خواتین کیخلاف جرائم سزا کا عملی نفاذ ناگزیر…

اس معاشرے میں موجود افراد بالخصوص نابالغ بچوں کا تحفظ اسی میں ہے کہ ملک میں اسلامی نظام قائم کیا جائے


زارا نواز شیخ March 24, 2024

اس معاشرے کا یہی تو چلن ہے کہ یہاں مجرم اکڑ کر کے چلتا ہے اور متاثرہ لڑکی یا خاتون کو کھڑکیوں پر شرم و حیا کے پردے گرا کر گھر کے ایک کونے میں گم صم بیٹھنا پڑتا ہے۔

ہمیشہ کی طرح، اس بار بھی جس مظلوم خاتون سے اجتماعی زیادتی کی گئی، اُس ہی کو لاپرواہی کا ذمہ دار قرار دے کر، بدکار ڈاکوؤں کے قبیح گناہ کا بوجھ بے گناہ خاتون کی زندہ لاش پر ڈال دیا گیا، گویا سڑکوں، محلوں اور بستیوں میں دندناتے درندوں کو لگام دینا اور اُنہیں کیفر کردار تک پہنچانا ریاستی ذمہ داری میں ثانوی ہے، اپنی عورتوں کو گھروں میں بند کرو اور دوسروں کی خواتین کو ہراساں کرو، اس سماج کی عورت دشمنی کے دو پہلو ہیں۔

ایک پر غیرت کا لبادہ اُڑھایا جاتا ہے اور دوسرے پر مردانہ پن۔ پورے ملک میں بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہورہا ہیں- کراچی میں لوٹ مار، قتل کی وارداتوں کے عذاب سے شہری پریشان اور خوف زدہ تو تھے ہی لیکن اب بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

چند روز قبل کراچی میں داتا نگر کے علاقے میں معصوم فریحہ پراسرار طور پر غائب ہوگئی۔ سوشل میڈیا پر اس کی تلاش کے لیے مہم کا آغاز ہوا، مساجد میں بھی اعلان ہوا۔ بچی کی گمشدگی کی رپورٹ بن قاسم تھانے میں کرائی گئی۔ پولیس نے بھی تلاش جاری رکھی لیکن تین روز گزرنے کے بعد فریحہ کی تشدد زدہ لاش قریبی نالے سے ملی۔اس افسوسناک واقعے کے اگلے ہی روز ایک اور درندہ ابراہیم حیدری کے علاقے میں ایک معصوم بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کررہا تھا لیکن بچی کی چیخ و پکار سے وہ ناکام رہا اور پکڑا گیا۔

فروری 2024 کے آخر میں ایک اور زیادتی کی کوشش گلشن حدید ایکسٹینشن میں اس وقت ایک لڑکی کی طرف سے ناکام بنائی گئی جب وہ گھر میں اکیلی تھی، چاچی اسکول گئی تھی چھوٹے بہن بھائی ایک اسکول دوسرا کالج گئے تھے۔ پڑوسی ڈاکٹر کا چوکیدار گھر کی چھت سے دیوار پھلانگ کر گھر میں گھس آیا، لڑکی کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی۔ جس کے ہاتھ میں سوئی نما آلہ بھی تھا۔

مزاحمت کرتے ہوئے لڑکی اور چوکیدار کے درمیان شدید ہاتھاپائی ہونے اور مسلسل شور مچانے کے بعد ملزم لڑکی کی تصویریں کھینچتا لڑکی اور اس کے پورے خاندان کو زبان کھولنے پر مار دینے، قتل کرنے کی دھمکیاں دیتا فرار ہوگیا۔چوکیدار اور ڈاکٹر پر ایف آئی آر درج کروائی گئی لیکن ایک جیل میں اور ایک مفرور۔

ایسے واقعات کی اطلاع شکایات مالک مکان ڈاکٹر کو متعدد بار کی گئی لیکن لاپرواہی ، بدنیتی عدم توجہ دوسروں کے گھروں اور معصوم لڑکیوں کی زندگیوں کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہیں،جو نہ جانے کتنی زندگیاں اجاڑ چکی ہیں۔ہوسکتا ہے ملزم چوکیدار کے ہاتھ میں موجود وہ آلہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ ایک بڑا گروہ، گینگ اس معاملے میں چوکیدار کے ساتھ جڑا ہو جو موقعے کی تلاش میں ہو، اسکول پرنسپل کی طرح بچیوں کو بلیک میل کر کے خالی گھر تک لانے کی ایک پہلی سیڑھی ہو۔اس طرح کے واقعات ماضی قریب میں بھی ہوئے گلشن حدید کے ایک کالج میں جس میں بھی ایک گروہ شامل تھا۔

پورے ملک میں بچیوں،بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ زینب، فرشتہ، فاطمہ فرڑو،فریحہ اور نجانے کتنے ہی ایسے واقعات حساس دل چیر چکے ہیں اور کتنے واقعات ایسے ہوں گے جو رپورٹ ہی نہیں ہوئے یا سوشل میڈیا کی بدولت ہم تک نہیں پہنچے۔ آخر ان واقعات کی وجہ کیا ہے اور انھیں کیسے روکا جائے؟

یاد رکھیے کوئی انسان اس قسم کی حرکات کیسے کرسکتا۔ ایسے جرائم میں ملوث افراد یا تو ذہنی مریض ہوتے ہیں یا پھر انسانیت کے درجے سے پرے درندہ صفت۔ اور اکثر ماضی میں ایسی کہیں مثالیں موجود ہیں جن میں بااثر طاقتور مجرموں نے اپنے جرم کو چھپانے اور مظلوم کو انصاف سے محروم رکھنے کے لیے ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی جیسے کہ فاطمہ فرڑو کیس۔ اس ہی طرح ایک بار پھر وہ تاریخ دھرائی جارہی ہے، مظلوم لڑکی کو انصاف سے دور رکھنے کے لیے بااثر ملزمان کی طرف سے اور مختلف حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

پولیس کو شفافیت سے روکا جا رہا ہے ۔جیو فینسنگ اور سی ڈی آر کی مدد سے اب کیس کو آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے کہ مجرموں کو بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔ ایسے درندوں سے معصوم بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ہمیں عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اول تو والدین اور اساتذہ بچوں میں یہ شعور پیدا کریں کہ کسی بھی انجان شخص کے ساتھ کسی بھی صورت کہیں نہ جائیں اور اگر کوئی زبردستی کوشش کرے تو شور مچادیں۔ بچوں کو یہ بھی سمجھایا جائے کہ جسم کے کون سے اعضا ایسے ہیں جہاں ماں باپ کے علاوہ کوئی بھی ہاتھ لگائے تو یہ غیر محفوظ ہوگا۔

یاد رکھیے محلے یا جان پہچان میں موجود کوئی بھی فرد آپ کے بچوں کیلیے محفوظ نہیں ہوسکتا۔ زیادتی کے واقعات میں اکثر ایسے ہی افراد ملوث پائے جاتے ہیں لہٰذا بچوں کو اسکول سے لانے لے جانے کی ذمے داری ماں باپ یا بڑے بہن بھائیوں کو ادا کرنی چاہیے۔ بچوں کو تنہا گلیوں میں کھیلنے نہ دیا جائے۔ ان کی نگرانی خود کریں۔ اسی طرح کم عمر بچوں کو بازار یا دکانوں پر بھی اکیلا نہ بھیجیں۔ یہ سب احتیاطی تدابیر تو ماں باپ کے کرنے کے ہیں لیکن اداروں اور حکومت کا کیا فرض ہے؟

پولیس کے محکمے کے متعلق جو بھی رائے قائم کی جائے لیکن ایسے واقعات کی روک تھام کیلیے وہ بھی کوشاں ہوتے ہیں۔ پولیس کے ادارے کو مزید فعال اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا ہوگا، اور ایسے مجرموں کی فوری گرفتاری کے لیے سائنسی بنیادوں پر ٹریننگ فراہم کرنا ہوگی۔حکومت اور قانون ساز اداروں کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ملکی قوانین میں شامل بچوں کے ساتھ جرم کی سزائیں ایسے جرائم کی روک تھام کیلیے کافی ہیں؟

محض اسمبلی میں تقاریر یا مذمت سے یہ معاملات حل نہ ہوں گے۔اب اسمبلی میں خواتین کو بولنا ہوگا۔بچوں سے زیادتی کے مجرموں کے لیے اسلامی سزاؤں کا نفاذ ناگزیر ہے۔ ایسے جرائم میں ملوث بھیڑیوں کو سرعام سنگسار کرکے نشان عبرت بنایا جائے تاکہ قانون اور سزا کا خوف مسلط ہوسکے۔ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس کی مثال تیتر بٹیر کی سی ہے۔ نہ تو ہم مکمل طور پر اسلامی ہیں اور نہ ہی یورپی ممالک کی طرح مادر پدر آزاد۔ ہمارے ہاں جنسی بے راہ روی کی جانب مائل کرنے کے کئی ذرائع موجود ہیں لیکن اسے سمجھا غلط ہی جاتا ہے۔

ہمیں اس ادھورے نظریات والے معاشرے کو اب بدلنا ہوگا۔ بلاشبہ اسلام ایک مکمل دین ہے۔ اس معاشرے میں موجود افراد بالخصوص نابالغ بچوں کا تحفظ اسی میں ہے کہ ملک میں اسلامی نظام قائم کیا جائے۔اسلامی معاشرے کے قیام سے جنسی بے راہ روی میں کمی ہوگی اور اسلامی سزاؤں کا تصور کرکے ہی درندہ صفت انسان بھی کسی پھول کو روندنے سے گریز کریں گے۔متاثرہ خاندان حکام بالا سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے بعد کسی اور کے ساتھ بھی ایسا کیوں ہوا؟ اور کیا آئندہ بھی کوئی معصوم کسی درندے کا نشانہ بنے گا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں