انتخابات کی ساکھ کا بحران
سیاسی اور جمہوری نظام کی خود مختاری کی جدوجہد آسان نہیں ہے او ریہ کسی ایک محاذ پر جدوجہد نہیں
پاکستان کا مجموعی بحران نظام کی شفافیت سے جڑا ہوا ہے۔ کیونکہ جب نظاموں کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہوں اور لوگوں میں یہ نظام عدم شفافیت کی بنیاد پر موجود ہو تو ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف کھڑے ہوتے ہیں۔
حکمرانی کے نظام میں موجود خامیوں یا ناکامیوں کو تنہائی میںنہیں دیکھا جاسکتا ۔ دنیا ہم پر نظر رکھتی ہے او راسی نظر یا نگرانی کی بنیاد پر وہ ہمارے نظام کی اچھی یا بری درجہ بندی بھی کرتی ہے اور کچھ بنیادی نوعیت کے تحفظات یا سوالات کو بھی اٹھاتی ہے۔
ہمارے سیاسی و جمہوری نظام کی ایک بنیادی کنجی منصفانہ آئینی و انتظامی و قانونی سٹسم ہے۔ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر الیکشن کمیشن، وفاقی یا صوبائی نگران حکومتیں ، وفاقی ، صوبائی ، ضلعی انتظامیہ ، عدلیہ سمیت تمام نظام اپنی اپنی سطح پر خود مختاری اور آزادانہ حیثیت کے بحران سے بھی گزررہے ہیں ۔ جب آئین و قوانیں ہی مبہم ہوں توادارے درست کام کیسے کرسکتے ہیں۔ پھر شفافیت کا نظام کی بحث پیچھے رہ جاتی ہے ۔
انتخابات 2024مکمل ہوگئے ہیں ۔ ان انتخابات کے نتیجے میں جس جماعت نے جیتنا تھا یا جس نے ہارنا تھا چاہے وہ شفاف انداز میں جیتے یا ہارے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل مکمل ہوگئی ہے ۔ سیاسی سطح پر کہا جاسکتا ہے کہ اب ایک منتخب حکومت ہے اور معاملات کو سیاسی طور پر آگے بڑھنا چاہیے ۔لیکن پی ٹی آئی اور اس کے حامی تواتر کے ساتھ 8فروری 2024کے انتخابات پر سوالات اٹھارہے ہیں۔
یہ سوالات محض پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اٹھائے گئے ہیں ۔ پری پول رگنگ، لیول پلینگ فیلڈہو یا پولنگ کا عمل یا نتائج او راس کے بعد حکومت سازی کی تشکیل تک پی ٹی آئی کی قیادت کے پاس سوالات ہی سوالات ہیں ۔ ان کی باتیں سن کر تو یہی لگتا ہے جیسے پاکستانیوں نے کبھی ایک مکمل صاف ، شفاف، منصفانہ اورہر سطح کی مداخلتوں سے پاک انتخابات دیکھے ہی نہیں ہیں اور نہ ہی مستقبل میں دیکھ سکیں گے یعنی ایسا ہونا ہمارے لیے ایک خواب ہی رہے گا ۔
پچھلے دنوں امریکا کے جنوبی ووسطی ایشائی امورکے معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو کے امریکی ایوان نمایندگان کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے سامنے پیش ہوکر پاکستان کے عام انتخابات کے بارے میں جمع کرائے گئے بیان میں سائفر پر عمران خان اور پی ٹی آئی کے بیانئے کو مسترد کردیا البتہ انتخابی دھاندلی یا بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی ہے۔ ڈونلڈ لوکو اس کمیٹی کے سامنے بطور گواہ طلب کیا گیا تھا اور وہ پاکستان میں الیکشن کے عمل کے کی جانچ کرنے والوں میں شامل تھے۔
ڈونلڈ لو نے پاکستان میں فروری 2024کے الیکشن میں پانچ اہم امور کی نشاندہی کی ہے ۔اول انھوں نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کے انتخابات بڑی حد تک مسابقتی اور منظم تھے البتہ انتخابی نتائج مرتب ہونے کے عمل میں بعض سنگین بے ضابطگیاں دیکھنے کو ملیں ۔دوم، انتخابات کی نگرانی کرنے والے مبصر اداروں کے نمایندوں کو عملی بنیادوں پر آدھے سے زیادہ حلقوں میں ووٹوں کی گنتی کے عمل کی نگرانی سے روک دیا گیا ۔اسی طرح عدالتی حکم کے باوجود انتخابات والے دن یا اگلے کئی دنوں تک انٹرنیٹ سروس بند رہی جس کا مقصد لوگوں کے باہمی رابطوں کو روکنا تھا۔
سوئم سیاست دانوں سمیت سیاسی جلسوں یا اجتماعات اور پولیس پر دہشت گردوں نے حملے کیے او رکئی صحافیوں کو ہراساں بھی کیا گیا جن میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ چہارم کئی سیاسی راہنما خود کو اپنی مخصوص سیاسی جماعت کے ساتھ رجسٹرنہیں کرا سکے ۔ پنجم پاکستان میں ہونے والے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات پر تشویش اور بے ضابطگیوں پر تحقیقات کا مطالبہ یا زور دیا گیا ہے ۔
اس سے قبل پاکستان میں انتخابات کی نگرانی کرنے والے دو اہم ادارے فافن یعنی فری اینڈ فیر الیکشن نیٹ ورک اور پلڈاٹ نے بھی اپنی اپنی رپورٹس میں انتخابات اور انتخابی نتائج پر سوالات اٹھائے ہیں ۔بالخصوص پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہ ملنا ، پی ٹی آئی امیدواروں کی آزاد حیثیت میں الیکشن میں شرکت ، سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کرنا ، انتخابی نتائج میں تاخیر جیسے معاملات پر سوالات اٹھائے ہیں ۔ نگران وفاقی یا صوبائی حکومتوں، الیکشن کمیشن ، عدلیہ اور میڈیا پر سوالات اٹھائے ہیں۔
مسئلہ محض انتخابات کی ساکھ پر سوالات اٹھانا ہے بلکہ ۔ مسلہ ملک کا مجموعی نظام ہے جس میں الیکشن کا انعقاد ایک جز ہے۔ ہم اجتماعی طور پر عوام کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں کہ وہ اپنی مرضی اور منشا کے فیصلہ کرسکیں ۔ ہمارا مجموعی کھیل طاقت ور افراد کی مرضی او رمنشا سے ہی جڑا ہوا ہے، اسی لیے انتخابات کے نتیجے میں بھی سلیکشن ہی ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم ہمیشہ ہی شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات پر زور دیتے ہیں مگر عملا انتخابات کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے تیار نہیں۔
سوال یہ ہے کہ جس طرز کے ہم انتخابات کرواتے ہیں یا ان پر بڑا سیاسی سمجھوتہ کرتے ہیں توکیا ہم واقعی سیاسی اور جمہوری نظام کو مستحکم کرسکیں گے یا یہ موجودہ عمل ایک کنٹرولڈ سیاسی نظام میں ہی رہے گا۔سوال یہ ہے کہ کون انتخابات میں دھاندلی ، بے ضابطگیوں اور الیکشن مینجمنٹ سسٹم کی ناکامی کی تحقیقات کرے گا اور کون کس کو جوابدہ بنائے گا ۔ جب سب ہی فریق انتخابات کو متنازعہ بنانے کے کھیل میں کم یا زیادہ شریک رہے ہوں تو پھر اس پر شفاف تحقیقات کا مطالبہ بھی اپنی اہمیت کھودیتا ہے۔
انتخابات ہوگئے، حکومت بن گئی اور ملکی یا غیر ملکی تمام سطحوں پر نئی حکومت کو تسلیم بھی کرلیا گیا او ران کے ساتھ امریکا سمیت سب ہی کام کرنے کا عزم بھی ظاہر کررہے ہیں تو ایسے میں انتخابات کے نظام کو چیلنج کرنے والوں کی کوئی بڑی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔ امریکی خارجہ کمیٹی میں پاکستان میں جمہوریت، انسانی حقوق کی عملداری او رانتخابات کی شفاف تحقیقات کی قرارداد کا 50-0سے منظور ی بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے ۔ اس سے پاکستان کے سسٹم کی کمزوریاں عیاں ہوتی ہیں۔
یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے ریاستی، آئینی اور قانونی سمیت سیاسی نظام میں '' جمہوریت کی شفافیت ہو یا انتخابات کی شفافیت '' کسی بھی سطح پر جوابدہی کا عمل انتہائی کمزور ہے ۔ سیاسی اور ریاستی قوتیں اسی نظام کو لے کر چلنا چاہتی ہیں۔
دراصل ہم ایک کنٹرولڈ نظام میں ہی رہنا چاہتے ہیں اور اسی کو بنیاد بنا کر ایک کمزور سا سیاسی او رجمہوری نظام کو دنیا بھر کی سیاست میں بطور ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی کوئی بھی جماعت سسٹم کو تبدیل نہیں کرنا چاہتی۔ سیاسی قیادت آئینی اور قانونی پیچیدگیوں اور سسٹم کے تہہ در تہہ میکنزم کی سمجھ سے عاری ہے۔
سیاسی اور جمہوری نظام کی خود مختاری کی جدوجہد آسان نہیں ہے او ریہ کسی ایک محاذ پر جدوجہد نہیں بلکہ کئی محاذوں پر جڑی ہوئی ہے۔ ہمیں اپنی اپنی سطح پر ایک مضبوط جمہوریت، سیاست ،شفاف انتخابات اور سب کے لیے سازگار ماحول یا لوگوں کے بنیادی سیاسی حقوق کو تسلیم کرنا اور ہر طرز کی سیاسی اور غیر سیاسی مداخلتوں کے خاتمہ پر زور دینا ہوگا جو جمہوری نظام کو کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
یہ جدوجہد مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں اور اس جدوجہد میں ہمیں اپنے داخلی تضادات سے باہر نکل کر اپنی آواز کو اٹھانا ہوگا تاکہ واقعی ہم شفافیت کے نظام کی طرف پیش قدمی کرسکیں ۔
حکمرانی کے نظام میں موجود خامیوں یا ناکامیوں کو تنہائی میںنہیں دیکھا جاسکتا ۔ دنیا ہم پر نظر رکھتی ہے او راسی نظر یا نگرانی کی بنیاد پر وہ ہمارے نظام کی اچھی یا بری درجہ بندی بھی کرتی ہے اور کچھ بنیادی نوعیت کے تحفظات یا سوالات کو بھی اٹھاتی ہے۔
ہمارے سیاسی و جمہوری نظام کی ایک بنیادی کنجی منصفانہ آئینی و انتظامی و قانونی سٹسم ہے۔ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر الیکشن کمیشن، وفاقی یا صوبائی نگران حکومتیں ، وفاقی ، صوبائی ، ضلعی انتظامیہ ، عدلیہ سمیت تمام نظام اپنی اپنی سطح پر خود مختاری اور آزادانہ حیثیت کے بحران سے بھی گزررہے ہیں ۔ جب آئین و قوانیں ہی مبہم ہوں توادارے درست کام کیسے کرسکتے ہیں۔ پھر شفافیت کا نظام کی بحث پیچھے رہ جاتی ہے ۔
انتخابات 2024مکمل ہوگئے ہیں ۔ ان انتخابات کے نتیجے میں جس جماعت نے جیتنا تھا یا جس نے ہارنا تھا چاہے وہ شفاف انداز میں جیتے یا ہارے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل مکمل ہوگئی ہے ۔ سیاسی سطح پر کہا جاسکتا ہے کہ اب ایک منتخب حکومت ہے اور معاملات کو سیاسی طور پر آگے بڑھنا چاہیے ۔لیکن پی ٹی آئی اور اس کے حامی تواتر کے ساتھ 8فروری 2024کے انتخابات پر سوالات اٹھارہے ہیں۔
یہ سوالات محض پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اٹھائے گئے ہیں ۔ پری پول رگنگ، لیول پلینگ فیلڈہو یا پولنگ کا عمل یا نتائج او راس کے بعد حکومت سازی کی تشکیل تک پی ٹی آئی کی قیادت کے پاس سوالات ہی سوالات ہیں ۔ ان کی باتیں سن کر تو یہی لگتا ہے جیسے پاکستانیوں نے کبھی ایک مکمل صاف ، شفاف، منصفانہ اورہر سطح کی مداخلتوں سے پاک انتخابات دیکھے ہی نہیں ہیں اور نہ ہی مستقبل میں دیکھ سکیں گے یعنی ایسا ہونا ہمارے لیے ایک خواب ہی رہے گا ۔
پچھلے دنوں امریکا کے جنوبی ووسطی ایشائی امورکے معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو کے امریکی ایوان نمایندگان کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے سامنے پیش ہوکر پاکستان کے عام انتخابات کے بارے میں جمع کرائے گئے بیان میں سائفر پر عمران خان اور پی ٹی آئی کے بیانئے کو مسترد کردیا البتہ انتخابی دھاندلی یا بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی ہے۔ ڈونلڈ لوکو اس کمیٹی کے سامنے بطور گواہ طلب کیا گیا تھا اور وہ پاکستان میں الیکشن کے عمل کے کی جانچ کرنے والوں میں شامل تھے۔
ڈونلڈ لو نے پاکستان میں فروری 2024کے الیکشن میں پانچ اہم امور کی نشاندہی کی ہے ۔اول انھوں نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کے انتخابات بڑی حد تک مسابقتی اور منظم تھے البتہ انتخابی نتائج مرتب ہونے کے عمل میں بعض سنگین بے ضابطگیاں دیکھنے کو ملیں ۔دوم، انتخابات کی نگرانی کرنے والے مبصر اداروں کے نمایندوں کو عملی بنیادوں پر آدھے سے زیادہ حلقوں میں ووٹوں کی گنتی کے عمل کی نگرانی سے روک دیا گیا ۔اسی طرح عدالتی حکم کے باوجود انتخابات والے دن یا اگلے کئی دنوں تک انٹرنیٹ سروس بند رہی جس کا مقصد لوگوں کے باہمی رابطوں کو روکنا تھا۔
سوئم سیاست دانوں سمیت سیاسی جلسوں یا اجتماعات اور پولیس پر دہشت گردوں نے حملے کیے او رکئی صحافیوں کو ہراساں بھی کیا گیا جن میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ چہارم کئی سیاسی راہنما خود کو اپنی مخصوص سیاسی جماعت کے ساتھ رجسٹرنہیں کرا سکے ۔ پنجم پاکستان میں ہونے والے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات پر تشویش اور بے ضابطگیوں پر تحقیقات کا مطالبہ یا زور دیا گیا ہے ۔
اس سے قبل پاکستان میں انتخابات کی نگرانی کرنے والے دو اہم ادارے فافن یعنی فری اینڈ فیر الیکشن نیٹ ورک اور پلڈاٹ نے بھی اپنی اپنی رپورٹس میں انتخابات اور انتخابی نتائج پر سوالات اٹھائے ہیں ۔بالخصوص پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہ ملنا ، پی ٹی آئی امیدواروں کی آزاد حیثیت میں الیکشن میں شرکت ، سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کرنا ، انتخابی نتائج میں تاخیر جیسے معاملات پر سوالات اٹھائے ہیں ۔ نگران وفاقی یا صوبائی حکومتوں، الیکشن کمیشن ، عدلیہ اور میڈیا پر سوالات اٹھائے ہیں۔
مسئلہ محض انتخابات کی ساکھ پر سوالات اٹھانا ہے بلکہ ۔ مسلہ ملک کا مجموعی نظام ہے جس میں الیکشن کا انعقاد ایک جز ہے۔ ہم اجتماعی طور پر عوام کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں کہ وہ اپنی مرضی اور منشا کے فیصلہ کرسکیں ۔ ہمارا مجموعی کھیل طاقت ور افراد کی مرضی او رمنشا سے ہی جڑا ہوا ہے، اسی لیے انتخابات کے نتیجے میں بھی سلیکشن ہی ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم ہمیشہ ہی شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات پر زور دیتے ہیں مگر عملا انتخابات کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے تیار نہیں۔
سوال یہ ہے کہ جس طرز کے ہم انتخابات کرواتے ہیں یا ان پر بڑا سیاسی سمجھوتہ کرتے ہیں توکیا ہم واقعی سیاسی اور جمہوری نظام کو مستحکم کرسکیں گے یا یہ موجودہ عمل ایک کنٹرولڈ سیاسی نظام میں ہی رہے گا۔سوال یہ ہے کہ کون انتخابات میں دھاندلی ، بے ضابطگیوں اور الیکشن مینجمنٹ سسٹم کی ناکامی کی تحقیقات کرے گا اور کون کس کو جوابدہ بنائے گا ۔ جب سب ہی فریق انتخابات کو متنازعہ بنانے کے کھیل میں کم یا زیادہ شریک رہے ہوں تو پھر اس پر شفاف تحقیقات کا مطالبہ بھی اپنی اہمیت کھودیتا ہے۔
انتخابات ہوگئے، حکومت بن گئی اور ملکی یا غیر ملکی تمام سطحوں پر نئی حکومت کو تسلیم بھی کرلیا گیا او ران کے ساتھ امریکا سمیت سب ہی کام کرنے کا عزم بھی ظاہر کررہے ہیں تو ایسے میں انتخابات کے نظام کو چیلنج کرنے والوں کی کوئی بڑی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔ امریکی خارجہ کمیٹی میں پاکستان میں جمہوریت، انسانی حقوق کی عملداری او رانتخابات کی شفاف تحقیقات کی قرارداد کا 50-0سے منظور ی بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے ۔ اس سے پاکستان کے سسٹم کی کمزوریاں عیاں ہوتی ہیں۔
یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے ریاستی، آئینی اور قانونی سمیت سیاسی نظام میں '' جمہوریت کی شفافیت ہو یا انتخابات کی شفافیت '' کسی بھی سطح پر جوابدہی کا عمل انتہائی کمزور ہے ۔ سیاسی اور ریاستی قوتیں اسی نظام کو لے کر چلنا چاہتی ہیں۔
دراصل ہم ایک کنٹرولڈ نظام میں ہی رہنا چاہتے ہیں اور اسی کو بنیاد بنا کر ایک کمزور سا سیاسی او رجمہوری نظام کو دنیا بھر کی سیاست میں بطور ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی کوئی بھی جماعت سسٹم کو تبدیل نہیں کرنا چاہتی۔ سیاسی قیادت آئینی اور قانونی پیچیدگیوں اور سسٹم کے تہہ در تہہ میکنزم کی سمجھ سے عاری ہے۔
سیاسی اور جمہوری نظام کی خود مختاری کی جدوجہد آسان نہیں ہے او ریہ کسی ایک محاذ پر جدوجہد نہیں بلکہ کئی محاذوں پر جڑی ہوئی ہے۔ ہمیں اپنی اپنی سطح پر ایک مضبوط جمہوریت، سیاست ،شفاف انتخابات اور سب کے لیے سازگار ماحول یا لوگوں کے بنیادی سیاسی حقوق کو تسلیم کرنا اور ہر طرز کی سیاسی اور غیر سیاسی مداخلتوں کے خاتمہ پر زور دینا ہوگا جو جمہوری نظام کو کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
یہ جدوجہد مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں اور اس جدوجہد میں ہمیں اپنے داخلی تضادات سے باہر نکل کر اپنی آواز کو اٹھانا ہوگا تاکہ واقعی ہم شفافیت کے نظام کی طرف پیش قدمی کرسکیں ۔