مارچ 1940 سے مارچ 2024 تک
قومی سفر کی روداد ، تاریخ کے آئینے میں
اسلامی جمہوریہ ء پاکستان کی تاریخ میں مارچ کے مہینے کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہماری قومی تاریخ میں یہ ایک ایسا مہینہ ہے ، جس کے ذکر ِ خیر کے بغیر ہماری ملکی سیاست کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی ، تو بے جانہ ہوگا۔
ہرچند کہ ہم نے مضمون کا عنوان رکھاہے ''قومی سفر :مارچ 1940سے مارچ 2024 تک'' لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری قومی زندگی میں 1940 سے پہلے بھی مارچ کم اہم نہیں رہا۔ سرسید احمد خان نے دوقومی نظریہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں متعارف کرایا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔مسلمانوں میں آتش ِ شوق کو بھڑکایا اور علی گڑھ سے ایک ایسی تعلیمی اور نظریاتی تحریک شروع کی ، جس نے جنوبی ایشیاء کا جغرافیہ ہی بدل کر رکھ دیا۔
اس تحریک کے بانی سرسید احمد خان کی زندگی کا سورج 27 مارچ 1898 کوغروب ہوا لیکن اس کی روشنی اب بھی ہماری زندگیوں میں اجالا کئے ہوئے ہے۔اگر ہم غور کریں تو قائد ِ اعظم محمد علی جناح نے اپنے چودہ نکات بھی اسی مارچ کے مہینے میں پیش کئے تھے۔ یہی وہ مہینہ ہے ، جس میں ہم نے قائد ِ اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اپنی اجتماعی ، ملی اور قومی منزل کا تعین کیا۔داتا کی نگری لاہور میں شاہی مسجد کے قریب واقع مینار ِ پاکستان اسی جدوجہد ِ ازادی کی ایک جیتی جاگتی نشانی ہے۔
اسی مہینے میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دیا گیا۔ اسی مہینے میں بہت سی نئی حکومتیں بنیں اور بہت سی ٹوٹیں۔ وطن ِ عزیز میں گورنر جنرل کا عہدہ بھی اسی مہینے میں ختم ہوا اور اس کی جگہ صدر مملکت نے اسی مارچ کے مہینے میں لی۔ نوزائیدہ مملکت ِ خداداد ِ پاکستان کا پہلا آئین بھی اسی مہینے میں بنا۔جو بعد میں منسوخ کردیا گیا۔
اب مارچ ہی کے مہینے میں پاکستان کی تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز ہورہا ہے اور یہ ساری صورت حال ہمارے اور آپ کے سامنے ہے۔نئی قومی اسمبلی کے نومنتخب ارکان نے اپنے عہدوں کا حلف تو29فروری 2024کواٹھایا ہے یا یوں کہیے کہ اس قومی اسمبلی کاوجود29فروری کو عمل میں ضرور آیا ہے لیکن اس اسمبلی کی سالگرہ 29فروری کو نہیں ،یکم مارچ 2025 ہی کو منائی جائے گی کیونکہ 29فروری کی تاریخ ،اب 4سال سے پہلے نہیں آئے گی۔
مارچ کے مہینے میں تبدیلی موسم ِ بہار کے ساتھ آتی ہے۔اسی مہینے میں جنوبی ایشیاء کے ممالک میں نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں اور نئے پھول کھلتے ہیں۔اب پھر مارچ کا مہینہ ہے۔ شجر ِ جمہوریت بھی جڑیں پکڑ رہی ہے۔ چاروں صوبوں سندھ، پنجاب ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں نو منتخب ارکان نے حلف اٹھالیا ہے۔نئی صوبائی حکومتوں نے نئے عزم، جوش اور ولولے کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کردیا ہے۔وفاقی سطح پر بھی نئی حکومت بن گئی ہے۔بات ہورہی ہے ملکی تاریخ میں مارچ کے مہینے کی۔ اور ہم آج کی ملکی سیاست کی طرف نکل گئے۔
آپ اسے ایک جملہ ء معترضہ سمجھئے، حقیقت یہ ہے کہ ایک علیحدہ اسلامی اور فلاحی ریاست کے قیام کیلئے جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کی جدوجہد تو کئی صدیوں تک جاری رہی ، لیکن قائد ِ اعظم محمد علی جناح کا یہ فرمان بتارہا ہے کہ پاکستان اسی وقت بن گیا تھا ، جب متحدہ ہندوستان میں پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا۔اس تناظر میں آپ دیکھئے کہ جنوبی ایشیاء کے مختلف علاقوں اور دور دور سے آئے ہوئے مسلم قائدین نے لاہور کے منٹو پارک میں جو تاریخی جلسہ 1940میں سجایا تھا ، وہ بھی مارچ ہی کے مہینے میں ہواتھا۔
متحدہ بھارت کے مختلف شہروں اور علاقوں سے مسلمان ٹولیوں کی شکل میں اس تاریخی جلسے میں شریک ہوئے تھے اورمسلم لیگ کے رہنما مولوی فضل ِ حق نے ایک قرار داد ِ لاہور 23مارچ کو پیش کی تھی۔ قائد ِ اعظم محمد علی جناح کے زیر ِ صدارت اجلاس میں 24مارچ 1940کو قرارداد ِ لاہور منظور کرلی گئی۔اور داتا کی نگری کی فضائیں " بٹ کے رہے گا ہندوستان۔ بن کے رہے گا پاکستان " کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھیں۔ قرارداد پاکستان کی منظوری ہماری قومی تارخ کا اہم سنگ ِ میل ہے ، اس لئے اس کے متن پر ایک نظر ڈالنا غیر ضروری معلوم نہیں ہوتا۔
قرارداد لاہور کا مکمل متن،جسے
اب قرارداد ِ پاکستان کہاجاتاہے
-1آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس ، آئینی مسائل پر 27 اگست ، 17 اور 18 ستمبر اور 22 اکتوبر 1939ء اور 3 فروری 1940ء کی قراردادوں کی روشنی میں یہ مطالبہ کرتا ہے کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء میں شامل وفاق کی تجویز ، اس ملک کے مخصوص حالات میں مکمل طور پر نامناسب اور ناقابل عمل ہے۔
-2کوئی بھی آئینی منصوبہ اس ملک میں قابل عمل یا مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا کہ جب تک جغرافیائی طور پر متصل اکائیوں کی حد بندی نہ کی جائے۔ ان خطوں میں جہاں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ہیں ، جیسا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقوں میں، ان کو "آزاد ریاستوں" کی شکل دی جائے جن میں تمام اکائیاں آزاد اور خود مختار ہوں۔
-3 آئین میں مسلم اکائیوں اور خطوں میں غیرمسلم اقلیتوں اور دیگر علاقوں کے مسلم اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے باہمی مشاورت سے مناسب اور موثر اقدامات کی ضمانت دی جائے۔
-4 آئین میں یہ گنجائش رکھی جائے کہ مسلم خطے ، دفاع، خارجی امور، رسل و رسائل پر عملدرآمد اور دوسرے ضروری امور کے اختیارات پر بھی قابض ہو سکیں۔
ہر چند کہ کانگریس کے حمایت یافتہ اخبارات و جرائد نے قرارداد ِ لاہور کو طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا اوراس قرار داد ِ لاہور کو طنزیاطور پر قرار داد ِ پاکستان کا نام دیا۔یہ بر ِ صغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی کوششوں کا ثمر تھا کہ 23مارچ کو پیش کی جانے والی قرارداد کی منظوری کے 7برس بعد ہی 14اگست 1947کوعالمی نقشے پرپاکستان کی صورت میں دْنیا کی سب سے بڑی اسلامی فلاحی ریاست جلوہ گرہوئی۔اور قرارداد ِ لاہور حقیقی معنوں میں قرارداد ِ پاکستان ثابت ہوئی۔
اس قرارداد ِ پاکستان کی منظوری سے گیارہ سال پہلے دو قومی نظرئیے کی بنیاد پر قائد ِ اعظم محمد علی جناح نے 28 مارچ 1929ء کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں ٹھوس دلائل کے ساتھ نہرو رپورٹ کے جواب میں چودہ نکات پیش کیے ، یہ چودہ نکات تحریک ِ آزادی ء پاکستان کے سفر میں اہم موڑ ثابت ہوئے۔متحدہ ہندوستان کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں ہلچل مچ گئی اور ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ ہماری قومی جدوجہد کی تاریخ میں قائد اعظم کے چودہ نکات کو جو اہمیت حاصل ہے ، وہ کسی بیان کی محتاج نہیں۔
قیام ِ پاکستان کے بعد بھی مارچ کے مہینے میں کئی اہم فیصلے کئے گئے۔ بلوچستان کی کئی ریاستوں کے حکمرانوں نے اپنی ریاستوں کو 12مارچ 1948کو پاکستان میں ضم اور مدغم کرنے کے فیصلے سے اتفاق کرلیا۔ جن میں ریاست خاران ، ریاست لسبیلہ اور ریاست مکران شامل تھیں۔ اورصوبہ ء بلوچستان میں واقع ریاستوں کو پاکستان کا حصہ قرار دے دیا گیا۔
28مارچ 1948 کو قلات کو پاکستان میں ضم کرنے کااعلان کیاگیا اور بانی ء پاکستان محمد علی جناح نے 31مارچ 1948 کو اس کی منظوری دیدی۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد پہلے منتخب وزیراعظم لیاقت علی خان نے نوزائیدہ مملکت ِ خداداد کی دستور ساز اسمبلی میں قرارداد ِ مقاصد 7مارچ1949 کو پیش کی۔
جسے5روزبعد 12مارچ 1949کو منظور کرلیا گیا۔یہی وہ قرارداد ِ مقاصد ہے ، جس میں دوٹوک الفاظ میں یہ طے کرلیا گیا تھاکہ ہمارے آئین کا ماخذ ہوگا قرآن ، رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک ایک معتبر فرمان اور ان کے قدمین شریفین کا ہرایک انمٹ نشان۔ پاکستان میں مختلف ادوار میں کئی آئین بنے اور ٹوٹے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ قرارداد ِ مقاصد ہر آئین کاحصہ بنی اور 1973 کے اسلامی جمہوری اور پارلیمانی آئین میں آٹھویں ترمیم کرکے اس قرارداد ِ مقاصد کو متفقہ آئین میں شامل کرلیا گیا۔اہم بات یہ ہے کہ قرارداد ِ مقاصد کو 73کے آئین میں شامل کرنے کا فیصلہ کسی اور مہینے میں نہیں ، مارچ ہی میں ہوا اور 2 مارچ 1985ء کو صدارتی فرمان کے ذریعے قرارداد ِ مقاصد 73کے آئین پاکستان کا حصہ بنادی گئی۔ آئیے ، ڈالتے ہیں ایک نظر قرارداد ِ مقاصد پر
ِقرار داد ِ مقاصد کا متن
بسم اللہ الرحمن الرحیم
''اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے۔ اس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے، وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
مجلس دستور ساز نے، جو جمہور پاکستان کی نمائندہ ہے، آزاد و خود مختار پاکستان کے لیے ایک دستور مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے:
٭ جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
٭ جس کی رو سے اسلام کے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں کا پورا تباع کیا جائے گا۔
٭ جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔
٭ جس کی رو سے اس امر کا قرار واقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے، عمل کرنے، اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کیلئے آزاد ہوں۔
٭ جس کی رو سے وہ علاقے جو اَب تک پاکستان میں داخل یا شامل ہو جائیں، ایک وفاق بنائیں گے ،جس کے صوبوں کو مقررہ اختیارات و اقتدار کی حد تک خود مختاری حاصل ہو گی۔
٭ جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں جہاں تک قانون و اخلاق اجازت دیں، مساوات، حیثیت و مواقع، قانون کی نظر میں برابری، عمرانی و اقتصادی و سیاسی انصاف، اظہار خیال، عقیدہ، دین، عبادت، اور جماعت سازی کی آزادی شامل ہو گی۔
٭ جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقوں کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔
٭ جس کی رو سے نظام عدل گستری کی آزادی پوری طرح محفوظ ہو گی۔
٭ جس کی رو سے وفاق کے علاقوں کی صیانت، آزادی، اور جملہ حقوق، بشمول خشکی و تری اور فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔تاکہ اہل پاکستان فلاح و بہبود کی منزل پا سکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز و ممتاز مقام حاصل کریں اور امن عالم اور بنی نوع انسان کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں۔''
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا صدر بننے کا اعزاز میجر جنرل اسکندر مرزا نے سمیٹا۔اور وہ 23مارچ 1956 کو چوتھے گورنر جنرل کے عہدے کو خیر باد کہنے کے بعد صدر مملکت کے منصب پر اسی تاریخ یعنی 23مارچ 1956 کو فائز ہوگئے اور 1956 کے نئے آئین کے تحت حلف اْٹھا کر کام کا آغاز کردیا۔تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ دْہری غلامی سے نجات اور آزادی کے نو سال بعد چوتھے وزیرِ اعظم چوہدری محمّد علی کی قیادت میں آئین ساز اسمبلی نے 23مارچ 1956 ء کو مْلک میں پہلی مرتبہ آئین نافذ کیا۔ اور اس کے ساتھ ہی مملکت ِ خداداد کو اسی آئین کے تحت اسلامی جمہوریہء پاکستان کا نام دے دیا گیا۔ پاکستان کی سالگرہ 14 اگست کو منائی جاتی ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دن اور یوم قرارداد ِ پاکستان ہم شان و شوکت کے ساتھ 23مارچ کو مناتے ہیں ۔قیام ِ پاکستان کے 11سال بعد جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی۔
آئین منسوخ کرکے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔ پاک افواج کے سربراہ ایوب خان نے 1962 میں نیا آئین نافذ کردیا۔ اہم بات یہ ہے کہ 1962 کا آئین بھی کسی اور مہینے میں نہیں، یکم مارچ 1962 کو نافذ کیا گیا۔ یہ آئین بھی تادیر نہ چل سکا۔ ایوب خان کی حکومت کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔ حالات قابو سے باہر ہوئے تو صدر ایوب خان نے 25 مارچ 1969 کواپنے منصب سے استعفا دے دیا۔ جنرل محمد یحیی خان نے 25 مارچ 1969 کو اقتدار سنبھال لیا اور ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان کردیا۔ یکم مارچ 1970 کو ریٹائرڈ ائیر مارشل اصغر خان نے نئی سیاسی جماعت تحریک ِ استقلال قائم کی۔
قائد ِ اعظم کے 14 نکات ، جو نہرو رپورٹ کے جواب میں 31 مارچ 1929 ء کوپیش کئے گئے
قائد ِ اعظم کے 14نکات کو جدو جہد ِ آزادی کے سفر میں اتنی اہمیت حاصل ہے کہ اس کے اثرات اور ثمرات پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں اور لکھی بھی گئی ہیں۔جواہر لعل نہرو نے1928میں رپورٹ پیش کی ، جسے نہرو رپورٹ کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔اس کا بڑا شدید رد عمل مسلمانان ِ برصغیر کی طرف سے سامنے آیا۔جناح لیگ اور شفیع لیگ نے ایکا کرلیا۔ متحدہ مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس 31 مارچ 1929 ء کو دہلی میں ہوا۔ اس اجلاس میں قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے چودہ نکات پیش کئے۔ان چودہ نکات کا خلاصہ حسب ِ ذیل ہے۔
1۔ہندوستان کا آئندہ دستور وفاقی نوعیت کا ہو گا۔
2۔تمام صوبوں کو برابری کی سطح پر مساوی خود مختاری ہو گی ۔
3۔ ملک کی تمام مجالس قانون ساز کو اس طرح تشکیل دیا جائے گا کہ ہر صوبے میں اقلیت کو مساوی نمائندگی حاصل ہو اور کسی صوبے میں اکثریت کو اقلیت یا مساوی حیثیت میں تسلیم نہ کیا جائے ۔
4۔مرکزی اسمبلی میں اسمبلی کو ایک تہائی نمائندگی حاصل ہو ۔
5۔ہر فرقہ کو جداگانہ انتخاب کا حق حاصل ہو۔
6۔ صوبوں میں آئندہ کوئی ایسی سکیم نہ لائی جائے جس کے ذریعے صوبہ سرحد، پنجاب اور صوبہ بنگال میں مسلم اکثریت متاثر ہو ۔
7۔ ہر قوم و ملت کو اپنے مذہب، رسم و رواج، عبادات، تنظیم و اجتماع اور ضمیر کی آزادی حاصل ہو -
8۔ مجالس قانون ساز کو کسی ایسی تحریک یا تجویز منظور کرنے کا اختیار نہ ہو جسے کسی قوم کے تین چوتھائی ارکان اپنے قومی مفادات کے حق میں قرار دیں ۔
9۔ سندھ کو ممبئی سے علیحدہ کر کے غیر مشروط طور پر الگ صوبہ بنا دیا جائے ۔
10۔ صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں دوسرے صوبوں صوبوں کی طرح اصلاحات کی جائیں۔
11۔ سرکاری ملازمتوں اور خود مختار اداروں میں مسلمانوں کو مناسب حصہ دیا جائے۔
12۔آئین میں مسلمانوں کی ثقافت، تعلیم، زبان، مذہب، قوانین اور ان کے فلاحی اداروں کے تحفظ کی ضمانت دی جائے -
13۔ کسی صوبے میں ایسی وزارت تشکیل نہ دی جائے جس میں ایک تہائی وزیروں کی تعداد مسلمان نہ ہو۔
14۔ ہندوستانی وفاق میں شامل ریاستوں اور صوبوں کی مرضی کے بغیر مرکزی حکومت آئین میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔
مندرجہ بالا سطور میں آپ نے ملاحظہ فرمایا نہرو رپورٹ کے جواب میں قائد ِ اعظم کی طرف سے پیش کئے گئے دور رس نتائج کے حامل چودہ نکات کا خلاصہ۔لگتا ہے مارچ کا مہینہ ہماری قومی تاریخ کے قدم سے قدم ملا کر یا ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ساتھ ساتھ چل رہا ہے اور چلتا رہا ہے۔صدرضیاء الحق نے غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے تو اس کے نتیجے میں محمد خان جونیجو کو منتخب ایوان نے وزیر اعظم چْن لیا اور انہوں نے 24مارچ 1985 کووزارت ِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھال کرحکومتی ذمیداریاں سنبھال لیں۔ملکی سیاست میں کئی اہم موڑ آئے۔
قوم نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔2008 کے انتخابات کے بعدپیپلزپارٹی کے رہنما سید یوسف رضا گیلانی کونیا قائد ِ ایوان منتخب کرلیاگیا اور انہوں نے25مارچ 2008 کووزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے کام کا آغاز کردیا۔
مارچ کے مہینے میں مختلف ادوار میں کچھ ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے۔صدر جنرل پرویز مشرف نے 9مارچ 2007 کو چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ جسٹس افتخار چوہدری کو بدعنوانی کے سنگین الزامات عائد کرکے معطل کردیا اور اس معطلی کیلئے ایک نئی اصطلاح استعمال کی،جسے " غیر فعال " کانام دیا گیا۔ شاید یہ سب قانون کی مشکلات سے بچنے کیلئے کیاگیا۔پاکستان کی تاریخ میں چیف جسٹس آف پاکستان کو معطل یا غیر فعال قراردینے کا کوئی واقعہ اس سے پہلے رونما نہیں ہوا۔
عدالتی فیصلے پر انہیں ان کے عہدے پر چند مہینے بعد ہی بحال کردیا گیااور صدارتی ریفرنس کالعدم قراردے دیا گیا۔صدر جنرل پرویز مشرف نے3نومبر2007کو ملک میں ایمرجینسی نافذ کرکے بحال ہونے والے چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت سپریم کورٹ کے کئی ججز کو معطل کردیا۔ وکلاء کی تحریک بھی چلی۔عام انتخابات کے بعد بھی حکومت نے ان کی بحالی کا فیصلہ نہیں کیا۔اور جب نواز شریف کی قیادت میں ججز کی بحالی کیلئے لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا فیصلہ کیا گیا اور یہ لانگ مارچ گوجرانوالہ تک ہی پہنچاتھا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ایگزیکٹیو آردر جاری کرکے رات گئے21 مارچ 2009 ججز کی بحالی کا اعلان کردیا اور چیف جسٹس افتخار چوہدری تیسری بار اپنے منصب پر بحال ہوگئے۔اس واقعے سے پہلے 31مارچ 2006 کوحکومت نے پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری کافیصلہ کیا۔ جس کچھ الجھنیں بڑھیں۔ مزدور یونینیں بھی احتجاجا ًسامنے آگئیں۔ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا اور بینچ نے اس فیصلے کو کالعدم قراردیدیا۔
قومی تاریخ کی ورق گردانی کریں تو مارچ کے مہینے میں زندگی کے بہت سے شعبوں میں نئے رنگ سامنے آتے ہیں۔ اردو اب کی آن بان اور شان ہیں محترم مستنصر حسین تارڑ۔ انہوں نے ،افسانہ نویسی ، ناول اور سفر نامہ نگاری اور بطور ٹی وی اداکار بھی بڑا نام اور مقام کمایا۔ اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے 1939 میں اسی مارچ کے مہینے کی یکم تاریخ کو آنکھ کھولی تھی۔
دنیائے کرکٹ کے حوالے سے پاکستان کا نام دیس دیس میں روشن کرنے والی شخصیت ہیں شاہد آفریدی۔ یہ بھی یکم مارچ کو پیدا ہوئے اوراسی سال یکم مارچ کو کرکٹ لوورز نے ان کی 47ویں سالگرہ بوم بوم آفریدی کے نعروں کی گونج میں منائی ہے۔یایوں کہیے کہ شاہد آفریدی کی سالگرہ بھی اسی دن منائی جاتی ہے ، جب مستنصر حسین تارڑ کے چاہنے والے ان کاجنم دن مناتے ہیں۔مارچ کی 3تاریخ کو پاکستان کے مایہ ء ناز کرکٹر انضمام الحق کی سالگرہ منائی جاتی ہے ، اس سال وہ خیر سے54سال کے ہوگئے ہیں۔ایسے دن مناکر ہم اپنے ہیروز کی خدمات کو سلام کرتے ہیں۔
وقت نے نئی کروٹیں ضرور بدلی ہیں لیکن اب پھر مارچ ہی کا مہینہ ہے۔ عام انتخابات 8 فروری 2024 کوہونے کے بعد وفاق اور تمام صوبوں میں اقتدار اور اختیار کی تبدیلیوں کا سفر مارچ کے رواں مہینے کے اوائل میں ہی پایہء تکمیل کو پہنچتا نظر آرہا ہے۔کئی مراحل مکمل ہوچکے ہیں۔ نئے صدر مملکت کے انتخاب کیلئے مارچ کا دوسرا ہفتہ طے کرلیا گیاہے۔قوم کی نظریں اپنے مستقبل پر لگی ہوئی ہیں۔
عوام دعا گو ہیں کہ مارچ 1940 میں ہم نے جو سوچ کر متعین کیا تھا اپنی اجتماعی اور قومی منزل کا نشان۔ برصغیر کے مسلمانوں نے جو باندھا تھا پیمان اور جس کی گواہی دے رہا ہے آج بھی مینار ِ پاکستان۔ہمیں اپنی مطلوبہ منزل کو پانے کیلئے بن کر رہنا ہوگا عزم و ہمت کی چٹان اور اسی جذبے کو رکھنا ہوگا جوان، جو آج بھی زبان ِ حال سے سْنا رہا ہے قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں ملنے والی کامیابی کی انمٹ داستان۔