کراچی عوامی چارٹر…
کراچی پاکستان کا دل، معاشی حب اورملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
کراچی پاکستان کا دل، معاشی حب اورملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ جماعت اسلامی نے اس شہر میں امن وامان، ترقی وخوشحالی کے لیے ہمیشہ سے کردار ادا کیا ہے۔ جب بھی جماعت اسلامی کو موقع ملا ہے، اس نے اس شہر میں بلا تفریق رنگ ونسل اور مذہب خدمت کی ہے۔ عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے ادوار مثال کے لیے کافی ہیں۔ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے جس سفر کا آغاز کیا تھا، ہماری خواہش ہے کہ وہ سفر تسلسل کے ساتھ جاری رہے۔
جماعت اسلامی کراچی نے کراچی عوامی چارٹر پیش کیا ہے، جس میں کراچی کے سلگتے مسائل کے حل کے لیے وزیراعظم سے خصوصی پیکیج کا مطالبہ کیا ہے۔ خصوصاً ہم پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ، انفرا اسٹرکچر، صحت، تعلیم اور سب سے بڑھ کر امن و امان کے حوالے سے عملی اقدامات کے آرزومند ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس پیکیج پر عملدرآمد سے نہ صرف یہ کہ کراچی ایک مرتبہ پھر تعمیر وترقی کا سفر شروع کرسکتا ہے، بلکہ کئی عشروں سے دہشت گردی، بدامنی، خوف اور معاشی بدحالی کے شکار عوام کو ریلیف دینے کا سبب بن سکتا ہے۔
ہم اس چارٹر میں جناب وزیراعظم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کراچی کے لیے پانی کے K4 منصوبے کا فوری آغاز کیا جائے۔ کراچی کو اس وقت 1151 ملین گیلن پانی یومیہ کی ضرورت ہے۔ جب کہ صرف 706 ملین گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے' ضایع اور چوری ہونے کے بعد کراچی کو صرف 530 ملین گیلن پانی یومیہ مل رہا ہے۔ K4، 650 ملین گیلن یومیہ کا منصوبہ ہے۔ اگر یہ شروع کردیا جائے تو فوری طور پر کراچی کی پانی کی ضرورت پوری ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ کراچی کو اللہ نے سمندری پانی کا ذخیرہ دیا ہے، اس پانی کو استعمال کرنے کے لیے پلانٹ لگایا جائے۔ دنیا کے کئی بڑے شہروں میں یہ نظام رائج ہے اور وہاں پانی کی قلت کو اسی کے ذریعے دور کیا جاتا ہے۔
جماعت اسلامی کے سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے دور میں ماس ٹرانزٹ کوریڈور منصوبے کا پلان پیش کیا گیا تھا۔ اگر اس منصوبے کو عملی شکل دی جائے اور یہ کامیابی سے اختتام پذیر ہو تو کراچی کا ایک بڑا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس منصوبے کی زمین مختص شدہ ہے۔ اس کی تکمیل سے کراچی میں ہیوی ٹریفک اور سویلین ٹریفک الگ الگ ہوجائیں گے۔ ان کوریڈور کے لیے کراچی ماسٹر پلان میں جگہ مختص ہے، لہٰذا سہراب گوٹھ، نارتھ کراچی، صفورا اور قائد آباد تک ان کو ریڈورز کو بنانے کے لیے حکومتی عزم کی ضرورت ہے۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ 500 بڑی بسوں کے چلانے کا آغاز کیا جائے۔ یہ منصوبہ کراچی ماسٹر پلان کا بھی حصہ ہے اور اسے UTS یعنی اربن ٹرانسپورٹ اسکیم کا نام دیا گیا ہے۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ ایک بڑا گھمبیر مسئلہ ہے۔ شہر میں طرح طرح کے تجربات کیے جارہے ہیں۔ منی بسیں اور چنگچی رکشوں کے ذریعے شہر کا ٹریفک نظام درہم برہم کردیا گیا ہے۔ بڑی بسوں کے ذریعے شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر ہوگا تو 10 لاکھ سے زیادہ موٹر سائیکلوں اور 4 لاکھ سے زائد گاڑیوں پر دباؤ کم ہوگا۔ سڑکوں پر رش بھی کم ہوگا اور حادثات کی شرح میں کمی ہوگی۔
اسی طرح کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور یہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے حکومت نے کوئی یونیورسٹی قائم نہیں کی ہے۔ ایک وقت تھا کہ کراچی کی شناخت تعلیم تھی، لیکن بدقسمتی سے اب یہ شناخت مسخ ہوکر بوری بند لاشوں، بھتوں اور اغوا برائے تاوان کی نذر ہوچکی ہے۔ اس طویل عرصے میں محض دو اداروں کو یونیورسٹیوں کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ کراچی میں یونیورسٹی کی سطح کے تمام اداروں میں زیادہ سے زیادہ 25000 طلبہ داخلہ لے سکتے ہیں۔
ہم کراچی عوامی چارٹر کے ذریعے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ 2 جنرل یورنیورسٹیاں، 2 میڈیکل کالج، ایک خواتین اور ایک آئی ٹی یونیورسٹی قائم کی جائے۔ اس سے ان تعلیمی اداروں میں داخلوں کی گنجائش دگنی یعنی 50 ہزار ہوجائے گی اور اعلیٰ تعلیم کے دروازے عام آدمی کے لیے بھی کھل جائیں گے۔ اس کے علاوہ 50 نئے کالجز کے قیام اور 100 اسکولوں کو ماڈل اسکول کا درجہ دینا ہمارے عوامی چارٹر میں شامل ہے۔ کیونکہ تعلیمی ادارے نہیں ہوں گے تو نوجوانوں کے ہاتھ میں بندوق ہی آئے گی، کتاب نہیں۔
ہمارے پڑھے لکھے، محنتی قابل اور ہنر مند نوجوان مناسب روزگار نہ ملنے کے باعث شدید ذہنی اذیت اور معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ انھیں مناسب روزگار فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہے۔ نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقعے پیدا کیے جائیں۔ قومی اداروں کی نجکاری کے بجائے نفع بخش تنظیم نوکی جائے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں نئے کاروباری ادارے قائم کیے جائیں۔ نوجوانوں کے لیے 5 ارب کے غیر سودی قرضے دیے جائیں۔
سرکاری محکموں میں ملازمت کے لیے میرٹ کو بنیاد بنایا جائے۔ نیز کراچی کے تمام پوسٹ گریجویٹس کو ملازمت تک وظیفہ فراہم کیا جائے۔ کراچی کے بہت سے باصلاحیت نوجوان اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے۔ اسی طرح چھوٹے تاجروں کو سہولتیں دی جائیں اور 10 لاکھ ماہانہ کاروبار کرنے والے تاجروں اور گھریلو صنعتوںکو 5 سال تک ٹیکس چھوٹ دی جائے۔ تاکہ چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والے ملکی معیشت کو مستحکم کرسکیں۔
ایک اہم اور سلگتا مسئلہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا ہے۔ کراچی کو اس وقت کم از کم 3500 میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے جب کہ 2200 میگاواٹ بجلی مختلف ذرایع سے حاصل کی جارہی ہے۔ اس اعتبار سے 1300 میگاواٹ بجلی کم پیدا ہورہی ہے۔ جب کہ کراچی میں کے ای ایس سی کی پرائیویٹائزیشن کی شرط یہ تھی کہ شہریوں کو بجلی پوری ملے گی اور اس مقصد کے لیے پاور پلانٹس لگائے جائیں گے، لیکن کے ای ایس سی کی پرائیوٹائزیشن کے بعد سے اب تک کوئی پاور پلانٹ نہیں لگایا جاسکا۔ دوسرا بڑا عذاب اوور بلنگ ہے۔ جو بل ادا کرنے والوں سے نادہندگان کے بل وصول کرنے کا دھندا ہے۔
ضروری ہے کہ ابتدائی طور پر 500 میگاواٹ کے پلانٹ تعمیر کیے جائیں اور شہریوں کو اوور بلنگ کے عذاب سے نجات دلائی جائے۔ اگر صنعتیں بجلی اور گیس سے محروم رہیں تو ملکی معیشت کیسے ترقی کرے گی؟ کراچی چارٹر میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ صنعتوں کو بجلی و گیس کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ کراچی کے صنعتی زونز سائٹ، کورنگی، لانڈھی، فیڈرل بی ایریا اور نارتھ کراچی پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ انفر اسٹرکچر بری طرح تباہ حال ہے اور دہشت گردوں، اغوا کاروں اور بھتہ خوروں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر ان تمام علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر کی جائے۔
روشنی کا انتظام کیا جائے اور تاجروں اور صنعت کاروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ کراچی میں کھیل کے میدانوں اور پارکس کو گزشتہ 8 برسوں سے رہائشی اور کمرشل تعمیرات کی صورت میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ کھیل کے میدانوں اور پارکس میں رہائشی پلاٹس بناکر عمارتیں تعمیر کردی گئیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ چائنا کٹنگ' میدانوں اور پارکس پر قبضے ختم کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرایا جائے تاکہ شہر میں کھیلوں کو فروغ حاصل ہو اور گرین کراچی پروگرام بحال ہوسکے۔ یونین کونسل کی سطح پر ٹیمیں بناکر ٹیلنٹ نیٹ اسکیم شروع کی جائے اور خواتین کے لیے جداگانہ کھیل کے میدان فراہم کیے جائیں۔
کراچی میں سرکاری اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس وقت کراچی میں ڈیڑھ کروڑ آبادی کے لیے سرکاری اسپتالوں میں محض 9 ہزار بستروں کی گنجائش ہے۔ شہریوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ یا تو وہ پرائیویٹ اسپتالوں میں جائیں یا سڑک پر جان دے دیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ کراچی میں 1000 بستروں پر مشتمل 2 بڑے اسپتال قائم کیے جائیں اس کے علاوہ ہر ٹاؤن میں ایمرجنسی سینٹر، ہر ضلع میں امراض قلب کا ایک ایک اسپتال قائم کیا جائے۔ فوری ضرورت ہے کہ شہر کو برباد کرنے، پرتشدد ہڑتالوں کے حوالے کرنے اور غریبوں کا چولہا ٹھنڈا کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔
المیہ یہ ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلرز، بھتہ خور، دہشت گرد نامعلوم نہیں، بلکہ معلوم ہیں۔ اگر پولیس سیاسی بنیاد پر بھرتی ہو اور تھانیداروں کا تقرر بھی سیاسی پارٹیاں کریں تو امن و امان کسی صورت قائم نہیں رہ سکتا۔ اغوا برائے تاوان، بھتے اور بدامنی و ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ سیاسی مداخلت سے پاک پولیس نظام سے ہی ممکن ہے۔ ہم وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو یہ باور کراتے ہیں کہ یہ چارٹر، کسی جماعت کی نہیں کراچی کے عوام کی ترجمانی کرتا ہے۔ ہم صرف مطالبہ نہیں کررہے، بلکہ اس چارٹر کے عملی نفاذ کے لیے ماہرین کے ذریعے پروفیشنل ورکنگ بھی کررہے ہیں۔ وزیراعظم قدم آگے بڑھائیں گے تو ہمارا ہر ممکن تعاون ان کے ساتھ ہوگا۔
جماعت اسلامی کراچی نے کراچی عوامی چارٹر پیش کیا ہے، جس میں کراچی کے سلگتے مسائل کے حل کے لیے وزیراعظم سے خصوصی پیکیج کا مطالبہ کیا ہے۔ خصوصاً ہم پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ، انفرا اسٹرکچر، صحت، تعلیم اور سب سے بڑھ کر امن و امان کے حوالے سے عملی اقدامات کے آرزومند ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس پیکیج پر عملدرآمد سے نہ صرف یہ کہ کراچی ایک مرتبہ پھر تعمیر وترقی کا سفر شروع کرسکتا ہے، بلکہ کئی عشروں سے دہشت گردی، بدامنی، خوف اور معاشی بدحالی کے شکار عوام کو ریلیف دینے کا سبب بن سکتا ہے۔
ہم اس چارٹر میں جناب وزیراعظم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کراچی کے لیے پانی کے K4 منصوبے کا فوری آغاز کیا جائے۔ کراچی کو اس وقت 1151 ملین گیلن پانی یومیہ کی ضرورت ہے۔ جب کہ صرف 706 ملین گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے' ضایع اور چوری ہونے کے بعد کراچی کو صرف 530 ملین گیلن پانی یومیہ مل رہا ہے۔ K4، 650 ملین گیلن یومیہ کا منصوبہ ہے۔ اگر یہ شروع کردیا جائے تو فوری طور پر کراچی کی پانی کی ضرورت پوری ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ کراچی کو اللہ نے سمندری پانی کا ذخیرہ دیا ہے، اس پانی کو استعمال کرنے کے لیے پلانٹ لگایا جائے۔ دنیا کے کئی بڑے شہروں میں یہ نظام رائج ہے اور وہاں پانی کی قلت کو اسی کے ذریعے دور کیا جاتا ہے۔
جماعت اسلامی کے سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے دور میں ماس ٹرانزٹ کوریڈور منصوبے کا پلان پیش کیا گیا تھا۔ اگر اس منصوبے کو عملی شکل دی جائے اور یہ کامیابی سے اختتام پذیر ہو تو کراچی کا ایک بڑا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس منصوبے کی زمین مختص شدہ ہے۔ اس کی تکمیل سے کراچی میں ہیوی ٹریفک اور سویلین ٹریفک الگ الگ ہوجائیں گے۔ ان کوریڈور کے لیے کراچی ماسٹر پلان میں جگہ مختص ہے، لہٰذا سہراب گوٹھ، نارتھ کراچی، صفورا اور قائد آباد تک ان کو ریڈورز کو بنانے کے لیے حکومتی عزم کی ضرورت ہے۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ 500 بڑی بسوں کے چلانے کا آغاز کیا جائے۔ یہ منصوبہ کراچی ماسٹر پلان کا بھی حصہ ہے اور اسے UTS یعنی اربن ٹرانسپورٹ اسکیم کا نام دیا گیا ہے۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ ایک بڑا گھمبیر مسئلہ ہے۔ شہر میں طرح طرح کے تجربات کیے جارہے ہیں۔ منی بسیں اور چنگچی رکشوں کے ذریعے شہر کا ٹریفک نظام درہم برہم کردیا گیا ہے۔ بڑی بسوں کے ذریعے شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر ہوگا تو 10 لاکھ سے زیادہ موٹر سائیکلوں اور 4 لاکھ سے زائد گاڑیوں پر دباؤ کم ہوگا۔ سڑکوں پر رش بھی کم ہوگا اور حادثات کی شرح میں کمی ہوگی۔
اسی طرح کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور یہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے حکومت نے کوئی یونیورسٹی قائم نہیں کی ہے۔ ایک وقت تھا کہ کراچی کی شناخت تعلیم تھی، لیکن بدقسمتی سے اب یہ شناخت مسخ ہوکر بوری بند لاشوں، بھتوں اور اغوا برائے تاوان کی نذر ہوچکی ہے۔ اس طویل عرصے میں محض دو اداروں کو یونیورسٹیوں کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ کراچی میں یونیورسٹی کی سطح کے تمام اداروں میں زیادہ سے زیادہ 25000 طلبہ داخلہ لے سکتے ہیں۔
ہم کراچی عوامی چارٹر کے ذریعے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ 2 جنرل یورنیورسٹیاں، 2 میڈیکل کالج، ایک خواتین اور ایک آئی ٹی یونیورسٹی قائم کی جائے۔ اس سے ان تعلیمی اداروں میں داخلوں کی گنجائش دگنی یعنی 50 ہزار ہوجائے گی اور اعلیٰ تعلیم کے دروازے عام آدمی کے لیے بھی کھل جائیں گے۔ اس کے علاوہ 50 نئے کالجز کے قیام اور 100 اسکولوں کو ماڈل اسکول کا درجہ دینا ہمارے عوامی چارٹر میں شامل ہے۔ کیونکہ تعلیمی ادارے نہیں ہوں گے تو نوجوانوں کے ہاتھ میں بندوق ہی آئے گی، کتاب نہیں۔
ہمارے پڑھے لکھے، محنتی قابل اور ہنر مند نوجوان مناسب روزگار نہ ملنے کے باعث شدید ذہنی اذیت اور معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ انھیں مناسب روزگار فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہے۔ نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقعے پیدا کیے جائیں۔ قومی اداروں کی نجکاری کے بجائے نفع بخش تنظیم نوکی جائے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں نئے کاروباری ادارے قائم کیے جائیں۔ نوجوانوں کے لیے 5 ارب کے غیر سودی قرضے دیے جائیں۔
سرکاری محکموں میں ملازمت کے لیے میرٹ کو بنیاد بنایا جائے۔ نیز کراچی کے تمام پوسٹ گریجویٹس کو ملازمت تک وظیفہ فراہم کیا جائے۔ کراچی کے بہت سے باصلاحیت نوجوان اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے۔ اسی طرح چھوٹے تاجروں کو سہولتیں دی جائیں اور 10 لاکھ ماہانہ کاروبار کرنے والے تاجروں اور گھریلو صنعتوںکو 5 سال تک ٹیکس چھوٹ دی جائے۔ تاکہ چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والے ملکی معیشت کو مستحکم کرسکیں۔
ایک اہم اور سلگتا مسئلہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا ہے۔ کراچی کو اس وقت کم از کم 3500 میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے جب کہ 2200 میگاواٹ بجلی مختلف ذرایع سے حاصل کی جارہی ہے۔ اس اعتبار سے 1300 میگاواٹ بجلی کم پیدا ہورہی ہے۔ جب کہ کراچی میں کے ای ایس سی کی پرائیویٹائزیشن کی شرط یہ تھی کہ شہریوں کو بجلی پوری ملے گی اور اس مقصد کے لیے پاور پلانٹس لگائے جائیں گے، لیکن کے ای ایس سی کی پرائیوٹائزیشن کے بعد سے اب تک کوئی پاور پلانٹ نہیں لگایا جاسکا۔ دوسرا بڑا عذاب اوور بلنگ ہے۔ جو بل ادا کرنے والوں سے نادہندگان کے بل وصول کرنے کا دھندا ہے۔
ضروری ہے کہ ابتدائی طور پر 500 میگاواٹ کے پلانٹ تعمیر کیے جائیں اور شہریوں کو اوور بلنگ کے عذاب سے نجات دلائی جائے۔ اگر صنعتیں بجلی اور گیس سے محروم رہیں تو ملکی معیشت کیسے ترقی کرے گی؟ کراچی چارٹر میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ صنعتوں کو بجلی و گیس کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ کراچی کے صنعتی زونز سائٹ، کورنگی، لانڈھی، فیڈرل بی ایریا اور نارتھ کراچی پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ انفر اسٹرکچر بری طرح تباہ حال ہے اور دہشت گردوں، اغوا کاروں اور بھتہ خوروں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر ان تمام علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر کی جائے۔
روشنی کا انتظام کیا جائے اور تاجروں اور صنعت کاروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ کراچی میں کھیل کے میدانوں اور پارکس کو گزشتہ 8 برسوں سے رہائشی اور کمرشل تعمیرات کی صورت میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ کھیل کے میدانوں اور پارکس میں رہائشی پلاٹس بناکر عمارتیں تعمیر کردی گئیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ چائنا کٹنگ' میدانوں اور پارکس پر قبضے ختم کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرایا جائے تاکہ شہر میں کھیلوں کو فروغ حاصل ہو اور گرین کراچی پروگرام بحال ہوسکے۔ یونین کونسل کی سطح پر ٹیمیں بناکر ٹیلنٹ نیٹ اسکیم شروع کی جائے اور خواتین کے لیے جداگانہ کھیل کے میدان فراہم کیے جائیں۔
کراچی میں سرکاری اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس وقت کراچی میں ڈیڑھ کروڑ آبادی کے لیے سرکاری اسپتالوں میں محض 9 ہزار بستروں کی گنجائش ہے۔ شہریوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ یا تو وہ پرائیویٹ اسپتالوں میں جائیں یا سڑک پر جان دے دیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ کراچی میں 1000 بستروں پر مشتمل 2 بڑے اسپتال قائم کیے جائیں اس کے علاوہ ہر ٹاؤن میں ایمرجنسی سینٹر، ہر ضلع میں امراض قلب کا ایک ایک اسپتال قائم کیا جائے۔ فوری ضرورت ہے کہ شہر کو برباد کرنے، پرتشدد ہڑتالوں کے حوالے کرنے اور غریبوں کا چولہا ٹھنڈا کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔
المیہ یہ ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلرز، بھتہ خور، دہشت گرد نامعلوم نہیں، بلکہ معلوم ہیں۔ اگر پولیس سیاسی بنیاد پر بھرتی ہو اور تھانیداروں کا تقرر بھی سیاسی پارٹیاں کریں تو امن و امان کسی صورت قائم نہیں رہ سکتا۔ اغوا برائے تاوان، بھتے اور بدامنی و ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ سیاسی مداخلت سے پاک پولیس نظام سے ہی ممکن ہے۔ ہم وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو یہ باور کراتے ہیں کہ یہ چارٹر، کسی جماعت کی نہیں کراچی کے عوام کی ترجمانی کرتا ہے۔ ہم صرف مطالبہ نہیں کررہے، بلکہ اس چارٹر کے عملی نفاذ کے لیے ماہرین کے ذریعے پروفیشنل ورکنگ بھی کررہے ہیں۔ وزیراعظم قدم آگے بڑھائیں گے تو ہمارا ہر ممکن تعاون ان کے ساتھ ہوگا۔