ظلم کے ضابطے بولنے نہیں دیتے…
بغداد نے ہمیشہ تاریخ کا ظلم سہا ہے۔ موجودہ ہلاکو جس کے خاتمے کی تمنا دنیا کر رہی ہے۔
بغداد نے ہمیشہ تاریخ کا ظلم سہا ہے۔ موجودہ ہلاکو جس کے خاتمے کی تمنا دنیا کر رہی ہے۔ اس نے بغداد کے بام ودراکھیڑ کر رکھ دیے 2003 میں عین ''عالم ظلم و ستم'' میں میرا جانا بغداد ہوا تھا اور میں نے دیکھا تھا کہ کس طرح وہاں شاہی محل پر غیر ملکیوں نے قبضہ کرکے راستوں پر دیواریں تعمیر کردی تھیں۔ لوگوں کا کیا حال تھا، کیا کہوں۔ بہت طاقتور ہونے کے باوجود قلم میں وہ طاقت نہیں کہ بیان کرسکے۔ بیسویں صدی میں ایک بار پھر ہلاکو نے بغداد پر قبضہ کیا تھا ہر ہلاکو کا ایک ہی انداز ہوتا ہے وہ علم کا دشمن ہوتا ہے۔ ہلاکو نے کیا کیا تھا؟ صدیوں کی محنت سے جمع کیا جانے والا علم تباہ کردیا، کتابیں ملیا میٹ کردیں، علم کو اندھیرے میں دھکیل دیا۔ کیونکہ وہ خود تاریکی تھا۔
روشنی کو کیسے برداشت کرتا۔ اگر کسی قوم کو اس کے ماضی میں پہنچانا ہے تو اس سے اس کا علم چھین لو۔ جہالت ڈال دو اس کے دامن میں اور جبر کے ساتھ اسے اختیار کرنے کا حکم دو۔ مجھے اکثر ایسا لگتا ہے جیسے میں ایک ٹرانسمیٹر ہوں۔ دنیا بھر کی چیزیں میرے ذریعے ادھر سے ادھر منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ خود اپنے کام یعنی براڈ کاسٹنگ میں آج تک نہ جانے کیا کیا On Air پڑھا۔ پرفارم کیا، لاکھوں اشعار پڑھے۔ مگر مجھ سے کوئی کہے کہ چار شعر تو سنادو تو شاید مشکل ہوجائے۔ جو شخص خود اپنے اشعار یاد نہ رکھ سکتا ہو وہ بھلا اور کیا یاد رکھے گا۔
یہی مشکل ٹرانسمیٹر کی ہوتی ہے کہ اگر کوئی اس سے کہے کہ ذرا جو ابھی نشر ہوا وہ سنا دو تو وہ خاموش۔ ہم اکثر لوگ ایسے ہی ہیں۔ دن بھر پرندے ڈال ڈال پات پات چہچہاتے رہتے ہیں۔ شام ڈھلے خاموش۔ رات مکمل خاموشی۔ اکا دکا کوئی آواز۔ پھر دوسرے دن صبح سویرے سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ساتھ دانے دنکے کی تلاش۔ پرندوں کو اس سے کیا غرض کہ کل کا دن کیسا تھا؟ ان کے پاس ان فضول باتوں کے لیے وقت نہیں ہے۔ وہ اپنے اس کام پر لگے ہیں جو قدرت نے ان کو امر کیا ہے۔ ہم ہیں وہ جن کے پاس وافر وقت ہے۔ گزرے کل کو رونے اور آنے والے کل کو کوسنے اور آج کچھ نہ کرنے کے لیے۔ کتابیں خاموش استاد ہیں۔ اب تو استاد بھی کتابوں جیسے ہی لگتے ہیں۔
منہ میں زبان تو ہے بول نہیں سکتے۔ ظلم کے ضابطے بولنے نہیں دیتے۔ اگر ہم کتابوں سے کچھ حاصل کرلیں تو شاید ہماری شخصیت بہتر بن جائے۔ مگر کتابوں کے زمانے اب رہے کہاں ہیں؟ Net پر سب کچھ ہے۔ یہ ایک جملہ ہے جو محض تسکین کا باعث ہے۔ مگر کوئی پڑھے تب ناں۔ Net پر کیا Search ہو رہا ہے۔ کیا عرض کروں، گناہ گار ہوں۔ دوسروں پر انگلی نہیں اٹھاسکتا صرف عرض کرسکتا ہوں۔ وہاں اپنا اپنا ''ذوق'' ہے اور اس کی ''تسکین''۔ چھلنی نیٹ پر نہیں لگی ہوتی یہ خدا نے ضمیر کی صورت ہر انسان میں رکھی ہے۔ کم کہے کو زیادہ سمجھ لیجیے۔
بہادر شاہ ظفر کی آخری غزل۔ لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں۔ اور پھر آخری مصرعہ۔ دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں۔ اس غزل کے مصرعوں میں اور ہمارے حالات میں ایک مطابقت یہ ہے کہ کل یہ برصغیر کے عظیم آخری حکمراں کا نوحہ تھا اور آج ہمارا یہ مرثیہ ہے۔ کتنے بے ادب ہیں ہم کہ ہم نے ہر قسم کے ادب کو محفلوں سے نکال دیا ہے۔ ہمارے عوام کی زبان بھی کیا ستھری تھی جس میں محبت کے بول ایک امر سنگیت تھے اور اب نہ جانے کون کون سے نامانوس بازاری الفاظ زبان کا لطف خراب کر رہے ہیں اور رات دن ہمارے کانوں کو یہ سننے پڑ رہے ہیں۔ عوام کی زبان سے اس قوم کی عمومی حالت اور ''خواص'' کی زبان سے اس قوم کے استحکام کا پتہ چلتا ہے۔ خواص کی زبان اور گفتگو کے اطوار T.V چینلز پر سن لیجیے۔ ''کردار'' اسمبلی میں دیکھ لیجیے۔
یہ سب کتابوں سے دوری کا نتیجہ ہے۔ جب پڑھے بغیر ''نتیجہ پاس'' ہے تو پھر قوم کا شاید اللہ بھی مالک نہیں ہے کوئی اور ہی ہے جس کے راستے پر لوگ چل رہے ہیں۔ کتاب کو سب سے اچھا دوست کہہ دینا نہایت آسان ہے۔ سب سے اچھا دوست بنانا ''وقت'' مانگتا ہے۔ ہم نے خود بھی بارہا ریڈیو سے یہ جملہ کہا اب بھی کہتے ہیں۔ ہر دوست سے ملوگے تو دوست کا پتہ چلے گا کارٹس پر رکھی ہوئی کتابکو جب تک پڑھا نہ جائے تو اپنے مقام پر ہے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہے، ہماری مقدس کتاب قرآن پاک تو سارا عمل ہی عمل ہے۔ محض رکھے رہنے سے عمل کہاں آسکتا ہے۔
غیر ملکی ادب کی دوچار کتابوں کو پڑھ لینا ایسا ہی ہے جیسے کہ آپ دو انگریزی فلمیں دیکھ کر ہالی ووڈ کی انڈسٹری پر تبصرہ کرنے لگیں۔ میں بہت عام باتیں کرتا ہوں۔ اگر آپ نے اپنی زبان کا ادب پورا نہیں تو کم ازکم اچھی طرح نہیں پڑھا۔ تو یوں سمجھیں جیسے آپ کسی دوسرے ملک میں چلے جائیں اور وہاں کوئی آپ سے پوچھے کیوں آئے ہو آپ کہیں یہ مقام دیکھنے آیا ہوں بڑا مشہور ہے سنا ہے اور وہ پلٹ کر آپ سے پوچھ لے۔ کالام دیکھا ہے؟ ہنزہ گئے ہو؟ سیف الملوک تو گئے ہی ہوگے؟ اور آپ گردن جھکالیں بس یہی منظر ادب کا ہوگا اگر آپ نے اپنے ادب کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔ سب کچھ پڑھنا چاہیے مگر پہلے ''ماں بولی'' کا ادب پڑھنا ضروری ہے۔
اب ہم کیا کریں کہ لوگ چار کتابیں باہر کے ادیبوں کی پڑھ کر خصوصاً روسی ادب۔۔۔۔دنیا کی بے ثباتی پر ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں اور ان مقولوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ تو بھائی ایسے پچاس حوالے خود آپ کے اپنے لکھنے والوں نے دیے ہیں مگر آپ درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ دیسی ادب میں کیا رکھا ہے؟ دنیا اس کے ترجمے کر رہی ہے۔ ہم کیا رکھا ہے تلاش کر رہے ہیں۔ دیسی ادب میں وہی کچھ ہے جو ''دیسی گھی'' میں ہے۔ برداشت نہیں ہوتا۔ ہاضمہ خراب ہوجاتا ہے۔
منٹو کو فحش نگار کہنے لگتے ہیں۔ حقائق پر غور نہیں کرتے۔ اس قوم نے ایک بار عمل کا راستہ اختیار کیا تھا تو پاکستان بنالیا اور پھر بے عملی سے آدھا کھودیا۔ اور اب تک بے عمل ہے یہ قوم جس کا ایک فرد میں بھی ہوں۔Naked Truth۔ یعنی عریاں سچ یہ ہے کہ ہم نے ہر جگہ Ghost پیدا کردیے ہیں۔ پہلے یہ ہمارے اندر تھے اب Practical ہیں ہر ادارے میں موجود ہیں۔ تعلیم کا شعبہ تو ان کا گڑھ ہے پورے ملک میں جو کچھ نہ بن سکے۔ استاد بنادو۔
دنیا کہیں بھی جائے ترقی کی طرف یا تنزلی کی طرف۔ کتاب کا مقام ہمیشہ قائم رہے گا۔ عجیب سا ایک تصور ہے میرے ذہن میں پہلے معذرت عرض کرکے پیش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بھی علم کو کتاب میں محفوظ کرنے کا تصور دیا ہے۔ ''سلیمان کی تختیاں' عیسیٰ کی ''کتاب''۔ ''زبور''۔ اور پھر ہماری مقدس ترین اور اللہ رب العزت کی آخری کتاب ''الکتاب'' گویا قدرت اشارہ دے رہی ہے۔ ہدایت دے رہی ہے کہ کتاب کو راہ نما بناؤ اس سے حاصل کرو۔ یعنی قدرت کو پتہ ہے کہ میری تخلیق ''حضرت انسان'' کو بولنے کی عادت ہے۔ اسے کتاب چاہیے۔ ایک راہ نما۔ اگر پورا سبق یاد بھی کرلے تو بھی قوم کو کتاب چاہیے۔
ہمیشہ کتاب کی ضرورت ہے۔ ہم نے کتاب کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ انٹرنیٹ پر سب کچھ ہے۔ یہ جملہ ایک دھوکا ہے اگر انٹرنیٹ نہ پڑھا جائے۔ شاید یہ کتاب بینی کے خاتمے کا اعلان بھی ہے۔ کوئی چیک نہیں ہے کیا لکھا جا رہا ہے اصحاب مقدس کے اقوال خلط ملط کیے جا رہے ہیں۔ قائد اعظم کی ہمسری کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ بچوں کے ذہن سلیٹ نہیں اب کمپیوٹر کی اسکرین ہیں جو بھی Post اور Paste کروگے وہ آیندہ نسلوں تک منتقل ہوجائے گا۔
بیس سال بعد یہ سب سند ہوجائے گا۔ ملک اور اسلام دشمنوں نے اب کتابوں کے ذریعے یہ سب کچھ کرنے کی ٹھانی ہے۔ کتابیں لکھی جانی چاہئیں۔ کتابیں سخت نگرانی میں درسی خصوصاً شایع ہونی چاہئیں۔ دین سے تحریف اور خلفائے راشدین سے متعلق تمام مواد کو پورے ملک میں چیک کیا جانا چاہیے۔ تمام مسالک کے مشترکہ نکات درسی کتابوں میں شامل کرنے چاہئیں۔ کتاب ''امن'' ہے اسے ''امن کا سفیر'' بنانا چاہیے۔ کتاب ہونی چاہیے۔ کتاب رہنی چاہیے۔ اگر کتاب نہیں رہے گی تو قوم ختم ہوجائے گی۔ اس کی تہذیب مٹ جائے گی۔ کتابوں میں ہمارا ماضی ہے اس میں ہمارا مستقبل لکھا جائے گا۔ بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔
کتاب ایک ذہنی چھری بھی ہے۔ اس سے اگر باعمل انسان پیدا ہوتے ہیں تو ان سے ہی ''بے عملی'' پیدا ہوتی ہے۔ اگر کتاب کو درست انداز میں نہ لکھا جائے۔ وحدت کے راستوں سے پردے ہٹائے جائیں۔ کتاب کو روشنی بنایا جائے اور روشنی کی لو کو درست رکھا جائے کہ یہ روشنی فراہم کرے۔ ''آگنہ لگائے'' ہلاکو کے فلسفے سے قوم کو بچانا ہے۔ من مانا، سوچا سمجھا، گمراہ کن، علم نہیں حاصل کرنا۔ اس سے جہالت بہتر ہے۔
روشنی کو کیسے برداشت کرتا۔ اگر کسی قوم کو اس کے ماضی میں پہنچانا ہے تو اس سے اس کا علم چھین لو۔ جہالت ڈال دو اس کے دامن میں اور جبر کے ساتھ اسے اختیار کرنے کا حکم دو۔ مجھے اکثر ایسا لگتا ہے جیسے میں ایک ٹرانسمیٹر ہوں۔ دنیا بھر کی چیزیں میرے ذریعے ادھر سے ادھر منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ خود اپنے کام یعنی براڈ کاسٹنگ میں آج تک نہ جانے کیا کیا On Air پڑھا۔ پرفارم کیا، لاکھوں اشعار پڑھے۔ مگر مجھ سے کوئی کہے کہ چار شعر تو سنادو تو شاید مشکل ہوجائے۔ جو شخص خود اپنے اشعار یاد نہ رکھ سکتا ہو وہ بھلا اور کیا یاد رکھے گا۔
یہی مشکل ٹرانسمیٹر کی ہوتی ہے کہ اگر کوئی اس سے کہے کہ ذرا جو ابھی نشر ہوا وہ سنا دو تو وہ خاموش۔ ہم اکثر لوگ ایسے ہی ہیں۔ دن بھر پرندے ڈال ڈال پات پات چہچہاتے رہتے ہیں۔ شام ڈھلے خاموش۔ رات مکمل خاموشی۔ اکا دکا کوئی آواز۔ پھر دوسرے دن صبح سویرے سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ساتھ دانے دنکے کی تلاش۔ پرندوں کو اس سے کیا غرض کہ کل کا دن کیسا تھا؟ ان کے پاس ان فضول باتوں کے لیے وقت نہیں ہے۔ وہ اپنے اس کام پر لگے ہیں جو قدرت نے ان کو امر کیا ہے۔ ہم ہیں وہ جن کے پاس وافر وقت ہے۔ گزرے کل کو رونے اور آنے والے کل کو کوسنے اور آج کچھ نہ کرنے کے لیے۔ کتابیں خاموش استاد ہیں۔ اب تو استاد بھی کتابوں جیسے ہی لگتے ہیں۔
منہ میں زبان تو ہے بول نہیں سکتے۔ ظلم کے ضابطے بولنے نہیں دیتے۔ اگر ہم کتابوں سے کچھ حاصل کرلیں تو شاید ہماری شخصیت بہتر بن جائے۔ مگر کتابوں کے زمانے اب رہے کہاں ہیں؟ Net پر سب کچھ ہے۔ یہ ایک جملہ ہے جو محض تسکین کا باعث ہے۔ مگر کوئی پڑھے تب ناں۔ Net پر کیا Search ہو رہا ہے۔ کیا عرض کروں، گناہ گار ہوں۔ دوسروں پر انگلی نہیں اٹھاسکتا صرف عرض کرسکتا ہوں۔ وہاں اپنا اپنا ''ذوق'' ہے اور اس کی ''تسکین''۔ چھلنی نیٹ پر نہیں لگی ہوتی یہ خدا نے ضمیر کی صورت ہر انسان میں رکھی ہے۔ کم کہے کو زیادہ سمجھ لیجیے۔
بہادر شاہ ظفر کی آخری غزل۔ لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں۔ اور پھر آخری مصرعہ۔ دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں۔ اس غزل کے مصرعوں میں اور ہمارے حالات میں ایک مطابقت یہ ہے کہ کل یہ برصغیر کے عظیم آخری حکمراں کا نوحہ تھا اور آج ہمارا یہ مرثیہ ہے۔ کتنے بے ادب ہیں ہم کہ ہم نے ہر قسم کے ادب کو محفلوں سے نکال دیا ہے۔ ہمارے عوام کی زبان بھی کیا ستھری تھی جس میں محبت کے بول ایک امر سنگیت تھے اور اب نہ جانے کون کون سے نامانوس بازاری الفاظ زبان کا لطف خراب کر رہے ہیں اور رات دن ہمارے کانوں کو یہ سننے پڑ رہے ہیں۔ عوام کی زبان سے اس قوم کی عمومی حالت اور ''خواص'' کی زبان سے اس قوم کے استحکام کا پتہ چلتا ہے۔ خواص کی زبان اور گفتگو کے اطوار T.V چینلز پر سن لیجیے۔ ''کردار'' اسمبلی میں دیکھ لیجیے۔
یہ سب کتابوں سے دوری کا نتیجہ ہے۔ جب پڑھے بغیر ''نتیجہ پاس'' ہے تو پھر قوم کا شاید اللہ بھی مالک نہیں ہے کوئی اور ہی ہے جس کے راستے پر لوگ چل رہے ہیں۔ کتاب کو سب سے اچھا دوست کہہ دینا نہایت آسان ہے۔ سب سے اچھا دوست بنانا ''وقت'' مانگتا ہے۔ ہم نے خود بھی بارہا ریڈیو سے یہ جملہ کہا اب بھی کہتے ہیں۔ ہر دوست سے ملوگے تو دوست کا پتہ چلے گا کارٹس پر رکھی ہوئی کتابکو جب تک پڑھا نہ جائے تو اپنے مقام پر ہے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہے، ہماری مقدس کتاب قرآن پاک تو سارا عمل ہی عمل ہے۔ محض رکھے رہنے سے عمل کہاں آسکتا ہے۔
غیر ملکی ادب کی دوچار کتابوں کو پڑھ لینا ایسا ہی ہے جیسے کہ آپ دو انگریزی فلمیں دیکھ کر ہالی ووڈ کی انڈسٹری پر تبصرہ کرنے لگیں۔ میں بہت عام باتیں کرتا ہوں۔ اگر آپ نے اپنی زبان کا ادب پورا نہیں تو کم ازکم اچھی طرح نہیں پڑھا۔ تو یوں سمجھیں جیسے آپ کسی دوسرے ملک میں چلے جائیں اور وہاں کوئی آپ سے پوچھے کیوں آئے ہو آپ کہیں یہ مقام دیکھنے آیا ہوں بڑا مشہور ہے سنا ہے اور وہ پلٹ کر آپ سے پوچھ لے۔ کالام دیکھا ہے؟ ہنزہ گئے ہو؟ سیف الملوک تو گئے ہی ہوگے؟ اور آپ گردن جھکالیں بس یہی منظر ادب کا ہوگا اگر آپ نے اپنے ادب کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔ سب کچھ پڑھنا چاہیے مگر پہلے ''ماں بولی'' کا ادب پڑھنا ضروری ہے۔
اب ہم کیا کریں کہ لوگ چار کتابیں باہر کے ادیبوں کی پڑھ کر خصوصاً روسی ادب۔۔۔۔دنیا کی بے ثباتی پر ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں اور ان مقولوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ تو بھائی ایسے پچاس حوالے خود آپ کے اپنے لکھنے والوں نے دیے ہیں مگر آپ درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ دیسی ادب میں کیا رکھا ہے؟ دنیا اس کے ترجمے کر رہی ہے۔ ہم کیا رکھا ہے تلاش کر رہے ہیں۔ دیسی ادب میں وہی کچھ ہے جو ''دیسی گھی'' میں ہے۔ برداشت نہیں ہوتا۔ ہاضمہ خراب ہوجاتا ہے۔
منٹو کو فحش نگار کہنے لگتے ہیں۔ حقائق پر غور نہیں کرتے۔ اس قوم نے ایک بار عمل کا راستہ اختیار کیا تھا تو پاکستان بنالیا اور پھر بے عملی سے آدھا کھودیا۔ اور اب تک بے عمل ہے یہ قوم جس کا ایک فرد میں بھی ہوں۔Naked Truth۔ یعنی عریاں سچ یہ ہے کہ ہم نے ہر جگہ Ghost پیدا کردیے ہیں۔ پہلے یہ ہمارے اندر تھے اب Practical ہیں ہر ادارے میں موجود ہیں۔ تعلیم کا شعبہ تو ان کا گڑھ ہے پورے ملک میں جو کچھ نہ بن سکے۔ استاد بنادو۔
دنیا کہیں بھی جائے ترقی کی طرف یا تنزلی کی طرف۔ کتاب کا مقام ہمیشہ قائم رہے گا۔ عجیب سا ایک تصور ہے میرے ذہن میں پہلے معذرت عرض کرکے پیش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بھی علم کو کتاب میں محفوظ کرنے کا تصور دیا ہے۔ ''سلیمان کی تختیاں' عیسیٰ کی ''کتاب''۔ ''زبور''۔ اور پھر ہماری مقدس ترین اور اللہ رب العزت کی آخری کتاب ''الکتاب'' گویا قدرت اشارہ دے رہی ہے۔ ہدایت دے رہی ہے کہ کتاب کو راہ نما بناؤ اس سے حاصل کرو۔ یعنی قدرت کو پتہ ہے کہ میری تخلیق ''حضرت انسان'' کو بولنے کی عادت ہے۔ اسے کتاب چاہیے۔ ایک راہ نما۔ اگر پورا سبق یاد بھی کرلے تو بھی قوم کو کتاب چاہیے۔
ہمیشہ کتاب کی ضرورت ہے۔ ہم نے کتاب کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ انٹرنیٹ پر سب کچھ ہے۔ یہ جملہ ایک دھوکا ہے اگر انٹرنیٹ نہ پڑھا جائے۔ شاید یہ کتاب بینی کے خاتمے کا اعلان بھی ہے۔ کوئی چیک نہیں ہے کیا لکھا جا رہا ہے اصحاب مقدس کے اقوال خلط ملط کیے جا رہے ہیں۔ قائد اعظم کی ہمسری کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ بچوں کے ذہن سلیٹ نہیں اب کمپیوٹر کی اسکرین ہیں جو بھی Post اور Paste کروگے وہ آیندہ نسلوں تک منتقل ہوجائے گا۔
بیس سال بعد یہ سب سند ہوجائے گا۔ ملک اور اسلام دشمنوں نے اب کتابوں کے ذریعے یہ سب کچھ کرنے کی ٹھانی ہے۔ کتابیں لکھی جانی چاہئیں۔ کتابیں سخت نگرانی میں درسی خصوصاً شایع ہونی چاہئیں۔ دین سے تحریف اور خلفائے راشدین سے متعلق تمام مواد کو پورے ملک میں چیک کیا جانا چاہیے۔ تمام مسالک کے مشترکہ نکات درسی کتابوں میں شامل کرنے چاہئیں۔ کتاب ''امن'' ہے اسے ''امن کا سفیر'' بنانا چاہیے۔ کتاب ہونی چاہیے۔ کتاب رہنی چاہیے۔ اگر کتاب نہیں رہے گی تو قوم ختم ہوجائے گی۔ اس کی تہذیب مٹ جائے گی۔ کتابوں میں ہمارا ماضی ہے اس میں ہمارا مستقبل لکھا جائے گا۔ بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔
کتاب ایک ذہنی چھری بھی ہے۔ اس سے اگر باعمل انسان پیدا ہوتے ہیں تو ان سے ہی ''بے عملی'' پیدا ہوتی ہے۔ اگر کتاب کو درست انداز میں نہ لکھا جائے۔ وحدت کے راستوں سے پردے ہٹائے جائیں۔ کتاب کو روشنی بنایا جائے اور روشنی کی لو کو درست رکھا جائے کہ یہ روشنی فراہم کرے۔ ''آگنہ لگائے'' ہلاکو کے فلسفے سے قوم کو بچانا ہے۔ من مانا، سوچا سمجھا، گمراہ کن، علم نہیں حاصل کرنا۔ اس سے جہالت بہتر ہے۔