ہے۔ اب اس فٹ پاتھ پر پیادے کو چلنے کو رستہ نہیں ملتا اور پیاسے کو پانی نہیں ملتا۔ پھر کیا ملتا ہے۔ ارے بہت کچھ ملتا ہے۔ بس وہ کچھ نہیں ملتا جس کے واسطے سے یہ شاہراہ پہچانی جاتی تھی۔ ارے کہاں کا اسکوٹر' کیسی موٹر' اور موٹر چلتی بھی تھی تو ایسے جیسے ذوالفقار علی خاں کا موٹر چلتا تھا۔ جس کے متعلق علامہ اقبال ہمیں بتا گئے ہیں کہ ؎
موٹر ہے ذوالفقار علی خان کا کیا خموش
اور اس کی صفت یوں بیان کی ؎
ہنگامہ آفرین نہیں اس کا خرامِ ناز
مانند برق تیز' مثال ہوا خموش
پت جھڑ کی دوپہروں میں البتہ اس کے چلنے کا پتہ چلتا تھا۔ پیلے پتے کس اطمینان سے درختوں سے اتر کر مال روڈ پر اپنا بستر بچھا لیتے تھے۔ کوئی کوئی موٹر گزرتا تو ان پتوں کے آرام میں بہت خلل پڑتا۔ کتنی دور تک وہ موٹر کا پیچھا کرتے ' آخر تھک ہار کر پھر مال پر آ کر لیٹ جاتے۔ دوسرا موٹر یا دوسری موٹر گزرے گی تب تک کے لیے راوی پت جھڑ کے لیے چین لکھتا ہے۔
ہاں پھولوں کے موسم کا پتہ ان کیاریوں سے چلتا جو فٹ پاتھ سے متصل گھاس کے تختوں کے بیچ اپنے گل پھول سے شاداب نظر آتیں۔ ہاں کبھی کبھی ہائی کورٹ کے برابر سے گزرتے ہوئے کچھ مسلے ہوئے ننھے ننھے پھول نظر آتے۔ ارے یہ تو مولسری کے پھول ہیں اور اس وقت ہمیں احساس ہوتا کہ یہاں سے لے کر ریگل چوک تک جو درخت کھڑے ہیں۔ انھیں کے بیچ کچھ مولسری کے درخت بھی ہیں۔ اب یہ درخت ہمیں اپنے متعلق کچھ نہیں بتاتے۔ ٹریفک کی گنور دل دیکھ کر انھوں نے اپنی شناخت چھپا لی ہے۔
ارے ہم کس گنتی میں ہیں۔ اس فٹ پاتھ کی زینت تو اصل میں مولانا صلاح الدین احمد تھے۔ جاڑے' گرمی' برسات ہر موسم میں سوٹ بوٹ میں ملبوس ہیٹ لگائے چھڑی ہاتھ میں لیے اس متذکرہ بالا سبیل کے قریب اپنے ''ادبی دنیا'' کے دفتر سے نکلتے اور پرانی انارکلی کی سمت رواں نظر آتے۔ انھیں مقررہ وقت پر نگینہ بیکری پہنچنا ہوتا تھا جہاں ان کے ہمعصر چائے کی پیالی پر ان کے منتظر ہوتے۔ اب ایسا اس سڑک پر کہاں سے لاؤں کہ پیادہ کہیں جسے۔ ویسے تو میں ناصر کاظمی کا نام بھی گنا سکتا ہوں اور زاہد ڈار کا بھی۔
ارے ہم مال روڈ کے ماضی و حال کو کریدنے میں لگ گئے۔ ذکر مال روڈ کی اس اکلوتی سبیل کا تھا جو ہمارے لیے ایک پورے موسم کا استعارہ تھی۔ جس دوپہر کو اس کے فٹ پاتھ پر دو مٹکے نمودار ہوتے تو ہم سمجھ جاتے کہ؎
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
ان دنوں تو مئی کا مہینہ لگتے ہی چوٹی سے ایڑی تک پسینہ بہنے لگتا تھا۔ اب کے مئی عجب آئی۔ آتی گرمیوں کا پتہ ہی نہ چلا۔ پتہ تو اب جون میں آ کر چلا ہے۔ ایسی چلچلاتی دھوپ جس میں ہرن کا رنگ کالا پڑ جاتا ہے اور بقول انیس پیاس ایسی کہ ؎
آب رواں سے منہ نہ اٹھاتے تھے جانور
واضح ہو کہ یہاں آب رواں سے مراد آب رواں ہی ہے۔ ظفر اقبال کا مجموعہ کلام نہیں ہے۔ ویسے کوئی عجب نہیں کہ اس مصرعہ نے اس مجموعہ کی تاریخ نکلتی ہو۔
ہاں ایک تو گرمی' اوپر سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ یک نہ شد دو شد۔ پہلی قیامت موسم کا سندیسہ ہے۔ دوسری قیامت کے لیے ہمیں اپنے ارباب بست و کشاد کا ممنون احسان ہونا چاہیے۔ سبز باغ تو بہت دکھائے جا رہے ہیں کہ لگتا ہے کوئی دن جاتے ہیں گلیوں میں اور گھروں میں بجلی ہی بجلی ہو گی' کب ہو گی۔ یہ مت پوچھئے۔ جس تاریخ کا مژدہ سناتے ہیں وہ تاریخ ہم آپ کو بتائیں تو آپ اس کے سوا اور کیا کہیں گے کہ تا تریاق از عراق آوردہ شود۔ مارگزیدہ مردہ شود۔ مگر ان کا جواب یہ ہے کہ یہ بجلی ہے بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ آتے آتے آئے گی۔ مگر یہ کھیل بھی ...دور لگا...ہے۔ اقبال کا ایک شعر پھر سن لیجیے ؎
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
دہقاں کو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
اس شعر کی تفصیل لمبی ہے۔ وہ پھر کبھی۔