قرار داد پاکستان
قیام پاکستان کی منزل حاصل کرنے کے لیے عشروں پر محیط مرکتہ الآرا جدوجہد کی روداد سناتی خصوصی تحریر
لاہور منٹو پارک میں 23 مارچ 1940ء کو منظور ہو نے والی قرار داد ِلاہور جو تھوڑے ہی عرصے بعد قرار داد ِ پاکستان کہلائی ، اس قرار دادِ پاکستان کو آج کئی عشرے بیت چکے ہیں اور مورخین اور ماہرین اس نکتے پر حیرت زدہ ہیں کہ کیسے قراردادِ پاکستان کی منظوری کے صر ف سات سال بعد پا کستا ن دنیا کے نقشے پر اُس وقت کی دنیا کے سب سے بڑی مسلم آبادی والے ملک کی صور ت زندہ حقیقت بن کر ابھرا لیکن بقول قابل اجمیری
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہو تا
برصغیر کی آزادی کی تحریک بہت واضح انداز میں جنگ ِآزادی 1857 ء کو لیکر سامنے آئی تھی ۔ یہ جنگ آزادی جسے انگریز سر کار نے اُس وقت غدر کہا اس جنگ کا آغاز میڑھ چھا ونی سے ہوا اس جنگِ آزادی میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر ، نانا صاحب، جنرل بخت نصر (لکشمی بائی جھانسی کی رانی) بیگم حضرت محل نے حصہ لیا ۔
دوسری جانب انگریزوں کے کمانڈر جارج انسن ، Sir Patrick Grant سر پیٹرک گرانٹ ، سر کولن کمبل اور جنگ بہادر تھے ۔ 10 مئی 1857 ء کو یہ جنگ میرٹ چھاونی سے بظاہر اچانک شروع ہوئی اور آغاز کے چند مہینوں میں انگریزوں کو اس سے خاصا جانی مالی نقصان پہنچا مگر بعد میں برطانوی فوج ، ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج اور مقامی سطح پر روایتی انگریز وفادار نیم فوجی دستے اس میں شریک ہوئے ۔
یہ جنگ آزادی1859 ء کے آغاز تک کسی نہ کسی طرح جا ری رہی اور اس کی ناکا می کی ایک بڑی وجہ ہندوستان کی بہت سی ریاستوں کی وہ فوجیں تھیں جنہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے لڑنے والے مجاہدین کے خلاف اپنی ریا ستوں کی فوجیں انگر یزوں کی مدد کے لیے بھیجیں۔ اِن ہندوستانی ریا ستوں میں اجے گڑھ ، الور ، بھرتپور ، بھوپال، بیجاوار ، بیکانیر، بندی ، حیدرآباددکن ، جے پور ، جاورا ، کپورتھلہ ، کشمیر ، کیندوجہر ، میواڑ ، نابھا ، پٹیالہ رامپور ریوا، سیرمور ، سیروہی ، ادے پور ، کی ریاستیں شامل تھیں جب کہ نیپال کے بادشاہ نے بھی اپنی باقاعدہ فوج بھیجی اس جنگ ِ آزادی میں اگرچہ جھانسی کی رانی نے بھی شرکت کی تھی لیکن یہ حقیقت ہے کہ جنگ آزادی ہندو اکثریت کی وجہ سے ناکام ہوئی تھی جس نے انگریزوں کا ساتھ دیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہندو انگریزی اقتدار میں بھی شریک ہوئے اور مسلمانوں کے نقصان کا بھی عام سطح پر ہند وں کا فائدہ ثابت ہوا۔ اس صورتحال سے ہندوستان کے مسلمانوں کو نکالنے کے لیے سر سید احمد خان نے جدوجہد کی ۔
1875 ء تک یعنی جنگ آزادی کے 18 سال بعد وہ کالج بنا کر مسلمانوں کو میدانِ عمل میں لے آئے ، یہی کالج بعد میں علی گڑھ یونیورسٹی بنا ۔ 1885 ء میں جب آل انڈیا کانگریس جیسی سیاسی جماعت وجود میں آئی تو سر سید کی دور رس نگاہوں نے یہ دیکھ لیا کہ ہندوستان میں ہندو اکثریت والی ایسی جمہوریت جس میں مسلمانوں کے لیے آئینی تحفظ نہ ہو قابلِ قبول نہیں ہونی چاہیے اور اس لیے اُنہوں نے مسلمانوں کو کانگریس میں شمولیت سے روک دیا ۔
سرسید احمد خان ہی تھے جنہوں نے اُسی وقت سے مسلمانوں کے لیے جداگانہ طرزِ انتخاب اور ہندوستان میں آبادی کے تناسب سے مسلمانو ں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں حصہ یعنی کو ٹے کا مطالبہ کیا تھا ۔ 27 مارچ 1889 ء میں 80 برس کی عمر میں سر سید احمد خان کا انتقال ہوگیا اُس وقت تک انگریز ہندوستان میں اپنے طرز کی انتظامیہ ، عدلیہ ، فوج اور کسی حد تک نچلی سطح پر ابتدائی پارلیمانی جمہوریت کو متعارف کرنا شروع کر دیا تھا ۔ یہ وہ دور ہے جب انگریز یعنی برطانوی نیوی دنیا کی سب سے مضبو ط بحریہ بن چکی تھی اور دنیا کے سمندروں میں اُس کی حکمرانی تھی ۔ اُس کی نو آبادیا ت نیدر لینڈ ، فرانس ، پر تگال ، اسپین کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھیں ۔ اُس وقت دنیا میں انگریز کو چیلنج کرنے کے اعتبار سے تین قوتیں تھیں۔
نمبر 1 ۔سلطنت ِ عثمانیہ یا خلافتِ عثمانیہ تھی، نمبر2 ۔ جرمنی ، نمبر3 ۔ روس
روس مغربی یورپ کے ساتھ مل کر ترکیہ کی سلطنت عثمانیہ کے خلاف پہلے بھی لڑتا رہا ، پھر جنگ عظیم اوّل 1914 ء سے1918 ء رہی ۔ اس جنگ میں جرمنی اور ترکی ایک جانب تھے اور دوسری جانب برطانیہ، فرانس اور روس سمیت یورپ کے دیگر ممالک شامل تھے ۔ 1917 ء میں روس میں اشتراکی انقلاب کے بعد روس اس عالمی جنگ سے باہر آگیا اور امریکہ اس جنگ میں شامل ہو گیا۔
اس کے بعد ہندوستان میں مولانا محمد علی جوہر اور اُن کے بھائی مولانا شوکت علی نے تحریک خلافت چلائی کیونکہ عالمی جنگ اوّل کے دوران انگریز نے ہندوستان کے مسلمانوں سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ترکیہ کی مسلم خلافت کو برقرار رکھیں گے مگر ایسا نہ ہوا اور اس تحریک کے دوران بھی گاندھی جی نے اپنے عدم تشدد کے فلسفے کی آڑ لے کر اس تحریک کو نقصان پہچایا، جب کہ 1916 ء میں جب جنگ عظیم اوّل جاری تھی اور ابھی کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اس جنگ میں کون فتحیاب ہو گا تو مسلم لیگ اور کانگریس کے سالانہ اجلاس لکھنو میں منعقد ہوئے تو قائد اعظم جن کی عمر اُس وقت 40 سال تھی انہوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کی اُن دونوں نمائندہ جماعتوں کے درمیان میثاق ِ لکھنو کروایا جس میں کانگریس نے مسلمانوں کو ہندوستان کی دوسری بڑی اکثریت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے جداگانہ طریقہ انتخاب سمیت ہندوستان میں مسلمانوں کے تشخص کے تحفظ کی آئینی گارنٹی د ینے پر اتفاق کیا۔
یہ شائد اس لیے کیا تھا کہ ہندو یہ سمجھتے تھے کہ اُس وقت اگر جنگ عظیم اوّل ترکیہ اور جرمن جیت جاتے تو یہ معاہدہ میثاق لکھنو اُن کے حق میں بہتر رہتا اور پھر وقت نے ثابت کر دیا کہ ہندؤوں کی جماعت کانگریس کے مو تی لال نہرو نے یہ معاہد ہ یک طرفہ طور پر 1928 ء میں مسترد کر دیا۔ قائد اعظم یہ جانتے تھے کہ اگر یہ معاہدہ برقرار رہتا تو ہندوستان تقسیم ہوئے بغیر اور جلد آزاد ہو سکتا ہے اس لیے میثاق لکھنو کو بچانے کے لیے قائد اعظم نے 1929 ء میںاپنے مشہور چودہ نکات پیش کئے مگر کانگریس نے اِن کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے دوسرے سال ہی علامہ اقبال نے الہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کی اور اپنے صدارتی خطبہ میں اُس وقت الگ وطن یعنی پاکستان کا تصور پیش کیا۔
اس کے بعد دنیا میں پہلی جنگ عظیم کے منفی معاشی اثرات مرتب ہونے لگے اور عظیم عالمی کسادبازی رونما ہوئی۔ ایک جانب انگریز اب یہ چاہتا تھا کہ ہندوستان میں محدود پیمانے پر پارلیمانی جمہوریت کوکچھ اختیارات دے کر آگے بڑھانے کے اقدامات کرنے شروع کئے جائیں اس کے لیے ایک آئین کی ضرورت تھی اور دوسری طرف یہ بھی چاہتا تھا کہ یہ قانونی دستاویز برطانوی پارلیمنٹ بنائے، البتہ اس کے لیے ہندوستان کی سیاسی جماعتوں سے مشاروت ہو گی۔ یوں اس دوران 1930 ء سے پہلے بھی کمیشن اور وفود یہاں آتے رہے اور پھر 1930ء سے 1932ء میں تین گول میز کانفرنسیں بھی لندن میں منعقد ہوئیں اور اس کے بعد 1935 ء کا قانون ِ ہند، انڈیا ایکٹ 1935 ء سامنے آیا اور برٹش انڈیا میں صوبائی سطح پر نافذالعمل ہوا۔
اس انڈیا ایکٹ 1935 ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کے 14 نکات میں سے کچھ نکات اس قانون میں شامل کر لیے گئے یعنی اس میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ طریقہ انتخاب کو مان لیا گیا اور سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے صوبے کا درجہ دے دیا گیا اور خیبر پختونخوا میں سیاسی اصلاحات نافذ کی گئیں جب کہ 1927ء اور 1929 ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے بلوچستان کو بھی صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ پیش کیا تھا اس کو انگریز نے پو را نہیں کیا ، 1935 ء کے قانون ِ ہند کے تحت 1937 ء میں ہندوستان کے 11 صوبوں میں انتخابات ہوئے اِن انتخابات میں کانگریس نے مسلم نشستوں پر اپنے مسلم اراکین کھڑے کئے۔
اِن انتخابات میں کانگریس نے مسلم لیگ کے مقابلے میں زبردست فتح حاصل کی اور 9 صوبوں میں اپنی صوبائی وزارتیں (حکومتیں) تشکیل دیں اور باقی دو صوبوں میں مقامی جماعتوں کی شراکت سے مخلوط حکومتیں بنائیں ، یہ ہندوستان میں ہندو حکومت اور اقتدار کا پہلا تجربہ تھا جس میں فوراً ہی ہندو تعصب سامنے آیا اور مسلمانوں کے خلاف کانگریس حکومتوں نے انتقامی کاروائیاں کیں۔
اس دوران جرمنی میں ہٹلر برسر اقتدار آگیا تھا اور دوسری جنگ عظیم کے بادل دنیا پر چھا رہے تھے، اس موقع پر ہندوستان میں کانگریس کی حکومتوں نے انگریزوں کو بلیک میل کرنا شروع کیا اور وہ یہ چاہتے تھے جداگانہ طریقہ انتخاب کو ختم کیا جائے۔ 1939 ء میں جب دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو کانگریس نے واضح طور پرانگریزوں پر دباؤ ڈالا اور مطالبہ کر دیا کہ چونکہ 1937 ء کے انتخابات میں کانگریس نے ثابت کر دیا ہے کہ صرف کانگریس ہی ہندوستان کی نمائندہ جماعت ہے اس لیے انگریز کانگریس سے یہ وعدہ کرے کہ وہ اس جنگ ِعظیم دوئم کے بعد ہندوستان کا اقتدار کانگریس کے حوالے کر کے یہاں سے رخصت ہو جا ئے گا اور دباؤ میں اُس وقت مزید اضافہ کرتے ہوئے کانگریس نے وزارتوں سے استعفیٰ دے دیا۔
جب 1939 ء میں ہٹلر نے پولینڈ پر قبضے کے ساتھ ہی دوسری جنگ عظیم کا آغاز کر دیا جس پر قائد اعظم نے مسلمانوں کو کانگریس کی حمایت سے دور رکھا اور یوم نجات منایا کیونکہ کانگریس کی وزارتوں کے دوران مسلمانوں کو ہندو اقتدار سے بہت نقصان پہنچایا تھا اور اس لیے ہندوستان کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی مسلم لیگ کو اپنے لیے تحفظ کا قلعہ جانا، جب کانگریس نے انگریزوں کے خلاف تحریک شروع کی تو برصغیر کے مسلمان اس تحریک سے اس لیے دور رہے کہ اُس وقت کی 40 کروڑ کی آبادی والے مشترکہ یا غیر منقسم ہندوستان جس میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 30% سے زیادہ تھا ۔
اُس مشترکہ اور غیر منقسم ہندوستان کی آزادی کی صورت میں ، تقریباً 14 کروڑ مسلمانوں کے لیے کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان میثاق ِ لکھنو 1916 ء جیسا کوئی معاہد نہیں تھا جو مشترکہ ہندوستان کی آزادی کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کے مذہبی، سیاسی، جمہوری، ثقافتی، تہذیبی، تمدنی حقو ق کے تحفظ کی ضمانت دے سکتا ہو اور چونکہ کانگریس 1937 ء کے صوبائی الیکشن میں مسلم لیگ کو عبرت ناک شکست دے چکی تھی اس لیے اس کو گھمنڈ اور تکبر تھا کہ مسلمان اب بھی کانگریس کا ساتھ دیں گے مگر ایسا نہ ہوا اور باوجود اس کے کہ انگریز دوسری جنگِ عظیم کی وجہ سے سخت دباؤ میں تھا، اُس کوقائد اعظم کے موقف کو بھی دیکھنا پڑا اور جنگ عظیم دوئم کے باوجود انگریزوں نے کانگریس کا دباؤ قبول نہیں کیا اور دوسری جانب برصغیر ہندوستان میں دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں کی عدم شمولیت کی وجہ سے انگریزوں کے خلاف کانگریس کی تحریک ناکام ہو گئی۔
گانگریس کے صوبائی وزارتوں سے استعفیٰ اور انگریز مخالف تحریک کے صرف ایک سال بعد قائداعظم نے ہندوستان کے تمام علاقوں سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ کے رہنماوں کو لاہور کے اجلاس میں بلوایا ، بلوچستان میں قائداعظم نے چند برس قبل ہی مسلم لیگ کو منظم کیا تھا اور اس کے اہم لیڈروں میں جعفرخان جمالی، نواب محمد خان جو گیزئی اور قاضی عیسیٰ شامل تھے، 1940 ء کی قراداد میں بلوچستان کی نمائندگی بھی بھرپور رہی اور 23 مارچ 1940 ء کو قراردادِ پا کستان اتفاق رائے سے منظور کر لی گئی اور یہ پا کستان کی آزادی کا سنگ میل ثابت ہوئی، یہی وہ دور ہے جب ڈاکٹر پٹیل نے قائد اعظم کے ایکسرے کر کے بتا دیا کہ اُن کو تپ دق TB ہے جس سے اُس زمانے میں ہندوستان میں سالانہ ایک لاکھ افراد ہلاک ہو جایا کرتے تھے۔
قائد اعظم کو اپنی اس بیماری کے بارے میں انداز تھا کیونکہ جب ڈاکٹر نے اُن پر اس بیماری کے بارے میں انکشاف کیا تو اُس کے چہرے پر ملال یا پریشانی کے کوئی آثار نہیں تھے اُنہوں نے اپنے معالج سے کہا کہ بس اس راز کو اپنے سینے میں رکھو کیو نکہ اگر انگریز یا کانگریسی قیادت اس راز سے واقف ہو گئی تو وہ ہندوستان کی آزادی میں تاخیر کرے گی اور میری موت کا انتظار کرے گی ۔
1942 ء سے 1943 ء تک جنگ میں انگریز اور اس کے اتحادیوں کو شدید نقصان پہنچا لیکن سابق سوویت یونین کے ہٹلر سے دور ہٹنے اور بعد میں جرمنی کے ہٹلر نے سوویت یونین پر نپولین جیسی غلطی کرنے یعنی حملہ کرنے سے صورت حال بدلنے لگی اور پھر جرمنی کے اتحادی جاپان کی جانب سے امریکہ بحری اڈے پرل ہاربر پر شدید فضائی حملے کے بعد امریکہ کے جنگ میں شریک ہونے سے دوسری جنگِ عظیم کا پانسہ پلٹ گیا اور جرمنی اور جاپان کو پسپائی اور شکست ہونی لگی ۔
پہلی جنگِ عظیم کی طرح اس جنگ ِ عظیم دوئم میں بھی ہندوستان سے بھرتی ہو نے والے لاکھوں ہندوستانیوں کی فوج انگریز سرکار کے لیے دنیا کے مختلف محاذوں پر لڑ رہی تھی تو ہندوستان میں اُس وقت عوامی سطح پر سیاسی شعور بھی بیدار ہوا تھا اور جدوجہد آزادی بھی تیز ہو گئی تھی ۔ اگرچہ کانگریس کی تحریک ناکام ہو گئی تھی لیکن انگریز یہ وعدہ کر چکا تھا کہ وہ جنگ عظیم کے خاتمے کے فوراً بعد ہندوستان چھوڑ دے گا۔
اگست1945 ء میں جا پان کے شہروں ناگا ساکی اور ہیر وشما پر امریکہ کی جانب سے گرائے جانے والے ایٹم بموں کی تباہی کے ساتھ ہی جنگ عظیم دوئم کا خاتمہ ہو گیا۔ اب ہندوستان میں مشترکہ ہندوستان کے آخری انتخابات ہونے تھے اور اس بار 1935 ء کے آئین یعنی انڈیا ایکٹ کے تحت 1937 ء میں صوبائی انتخابات کی بجائے ہندوستان کے گیارہ صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں اور صوبائی حکومتوں کے لیے اور مرکزی اسمبلی کی100 نشستوں اور مرکزی حکومت کی تشکیل کے لیے 1945 ء کے دسمبر اور 1946 ء میں جنوری میں انتخابات ہوئے ، یہ انتخابات برٹش انڈیا کے لیے نہایت اہم تھے ،کانگریس کو اب بھی اعتماد تھا کہ کانگریس بھرپو ر اکثریت سے یہ انتخابات جیت جائے گی ، جس کے نتیجے میں نہ صرف ہندوستان تقسیم نہیں ہو گا بلکہ مشترکہ ہندوستان کا اقتدار بھی بلا شرکت غیرے کانگریس کو ملے گا ، مگر کانگریس کو اس کا حسا س نہیں تھا کہ 23 مارچ 1940 ء کی قراردادِ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں میں علیحدہ ملک پاکستا ن کا جذبہ کس قدر بیدار کر چکی ہے ۔
یوں جب مشترکہ ہندوستان یا برٹش انڈیاکے آخری انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو یہ کانگریس کے لیے حیرت انگیز تھے ۔ مسلم لیگ نے مشترکہ ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں مسلم نشستوں پر 90% کامیابی حاصل کی تھی اور مرکزی اسمبلی کی کل 100 نشستوں میں سے30 مسلم نشستیں یعنی 100 فیصد کامیابی حاصل کی تھی ۔اب قائد اعظم کے 23 مارچ 1940 کی قراردادِ پاکستان کے اُس آزاد پا کستان کے مطالبے کے حق میںہندوستان کے مسلمانوںنے فیصلہ دے دیا تھا، اِن الیکشن کے بعد ہندوستان میں انگریز وائسرائے اور گورنر جنرل نے ہندوستان کی تقسیم اور آزادی سے قبل ایک عبوری حکومت بنائی جس کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو ہوئے اور اس کی کابینہ میں اہم وزارتوں پر وزیر داخلہ سردار ولب بھائی پاٹیل اور وزیر خزانہ نوابزادہ لیاقت علی خان تھے ۔
اس کابینہ میں وزارتِ خارجہ نہیں تھی مارچ 1947 ء میں وائسراے گورنرجنرل لارڈویول ہندوستان سے رخصت ہوئے اور انڈونیشیا کے ہیرو کہلانے والے لارڈ ماونٹ بیٹن نئے اور آخری وائسراے ہند اور گورنر جنرل بن کر آئے اور صرف تین مہینے بعد 3 جون 1947 ء کو اعلان آزادی ہند کر دیا ۔ ہند وستان کی تقسیم کا فارمولہ تو یہی تھا کہ جن علاقوں میں مسلم اکثریت تھی وہ علاقے پاکستان میں شامل ہو ں گے لیکن ہندوستان میں صدیوں سے جاری جاگیردارانہ نظام کے تحت جو ریاستیں تھیں اور اِن کے راجے مہا راجے اور نوابین تھے اِن کے بارے میں بھی فیصلہ ہونا تھا۔
ان تما م معاملات کے لیے ضروری تھا کہ 1935 ء کے قانون آزادیِ ہند میں ترمیم کی جائے لیکن انگریز سرکار کا یہ آئین قانون ِ ہند 1935 ء برطانوی پارلیمنٹ نے بنایا تھا اور اس میں ترمیم کا حق بھی برٹش پارلیمنٹ کا تھا اس لیے 18 جولائی1947 ء میں قانون آزادی ہند کے نام سے اس میں ترامیم ہوئیں جن میں دیگر نکات کے علاوہ ایک اہم نکتہ یہ بھی تھا کہ ریاستوں کے نوابین اور راجے اپنے عوام کی اکثریت کی مرضی کو مدنظر رکھتے اور ریاست کی جغرافیائی سرحدوں کی قربت کو بھی سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان میں شامل ہونگے یا بھارت میں،یوں14 اگست 1947 ء میں پاکستان وجود میں آیا ، مگر اس کے قیام میں لارڈ ماونٹ بیٹن جو بھارت کی آزادی کے بعد بھی بھارت کے گورنر جنرل رہے اُنہوں نے کانگریس سے مل کر ریڈکلفٹ کے ذریعے بددیانتی کرتے ہوئے مشرقی بنجاب میں مسلم اکثریت کے اضلاع گورداسپور اور فیروز پور بھارت کو دے دیے اسی طرح کشمیر میں مسلم اکثریت کے باوجود مہاراجہ ہری سنگھ سے ساز باز کر تے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا اور اس کا ایک بڑا حصہ پاکستان نے مجاہدین کی مدد سے آزاد کروا لیا جو اب آزادکشمیر کہلاتا ہے ۔
قائد اعظم کو آزادی کے بعد زندگی کم ملی مگر 1940 ء سے پہلے بھی قائد اعظم نے بلوچستان کے دورے کئے اور پھر آزادی کے فوراً بعد بھی بلوچستان کے دورے کئے اور فروری 1948 ء میں ہونے والے تاریخی سبی میلے میں شرکت کی پھر وسط جولائی 1948ء میں بیماری کی وجہ سے وہ علاج اور آرام کی غرض سے بلوچستان زیارت میں آگئے تھے اور موت کے دن کی صبح تک یعنی11 ستمبر 1948 ء تک وہ زیارت ہی میں رہے اور پہلے یوم آزادی 14 اگست 1948 ء کو قائد اعظم نے بلوچستان ہی سے اپنا پیغام جاری کیا تھا ۔ تحریک ِ پاکستان کی تاریخ میں 23 مارچ 1940 ء واقعی سب سے بڑا سنگ ِ میل تھا اور اس فیصلے پر ہندوستان کے مسلمانوں کی 90% اکثریت نے لبیک کہا ۔ اور صرف سات سال بعد پاکستان وجود میں آگیا ۔