پاکستان کا گولن نیٹ ورک
نام نہاد پاکستانی انقلابیوں کی پشت پر 9 مئی کے اس سانحے کا بوجھ ہے، اس پر مستزاد اس گروہ کے ’انقلابیوں‘کا طرز عمل ہے
مخدومی عطا الحق قاسمی کی کلیات ' ملاقاتوں کے بعد'حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ مجھے اس پر بات نہیں کرنی۔ مجھے ان کے دو شعروں پر بات کرنی ہے جن کی گرفت سے میں ابھی تک نکل نہیں پایا ؎
ہماری دنیا کو دوزخ بنایا گیا اور پھر
زمین پر اپنے لیے جنتیں بسائی گئیں
مخدومی قاسمی صاحب کا دوسرا شعر ہے ؎
مجھے تو یاد نہیں شکل اپنے منصف کی
مجھے تو یاد سزائیں ہیں جو سنائی گئیں
کہتے ہیں کہ شاعر آدھا ولی تو ہوتا ہی ہے لیکن ہمارے قاسمی صاحب تو ولیوں کے چشم و چراغ ہیں۔ انھوں نے کسی درویش کی طرح سے جیسے ہی چہرہ آسمان کی طرف اٹھا کر شکوہ کیا، رحمت خداوندی کو جوش آ گیا اور بابے رحمتے (اور اس کے ساتھیوں) کی بسائی ہوئی جنت اجڑنے لگی۔
بھٹو صاحب کا مقدمہ قتل پلٹا، قبلہ قاسمی صاحب پر لگائے گئے گھٹیا الزامات اور ان کی بنیاد پر ان کے خلاف تھوپا گیا فیصلہ بدلا۔ اس سلسلے کی آخری کڑی جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ظالمانہ فیصلے کا خاتمہ ہے۔ ان فیصلوں کے بارے میں مجھے کچھ سوال اٹھانے ہیں لیکن اس سے پہلے مجھے ایک خیالی جنت کی بات کرنی ہے جسے بسا کر میرے بچوں اور نوجوانوں کو ہی تباہ و برباد نہیں کر دیا گیا بلکہ اب تو اس آگ کی لپک وطن عزیز کا چہرہ بھی جھلسانے لگی ہے۔
یہ ایک ایسی آگ ہے جس کی تپش ہمیں صرف دائیں بائیں سے نہیں جلا رہی بلکہ اس کی چنگاری ایک ایسی بارودی سرنگ میں بدل چکی ہے جس کی تباہ کاری کا سلسلہ دہائیوں بلکہ نسلوں تک جاری رہنے کا خدشہ ہے۔خیالی 'جنت کے باسیوں' کی توقعات تو یہی تھیں کہ ' انقلاب 'آ جائے گا اور کچھ لوگوں کے بیرونی سرپرست کچھ ایسا بازو مروڑیں گے کہ یہاں لینے کے دینے پڑ جائیں گے لیکن ہوا اس کے برعکس۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کے اسباب کوئی ایک دو نہیں دسیوں ہیں اور اسی 'دانش مندانہ'بصیرت کا نتیجہ ہیں جس کے نتیجے میں کچھ لوگ پارٹی سے محروم ہوئے، انتخابی نشان سے محروم ہوئے، مخصوص نشستوں سے محروم ہوئے اور اب حزب اختلاف کی قیادت بھی معرض سوال میں ہے۔
معلوم ہوا کہ دوسروں کی گود میں اچھلنے والے جب گود سے محروم ہوتے ہیں تو ان کی سمجھ بوجھ بھی جواب دے جاتی ہے جو فیصلہ کرتے ہیں الٹا پڑتا ہے۔ یہی کچھ امریکا میں بھی ہوا۔ غریب عوام کے چندے، کہے جانے کے قابل اور نہ کہے جانے کے قابل ذرائع سے جمع کیے ہوئے سرمائے اور بیرون ملک پاکستانیوں کے خون پسینے کی کمائی کے بل بوتے پر کی جانے والی لابئنگ سب الٹی پڑ گئی۔ کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی میں جو کچھ ہوا، اس کے بلند بانگ دعوے تو رہے ایک طرف، ایک نیا خطرہ پیدا ہو گیا۔
ڈونلڈ لو نے اپنے بیان میں انکشاف کیا کہ سائفر لہرانے اور بے بنیاد الزامات لگانے کے بعد انھیں اور ان کے خاندان کو قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ امریکا میں خطیر سرمائے سے لابئنگ کر کے کانگریس کمیٹی میں سماعت کا بندوست کرنے والے چاہے ڈونلڈ لو کے تیسرے درجے کا ایک اہلکار ہی قرار دے لیں اس 'معمولی' اہل کار نے اپنے اور اپنے خاندان کو ملنے والی دھمکیوں کو پارلیمنٹ کے ایوان میں ایک باضابطہ بیان میں ریکارڈ پر لا کر گویا ایک ایف آئی آر درج کرا دی ہے۔ آگے چل کر یہ ایف آئی آر کیا برگ و بار لائے گی؟ اس کے اثرات کا جائزہ سرسری انداز میں لینا مشکل ہے۔ اس صورت حال کا موازنہ ترکیہ کی ایک خاص صورت حال سے کیا جا سکتا ہے جو اب اس برادر ملک کی تاریخ کا ایک سنگ میل بن چکا ہے۔
یہ15 جولائی 2016 کی بات ہے جب ترکیہ کے گولن نیٹ ورک نے بغاوت کی۔ یہ بغاوت بڑی وسیع البنیاد تھی جس میں قومی سلامتی، انصاف اور تعلیم سمیت زندگی کے بہت سے شعبوں سے تعلق رکھنے والے ادارے شامل تھے۔ باغیوں کا خیال تھا کہ انھوں نے ریاستی اداروں کو جس طرح تقسیم کر دیا ہے، اس کے نتیجے میں حکومت اور ریاست ان کی بغاوت کے سامنے ٹھہر نہیں سکے گی اور وہ ریاست پر قبضہ کر لیں گے۔ پاکستان میں صورت حال اس سے مختلف نہیں تھی۔ یہاں بھی اسی انداز میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور اسی انداز میں ریاستی اداروں میں بغاوت کا سوچا گیا۔ یہ تو پاکستانی اداروں کا نظم و ضبط، ان کی ثقافت اور شان دار تاریخ تھی کہ بغاوت کا منصوبہ ناکام ہو گیا ورنہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پاکستان اور ترکیہ کے واقعات میں بڑی مماثلت تھی۔
نام نہاد پاکستانی انقلابیوں کی پشت پر 9 مئی کے اس سانحے کا بوجھ ہے، اس پر مستزاد اس گروہ کے 'انقلابیوں'کا طرز عمل ہے جنھوں نے پاکستان کے اندر اپنے مخالفین ، صحافیوں اور آزاد شہریوں کے شہری حقوق کو اپنی حکومت کے دوران اور حکومت کے خاتمے کے بعد مسلسل پامال کیا۔ کئی اراکین پارلیمنٹ پر حملے کیے۔ ان میں اس وقت قومی اسمبلی کے رکن جاوید لطیف پر حملہ تو خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اسی طرح فیصل آباد میں رانا ثنا اللہ کے ڈیرے پر مسلح افراد نے حملہ کیا۔ یہ فہرست مختصر نہیں طویل ہے۔
خواتین صحافیوں اور سیاسی طور پر مخالفت کرنے والی خواتین کو ہراساں کرنے کی دھمکیوں کا سلسلہ بھی کچھ اتنا مختصر نہیں ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ اس جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر اعلیٰ نے حال ہی میں ایک پبلک بیان میں عوام کو اکسایا کہ وہ رشوت مانگنے والے سرکاری حکام کی شکایت میرے پاس لانے کے بہ جائے اینٹوں سے ان پر حملہ کردیں۔ یہ بیان معمولی نہیں ہے۔
ڈونلڈ لو کی طرف سے جان سے مار دینے کی دھمکی ریکارڈ پر لائے جانے کے بعد ایسے واقعات کی فہرست کی تیاری یقینی طور پر شروع ہو جائے گی جو متعلقہ جماعت کے سیاسی مستقبل کے بارے میں انتہائی خطرناک ہو گی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس جماعت نے اپنے متعلقین کو پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر جتنا متشدد بنا دیا ہے، اس کے برگ و بار صرف ملک کے اندر نہیں بلکہ عالمی سطح پر سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ یہ نہایت خطرناک بات ہے۔
2016 کی ناکام بغاوت کے بعد حکومت ترکیہ بین الاقوامی سطح پر جو سرکاری مذاکرات بھی کرتی ہے، ان میں گولن نیٹ ورک کا معاملہ ضرور زیر بحث آتا ہے اور ترکیہ کی دوست ریاستیں تعاون کی یقین دہائی کراتی ہیں۔ پاکستان میں 9 مئی کا واقعہ مختلف نہیں تھا لیکن اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور اس کے ذمے داروں سے یہاں ابھی تک ترکیہ کی طرح کیوں نمٹا نہیں جا سکا لیکن ڈونلڈ لو کے انکشاف کے بعد اب اس کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
مخدومی قاسمی صاحب کے اشعار اور ان کے خلاف رحمتے نیٹ ورک کی کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے میں نے عرض کیا تھا کہ اس سلسلے میں کچھ سوال میرے ذہن میں ہیں۔یہ تو اچھا ہوا کہ ظالمانہ فیصلوں کی بساط لپیٹ دی گئی ، اب سوال یہ ہے کہ لیکن جن لوگوں پر ظلم کیا گیا، اس کا ازالہ کیا ہے اور جن لوگوں نے ظلم کیا، اس کی سزا انھیں کیا ملی؟ ان سوالوں کے جواب میرے پاس نہیں لیکن اس سے بڑے منظر نامے پر مجھے لگتا ہے کہ نتائج بہت جلد آنے شروع ہو جائیں گے ۔
ہماری دنیا کو دوزخ بنایا گیا اور پھر
زمین پر اپنے لیے جنتیں بسائی گئیں
مخدومی قاسمی صاحب کا دوسرا شعر ہے ؎
مجھے تو یاد نہیں شکل اپنے منصف کی
مجھے تو یاد سزائیں ہیں جو سنائی گئیں
کہتے ہیں کہ شاعر آدھا ولی تو ہوتا ہی ہے لیکن ہمارے قاسمی صاحب تو ولیوں کے چشم و چراغ ہیں۔ انھوں نے کسی درویش کی طرح سے جیسے ہی چہرہ آسمان کی طرف اٹھا کر شکوہ کیا، رحمت خداوندی کو جوش آ گیا اور بابے رحمتے (اور اس کے ساتھیوں) کی بسائی ہوئی جنت اجڑنے لگی۔
بھٹو صاحب کا مقدمہ قتل پلٹا، قبلہ قاسمی صاحب پر لگائے گئے گھٹیا الزامات اور ان کی بنیاد پر ان کے خلاف تھوپا گیا فیصلہ بدلا۔ اس سلسلے کی آخری کڑی جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ظالمانہ فیصلے کا خاتمہ ہے۔ ان فیصلوں کے بارے میں مجھے کچھ سوال اٹھانے ہیں لیکن اس سے پہلے مجھے ایک خیالی جنت کی بات کرنی ہے جسے بسا کر میرے بچوں اور نوجوانوں کو ہی تباہ و برباد نہیں کر دیا گیا بلکہ اب تو اس آگ کی لپک وطن عزیز کا چہرہ بھی جھلسانے لگی ہے۔
یہ ایک ایسی آگ ہے جس کی تپش ہمیں صرف دائیں بائیں سے نہیں جلا رہی بلکہ اس کی چنگاری ایک ایسی بارودی سرنگ میں بدل چکی ہے جس کی تباہ کاری کا سلسلہ دہائیوں بلکہ نسلوں تک جاری رہنے کا خدشہ ہے۔خیالی 'جنت کے باسیوں' کی توقعات تو یہی تھیں کہ ' انقلاب 'آ جائے گا اور کچھ لوگوں کے بیرونی سرپرست کچھ ایسا بازو مروڑیں گے کہ یہاں لینے کے دینے پڑ جائیں گے لیکن ہوا اس کے برعکس۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کے اسباب کوئی ایک دو نہیں دسیوں ہیں اور اسی 'دانش مندانہ'بصیرت کا نتیجہ ہیں جس کے نتیجے میں کچھ لوگ پارٹی سے محروم ہوئے، انتخابی نشان سے محروم ہوئے، مخصوص نشستوں سے محروم ہوئے اور اب حزب اختلاف کی قیادت بھی معرض سوال میں ہے۔
معلوم ہوا کہ دوسروں کی گود میں اچھلنے والے جب گود سے محروم ہوتے ہیں تو ان کی سمجھ بوجھ بھی جواب دے جاتی ہے جو فیصلہ کرتے ہیں الٹا پڑتا ہے۔ یہی کچھ امریکا میں بھی ہوا۔ غریب عوام کے چندے، کہے جانے کے قابل اور نہ کہے جانے کے قابل ذرائع سے جمع کیے ہوئے سرمائے اور بیرون ملک پاکستانیوں کے خون پسینے کی کمائی کے بل بوتے پر کی جانے والی لابئنگ سب الٹی پڑ گئی۔ کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی میں جو کچھ ہوا، اس کے بلند بانگ دعوے تو رہے ایک طرف، ایک نیا خطرہ پیدا ہو گیا۔
ڈونلڈ لو نے اپنے بیان میں انکشاف کیا کہ سائفر لہرانے اور بے بنیاد الزامات لگانے کے بعد انھیں اور ان کے خاندان کو قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ امریکا میں خطیر سرمائے سے لابئنگ کر کے کانگریس کمیٹی میں سماعت کا بندوست کرنے والے چاہے ڈونلڈ لو کے تیسرے درجے کا ایک اہلکار ہی قرار دے لیں اس 'معمولی' اہل کار نے اپنے اور اپنے خاندان کو ملنے والی دھمکیوں کو پارلیمنٹ کے ایوان میں ایک باضابطہ بیان میں ریکارڈ پر لا کر گویا ایک ایف آئی آر درج کرا دی ہے۔ آگے چل کر یہ ایف آئی آر کیا برگ و بار لائے گی؟ اس کے اثرات کا جائزہ سرسری انداز میں لینا مشکل ہے۔ اس صورت حال کا موازنہ ترکیہ کی ایک خاص صورت حال سے کیا جا سکتا ہے جو اب اس برادر ملک کی تاریخ کا ایک سنگ میل بن چکا ہے۔
یہ15 جولائی 2016 کی بات ہے جب ترکیہ کے گولن نیٹ ورک نے بغاوت کی۔ یہ بغاوت بڑی وسیع البنیاد تھی جس میں قومی سلامتی، انصاف اور تعلیم سمیت زندگی کے بہت سے شعبوں سے تعلق رکھنے والے ادارے شامل تھے۔ باغیوں کا خیال تھا کہ انھوں نے ریاستی اداروں کو جس طرح تقسیم کر دیا ہے، اس کے نتیجے میں حکومت اور ریاست ان کی بغاوت کے سامنے ٹھہر نہیں سکے گی اور وہ ریاست پر قبضہ کر لیں گے۔ پاکستان میں صورت حال اس سے مختلف نہیں تھی۔ یہاں بھی اسی انداز میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور اسی انداز میں ریاستی اداروں میں بغاوت کا سوچا گیا۔ یہ تو پاکستانی اداروں کا نظم و ضبط، ان کی ثقافت اور شان دار تاریخ تھی کہ بغاوت کا منصوبہ ناکام ہو گیا ورنہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پاکستان اور ترکیہ کے واقعات میں بڑی مماثلت تھی۔
نام نہاد پاکستانی انقلابیوں کی پشت پر 9 مئی کے اس سانحے کا بوجھ ہے، اس پر مستزاد اس گروہ کے 'انقلابیوں'کا طرز عمل ہے جنھوں نے پاکستان کے اندر اپنے مخالفین ، صحافیوں اور آزاد شہریوں کے شہری حقوق کو اپنی حکومت کے دوران اور حکومت کے خاتمے کے بعد مسلسل پامال کیا۔ کئی اراکین پارلیمنٹ پر حملے کیے۔ ان میں اس وقت قومی اسمبلی کے رکن جاوید لطیف پر حملہ تو خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اسی طرح فیصل آباد میں رانا ثنا اللہ کے ڈیرے پر مسلح افراد نے حملہ کیا۔ یہ فہرست مختصر نہیں طویل ہے۔
خواتین صحافیوں اور سیاسی طور پر مخالفت کرنے والی خواتین کو ہراساں کرنے کی دھمکیوں کا سلسلہ بھی کچھ اتنا مختصر نہیں ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ اس جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر اعلیٰ نے حال ہی میں ایک پبلک بیان میں عوام کو اکسایا کہ وہ رشوت مانگنے والے سرکاری حکام کی شکایت میرے پاس لانے کے بہ جائے اینٹوں سے ان پر حملہ کردیں۔ یہ بیان معمولی نہیں ہے۔
ڈونلڈ لو کی طرف سے جان سے مار دینے کی دھمکی ریکارڈ پر لائے جانے کے بعد ایسے واقعات کی فہرست کی تیاری یقینی طور پر شروع ہو جائے گی جو متعلقہ جماعت کے سیاسی مستقبل کے بارے میں انتہائی خطرناک ہو گی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس جماعت نے اپنے متعلقین کو پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر جتنا متشدد بنا دیا ہے، اس کے برگ و بار صرف ملک کے اندر نہیں بلکہ عالمی سطح پر سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ یہ نہایت خطرناک بات ہے۔
2016 کی ناکام بغاوت کے بعد حکومت ترکیہ بین الاقوامی سطح پر جو سرکاری مذاکرات بھی کرتی ہے، ان میں گولن نیٹ ورک کا معاملہ ضرور زیر بحث آتا ہے اور ترکیہ کی دوست ریاستیں تعاون کی یقین دہائی کراتی ہیں۔ پاکستان میں 9 مئی کا واقعہ مختلف نہیں تھا لیکن اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور اس کے ذمے داروں سے یہاں ابھی تک ترکیہ کی طرح کیوں نمٹا نہیں جا سکا لیکن ڈونلڈ لو کے انکشاف کے بعد اب اس کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
مخدومی قاسمی صاحب کے اشعار اور ان کے خلاف رحمتے نیٹ ورک کی کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے میں نے عرض کیا تھا کہ اس سلسلے میں کچھ سوال میرے ذہن میں ہیں۔یہ تو اچھا ہوا کہ ظالمانہ فیصلوں کی بساط لپیٹ دی گئی ، اب سوال یہ ہے کہ لیکن جن لوگوں پر ظلم کیا گیا، اس کا ازالہ کیا ہے اور جن لوگوں نے ظلم کیا، اس کی سزا انھیں کیا ملی؟ ان سوالوں کے جواب میرے پاس نہیں لیکن اس سے بڑے منظر نامے پر مجھے لگتا ہے کہ نتائج بہت جلد آنے شروع ہو جائیں گے ۔