پانی کا عالمی دن اور پاکستان

ہم من حیث القوم پانی کے بے ہنگم ضیاع کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے سے قاصر نظر آتے ہیں



1992 میں برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو میں پائیدار ترقی کے موضوع پر ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی کانفرنس ( جس میں پاکستان کی نمائندگی، اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے کی تھی) میں '' پانی کا عالمی دن '' منانے کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد 1993سے ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کے لیے ایک موضوع کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

رواں سال پانی کے عالمی دن کا موضوع '' پانی امن کے لیے'' رکھا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق دنیا میں ہونے والی ایک چوتھائی قدرتی آفات کا تعلق پانی سے ہے، اس وقت دنیا میں 3.6ارب لوگوں کو سال میں کم از کم ایک مہینہ ضرورت کے مطابق پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور 2025 تک یہ تعداد5 ارب پہنچ جانے کی توقع ہے، دنیا بھر میں 2 سے 3 ارب لوگوں خصوصا شہروں میں لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا ہے جب کہ آنے والے وقتوں میں شہری آبادیاں اس قلت میں مزید اضافے کا سامنا کریں گی۔

ورلڈ اکنامک فورم نے 2012کے بعد سے دنیا کو لاحق پانچ بڑے خطرات کی فہرست میں پانی کے بحران کو بھی شامل کیا۔ عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں ہر منٹ پر 23 ایکڑ رقبہ پانی کی قلت کے باعث بنجر ہوتا جارہا ہے۔ ادارے کی تحقیق کے مطابق 2045 تک 135ملین عالمی آبادی کو پانی کی قلت کی وجہ سے اپنی آبائی رہائش گا ہیں چھوڑنے پر مجبور ہوگی۔

بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (IPCC) کے مطابق پانی اور موسمیاتی تبدیلی کا آپس میں گہرا تعلق ہے، یہ تبدیلیاں کرئہ ارض پر موجود صاف پانی کے ذخائر کو پیچیدہ طریقوں سے متاثر کر رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں پانی کی کمی اور پانی سے متعلقہ خطرات جن میں سیلاب اور خشک سالی شامل ہیں، میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں کیونکہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت بارشوں کے پیٹرن او ر پورے آبی چکر کو متاثر کررہا ہے، آئی پی سی سی کے مطابق پانی کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت، بار بار آنے والے سیلاب اور خشک سالی پانی کی آلودگی کی متعدد نئی شکلوں کو جنم دے رہی ہے۔

اس وقت دنیا کے 153ممالک تقریبا 900 دریائوں، جھیلوں اور آبی نظاموں کے مشترکہ مالک ہیں اور ان میں سے نصف سے زائد ملکوں نے پانی کے حوالے سے ایک دوسرے سے معاہدے بھی کر رکھے ہیں جن میں پاکستان اور ہندوستان کے مابین کیا جانے والا '' سندھ طاس معاہدہ'' بھی ہے، لیکن ان معاہدوں کے باوجود جب پانی تک رسائی اور اس کی غیر منصفانہ تقسیم کی جاتی ہے تو یہ امر تنازعات کو بھڑکانے کے ساتھ اس میں شدت بھی پیدا کر دیتا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں پانی کی تقسیم کے حوالے سے تنازعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے بلکہ ان ملکوں کے اندر بھی تنازعات میں شدت آتی جا رہی ہے جس کی مثال پاکستان اور ہندوستان ہیں ، دونوں ملکوں میں بین السرحدی آبی کشیدگی بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف ان دونوں ممالک میں صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔

آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان پانی کی شدید کمی کا شکار ملکوں میں نمبر تین پر اور پانی کو ضائع کرنے والے ملکوں کی درجہ بندی میں نمبر چار پر ہے۔ یو این ڈی پی اور پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورسز کے مطابق پاکستان کو 2025 تک پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کے آثار ملک کے مختلف حصوں میں نظر آنا شروع ہو چکے ہیں، خاص طور پر ملک میں تیزی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے تناظر میں۔

آبی ماہرین کہتے ہیں کہ اس حوالے اسے اگر ہنگامی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے اور صورتحال اسی طرح جاری رہتی ہے تو 2040 تک پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ پانی کی قلت کا شکار ملک ہوگا۔ پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30 دنوں کی تھی لیکن اب اس میں بتدریج کمی آتی جا رہی ہے تو دوسری طرف ہندوستان 190دنوں کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے اور2030 تک وہ اس صلاحیت کو 250دنوں تک بڑھانے کی تگ و دو کر رہا ہے۔

دنیا بھر میں ممالک اپنے دستیاب پانی کا 40 فیصد ذخیرہ کرتے ہیں جب کہ ہم اپنے دستیاب پانی کا صرف 10فیصد ہی محفوظ کر پاتے ہیں ۔ پانی کو محفوظ کرنے کا کوئی موثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کا سالانہ 29 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر برد ہو جاتا ہے جب کہ دنیا بھر میں اوسط شرح 10ملین ایکڑ فٹ ہے۔

آبی ماہرین کے اندازوں کے مطابق ضائع ہونے والے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے منگلا ڈیم جتنے 3بڑے ڈیم درکار ہیں لیکن مملکت خداداد میں نہ صرف ڈیموں کی تعمیر بلکہ پانی کا مسئلہ ہی سیاست کی نذر ہوچکا ہے۔

یہ بات تو اپنی جگہ حقیقت پر مبنی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں دنیا بھر میں صاف پانی کے ذخائر کو شدید متاثر کر رہی ہیں لیکن پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورسز کے مطابق مملکت خداداد میں پانی کا بحران 20 ویں صدی کے دوسرے نصف میں شروع ہو چکا تھا جو کہ 1999واٹر اسٹریس کی حد پر پہنچ گیا تھا اور 2005 میں اس بحران نے پانی کی قلت کی حد بھی عبور کر لی تھی مگر ریاستی پالیسی سازوں اور حکمران اشرافیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور آج تک اس مسئلے کی نزاکت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں اور پانی کی قلت کا مسئلہ انتخابات میں حصہ لینے والی کسی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے منشور کا حصہ نہیں بنا۔ کیا واقعی پاکستان میں پانی ختم ہوتا جا رہا ہے؟ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ اس بات کی نفی کرتے ہوئے کہتی ہے کہ پاکستان میں پانی کی بڑی مقدار موجود ہے اور دنیا میں صرف 35 ممالک ایسے ہیں کہ جن کے پاس پاکستان سے زیادہ پانی کے وسائل موجود ہیں لیکن ان وسائل کی تنظیم کاری پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے اور آبادی میں تیزی سے بڑھتا ہو اضافہ ان پر مزید دبائو بڑھا رہا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پاکستان کے پاس ڈھائی سو ارب کیوبک میٹر پانی کی مقدار موجود ہے جس میں سے 90 فیصد زراعت،4 فیصد صنعت اور 6 فیصد پانی گھریلو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں اشرافیہ کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1972 سے 2020 تک ملک میں سالانہ 2.7فیصد کی رفتار سے آبادی میں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں پانی کا استعمال بھی سالانہ 0.7فیصد بڑھا لیکن 1972میں ہمارے پانی کے وسائل 246.8بلین کیوبک میٹر تھے جو 2020میں بھی یہی تھے۔

جہاں موسمیاتی تبدیلی ہمارے پانی کے ذخائر کو شدید کو متاثر کررہی ہے وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم من حیث القوم پانی کے بے ہنگم ضیاع کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں