یہ ملک کسی ایک سیاسی پارٹی کا نہیں ہے

مسلم لیگ نون کو بھی عنان حکومت سنبھالنے سے اُسی طرح انکار کردینا چاہیے تھا

mnoorani08@hotmail.com

بہت سے سیاسی تبصرہ نگاروں اور سیاسی عمائدین کا خیال ہے کہ فروری2024کے انتخابی نتائج کے بعد جس میں کسی ایک سیاسی پارٹی کو بھی سادہ اکثریت حاصل نہ ہوسکی ، مسلم لیگ نون کو بھی عنان حکومت سنبھالنے سے اُسی طرح انکار کردینا چاہیے تھا جس طرح باقی دوسری دو بڑی سیاسی پارٹیوں نے اس دلدل میں اپنے آپ کو پھنسانے سے انکار کردیاتھا۔

ملک کو درپیش اس وقت جو مالی مشکلات ہیں ان کو دیکھتے ہوئے حکومت سنبھالنے کا فیصلہ سیاسی اعتبار سے نقصان دہ فیصلہ تصور کیاجاتاہے۔مسلم لیگ نون پہلے ہی اپنے سولہ ماہ کی حکومتی کارکردگی کی وجہ سے تمام سیاسی مبصرین کی تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے ۔

ایسے میں اُس نے ایک بار پھر خود کو ایک گہرے کنویں میں ڈال کر کوئی اچھا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس فیصلے کے پیچھے پس پردہ کیامحرکات اورکیا مجبوریاں تھیں جن کی وجہ سے مسلم لیگ نون نے ایک بار پھر خود کو اس چنگل میں پھنسالیا ہے۔ابھی ایک ماہ سے بھی کم عرصہ گزرا ہے اوراُسے IMF کے ساتھ ایک ارب ڈالرز کی قسط حاصل کرنے کے لیے مذاکرات کرنے پڑگئے۔

حسب توقع IMF نے ہماری مجبوریوں کا مکمل فائدہ اُٹھاتے ہوئے نئے مطالبوں کی ایک لمبی فہرست سامنے رکھ دی۔ساتھ ہی ساتھ اس نے ممکنہ نئے معاہدے کے لیے بھی پیشگی شرائط کا ابھی سے عندیہ بھی دے ڈالا۔ حکومت نے اگر اس کی تمام شرائط جوں کی توں مان لیں تو اس کے نتیجے میں مہنگائی کا جو طوفان اس قوم پرمسلط ہوگا اس کا سارا الزام اتحادی حکومت پرنہیں بلکہ صرف اورصرف مسلم لیگ نون پرلادا جائے گا۔

پاکستان پیپلزپارٹی نے ملک کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے پہلے ہی اس حکومت کا حصہ بننے سے صاف صاف انکار کردیاتھا۔ اس نے نہ خود کو حکومت بنانے کے لیے پیش کیا اورنہ اس حکومت کی کابینہ کا حصہ بننے پررضامندی ظاہر کی۔ہاں البتہ شہبازشریف کی حکومت بنانے میں تعاون کے عوض وفاق میں کچھ آئینی عہدے اوربلوچستان کی وزارت اعلیٰ مانگ لی۔

اس طرح اس نے ایک طرف مسلم لیگ نون پر سیاسی احسان بھی کردیا اورملک میں دو صوبوں پر اپنا غلبہ بھی قائم کردیا، جب کہ حکومت کی ناکامیوں سے خود کو مکمل طور پرعلیحدہ بھی کردیا،وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ IMFہمیں کسی طور پرکوئی رعایت دینے کو تیار نہیں ہے۔بلکہ وہ ہمیں پوری طرح دباؤ میں رکھ کر اپنے ہشت پالی شکنجے میں جکڑلینا چاہتی ہے۔

ہم چند ارب ڈالرز کے لیے اس کی تمام شرائط مانتے جارہے ہیں اورنتیجے میں اپنے عوام پر مہنگائی کے بم بھی برساتے جارہے ہیں۔ اس کا تازہ تازہ مطالبہ پٹرول پر سیلز ٹیکس نافذکرنے کا ہے۔ گیس اوربجلی تو ہرماہ پہلے ہی مہنگی ہوتی جارہی ہے اوراب پٹرول پر 18 فیصد سیلزٹیکس لگانے سے جو مہنگائی کا سیلاب آئے گا اس نے غریب عوام کا جینا اوربھی دوبھرکردینا ہے۔

ہم اس دنیا میں پہلے ہی سب سے مہنگی بجلی استعمال کررہے ہیں۔پٹرول پر60 روپے لیوی لگانے کا مطالبہ بھی IMF کی طرف سے تھا۔ اس نے پہلے 35 فیصد لیوی لگانے کا کہاتھا مگر جب ہم نے یہ پورا کردیا تووہ 60 فیصد پر آگئی ۔ اسی طرح جب PDM کی حکومت نے یہ مطالبہ بھی پورا کردیا تو وہ اب سیلزٹیکس لگانے کا حکم صادر کررہی ہے۔


میاں نوازشریف اپنے سیاسی بیانوں میں ایسا کرنے سے ممکنہ مشکلات سے حکومت کو متنبہ کررہے ہیں ۔اُنہیں اندازہ ہے کہ عوام یہ شایدبرداشت نہیں کرپائیں گے اوراگر وہ سڑکوں پر آگئے توپھر اس حکومت کو کوئی بھی بچانہیں پائے گا۔ اسی خطرے کے پیش نظر اُنہوں نے اپنے لیے وزارت عظمیٰ کا آپشن پہلے رد کردیاتھا ۔

سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ نون یہ کیوں سمجھتی ہے کہ اس ملک کو بچانے کے لیے وہی آخری آپشن ہے ۔ یہ ملک صرف اس کا اپنا نہیں ہے بلکہ تما م سیاسی پارٹیوں اور24کروڑلوگوں کا ہے۔جتنا درد اس ملک کی خاطر اس کے دل میں ہے ویسا ہی درد دوسری سیاسی پارٹیوں کے دلوں میں بھی ہونا چاہیے۔

یہ صرف اکیلے مسلم لیگ نون کی ذمے داری نہیں ہے بلکہ سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔آج اگر ہمارا وطن معاشی اوراقتصادی گرداب میں پھنساہواہے تو اسے اس مشکل صورتحال سے باہرنکالنا بھی ہم سب کی ذمے داری ہے۔یہ کیا کہ ہرچند سال بعد ملک کومعاشی بحران میں مبتلاکرکے اسے باہر نکالنے کے لیے مسلم لیگ نون کو آگے کردیا جاتاہے۔جنھوں نے اس ملک کی یہ درگت بنائی ہے اُنہیں ہی اس کا کوئی حل تلاش کرنا چاہیے۔

ریاست بچانے کے لیے سیاست کی قربانی کا بیانیہ اب ہمارے عوام تسلیم کو تیار نہیں ہیں۔ جس طرح دوسری سیاسی پارٹیاں خودکو اس قربانی سے علیحدہ کردیتی ہیں مسلم لیگ نون کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ پرانے مسلم لیگی اکابرین کی رائے یہی ہے کہ مسلم لیگ نون کو اس بار حکومت بنانے سے انکارکردینا چاہیے تھا۔سادہ اکثریت کے بناء حکومت بنانے کا فیصلہ ایک غلط فیصلہ ہے۔ صرف وزیرخزانہ بدل لینے سے حکومت عوامی ردعمل سے دور نہیں رہ سکتی۔ہمارے لوگ اب مزید مہنگائی قطعاً برداشت نہیں کرپائیں گے۔

پٹرول پر 18 فیصد سیلزٹیکس سب کچھ بہاکرلے جائے گا۔جو رہی سیاسی ساکھ ابھی باقی ہے وہ بھی عوامی سیلاب کاسامنا نہیں کرپائے گی۔ہمیں اچھی طرح معلوم ہےIMF صرف اس شرط پر قائم نہیں رہے گی، اس نے پھر کوئی نہیںشرط لاگو کردینی ہے۔دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور پٹرول پرسیلز ٹیکس لگانے کا مطالبہ اس نے پچھلے سال نہیں کیاتھا۔ مگر جب ہم نے اس کی شرائط مان لیں تو وہ اب اپنی نئی شرائط سامنے لے آیا ہے۔اسی طرح جب ہم اسکی نئی شرائط پربھی عملدرآمد کرلیں گے تو وہ پھرکوئی اورشرط سامنے لے آئے گا۔

وہ ہمیں یونہی اپنے دباؤ میں رکھتا رہے گا اورکبھی بھی خود کفیل ہونے نہیں دیگا۔ اسے جمہوریت سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ اس نے ہمیشہ غیر جمہوری حکومتوں کو نرم شرائط پرقرضے دیے ہیں۔پاکستان کی جمہوری حکومتوں کے ساتھ اس کا رویہ ہمیشہ سے سخت ہی رہا ہے۔سری لنکا کے ڈیفالٹ ہوجانے کے بعد بھی اس نے اسے بہت ہی نرم شرئط پرامدادی پیکیج دیے۔ اسی طرح حالیہ دنوں میں مصر کی غیرجمہوری حکومت کو سات ملین ڈالرز کا قرض ہماری نسبت بڑی آسان شرائط پردے ڈالا ہے۔

ہمیں اپنی ترجیحا ت بدلنی ہونگی۔ ہم جب تک اس کی منت سماجت کرتے رہیں گے وہ ہم پر اپنا دباؤ بڑھاتا رہے گا۔ ہمیں قرض کی بجائے اپنے وسائل سے مالی مشکلات کا حل تلاش کرنا ہوگا۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں دے رکھی ہیں۔ زرعی اجناس سے لے کر معدنی ذخائر تک اس نے ہمیں کیا کچھ نہیں دیا ہے۔ اِن زرعی اور معدنی وسائل کو بروئے کار لاکر ہمیں غیر ملکی قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔

ہم جب تک اس جانب پیش رفت نہیں کرینگے IMF جیسے اداروں کی چنگل میں پھنسے ہی رہیں گے۔ حکومت کے پا س اب کوئی اوردوسرا آپشن نہیں ہے۔ ریاست بچانے کا ٹھیکہ صرف مسلم لیگ نون اکیلے کا نہیں ہونا چاہیے،یہ سب کی اجتماعی ذمے داری ہے۔
Load Next Story