تبدیلیوں کا سال
2014 تبدیلیوں کا سال ہے۔ دنیا بھر میں یکے بعد دیگرے تبدیلیوں پر تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں
2014 تبدیلیوں کا سال ہے۔ دنیا بھر میں یکے بعد دیگرے تبدیلیوں پر تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ سب سے بڑی اور انتہائی اہم تبدیلی ہمارے مشرقی پڑوسی ملک بھارت میں رونما ہوچکی ہے جہاں برسوں پانی اقتدار کی باگ ڈور ہندو خاندان کی گھر کی لونڈی انڈین نیشنل کانگریس کے ہاتھوں سے نکل کر ہندو توا کا نعرہ بلند کرنے والی انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کی لے پالک بی جے پی کے ہاتھوں میں آچکی ہے جس کے نتیجے میں کانگریس کی صفوں میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے جب کہ دوسری جانب ہندوستان کی دوسری سب سے بڑی اکثریت مسلمانان ہند کو بی جے پی کی آیندہ پالیسیوں کے حوالے سے شدید تشویش لاحق ہے۔
کیوں کہ ان کے لیے بابری مسجد کی شہادت کے عظیم سانحے اور گجرات کے مسلم کش فسادات اور مظفر نگر کے حالیہ خونی واقعات کو فراموش کردینا ناممکن ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی جس میں مختار عباس نقوی اور نجمہ، ہبت اﷲ جیسی نام نہاد مسلم شخصیات شامل ہیں مگر جس کی جانب سے عام انتخابات میں ایک بھی مسلم امیدوار کامیاب ہوکر پارلیمان میں نہیں آیا ہے، مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔
تبدیلی کی زبردست لہر نے دنیا کے بہت سے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہمارے پڑوسی برادر ملک ایران میں تبدیلی کا یہ عمل ذرا پہلے تکمیل پذیر ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں صدر احمدی نژاد رخصت ہوچکے ہیں اور نئے قائد روحانی اپنے ملک کی رہنمائی کی ذمے داریاں سنبھال چکے ہیں۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ تبدیلی انتخابات کے انعقاد کے نتیجے میں قطعی پر امن طریقے سے واقع ہوئی اور ملک کے عوام نے اسے انتہائی خوش دلی کے ساتھ قبول کیا ہے۔
یہ اسی کا ثمر ہے کہ ایران کے ارتقائی عمل میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا ہے اور ملک و قوم کا کارواں اپنے نئے رہنما کی زیر قیادت ترقی کی شاہراہ پر حسب معمول گامزن رہتے ہوئے ترقی کی نئی نئی منزلیں طے کر رہا ہے۔ حالاں کہ اس ملک کی خارجہ پالیسی کے رخ میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔ معروضی حالات کا تقاضا بھی یہی تھا کہ رخ تبدیل کیاجائے۔
ادھر مصر میں عرصہ دراز سے جاری سیاسی اوتھل پتھلی کے بعد گزشتہ دنوں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں نئے صدر عبدالفتح السیسی نے صدارتی منصب سنبھال لیا ہے۔ دو سال کے عرصے میں مصر کا صدارتی منصب سنبھالنے والے وہ دوسرے صدی میں سابقہ فوجی سربراہ نے حالیہ الیکشن میں اپنے مد مقابل سے تقریباً 97 فی صد زیادہ ووٹ حاصل کرکے یہ کامیابی حاصل کی ہے۔ صدر کی تقریب حلف برداری میں مصر کی حکومت نے کئی عالمی قائدین کو شرکت کی دعوت دی تھی جن میں ایران کے صدر حسن روحانی بھی شامل تھے۔ السیسی نے سابق صدر المرسی کو فوجی حمایت سے ہٹاکر اقتدار سنبھالا تھا اور رفتہ رفتہ جگہ بنائی تھی۔
مصر میں ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ ان میں اتنی لیاقت اور صلاحیت موجود ہے کہ وہ ملک کو تین سال سے مسلسل درپیش سیاسی عدم استحکام پر قابو پاکر اسے ترقی کی شاہراہ پر ڈال سکتے ہیں۔ مصر میں ابھی انتخابات کا مرحلہ ادھورا ہے کیوں کہ وہاں پارلیمانی الیکشن ابھی ہونا باقی ہیں اگرچہ ان انتخابات کے انعقاد کی کسی حتمی تاریخ کا تعین ہونا ابھی باقی ہے لیکن قیاس کیا جاتاہے کہ یہ انتخابات سال رواں کے آخر میں منعقد کیے جائیں گے۔ تب تک پارلیمانی اختیارات بھی صدر السیسی کے پاس ہی رہیں گے۔
السیسی کی صدارتی انتخابات میں کامیابی پر فوری رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکا نے نئے صدر کے ساتھ تعاون کا عندیہ دیا تھا۔ اگرچہ بظاہر مصر میں طویل عرصے سے جاری سیاسی محاذ آرائی اور کشمکش کا باب اپنے اختتام کو پہنچتا ہوا نظر آرہا ہے لیکن اس ملک کے سیاسی Undercurrents اور غیر یقینی مدو جزر کو مد نظر رکھتے ہوئے یقین کے ساتھ کچھ کہنا یا کوئی سیاسی پیش گوئی کرنا محض قبل از وقت اور Premature ہی ہوگا۔ مصر کا سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور بیٹھے گا بھی یا نہیں ابھی سے اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔
ایک اور اسلامی یا مسلم ملک شام میں بھی صدارتی عام انتخابات ابھی حال ہی میں اختتام پذیر ہوئے ہیں جس کے سرکاری نتائج کے مطابق سابق صدر بشارالاسد کو وہاں کے عوام نے دوبارہ اپنا صدر منتخب کرلیا ہے۔ مگر ان صدارتی انتخابات کے بارے میں کھلم کھلا عدم اعتماد کا اظہار ان کے انعقاد کے قبل ہی سے کیا جارہا تھا۔ یہ انتخابات کن حالات میں اور کس انداز میں کروائے گئے ہیں یہ حقیقت پوری دنیا پر بالکل واضح اور روز روشن کی طرح سے عیاں ہے۔ شام کے عوام کی نظروں میں ان کے صدر کی وقعت اور اہمیت کتنی ہے۔
یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ امریکا کے وزیر خارجہ جان کیری نے شام کے صدارتی انتخابات کے بارے میں واشگاف الفاظ میں اپنے فوری اور شاید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ذرا بھی تکلف سے کام نہیں لیا اور کھلم کھلا کہہ دیا کہ ''یہ انتخابات انتخاب ہی نہیں ہیں بلکہ ایک بہت بڑا زیرو ہیں'' اسی کے ساتھ ساتھ امریکی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان میری ہارف نے ان انتخابات کو بے حیائی اور بے شرمی سے تعبیر کیا ہے۔
صدر اسد کے خلاف عوامی شورش کا طوفان برپا ہونے کے بعد سے اب تک شام میں 162,000 کے لگ بھگ لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں جب کہ بعض عوام کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے اپنے گھروں سے بے گھر ہوکر تباہی و بربادی کا شکار ہے اور در بہ در ماری ماری پھررہی ہے۔ شام کے صدر نے انتخابات کا یہ ڈھونگ محض عالمی رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی غرض سے رچایا ہے۔ لیکن در حقیقت ان کا یہ حربہ اہم نہیں۔ Back Fire کرلیا ہے۔
شام کے صدارتی انتخابات کے بعد آیئے اب افغانستان کے صدارتی انتخابات کا رخ کرتے ہیں جہاں صدارتی انتخابات کا دوسرا دور 14 جون کو ہونا باقی تھا۔ پہلے دور کے بعد ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ اور ڈاکٹر عبدالغنی کی صورت میں دو امیدوار ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ انتخابات کا دوسرا دور افغانستان کے آئین کے تقاضے پر مبنی ہے جس کی رو سے اگر کوئی امیدوار 50 فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے تو پھر دونوں سر فہرست امیدواروں کے درمیان مقابلے کا دوسرا دور منعقد کیا جانا لازمی ہے۔
چنانچہ نہ صرف افغان عوام بلکہ پوری دنیا کی نگاہیں اب صدارتی انتخابات کے اس دوسرے دور کے اختتام پر مرکوز ہیں۔ سیاسی مبصرین بھی اس تمام صورت حال کا پوری دلچسپی کے ساتھ مشاہدہ کررہے ہیں کیوں کہ اس انتخاب کے نتائج نہ صرف افغانستان کی داخلی صورت حال پر گہرے اثرات مرتب کریں گے بلکہ علاقائی اور مجموعی طور پر عالمی صورت حال پر بھی اس کے دور رس اثرات مرتب ہوںگے۔ دسمبر کے بعد کابل سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء پر بھی یہ انتخابات بہت اثر انداز ہوں گے۔ چوں کہ افغانستان کے حالات سے سب سے زیادہ اور براہ راست متاثر ہونے والا ملک پاکستان ہی ہے لہٰذا وطن عزیز کی حکومتی، سفارتی، سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں بھی افغانستان کے صدارتی انتخابات کے نتائج پر سب کی بڑی گہری نظریں جمی ہوئی ہیں۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ کا پس منظر پختون ہے جب کہ ان کے مد مقابل ڈاکٹر اشرف غنی ازبک پس منظر کے حامل ہیں۔ یہ بات بھی کچھ کم اہم نہیں ہے کہ ایک اہم سیاسی کھلاڑی زلمے رسول بھی جو کہ پختون ہیں اپنی سیاسی حمایت کا وزن ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ کے پلڑے میں ڈال چکے ہیں جب کہ دوسری جانب معروف تاجک رہنما احمد شاہ مسعود کے بھائی کی تمام حمایت ڈاکٹر اشرف غنی کو حاصل ہے۔ مگر اس اختلاف کے باوجود دو باتیں دونوں ہی صدارتی امیدواروں میں مشترک ہیں۔
اول یہ کہ ان دونوں میں سے کسی کو بھی امریکا کے ساتھ سیکیورٹی معاہدہ کرنے میں شاید کوئی بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی اور دوسری بات یہ کہ بھارت نوازی کے معاملے میں بھی دونوں ہی کا رویہ کم و بیش ایک ہی جیسا ہوگا۔ گویا یہ معاملہ Natha Singh and Prem Singh one and the same thing دیکھنا یہ بھی ہے کہ کیا نئی افغان حکومت اس پوزیشن میں ہوگی کہ کابل کے علاوہ پورے افغانستان پر اپنی رٹ قائم رکھ سکے۔ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد اگر آیندہ افغان حکومت کی گرفت بعض صوبوں پر ڈھیلی پڑتی ہے تو اس کے نتیجے میں ان صوبوں پر افغان طالبان کی گرفت ایک مرتبہ پھر مضبوط ہوسکتی ہے جنھیں پاکستانی طالبان کی ممکنہ مدد بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ مستقبل کی صورت حال کے اعتبار سے 2014 کا سال وطن عزیز کے لیے انتہائی نازک اور اہم ہوگا۔