طائر لاہوتی
کیسی کیسی دریافتیں جن پر امریکا و یورپ فخر و غرور کرتے ہیں، ہم پاکستانیوں کا کارنامہ ہیں،
آج سے چار، پانچ ماہ پہلے میں اپنے اسپتال سے نکل رہا تھا کہ ایک نوجوان باوقار میری طرف آیا اور مجھ سے کچھ سنبھلتے ہوئے گویا ہوا کہ ''بھائی! میں کچھ آپ کو بتانا چاہتا ہوں اگر آپ مناسب سمجھیں تو اپنا کچھ وقت مجھے دے دیں۔'' آج کل حالات کچھ اس طرح کے ہوگئے ہیں کہ پرائے تو پرائے اپنوں سے بھی ڈر ہی لگتا ہے اور وہ صاحب تو میرے لیے بالکل اجنبی ہی تھے۔ خیر میں نے ہمت پکڑ کر ان کی بات سننا شروع کی وہ صاحب اپنی جھجھک پر قابو پاتے ہوئے اور میں اجنبیت کو ایک طرف کرتے ہوئے ہمہ تن گوش ہوا۔ وہ نوجوان پیشے کے اعتبار سے سافٹ ویئر انجینئر تھا، مجھ سے کہنے لگا۔ ''بھائی میں نے پورے دو سال لگا کر ایک ایسا سافٹ ویئر بنایا ہے جس کی مدد سے آپ چوروں اور ڈاکوؤں کو اسی دن پکڑ سکتے ہیں جس دن وہ کارروائی کریں۔''
انجینئرنگ سے میں نابلد ہوں وہ اس لیے کہ پیشے کے لحاظ سے میں ڈاکٹر ہوں، پہلے تو میری سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ ان کی گفتگو کا لب لباب ہے کیا، پھر ان کی زبان سے Engineering کی Technologies کی باتیں نکل رہی تھیں لیکن میرے سمجھانے کے بعد کہ بھائی آپ آسان زبان میں مجھے بتائیں کہ آپ نے کیا کیا ہے۔ اس پر وہ نوجوان سنبھل سنبھل کر کہنے لگا۔ بھائی میں نے بینکوں، اسپتالوں، تھانوں ، دفاتر اور گھروں کے لیے ایسا سافٹ ویئر بنایا ہے جس کو آپ آسان زبان میں اینٹی تھیفٹ Anti Theft ''چوروں کو پکڑوانے والا'' سافٹ ویئر کہہ سکتے ہیں۔ مجھے حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی بھی محسوس ہو رہی تھی کہ اداروں کا کرنے والا کام ایک شخص نے کردیا اس پر میں نے اس نوجوان سے کہا آپ اس کو مارکیٹ میں لے کر کیوں نہیں آرہے؟ آپ کو اچھے خاصے پیسے مل جائیں گے اور شہرت الگ ملے گی۔
میرے اتنا کہنے پر ہی پہلے تو وہ نوجوان خوب ہنسا، جس پر مجھے حیرت کے ساتھ ساتھ خفت بھی محسوس ہوئی کہ میں نے آخر ایسی کیا بات کہہ دی جس پر وہ اس طرح ردعمل دکھا رہا ہے، مجھے واقعی کچھ عجیب سا لگا۔ میں نے ایک دم ان سے کہا بھائی! میں نے ایسا کیا کہہ دیا جس پر آپ اس طرح ہنس رہے ہیں، میری اس بات پر پہلے تو وہ ہنسے پھر ایک دم چپ سادھ لی خیر آہستہ آہستہ انھوں نے قفل توڑتے ہوئے کہا بھائی میں نے جس سے بھی یہ کہا وہ آپ کی طرح ہی نصیحت کرتا ہے اس پر میں ہنستا ہوں پھر جب حقیقت بتاتا ہوں تو آپ جیسے سادہ لوح لوگ کف افسوس ملتے ہیں۔ میری جستجو بڑھی تو میں نے ان سے اگلا سوال یہ کیا کہ چلیں آپ ہی بتائیں پھر کیا کریں گے۔
میری بات سن کر وہ بولا ڈاکٹر صاحب میں اس کو توڑ کر پھینک دوں گا۔ ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا، لیکن کسی کو یہ اجازت نہیں دوں گا کہ وہ اس کو اپنے نام سے امریکا جاکر بیچ دے، کیونکہ ہمارے ملک میں کوئی چور نہیں ہے؟ کوئی ڈاکو نہیں ہے؟ کوئی رہزن نہیں ہے؟ لہٰذا اس کی ضرورت پاکستان میں تو نہیں ہے؟ میں جہاں جہاں اس کو لے کر گیا کسی نے کہا کہ 15 ہزار میں اس کو ہمیں بیچ دو، پھر ہم جانیں ہمارا کام، کسی نے کچھ قیمت لگائی، کسی نے کچھ، کوئی اپنے نام سے اس کو بازار میں لانا چاہ رہا تھا، لیکن کسی نے میری حوصلہ افزائی نہیں کی۔ کسی نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی، پولیس تھانوں میں گیا، ان کے اعلیٰ افسران سے بات کی، لیکن جہاں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوسکتی تھی وہاں سے جواب آیا نہیں صاحب! معذرت ۔ اس کی ہم کو ضرورت نہیں ہے، جن جن دفاتر میں گیا، وہاں سے ناامیدی لے کر آیا۔
آخر میں کئی اسپتالوں میں گیا، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے 3 پات والا معاملہ۔ میں بڑے غور سے ان کی داستان ناامیدی سن رہا تھا، میں نے واقعی ان کی پیٹھ تھپتھپائی اور بولا حضرت اگر واقعی اس کو آپ بیچنا چاہتے ہیں تو آپ بیرون ملک جانے کے لیے رخت سفر باندھیں یہاں اس کا کوئی خریدار نہیں ہے۔ وجہ یہ نہیں کہ پاکستان میں سب دودھ کے دھلے ہیں ۔وجہ یہ ہے کہ ہم چوروں کو، ڈاکوؤں کو، رہزنوں کو، بدمعاشوں کو پکڑنا ہی نہیں چاہتے بلکہ ہم ان کو پالتے ہیں، اور اسی لیے پالتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے کام کریں۔
میں کیسے چاہوں گا کہ اگر میں ایک لاکھ روپے روزانہ اس بندے سے کما رہا ہوں جو ڈاکو ہے، چور ہے، بھتہ خور ہے، میں کیوں اس کو سلاخوں کے پیچھے ڈالوں گا۔ پھر میں نے نوجوان سے کہا، یہاں اس کو کوئی نہیں لے گا، آپ اس کو یورپ و امریکا میں جاکر فروخت کیجیے وہاں ڈاکو بھی ہیں اور چور بھی اور پھر ان کے لیے سزائیں بھی ہیں، جرمانے بھی اور پھر جیل بھی۔ یہاں ڈاکوؤں کے لیے نا ہی کوئی جیل ہے اور نہ ہی کوئی قانون۔
ابھی میں ان سے یہ کہہ ہی رہا تھاکہ سامنے والی روڈ پر ایک بائیک پر بیٹھے دو ڈاکوؤں نے کار والے کو لوٹ بھی لیا اور پولیس موبائل اس کے دوسری طرف والی روڈ پر قائم گنے کی دکان سے گنے کا جوس پیتی رہی، لٹنے والے کی گاڑھے خون پسینے کی کمائی گئی، نا جانے اس کا کوئی اپنا کسی اسپتال میں داخل ہوگا اس کی فیس کے پیسے ہوں گے، یا اس کی بیٹی، بہن کی شادی ہوگی اس کے لیے زیور بنوانا ہوگا، یا اپنے بچے کی فیس بھرنی ہوگی جس کی آخری تاریخ ہوگی۔ لیکن لوٹنے والے کو کیا۔ اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والے سین Scene کو دیکھ کر وہ صاحب بولے ڈاکٹر واقعی اس ملک میں کسی قانون، کسی وکیل، کسی جج، کسی پولیس والے کی ضرورت نہیں ہے، خدارا مجھے دے میں کہیں بھی جاکر اس کو بیچ دوں گا،پیسے ملیں نہ ملیں لیکن اس کو اپنے نام سے مارکیٹ میں لاؤں گا۔ میں نے ان سے رخصت لی، ساتھ ہی ساتھ ان کا کارڈ بھی لے لیا۔
ابھی پچھلے دنوں میں نے ان کے دیے ہوئے کارڈ میں درج ان کا نمبر گھمایا تو دوسری طرف سے ایک نسوانی آواز آئی۔ وہ تو امریکا گئے ہوئے ہیں آج کل میں آنے ہی والے ہیں ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے رات کا کھانا کھانے کے بعد میں نے پھر ان کے دیے ہوئے نمبر پر فون کیا تو وہ بہت خوش ہوکر بولے ڈاکٹر صاحب اللہ آپ کو عمر خضر دے، جس دن آپ سے بات ہوئی تھی آپ نے میری آنکھیں کھول دیں لہٰذا میں امریکا گیا اور یونیورسٹی آف وس کن سن University Of Wisconsin کے آئی ٹی کے محکمے نے میرا وہ سافٹ ویئر نہ صرف میرے نام سے لیا بلکہ امریکا کی شہریت کے لیے بھی کہا، اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب مجھے 28 ہزار ڈالر بھی دیے۔
میں سمجھا یہ اپنی نوعیت کی پہلی دریافت ہوگی تو پتا چلا کہ اس قسم کے لاتعداد سافٹ ویئرز ان کے پاس ہیں۔ جن کی مدد سے وہ ڈاکوؤں، چوروں کو نہ صرف پکڑ رہے ہیں بلکہ ان کو کیفر کردار تک بھی پہنچا رہے ہیں۔ میں نے نوجوان سے کہا بھائی! اگر ایسا سافٹ ویئر ان کے پاس بقول آپ کے پہلے سے ہے تو انھوں نے پھر آپ کا سافٹ ویئر کیوں لیا۔
اس پر اس نے کہا ڈاکٹر صاحب وہ اس لیے کیا کہ میرے سافٹ ویئر میں آپ اسی دن چور کو پکڑ لیں گے جس دن وہ کارروائی کرتا ہے، میں نے کہا، کیا آپ امریکا چلے جائیں گے۔ کہنے لگے کیوں نہیں، جہاں برائی ہو، وہاں اس کے بارے میں کچھ ہوسکتا ہے، ہمارے سسٹم میں تو کوئی برائی ہی نہیں ہے یہ فرشتوں کا ملک ہے۔ لہٰذا میرا یہاں کام ہی نہیں ہے۔ اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ کب تک ہم بے حسی کی چادر تان کر سوتے رہیں گے۔ ہمارے ہاتھوں سے کیسے کیسے گوہر نایاب روزانہ کی بنیادوں پر امریکا و یورپ جا رہے ہیں صرف یوں کہ ہم ان کو مجبور کر رہے ہیں۔
کیسی کیسی دریافتیں جن پر امریکا و یورپ فخر و غرور کرتے ہیں، ہم پاکستانیوں کا کارنامہ ہیں، لیکن صاحب ہم دودھ کے دھلے ہیں ہم میں کوئی برائی نہیں ہے اور جب برائی نہیں ہے، تو ایسے سافٹ ویئر بناکر ہم کیا کریں گے۔ لیکن برائی پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اس سے یہ ہوگا ہمارے محنتی، جفاکش، ڈاکٹرز، انجینئرز، آئی ڈی اسپیشلسٹ، سب آہستہ آہستہ اپنا رخت سفر بیرون ملک کی طرف باندھیں گے اور یہاں سامنے روڈ پر کوئی لٹ رہا ہوگا اور قانون گنے کا جوس پی رہا ہوگا۔ میں حکومت اور ارباب اقتدار سے بھی کہتا ہوں خدارا! آپ نے ہم نوجوانوں کو بہت سبز باغ دکھائے تھے الیکشن کی تقریروں میں آپ نے ہم سے بہت وعدے کیے تھے اب وقت آگیا ہے کہ آپ اپنے وعدے نبھائیں ورنہ آپ ناکامی و نامرادی کا منہ دیکھیں گے۔ اور آپ کا یہ سفر جلد ختم ہوجائے گا۔