وہ جب اعلان کرتے ہیں بجٹ کا
ہر سال جون میں بجٹ آتا ہے اور غریبوں کی جون مزید بدل کر چلا جاتا ہے۔
''غریبوں ہی کا ہوجاتا ہے جھٹکا'' پچیس تیس سال پہلے کسی بجٹ کے اعلان پر حبیب جالب نے یہ لکھا تھا اور یہ صورتحال گئے کئی سالوں کی ہوگی اور آج بھی وہی صورتحال ہے۔ غریب بے چارہ حالات کی چکی میں بری طرح پس رہا ہے اور ''وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے'' یہ جنھیں ہم جل بھن کے بے ضمیرکہتے ہیں ان لوگوں نے عوام کی کڑوی کسیلی باتیں سننے اور ڈھیٹوں کی طرح بے ہنگم قہقہے لگانے کا وطیرہ اپنالیا ہے۔ عوام کو بکنے دو اور اپنے کالے کرتوت جاری رکھو۔
ہر سال جون میں بجٹ آتا ہے اور غریبوں کی جون مزید بدل کر چلا جاتا ہے۔ جب ممبران پارلیمنٹ کو اپنی تنخواہیں بڑھانا ہوتی ہیں تو کیا حزب اقتدار اور حزب اختلاف سب مل کر اپنی تنخواہوں میں 200 فی صد اضافہ کرلیتے ہیں اور دیگر مراعات اس کے علاوہ۔ ایسا ظالمانہ کام کرتے ہوئے غم گساران ملک و قوم کو ذرہ برابر احساس نہیں ہوتا کہ ہم غریب کلرکوں، پنشنروں اور مزدوروں کی تنخواہوں میں صرف دس فیصد اضافہ کر رہے ہیں اور خود اپنی تنخواہوں میں دو سو فیصد۔
میں کہتا ہوں کہ ان اربوں کھربوں پتیوں کو تنخواہوں اور مراعات کی کیا ضرورت ہے۔ ان کی تجوریوں سے تو ابل ابل کر اچھل اچھل کر روپیہ پیسہ گر رہا ہے۔ ان کے محلوں میں تو روپیہ پیسہ بہہ رہا ہے۔ ان کے بچے تو روپوں پیسوں سے کھیلتے ہیں۔ پھر بھی ان کا پیٹ نہیں بھرتا۔ ان کا پیٹ ہے کہ ''لالو کھیت'' ہے، معاف کرنا۔ ان غاصبوں کے پیٹ کو ''لالو کھیت'' کہنے پر کہیں لالو کھیت کے عوام مجھ سے ناراض نہ ہوجائیں کہ ان لٹیروں سے ہمیں کیوں ملایا۔ لہٰذا میں عظیم عوامی بستی لالو کھیت کے الفاظ واپس لیتا ہوں۔ پتا نہیں ان کا پیٹ کیا ہے۔
پچھلے سال غریب کلرک اور چپراسی کی تنخواہ 12 سے 15 ہزار روپے تھی۔ اس تنخواہ میں سرکار کے دریائے سخاوت سے دس فیصد اضافہ ہوگیا اور ماہانہ تنخواہ 13200 روپے سے 16500 روپے ہوگئی اور مہنگائی کے تناسب نے غریب کلرکوں، چپراسیوں کی تنخواہوں سے تقریباً پانچ ہزار روپے چھین لیے۔ یعنی تنخواہیں بڑھنے کی بجائے 8200 روپے سے 11500 روپے تک رہ گئیں۔
غریب کلرک، چپراسی، مزدور کیا کھائے گا یہی آلو، آٹا، دال، چاول، گھی بس۔ ان ہی اشیا کی قیمتوں کا موازنہ ہی بہت کافی ہوگا کہ پیٹ بھرنا ہوگا۔ یہ ہمارے ''غم گسار'' ممبران پارلیمنٹ جنھوں نے قوم کو بھکاری بنادیا ہے اور خود ہمارے ہی خون پسینے کے پیسے سے عیش کر رہے ہیں۔غریب کلرک، چپراسی، مزدور کے بچے بچیاں دو دو، تین تین ہزار روپوں کی نوکریاں کر رہے ہیں یا مزدوریاں کر رہے ہیں۔ اور ظالموں، غاصبوں، لٹیروں کے بچے اعلیٰ کھانے و مشروب کھا پی رہے ہیں۔ اعلیٰ گاڑیوں میں گھومتے ہیں، جی چاہے تو اپنے اسلحے سے بندے بھی پھڑکا دیتے ہیں۔
مزید صورت حال یہ ہے کہ جو حکومت کر رہے ہیں وہ ظلم کر رہے ہیں اور جو حکومت سے باہر ہیں انھیں ظلم نظر آرہے ہیں اور وہ مظلوموں کی فریاد، پکار لے کر لندن کی ٹھنڈی فضاؤں میں ''ظالموں'' کے خلاف نئی صف بندی کر رہے ہیں۔ اور میں سوچ رہا ہوں ابھی کل جب یہ برسر اقتدار تھے تو انھوں نے غریب کی کیا داد رسی کی تھی، ایک سال پہلے ہی کی بات ہے ہماری پیپلز پارٹی حکومت کر رہی تھی۔ تب بھی غریب کا یہی حال تھا اور وارے نیارے تھے بے ضمیروں کے۔ اس سے پیچھے چلے جاؤ۔ اپنے مسلم لیگ (ق) والے چوہدری برادران، جنرل پرویز مشرف کے ساتھ حکمرانی کر رہے تھے۔ تب بھی غریب کا ایسا ہی برا حال تھا۔ اور پیچھے چلیں تو کبھی پیپلزپارٹی کبھی (ن) لیگ، حکومتیں بدلتی رہیں نہ بدلی تو غریب کی تقدیر۔
اب کل کے حکمران آج کے حکمرانوں کے خلاف غریب کی داد رسی کی آڑ لے کر خوب برس رہے ہیں کہ عمران خان اسلام آباد، فیصل آباد اور ''اقبال آباد'' یعنی سیالکوٹ میں بڑے بھاری جلسے کرچکے، عمران خان جب چلا تھا تو اس کا اور ہی رنگ تھا اور آج اس کے رنگ ڈھنگ بدلے ہوئے ہیں۔ مجھے کیا خبر تھی کہ کبھی مجھے اس گانے کے بولوں کا سہارا لینا پڑے گا۔ لتا جی نے یہ گانا گایا تھا۔ نوک قلم پر آگیا ہے ''بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں' گھرکی بربادی کے آثار نظر آتے ہیں۔'' عمران خان تحریک انصاف والے اور ان کے دائیں بائیں بیٹھے ''احباب'' کو میں دیکھ رہا ہوں۔ جہانگیر ترین (ذاتی ہیلی کاپٹر والے) شاہ محمود قریشی، مخدوم جاوید ہاشمی، شیخ رشید، خورشید محمود قصوری۔ ''یہ کیسا انصاف ہے؟''۔۔۔۔۔'' لکھاہے ان کے چہروں پر جو ہم کو فیصلہ دیں گے۔'' یہ احباب بھی بطور ممبر پارلیمنٹ بھاری تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں۔ جب کہ یہ سب اربوں پتی لوگ ہیں۔
جالب صاحب کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ وہ یوم مئی کے جلسے کی صدارت کر رہے تھے اور اپنی پیپلز پارٹی کے وزیر محنت مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے۔ وزیر موصوف نے صدارتی خطاب سے پہلے ایک لمبی سی تقریر کرڈالی، بس ادھر ادھر کی باتیں۔ آخر میں جالب صاحب صدارتی تقریر کرتے ہوئے بولے ''یہ جو ہر سال یوم مئی کے جلسوں میں وزرا لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں، انھیں یہ لمبی لمبی تقریریں نہیں کرنا چاہئیں اور مزدوروں کی فلاح و بہبود کے بارے میں سال بھر کی کارکردگی رپورٹ پیش کرنا چاہیے اور مزدوروں کے لیے کچھ بھی نہ کرنے پر ان سے معافیاں مانگنی چاہئیں اور اظہار شرمندگی کرنا چاہیے۔''
خیر یہ تو جالب کی سوچ تھی ورنہ ایسا کہاں ہوتا ہے۔ شرمندگی تو ان کی لغت میں شامل ہی نہیں۔ جو اپنے اپنے ادوار میں ظلم کرچکے۔ وہ پھر ''معصوم'' بن کر آنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ''بٹتی رہے گی محلوں میں محلوں کی روشنی'' اور کٹیاؤں میں بھوک، تنگی، بیماری، جہالت کے اندھیرے یوں ہی رہیں گے'' جالب کہتا ہے:
الٰہی کوئی آندھی اس طرف بھی
پلٹ دے ان کلاہ داروں کی صف بھی
زمانے کو جلال اپنا دکھا دے
گرا دے تخت و تاج ان کے گرا دے
ہمارے خلاف طوفان بھی ''باہر'' پلتے ہیں، لندن میں بھائی الطاف حسین کی گرفتاری کا طوفان اٹھا۔ پانچ دن ہم طوفان کی زد پر رہے۔ کراچی سمیت پورا سندھ دن رات جاگتا رہا۔ خدا خدا کرکے طوفان ٹل گیا۔ ادھر کینیڈا سے مولانا طاہر القادری طوفان لے کر وارد ہونے کو ہیں۔ ہمارے چوہدری برادران بھی طوفان لیے لندن گئے ہوئے ہیں۔ مگر ایک خاموش طوفان یہاں بھی پل رہا ہے۔ اس کو بھی دھیان میں رکھنا۔ بات شروع ہوئی تھی بجٹ سے، جالب بجٹ پر تبصرہ کر رہے ہیں:
وہ جب اعلان کرتے ہیں بجٹ کا
غریبوں ہی کا ہوجاتا ہے جھٹکا
وہ ایوانوں میں سرمست و غزل خواں
وطن قرضوں کی سولی پر ہے لٹکا
مقدر ہے ہمارا تشنہ کامی
بھرا رہتا ہے کم ظرفوں کا مٹکا
غم دنیا میں کچھ کھوئے ہم ایسے
خیال آتا نہیں اب اس کی لٹ کا
ہم اپنی منزلیں خود ڈھونڈ لیں گے
ہمیں اب اور اے رہبر! نہ بھٹکا
جو وہ محسوس کرتا ہے کہے گا
کہ جالب بھی ہے پکا اپنی ہٹ کا
ہر سال جون میں بجٹ آتا ہے اور غریبوں کی جون مزید بدل کر چلا جاتا ہے۔ جب ممبران پارلیمنٹ کو اپنی تنخواہیں بڑھانا ہوتی ہیں تو کیا حزب اقتدار اور حزب اختلاف سب مل کر اپنی تنخواہوں میں 200 فی صد اضافہ کرلیتے ہیں اور دیگر مراعات اس کے علاوہ۔ ایسا ظالمانہ کام کرتے ہوئے غم گساران ملک و قوم کو ذرہ برابر احساس نہیں ہوتا کہ ہم غریب کلرکوں، پنشنروں اور مزدوروں کی تنخواہوں میں صرف دس فیصد اضافہ کر رہے ہیں اور خود اپنی تنخواہوں میں دو سو فیصد۔
میں کہتا ہوں کہ ان اربوں کھربوں پتیوں کو تنخواہوں اور مراعات کی کیا ضرورت ہے۔ ان کی تجوریوں سے تو ابل ابل کر اچھل اچھل کر روپیہ پیسہ گر رہا ہے۔ ان کے محلوں میں تو روپیہ پیسہ بہہ رہا ہے۔ ان کے بچے تو روپوں پیسوں سے کھیلتے ہیں۔ پھر بھی ان کا پیٹ نہیں بھرتا۔ ان کا پیٹ ہے کہ ''لالو کھیت'' ہے، معاف کرنا۔ ان غاصبوں کے پیٹ کو ''لالو کھیت'' کہنے پر کہیں لالو کھیت کے عوام مجھ سے ناراض نہ ہوجائیں کہ ان لٹیروں سے ہمیں کیوں ملایا۔ لہٰذا میں عظیم عوامی بستی لالو کھیت کے الفاظ واپس لیتا ہوں۔ پتا نہیں ان کا پیٹ کیا ہے۔
پچھلے سال غریب کلرک اور چپراسی کی تنخواہ 12 سے 15 ہزار روپے تھی۔ اس تنخواہ میں سرکار کے دریائے سخاوت سے دس فیصد اضافہ ہوگیا اور ماہانہ تنخواہ 13200 روپے سے 16500 روپے ہوگئی اور مہنگائی کے تناسب نے غریب کلرکوں، چپراسیوں کی تنخواہوں سے تقریباً پانچ ہزار روپے چھین لیے۔ یعنی تنخواہیں بڑھنے کی بجائے 8200 روپے سے 11500 روپے تک رہ گئیں۔
غریب کلرک، چپراسی، مزدور کیا کھائے گا یہی آلو، آٹا، دال، چاول، گھی بس۔ ان ہی اشیا کی قیمتوں کا موازنہ ہی بہت کافی ہوگا کہ پیٹ بھرنا ہوگا۔ یہ ہمارے ''غم گسار'' ممبران پارلیمنٹ جنھوں نے قوم کو بھکاری بنادیا ہے اور خود ہمارے ہی خون پسینے کے پیسے سے عیش کر رہے ہیں۔غریب کلرک، چپراسی، مزدور کے بچے بچیاں دو دو، تین تین ہزار روپوں کی نوکریاں کر رہے ہیں یا مزدوریاں کر رہے ہیں۔ اور ظالموں، غاصبوں، لٹیروں کے بچے اعلیٰ کھانے و مشروب کھا پی رہے ہیں۔ اعلیٰ گاڑیوں میں گھومتے ہیں، جی چاہے تو اپنے اسلحے سے بندے بھی پھڑکا دیتے ہیں۔
مزید صورت حال یہ ہے کہ جو حکومت کر رہے ہیں وہ ظلم کر رہے ہیں اور جو حکومت سے باہر ہیں انھیں ظلم نظر آرہے ہیں اور وہ مظلوموں کی فریاد، پکار لے کر لندن کی ٹھنڈی فضاؤں میں ''ظالموں'' کے خلاف نئی صف بندی کر رہے ہیں۔ اور میں سوچ رہا ہوں ابھی کل جب یہ برسر اقتدار تھے تو انھوں نے غریب کی کیا داد رسی کی تھی، ایک سال پہلے ہی کی بات ہے ہماری پیپلز پارٹی حکومت کر رہی تھی۔ تب بھی غریب کا یہی حال تھا اور وارے نیارے تھے بے ضمیروں کے۔ اس سے پیچھے چلے جاؤ۔ اپنے مسلم لیگ (ق) والے چوہدری برادران، جنرل پرویز مشرف کے ساتھ حکمرانی کر رہے تھے۔ تب بھی غریب کا ایسا ہی برا حال تھا۔ اور پیچھے چلیں تو کبھی پیپلزپارٹی کبھی (ن) لیگ، حکومتیں بدلتی رہیں نہ بدلی تو غریب کی تقدیر۔
اب کل کے حکمران آج کے حکمرانوں کے خلاف غریب کی داد رسی کی آڑ لے کر خوب برس رہے ہیں کہ عمران خان اسلام آباد، فیصل آباد اور ''اقبال آباد'' یعنی سیالکوٹ میں بڑے بھاری جلسے کرچکے، عمران خان جب چلا تھا تو اس کا اور ہی رنگ تھا اور آج اس کے رنگ ڈھنگ بدلے ہوئے ہیں۔ مجھے کیا خبر تھی کہ کبھی مجھے اس گانے کے بولوں کا سہارا لینا پڑے گا۔ لتا جی نے یہ گانا گایا تھا۔ نوک قلم پر آگیا ہے ''بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں' گھرکی بربادی کے آثار نظر آتے ہیں۔'' عمران خان تحریک انصاف والے اور ان کے دائیں بائیں بیٹھے ''احباب'' کو میں دیکھ رہا ہوں۔ جہانگیر ترین (ذاتی ہیلی کاپٹر والے) شاہ محمود قریشی، مخدوم جاوید ہاشمی، شیخ رشید، خورشید محمود قصوری۔ ''یہ کیسا انصاف ہے؟''۔۔۔۔۔'' لکھاہے ان کے چہروں پر جو ہم کو فیصلہ دیں گے۔'' یہ احباب بھی بطور ممبر پارلیمنٹ بھاری تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں۔ جب کہ یہ سب اربوں پتی لوگ ہیں۔
جالب صاحب کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ وہ یوم مئی کے جلسے کی صدارت کر رہے تھے اور اپنی پیپلز پارٹی کے وزیر محنت مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے۔ وزیر موصوف نے صدارتی خطاب سے پہلے ایک لمبی سی تقریر کرڈالی، بس ادھر ادھر کی باتیں۔ آخر میں جالب صاحب صدارتی تقریر کرتے ہوئے بولے ''یہ جو ہر سال یوم مئی کے جلسوں میں وزرا لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں، انھیں یہ لمبی لمبی تقریریں نہیں کرنا چاہئیں اور مزدوروں کی فلاح و بہبود کے بارے میں سال بھر کی کارکردگی رپورٹ پیش کرنا چاہیے اور مزدوروں کے لیے کچھ بھی نہ کرنے پر ان سے معافیاں مانگنی چاہئیں اور اظہار شرمندگی کرنا چاہیے۔''
خیر یہ تو جالب کی سوچ تھی ورنہ ایسا کہاں ہوتا ہے۔ شرمندگی تو ان کی لغت میں شامل ہی نہیں۔ جو اپنے اپنے ادوار میں ظلم کرچکے۔ وہ پھر ''معصوم'' بن کر آنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ''بٹتی رہے گی محلوں میں محلوں کی روشنی'' اور کٹیاؤں میں بھوک، تنگی، بیماری، جہالت کے اندھیرے یوں ہی رہیں گے'' جالب کہتا ہے:
الٰہی کوئی آندھی اس طرف بھی
پلٹ دے ان کلاہ داروں کی صف بھی
زمانے کو جلال اپنا دکھا دے
گرا دے تخت و تاج ان کے گرا دے
ہمارے خلاف طوفان بھی ''باہر'' پلتے ہیں، لندن میں بھائی الطاف حسین کی گرفتاری کا طوفان اٹھا۔ پانچ دن ہم طوفان کی زد پر رہے۔ کراچی سمیت پورا سندھ دن رات جاگتا رہا۔ خدا خدا کرکے طوفان ٹل گیا۔ ادھر کینیڈا سے مولانا طاہر القادری طوفان لے کر وارد ہونے کو ہیں۔ ہمارے چوہدری برادران بھی طوفان لیے لندن گئے ہوئے ہیں۔ مگر ایک خاموش طوفان یہاں بھی پل رہا ہے۔ اس کو بھی دھیان میں رکھنا۔ بات شروع ہوئی تھی بجٹ سے، جالب بجٹ پر تبصرہ کر رہے ہیں:
وہ جب اعلان کرتے ہیں بجٹ کا
غریبوں ہی کا ہوجاتا ہے جھٹکا
وہ ایوانوں میں سرمست و غزل خواں
وطن قرضوں کی سولی پر ہے لٹکا
مقدر ہے ہمارا تشنہ کامی
بھرا رہتا ہے کم ظرفوں کا مٹکا
غم دنیا میں کچھ کھوئے ہم ایسے
خیال آتا نہیں اب اس کی لٹ کا
ہم اپنی منزلیں خود ڈھونڈ لیں گے
ہمیں اب اور اے رہبر! نہ بھٹکا
جو وہ محسوس کرتا ہے کہے گا
کہ جالب بھی ہے پکا اپنی ہٹ کا