کس سمت جارہا ہے پاکستان

پاکستان جن ناہموار راہوں پر سفر کررہا ہے وہ اس کے حق میں کسی صورت مفید نہیں ہے

مذہب اسلام میں مایوسی کفر سمجھی جاتی ہے مگر پچھلے کئی برسوں سے ہمارے ملک پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے اسے دیکھ کر مایوسی کے سوا کوئی دوسرا احساس چاہنے کے باوجود اس مملکتِ خداداد کے باسی محسوس نہیں کر پارہے ہیں۔

پاکستان ستتر سال پہلے جب معرض وجود میں آیا تھا تو یہ ایک ملک سے زیادہ جذبہ تھا، آزادی کا اور اس سرزمین پاک کی خاطر مر مٹ جانے کا جبکہ اتنے سال بعد لٹ پٹ کر اب صرف یہ ملک بچا ہے باقی اس سے منسلک مثبت جذبات و احساسات یہاں رہنے والوں میں بہت تیزی کے ساتھ ناپید ہوتے جارہے ہیں۔

بانیان پاکستان نے اسے جنت نظیر کا تصور لے کر بنایا تھا مگر افسوس اس ملک کے سربراہوں نے ہمیشہ ملکی مفادات پر اپنے ذاتی مفادات کو فوقیت بخشی جس کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہمارا ملک دنیا کے سامنے تماشا بن کر رہ گیا ہے۔

ملک کبھی بھی ایسے نہیں چلائے جاتے ہیں جس طرح ہمارے حکمرانوں کی جانب سے پاکستان کو گزرے کئی برسوں سے چلایا جارہا ہے، ہمارے حکامِ بالا نے اگر اب بھی ماضی کی غلطیوں سے عبرت نہ پکڑی تو آج نہیں کل پورا ملکی سسٹم جمود کا شکار ہوسکتا ہے۔ پاکستان کو ابتدا سے ہی اگر تجرباتی لیبارٹری میں جھونک دینے کے بجائے ایک آزاد جمہوری ریاست کی حیثیت سے چلایا جاتا تو آج یہ ملک ترقی پذیر کے بجائے ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہوتا۔

دنیا کی ہیئت ماضی سے یکسر تبدیل ہوچکی ہے، زمانہ حال میں اس کرہ ارض پر موجود ہر ملک و ریاست بہتر سے بہترین بننے کی دوڑ میں شامل ہے جبکہ دوسری جانب ہمارا ملک فقط رینگ رہا ہے۔ پاکستان موجودہ وقتوں میں کس مقام پر کھڑا ہے، قوم کس سمت جارہی ہے، اس ملک کا مستقبل روشن ہے یا تاریک کسی کو کوئی خبر نہیں، بس ہوا میں معلق ہمارا وطن عزیز اللہ توکل چل رہا ہے۔

پاکستان پچھلے ماہ ہی الیکشن کے شور و غوغا سے باہر آیا ہے، ماحول میں سیاسی تناؤ اپنے عروج پر ہے، انتخابات میں ناکامی پانے والے سیاستدان سڑکوں پر سراپائے احتجاج بنے ہوئے ہیں اور ملکی معیشت اپنے بدترین حال میں موجود ہے ایسے میں نئی حکومت سے اچھی امیدیں وابستہ کرنا قطعی سہل نہیں ہے۔

اس سرزمین سے محبت کرنے والا ہر پاکستانی ملک کے مسائل سے واقفیت رکھنے کے باوجود اپنے دل میں یہ خواہش زندہ رکھے ہوئے ہے کہ پاکستان بھی ترقی کی وہ منازل طے کرے جو بحیثیت ملک آج کے دور میں سر اٹھا کر چلنے کے لیے ناگزیر ہے۔


ہماری قوم حقیقت میں تھک چکی ہے اپنے حکمرانوں کی غلطیوں کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے اور پوری دنیا کے سامنے مذاق کا نشانہ بنتے بنتے، قیامِ پاکستان کے کئی سال بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک تک کامیابی کے ہر میدان میں ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں، جبکہ دنیا کے اس کونے میں جدھر ہم آباد ہیں یہی بحث اپنے انجام کو پہنچ نہیں پارہی ہے کہ پاکستان میں حالیہ ہونے والے عام انتخابات میں دھاندلی کی بھی کی گئی تھی یا یہ محض ایک الزام ہے۔

خدا جانے ہمارا ملک اندیشوں اور خدشوں کے بھنور سے کبھی نکل بھی پائے گا یا نہیں کیونکہ جب افواہوں ، الزام تراشیوں اور غلط بیانی کا بازار کسی بھی ملک میں اس حد تک گرم ہو جتنا پاکستان میں پچھلی کئی دہائیوں سے ہے تو جواب سے دامن بچانا ہی عقلمندی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اس سرزمین پر کسی بڑے سیاسی بحران کی آمد آمد ہوتی ہے تب پوری قوم کو بڑی سہولت کے ساتھ کسی نہ کسی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے، کبھی وہ بتی مذہبی فرقہ واریت پر مبنی ہوتی ہے تو کبھی لسانیت اور قوم پرستی پر۔

آخر کب تک پاکستان کو آگ کی بھٹی میں اس خیال سے جلایا جائے گا کہ یہ کندن کا روپ دھار لے جبکہ حقیقت میں ملک کو کندن بنانے کے لیے مسائل کی آگ میں جلانے کے بجائے قوم کے نوجوانوں کو تعلیم و ہنر کے زیورات کی جانب مائل کرکے ان کا یقینی جیتنا ہوتا ہے۔

پاکستانی نوجوان کی فلاح و بہبود کی فکر ہمارے سیاست دانوں کی فقد شعلہ بیانیوں میں دکھائی دیتی ہے کیونکہ اقتدار کا نشہ ہی ایسا خوب ہوتا ہے کہ وہ ہمارے حکمرانوں کو اپنی کہی باتوں اور عوام سے کیے وعدوں کو بھلانے میں کافی مدد فراہم کرتا ہے۔ آج کا نوجوان اس ملک میں خاصا ناخوش معلوم ہورہا ہے جس کا زندہ جاوید ثبوت ہے کہ وہ بہتر زندگی کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے بڑی تیزی کے ساتھ جوق در جوق پردیس سدھار رہا ہے۔

نوجوان اپنے ملک کا قیمتی سرمایہ مانے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر ترقی یافتہ ملک ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، ان پر اپنے ملکی وسائل کا بیدریغ استعمال کرتا ہے اور تو اور ان کو پڑھا،لکھا کر اس قابل بناتا ہے کہ وہ ملکی سسٹم کو جدید سے جدید ترین بناکر ترقی کے پہیے کی تیزی کو دوام بخشیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ نوجوانوں کا دل جیتے اور ان کا ساتھ حاصل کیے بغیر پاکستان ترقی کی مانٹ ایورسٹ سر کر ہی نہیں سکتا ہے، وہ دن صرف قصہ پارینہ بن چکے ہیں جب اقوام اپنے نوجوانوں کو نظرانداز کرکے اپنی پوری توجہ پکی عمر کے آدمیوں پر مرکوز کرکے محض طاقت کے زور پر دنیا پر حکمرانی کیا کرتی تھیں۔ موجودہ وقتوں میں علم، عقل و فہم، طاقت اور نوجوانوں کا اپنی حکومت پر بھروسہ ہی کسی بھی ملک کو ترقی کے میدان میں کامیابی دلانے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

پاکستان جن ناہموار راہوں پر سفر کررہا ہے وہ اس کے حق میں کسی صورت مفید نہیں ہے اور جو ملک کے لیے ٹھیک نہیں ہے وہ عوام کو کس طرح فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ ہمارا ملک ترقی کریگا تو اسی صورت ہم سب یہاں پنپ پائیں گے بصورت دیگر نقصان کسی ایک کا نہیں پورے پاکستان کا ہوگا، اب فیصلہ عوام سے زیادہ ہمارے حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے۔
Load Next Story