یہاں ہر کام تسلی بخش کیا جاتا ہے
حقائق کے تناظر میں1970 تک پاکستان میں تیس چالیس امبانی، ٹاٹا برلا سے بڑے جینیئس صنعتکار اور بینکار تھے
صاحبو! ہم سب ایک ایسے دیس کے باسی ہے جہاں تمام تر جدت اور جدید ٹیکنالوجی کی تمام تر رعنائیاں اور صلاحیتیں بھی بے بس و دست پا نظر آتی ہیں۔
اب آپ خود ہی دیکھیے ناکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے بھی یہ جدت '' موچی'' اور ''موچی دروازے'' کے کام اور نام کو تبدیل کرسکی ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے دیس میں '' موچی گیری'' کے کام کو کوئی روک نہ پایا ہے اور نہ ہی کسی معروف موچی کا کوئی آؤٹ لیٹ ملک میں سرعام دکھائی دیتا ہے، وہ تو بھلا ہو ہمارے یار جانی اور ملک کے معروف آرٹسٹ اور کارٹونسٹ '' فیکا'' کا جنہیں ہم سب پیار سے '' بِلُو بھائی'' کہتے ہیں کہ انہوں نے '' موچی'' کے خواص اور اوصافِ حمیدہ اس طرح سامنے رکھے کہ ہمیں پورا ملک ہی ''موچی'' کی دکان لگا۔
جہاں ایک طرف ادھڑی ہوئی سی جھونپڑ پٹی میں بے ترتیب سامان لیے موچی بیٹھا اپنی حالت کی پرواہ کیے بغیر بے تکان میلی کچیلی، ٹوٹی پھوٹی چپل جوتوں کو نکھارنے اور سدھارنے میں مگن ہے جبکہ جوتے کا مالک اس جوتے کی چمک دمک کے دھوکے میں پھر سے اکڑ اکڑ کر چلتا ہوا کرو فر کر رہا ہے، جبکہ موچی کے ہاتھ میں سوئی اور ڈور کی کشاکش جوتوں اور چپلوں کو درست کرنے کیلئے جاری ہے اور موچی کی پشت کے پیچھے خوشخطی کی پرواہ کیے بغیر یہ بورڈ آویزاں ہے کہ '' یہاں ہر کام تسلی بخش کیا جاتا ہے۔''
سوچا شاید کہ یارانِ نکتہ دان غالب کے شعر سے ملک کے مزاج اور چاپلوسی میں لتڑے ہوئے سماج سے آگہی پالیں، جس میں غالب کا یہ شعر بروقت لگتا ہے کہ!
بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبروکیا ہے
ہمارے ملک میں شاہوں نے ہمیشہ درباروں کی کاسہ لیسی اور فرمانبرداری ہی میں توانا زندگی اور سوچ کو اپاہج کر ڈالا ہے، درباری شاہوں نے اپنے مصاحبوں میں ایسے ایسے طبیب مستعار لے رکھے ہیں جو طب کے معزز پیشے پر اپنی چاپلوسی اور خود غرضی کی کالک ملتے وقت یہ بھی نہیں سوچتے کہ درباری شاہوں کی کاسہ لیسی میں وہ اپنی سوچ کی اپاہجگی کو بھی سب کے سامنے طشت از بام کر رہے ہیں۔
ہم چاپلوس نسل کے نزدیک سماج کی وہ '' بے کار اور ناکارہ سوچ'' ہیں جنہوں نے سیاست، ادب، ثقافت اور کھیل کے تہذیب یافتہ معیارات کی بے کار اور بے سود ترویج کی اور سماج میں جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی اور منافقت کے راستے میں روڑے اٹکائے، نہ کچھ کیا اور نہ منافقت اور ریاکاری کو پنپنے دیا بلکہ تہذیب و سچ کا دامن تھام کر ایسی نسل کی خواہش کی کہ جو تہذیب و ادب کی قدروں کو آگے بڑھائے، سو پچھلی نسل آج بھی تہذیب و شائستگی کا ڈھول پیٹ کر '' یہاں ہر کام تسلی بخش کیا جاتا ہے'' کو بدنام و رسوا کر رہی ہے، جبکہ درباریوں کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کی ضرورت جھوٹ، دھوکہ اور حقائق سے فرار کا سکہ ہی آج کی ضرورت تاکہ منافقت کے بازار میں'' یہاں ہرکام تسلی بخش کیا جاتا ہے'' کی لاج رکھی جائے۔
50 اور 60 کی دہائی میں یہ دیس صنعت و حرفت کی ترقی کے ساتھ تہذیب و ادب کے وہ مینارے طے کر رہا تھا، جس پر ہمسایہ و دیگر انگشت بدندان ہوا کرتے تھے، پھر روٹی کپڑا اور مکان کے دلفریب نعرے کی آڑ میں عوام کا جمہوری و سیاسی نجات دہندہ بنایا گیا جیسا کہ ''ریاست مدینہ'' قائم کرنے والے جھوٹ و فریب کو ترقی کے اس دور میں ''ہیرو'' بنایا جا رہا ہے۔ اس دور کی نئی نسل کو 22 خاندان کی لوٹ مار کا چورن بالکل ایسے ہی بیچا، جیسا کہ آج کی نسل کو چور چور کا چورن بیچا جا رہا ہے۔
حقائق کے تناظر میں1970 تک پاکستان میں تیس چالیس امبانی، ٹاٹا برلا سے بڑے جینیئس صنعتکار اور بینکار تھے، جنہوں نے ملک کی معیشت کو سنبھالا ہوا تھا۔ ملک کوریا جاپان سے بہت آگے تھا، مڈل ایسٹ کے ممالک کسی گنتی میں نہیں تھے۔ ان صنعت کاروں بینکاروں کو بائیس خاندان کا نام دے کر ٹارگٹ کیا گیا، جن میں سہگل گروپ نے کپڑے کی صنعت کو عروج دیا، داؤد گروپ ہیوی وہیکل اور زرعی مشنری کے بادشاہ تھے۔
داؤد گروپ کے پاس ہرکولیس کے ساتھ ٹریکٹرکی پروڈکٹ بھی تھی جبکہ ہارون خاندان چھوٹی مصنوعات کے فروغ میں جتا ہوا تھا۔ اصفہانی خاندان سلہٹ کے چائے کے باغات کے مالک تھے جبکہ اسی خاندان نے ملک کی پہلی ایئرلائن قائم کی جو آج کی جدید ایئر لائنوں سے زیادہ جدید و بہتر تھی، حبیب گروپ بینکنگ کے بادشاہ گردانے جاتے تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں ان کے حبیب بینک پلازہ کی عمارت ایشیاء کی سب سے بلند ترین عمارت تھی اور ایشیاء میں پہلا IBM بینکنگ سسٹم بھی اس بلڈنگ کی نویں منزل پر نصب ہوا۔
فینسی کپڑے کی صنعت نشاط گروپ کے پاس اور نشاط گروپ مختلف مصنوعات کے بانی تھے، لاہور میں بیکو انڈسٹری یعنی بٹالہ انجینئرنگ سائیکل اور موٹرسائیکل اسمبل کیا کرتے تھے۔ ان کی بنائی گئی بیکو، ہرکولیس، سہراب، رستم سائیکل پورے ملک میں چلتی تھی۔ میاں شریف کی اتفاق فاؤنڈری ٹیوب ویل اور تھریشر کے بانی تھے۔
1966 میں بیکو کے میاں لطیف اور اتفاق کے میاں شریف نے مغل پورہ ورکشاپ میں ٹینک سازی کی اجازت لی۔ لارنس پور وولن ملز کی سوٹنگ دنیا میں نمبر ون تھی، جو کہ پوری صنعتی ریاست تھی، جن کے مالک ملک کی تقسیم کے بعد مشینری بنگلہ دیش لے گئے۔
زلفی بھٹو نے ان 22 خاندانوں کے خلاف تحریک چلائی کہ ملک کی ساری دولت ان کے پاس ہے کا واویلا کیا اور عوام میں ہیرو ورشپ کے تحت بیان دیا کہ ''میں عوام کا سارا پیسہ ان کے پیٹ سے نکالوں گا'' اس نعرے کے پیچھے عوام ان خاندانوں کے خون کے پیاسے ہوگئے اور عوام نے '' عقیدہ پرست سیاست'' میں ترقی کے خواہاں ان خاندانوں کے خلاف خونی تحریک چلائی۔ اسی دور میں فیوڈلز یعنی بڑے زمینداروں نے اقتدار میں آکر سب صنعت کاروں کی املاک بلا معاوضہ قومی ملکیت میں لے لیں، جس کو نیشنلائزیشن کا نام دیا گیا اور عوام کو سنہری خواب دکھلائے۔
لاہور کی بیکو، پیکو بن کر تباہ ہوئی، ترقی کے خواہاں سب خاندان تباہ و برباد ہوئے، بیکو کے میاں لطیف جرمنی جا کر کسمپرسی میں چل بسے، اتفاق کے میاں شریف ملک چھوڑ کر گلف اسٹیل ملز کے نام سے مڈل ایسٹ میں فیکٹری لگا لی، اصفہانی قلاش ہوگئے، ان کے سلہٹ کے چائے کے باغات بنگلہ دیش لے گیا۔ ایئرلائن پی آئی اے بن کر تباہ ہوئی، جبکہ سہگل گروپ نے کوہ نور جیسی بزنس ایمپائرز پلاٹ بنا کر نیلام کردی۔ کوہ نور مل جو پوٹھوہار کی ماں کہلاتی تھی تباہ و برباد ہوگئی۔
آمر جنرل ایوب خان کے دور کی عوام دشمن پالیسیوں کے سبب میمن سنگھ اور نرائن گنج بہت بڑے انڈسٹریل زون بنگلہ دیش کے کام آئے، کراچی کا سائٹ انڈسٹریل اسٹیٹ جہاں گندھارا کے ہینو ٹرک تیار ہوتے تھے، شاہنواز لمیٹڈ، شیور لیٹ اور مرسیڈیز اسمبلی کرتے تھے، سب کچھ قومیا کر ( نیشنلائز) کر کے تباہ کر دیا گیا۔ ان تباہ شدہ خاندانوں میں سے اصفہانی کی بیٹی حسین حقانی کی اہلیہ امریکا چلی گئی۔
ملک میں احتساب اور '' اسلامی نظام'' کے نام پر آئین شکن جنرل ضیا الحق نے پھر سے اسمبلیوں میں ''اشرافیہ کے چاپلوس'' فیوڈلز، وڈیرے چوہدری پہنچائے جن کو درباری ایلیکٹیبلز بنا کر طالبان مائنڈ سیٹ عمران خان کو اقتدار دلوایا گیا، جس نے رہی سہی '' سی پیک'' کی ترقی روک کر صنعت و حرفت کا پہیہ پھر جام کیا اور ملک کی سرمایہ کاری کو تباہ کر کے ملک اور لوگوں کو دوبارہ سے اشرافی درباری، وڈیروں اور ملک کو آئی ایم ایف کا غلام بنا دیا اور عوام کو جھوٹ و فریب کا نشہ پلا کر عوام کو شاہی درباری اور عقیدے کی سیاست کا غلام بنا دیا، جبکہ اس کے حواری اب تک یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ '' یہاں ہر کام تسلی بخش کیا جاتا ہے۔''
اب آپ خود ہی دیکھیے ناکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے بھی یہ جدت '' موچی'' اور ''موچی دروازے'' کے کام اور نام کو تبدیل کرسکی ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے دیس میں '' موچی گیری'' کے کام کو کوئی روک نہ پایا ہے اور نہ ہی کسی معروف موچی کا کوئی آؤٹ لیٹ ملک میں سرعام دکھائی دیتا ہے، وہ تو بھلا ہو ہمارے یار جانی اور ملک کے معروف آرٹسٹ اور کارٹونسٹ '' فیکا'' کا جنہیں ہم سب پیار سے '' بِلُو بھائی'' کہتے ہیں کہ انہوں نے '' موچی'' کے خواص اور اوصافِ حمیدہ اس طرح سامنے رکھے کہ ہمیں پورا ملک ہی ''موچی'' کی دکان لگا۔
جہاں ایک طرف ادھڑی ہوئی سی جھونپڑ پٹی میں بے ترتیب سامان لیے موچی بیٹھا اپنی حالت کی پرواہ کیے بغیر بے تکان میلی کچیلی، ٹوٹی پھوٹی چپل جوتوں کو نکھارنے اور سدھارنے میں مگن ہے جبکہ جوتے کا مالک اس جوتے کی چمک دمک کے دھوکے میں پھر سے اکڑ اکڑ کر چلتا ہوا کرو فر کر رہا ہے، جبکہ موچی کے ہاتھ میں سوئی اور ڈور کی کشاکش جوتوں اور چپلوں کو درست کرنے کیلئے جاری ہے اور موچی کی پشت کے پیچھے خوشخطی کی پرواہ کیے بغیر یہ بورڈ آویزاں ہے کہ '' یہاں ہر کام تسلی بخش کیا جاتا ہے۔''
سوچا شاید کہ یارانِ نکتہ دان غالب کے شعر سے ملک کے مزاج اور چاپلوسی میں لتڑے ہوئے سماج سے آگہی پالیں، جس میں غالب کا یہ شعر بروقت لگتا ہے کہ!
بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبروکیا ہے
ہمارے ملک میں شاہوں نے ہمیشہ درباروں کی کاسہ لیسی اور فرمانبرداری ہی میں توانا زندگی اور سوچ کو اپاہج کر ڈالا ہے، درباری شاہوں نے اپنے مصاحبوں میں ایسے ایسے طبیب مستعار لے رکھے ہیں جو طب کے معزز پیشے پر اپنی چاپلوسی اور خود غرضی کی کالک ملتے وقت یہ بھی نہیں سوچتے کہ درباری شاہوں کی کاسہ لیسی میں وہ اپنی سوچ کی اپاہجگی کو بھی سب کے سامنے طشت از بام کر رہے ہیں۔
ہم چاپلوس نسل کے نزدیک سماج کی وہ '' بے کار اور ناکارہ سوچ'' ہیں جنہوں نے سیاست، ادب، ثقافت اور کھیل کے تہذیب یافتہ معیارات کی بے کار اور بے سود ترویج کی اور سماج میں جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی اور منافقت کے راستے میں روڑے اٹکائے، نہ کچھ کیا اور نہ منافقت اور ریاکاری کو پنپنے دیا بلکہ تہذیب و سچ کا دامن تھام کر ایسی نسل کی خواہش کی کہ جو تہذیب و ادب کی قدروں کو آگے بڑھائے، سو پچھلی نسل آج بھی تہذیب و شائستگی کا ڈھول پیٹ کر '' یہاں ہر کام تسلی بخش کیا جاتا ہے'' کو بدنام و رسوا کر رہی ہے، جبکہ درباریوں کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کی ضرورت جھوٹ، دھوکہ اور حقائق سے فرار کا سکہ ہی آج کی ضرورت تاکہ منافقت کے بازار میں'' یہاں ہرکام تسلی بخش کیا جاتا ہے'' کی لاج رکھی جائے۔
50 اور 60 کی دہائی میں یہ دیس صنعت و حرفت کی ترقی کے ساتھ تہذیب و ادب کے وہ مینارے طے کر رہا تھا، جس پر ہمسایہ و دیگر انگشت بدندان ہوا کرتے تھے، پھر روٹی کپڑا اور مکان کے دلفریب نعرے کی آڑ میں عوام کا جمہوری و سیاسی نجات دہندہ بنایا گیا جیسا کہ ''ریاست مدینہ'' قائم کرنے والے جھوٹ و فریب کو ترقی کے اس دور میں ''ہیرو'' بنایا جا رہا ہے۔ اس دور کی نئی نسل کو 22 خاندان کی لوٹ مار کا چورن بالکل ایسے ہی بیچا، جیسا کہ آج کی نسل کو چور چور کا چورن بیچا جا رہا ہے۔
حقائق کے تناظر میں1970 تک پاکستان میں تیس چالیس امبانی، ٹاٹا برلا سے بڑے جینیئس صنعتکار اور بینکار تھے، جنہوں نے ملک کی معیشت کو سنبھالا ہوا تھا۔ ملک کوریا جاپان سے بہت آگے تھا، مڈل ایسٹ کے ممالک کسی گنتی میں نہیں تھے۔ ان صنعت کاروں بینکاروں کو بائیس خاندان کا نام دے کر ٹارگٹ کیا گیا، جن میں سہگل گروپ نے کپڑے کی صنعت کو عروج دیا، داؤد گروپ ہیوی وہیکل اور زرعی مشنری کے بادشاہ تھے۔
داؤد گروپ کے پاس ہرکولیس کے ساتھ ٹریکٹرکی پروڈکٹ بھی تھی جبکہ ہارون خاندان چھوٹی مصنوعات کے فروغ میں جتا ہوا تھا۔ اصفہانی خاندان سلہٹ کے چائے کے باغات کے مالک تھے جبکہ اسی خاندان نے ملک کی پہلی ایئرلائن قائم کی جو آج کی جدید ایئر لائنوں سے زیادہ جدید و بہتر تھی، حبیب گروپ بینکنگ کے بادشاہ گردانے جاتے تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں ان کے حبیب بینک پلازہ کی عمارت ایشیاء کی سب سے بلند ترین عمارت تھی اور ایشیاء میں پہلا IBM بینکنگ سسٹم بھی اس بلڈنگ کی نویں منزل پر نصب ہوا۔
فینسی کپڑے کی صنعت نشاط گروپ کے پاس اور نشاط گروپ مختلف مصنوعات کے بانی تھے، لاہور میں بیکو انڈسٹری یعنی بٹالہ انجینئرنگ سائیکل اور موٹرسائیکل اسمبل کیا کرتے تھے۔ ان کی بنائی گئی بیکو، ہرکولیس، سہراب، رستم سائیکل پورے ملک میں چلتی تھی۔ میاں شریف کی اتفاق فاؤنڈری ٹیوب ویل اور تھریشر کے بانی تھے۔
1966 میں بیکو کے میاں لطیف اور اتفاق کے میاں شریف نے مغل پورہ ورکشاپ میں ٹینک سازی کی اجازت لی۔ لارنس پور وولن ملز کی سوٹنگ دنیا میں نمبر ون تھی، جو کہ پوری صنعتی ریاست تھی، جن کے مالک ملک کی تقسیم کے بعد مشینری بنگلہ دیش لے گئے۔
زلفی بھٹو نے ان 22 خاندانوں کے خلاف تحریک چلائی کہ ملک کی ساری دولت ان کے پاس ہے کا واویلا کیا اور عوام میں ہیرو ورشپ کے تحت بیان دیا کہ ''میں عوام کا سارا پیسہ ان کے پیٹ سے نکالوں گا'' اس نعرے کے پیچھے عوام ان خاندانوں کے خون کے پیاسے ہوگئے اور عوام نے '' عقیدہ پرست سیاست'' میں ترقی کے خواہاں ان خاندانوں کے خلاف خونی تحریک چلائی۔ اسی دور میں فیوڈلز یعنی بڑے زمینداروں نے اقتدار میں آکر سب صنعت کاروں کی املاک بلا معاوضہ قومی ملکیت میں لے لیں، جس کو نیشنلائزیشن کا نام دیا گیا اور عوام کو سنہری خواب دکھلائے۔
لاہور کی بیکو، پیکو بن کر تباہ ہوئی، ترقی کے خواہاں سب خاندان تباہ و برباد ہوئے، بیکو کے میاں لطیف جرمنی جا کر کسمپرسی میں چل بسے، اتفاق کے میاں شریف ملک چھوڑ کر گلف اسٹیل ملز کے نام سے مڈل ایسٹ میں فیکٹری لگا لی، اصفہانی قلاش ہوگئے، ان کے سلہٹ کے چائے کے باغات بنگلہ دیش لے گیا۔ ایئرلائن پی آئی اے بن کر تباہ ہوئی، جبکہ سہگل گروپ نے کوہ نور جیسی بزنس ایمپائرز پلاٹ بنا کر نیلام کردی۔ کوہ نور مل جو پوٹھوہار کی ماں کہلاتی تھی تباہ و برباد ہوگئی۔
آمر جنرل ایوب خان کے دور کی عوام دشمن پالیسیوں کے سبب میمن سنگھ اور نرائن گنج بہت بڑے انڈسٹریل زون بنگلہ دیش کے کام آئے، کراچی کا سائٹ انڈسٹریل اسٹیٹ جہاں گندھارا کے ہینو ٹرک تیار ہوتے تھے، شاہنواز لمیٹڈ، شیور لیٹ اور مرسیڈیز اسمبلی کرتے تھے، سب کچھ قومیا کر ( نیشنلائز) کر کے تباہ کر دیا گیا۔ ان تباہ شدہ خاندانوں میں سے اصفہانی کی بیٹی حسین حقانی کی اہلیہ امریکا چلی گئی۔
ملک میں احتساب اور '' اسلامی نظام'' کے نام پر آئین شکن جنرل ضیا الحق نے پھر سے اسمبلیوں میں ''اشرافیہ کے چاپلوس'' فیوڈلز، وڈیرے چوہدری پہنچائے جن کو درباری ایلیکٹیبلز بنا کر طالبان مائنڈ سیٹ عمران خان کو اقتدار دلوایا گیا، جس نے رہی سہی '' سی پیک'' کی ترقی روک کر صنعت و حرفت کا پہیہ پھر جام کیا اور ملک کی سرمایہ کاری کو تباہ کر کے ملک اور لوگوں کو دوبارہ سے اشرافی درباری، وڈیروں اور ملک کو آئی ایم ایف کا غلام بنا دیا اور عوام کو جھوٹ و فریب کا نشہ پلا کر عوام کو شاہی درباری اور عقیدے کی سیاست کا غلام بنا دیا، جبکہ اس کے حواری اب تک یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ '' یہاں ہر کام تسلی بخش کیا جاتا ہے۔''