پاکستانی شیڈول کاسٹ ہندو
کیا آج بھی کسی جناح،گاندھی، امبیڈکر یا رمزے میکڈونلڈ کی تلاش میں ہیں؟
برّصغیر میں دھرم کے نام پر ذات پات کی بنیاد پر چھوت چھات کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے، جس کی بنیاد پر پسے ہوئے طبقات پر مشتمل آبادی کے ایک بڑے طبقے کو غیرانسانی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا گیا۔
ظلم وجبر واستحصال کا یہ کھیل ہزاروں سال جاری رہا۔ فاتحین برّصغیر کو روندتے رہے، لیکن اس میں کچھ فرق نہ پڑا فاتحین کے ساتھ آنے والے صوفیاء کرام نے اس سماجی برائی کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکافی ہی رہی، کیوںکہ اس میں حکومتی و ریاستی کوششیں کبھی بھی شامل نہ رہی۔ برصغیر کے آخری فاتحین نے 1833 میں ہی اپنے قبضے کو برطانوی پارلیمنٹ سے جمہوری سند دلوانے شروع کردی تھی، جس کا ارتقائی سفر انڈین ایکٹ 1833 سے شروع ہوکر 1857 1935,1921,1921,1919,1915,1912,1909,
کے ایکٹ پر ختم ہوا، یہ آخری ایکٹ تین ملکوں کے آئینوں کا منبع بھی ہے، اور 14اگست 1947سے مارچ 1956 تک یہی انڈین ایکٹ آئین پاکستان تھا۔ اسی ارتقائی سفر میں 1921کو شروع ہونے والی گول میز کانفرنسوں کا موڑ آیا۔ یہاں ایک نیا کردار برّصغیر کے افق پر ابھرا یہ 1924میں نو مہینے اور پھر 1929سے 1931تک اور پھر 1931 سے 1935 تک برطانوی وزیراعظم رہنے والے رمزے میکڈونلڈ تھے۔
جنہیں شوق چَرایا کہ وہ برصغیر کے غریبوں کے دوست کہلائیں۔ انھوں نے اپنے اس انسان دوستی کے شوق کی بنا پر ہزاروں سال سے دھرم، ذات پات کے نام پر ظلم کی چکی میں پستے، ذلیتں سہتے، غیرانسانی زندگیاں گزارتے طبقات کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے ان پسے ہوئے طبقات کی تمام ذات برادریوں قبائل کو شیڈول کاسٹ کے نام سے ایک پہچان دی۔ یہ سارے مسائل بھیم راؤجی امبیڈکر نے اجاگر کیے تھے، جو خود بھی ایک دلت خاندان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے لگن، محنت سے اعلٰی تعلیم حاصل کی اور ان پسے ہوئے طبقات کے لیے مسیحا ثابت ہوئے۔
رمزے میکڈونلڈ نے اپنے دورحکومت میں منعقدہ گول میز کانفرنسوں میں دلتوں کو بھی بطور اقلیتی برادری شامل کیا، جس کا نتیجہ کمیونیل ایوارڈ کی صورت میں نکلا، جس میں انھیں ہندوؤں سے علیحدہ اقلیتی برادری تصور کرتے ہوئے، دیگر اقلیتوں کی طرح دوہرے ووٹ کا حق دیا گیا۔
یہ حق بعد میں گاندھی، امبیڈکر پونا پیکٹ کی نذر ہوگیا۔ لیکن اس کے نتیجے میں کانگریس نے شیڈول کاسٹ کو ہندو سماج کے اندر رکھنے کے لیے شیڈول کاسٹ/دلتوں /ہریجنوں / اچھوتوں کو کمیونیل ایوارڈ سے بھی دگنی نشستیں مخصوص کرنی پڑیں، ساتھ ہی سرکاری ملازمتوں میں ان کے لیے کوٹا بھی طے پایا، لیکن بی آر امبیڈکر ساری عمر اس بات پر غم زدہ رہے اور اپنے رفقاء سے کہتے رہے،''دوسری اقلیتوں کی طرح ہمیں دوہرے ووٹ کے ساتھ مخصوص نشستیں مل جاتیں تو جنرل نشست والا ووٹ ہماری طاقت اور مذہبی شناخت والا ووٹ ہماری شناخت بنتا۔''
امبیڈکر جو انڈین آئین کے بانی بھی مانے جاتے ہیں، ان کی اور رمزے میکڈونلڈ کی بدولت آج بھارتی سماج میں ہزاروں سال سے چلا آتا وہ چھوت چھات کا نظام ختم ہوتا جارہا ہے۔ اس میں یقیناً گاندھی جی کا کردار بھی شان دار تھا جو امبیڈکر کی تلخ باتوں کے جواب میں کہتے تھے کہ ''اگر امبیڈکر مجھے منہ پر گالی بھی دے تو جائز ہے'' کیوںکہ ذات پات کی بنیاد پر ان پر بہت ظلم ہوا ہے۔''
شیڈول کاسٹ میں جن ذات برادریوں اور قبائل کو شامل کیا گیا ان کی تعداد سیکڑوں میں تھی، جن میں سے 40کے قریب پاکستان کے سرکاری کاغذات میں زندہ ہیں: کالال، خاٹک، کوہلی، کوچیرا، ماریجا یا ماریچا، میگھ واڑ، نٹ، مینگھواڑ، کوٹی، اوڈ، پاسی، پرما، رام داسی، سانسی، ساپیلا، شکاری، سوچی، واگڑی، سارپرا، سرکی بند، اودھرمی، بنگالی، برار، باویرا، بھنگی، بانجیرہ، چمار، چانل، چارن، چوہڑا/بالیکمی
(حال ہی میں ایک سرکاری خط کے ذریعے چوہڑا لکھنا ممنوع قرار دیا گیا ہے) 32 داگی اور کولی دھانک، ڈومنا، گانڈھیلا، گاگرا، ہاراخور، جاٹیا، بازی گر اور بھیل۔ پاکستان کے پہلے وزیرقانون جوگندر ناتھ منڈل بھی اسی طبقے سے تھے۔ پاکستان کے وزارت شماریات کے ریکارڈ میں جہاں اقلیتوں کے کالم بنائے گئے ہیں ان میں شیڈول کاسٹ کا کالم بھی ہے۔
یہ کالم 1951 سے 1998تک مندرجہ ذیل تھے، مسلمان، مسیحی، ہندو جاتی، قادیانی، شیڈول کاسٹ، بدھسٹ، پارسی اور دیگر۔ لیکن حیران کن طور پر الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں شیڈول کاسٹ کا علحیدہ خانہ نہیں ہے، جب کہ وزارت شماریات کے مقابلے میں الیکشن کمیشن نے اس میں دو مذہبی اقلیتوں کا اضافہ کیا ہے، جن میں سکھ اور بہائی شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کے کانگریس امبیڈکر پونا پیکٹ پاکستان میں شاید ابھی بھی لاگو ہے۔ خیر ہمارا موضوع کچھ حقائق و مشاہدات ہیں جو ''پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لیے دوہرا ووٹ کیوں ضروری اور کیسے ممکن ہے؟''
نامی کتابچے کے لیے تحقیق کے دوران میرے سامنے آئے ہیں، وہ یہ ہیں:
٭شیڈول کاسٹ، دلت، دراوڑ، ادھی واسیوں، بھیل، کولہی میگھواڑ، اور ایسی دیگر دسیوں شناختوں پر قائم این جی اوز یا سیاسی گروپوں کی متفقہ رائے ہے کہ پاکستان میں شیڈول کاسٹ مجموعی ہندو آبادی کا زیادہ سے زیادہ 90 فی صد اور کم ازکم 80 فی صد ہیں۔
٭ وزارت شماریات کے ریکارڈ کے مطابق 1951 میں جب ہندوجاتی کی تعداد 160684 تھی اس وقت شیڈول کاسٹ کی آبادی 3,69831 تھی۔
٭ 1961میں ہندوجاتی کی تعداد 203794 تھی اس وقت شیڈول کاسٹ کے افراد 4,18011 تھے۔
1972میں ہندو جاتی 296837 افراد پر مشتمل تھی، جب کہ شیڈول کاسٹ کی آبادی 6,03،369 تھی۔
1981میں وزارت شماریات کے کاغذوں میں شیڈول کاسٹ کا خانہ نہیں تھا، جب کہ ہندوجاتی کے افراد 12,76,118ہوگئے تھے۔
1998میں جب یہ خانہ بحال ہوا تو ہندوجاتی آبادی بڑھ کر21,11,271 ہوگئی اور شیڈول کاسٹ کے افراد وزارت شماریات کے ریکارڈ کے مطابق 3،32،343 رہ گئے۔
2017 کی مردم شماری میں شیڈول کاسٹ 8,49,614اور ہندوجاتی 35,95,256 ہے۔
یہ حقائق اور تاریخی پس منظر کئی سوالات اٹھاتے ہیں:
پہلی تین مردم شماریوں میں شیڈول کاسٹ مجموعی ہندوآبادی کا 57 سے 67 فی صد تک تھے، وہ کیسے گھٹ کر 23 سے 24 فی صد رہ گئے ہیں؟
شیڈول کاسٹ ہندوؤں کی مسلسل چیخ پکار کے باووجود ریاست و حکومتوں کے کانوں پر جوں تک کیوں نہیں رینگتی؟
شیڈول کاسٹ ہندوؤں کی اجتماعی و انفرادی کوششوں میں ایسی کیا کم زوریاں ہیں، جو اتنی بڑی زیادتی کے خلاف آواز ریاستی و حکومتی ایوانوں تک مؤثر طور پر نہیں پہنچ پا رہی۔
شیڈول کاسٹ مالی، معاشی فکری اعتبار سے پس ماندہ ہیں۔ وہ بے چارے ہزاروں فورم و انفرادی کوششوں کے باوجود وہ کچھ حاصل نہیں کر پارہے، جو ان کا حق ہے، جس کی وجوہات بیان کرنے کے لیے ایک اور تفصیلی مضمون کی ضرورت ہے۔
کیا وہ آج بھی کسی قائد اعظم، راؤ بھیم جی امبیڈکر، جوگندر ناتھ منڈل یا گاندھی جی کی تلاش میں ہیں؟ ان شخصیات نے ہزاروں سال اپنے اجداد کی دھرتی پر ذلیتں سہتے ان دھرتی واسیوں کی داد رسی کی؟
قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے پہلے سیشن کی صدارت کے لیے ایک شیڈول کاسٹ جوگندر ناتھ منڈل کو چُنا۔ پھر انھیں پہلا وزیر قانون بنایا۔ انھیں ہی امور کشمیر کا وزیر بنایا۔ وہ قائد کی وفات کے بعد سیاسی و ریاستی اشرافیہ کے رویوں سے دل برداشتہ ہوکر ہجرت کرگئے۔ آخر میں، شیڈول کاسٹ کے حقوق کے لیے کوشاں دوستوں کو ایک ہی مشورہ ہے کہ پہلے آپ اپنے آپ کو انفرادی و اجتماعی طور پر جانو جب اجتماعی خود آگاہی ہوگی تو خود مختاری آئے گی۔
کیوںکہ بقولاقبال
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
اگر آپ کو اپنے مسائل کا ادراک ہوگیا تو یقیناً آپ کی آنے والی نسلوں کو اس معاشرے، ریاست سے کئی قائداعظم کی سوچ رکھنے والے رمزے میکڈونلڈ یا آپ کے اپنے بچھڑے ہوؤں میں سے گاندھی جی کی سوچ والے بہت مل جائیںگے۔
بس آپ لوگوں کو اپنے مسائل کے طویل المیعاد حل کے لیے چند پڑھے لکھے، فہم وفراست، صبر، جرأت اظہار، تدبر، خلوص جیسی صفات اور اجتماعیت کے فوائد پر یقین رکھنے والے نوجوان تیار کرنے پڑیں گے، جنھیں اپنے مسائل کا ادراک ہو انھیں حل کرنے، کروانے کی سمت کا پتا ہو۔ انھیں میں سے پھر امبیڈکر اور جوگندر ناتھ منڈل نکلیں گے۔
بس یہ یاد رہے کہ آپ کے بچھڑے ہوئے (ہندو جاتی والے) چاہے آپ کی آبادی کا بیس فی صد ہیں یا 30 فی صد ان سے صلح صفائی سے ہی اس معاشرے میں ہندو سماج کی ترقی وبقا ممکن ہے اور پھر ریاست سے حقوق لینے کے لیے لازمی نہیں کے ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑا کیا جائے، بلکہ اپنی کم زوریوں، توانائیوں اور معاشرے کے معروضی حالات میں درپیش مسائل دست یاب مواقع کا صحیح اندازہ لگانے کی ضرورت ہے۔ سب اقلیتوں کے مسائل تقریباً ملتے جُلتے ہیں۔
اپنے اجتماعی تجزیہ پر زور دیں، اپنے اجتماعی مسائل کو سمجھیں۔ اس وقت منتخب ایوانوں میں تشریف فرما 38 خواتین و حضرات کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ انفرادی طور پر کوئی سیاسی ورکر چاہے اس ملک کی سیاسی اشرافیہ سے جتنا مرضی نزدیک ہوجائے موجودہ اقلیتی انتخابی نظام سے اس کے جتنے مرضی مفادات جُڑے ہوں، لیکن جب تک وہ اپنی کمیونٹی کی اجتماعی فلاح کا نہ سوچے تو وہ سینیٹر، ایم این اے، ایم پی اے، وزیر، مشیر تو ہوسکتا ہے، سیاسی راہ نما نہیں ہوسکتا۔
ظلم وجبر واستحصال کا یہ کھیل ہزاروں سال جاری رہا۔ فاتحین برّصغیر کو روندتے رہے، لیکن اس میں کچھ فرق نہ پڑا فاتحین کے ساتھ آنے والے صوفیاء کرام نے اس سماجی برائی کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکافی ہی رہی، کیوںکہ اس میں حکومتی و ریاستی کوششیں کبھی بھی شامل نہ رہی۔ برصغیر کے آخری فاتحین نے 1833 میں ہی اپنے قبضے کو برطانوی پارلیمنٹ سے جمہوری سند دلوانے شروع کردی تھی، جس کا ارتقائی سفر انڈین ایکٹ 1833 سے شروع ہوکر 1857 1935,1921,1921,1919,1915,1912,1909,
کے ایکٹ پر ختم ہوا، یہ آخری ایکٹ تین ملکوں کے آئینوں کا منبع بھی ہے، اور 14اگست 1947سے مارچ 1956 تک یہی انڈین ایکٹ آئین پاکستان تھا۔ اسی ارتقائی سفر میں 1921کو شروع ہونے والی گول میز کانفرنسوں کا موڑ آیا۔ یہاں ایک نیا کردار برّصغیر کے افق پر ابھرا یہ 1924میں نو مہینے اور پھر 1929سے 1931تک اور پھر 1931 سے 1935 تک برطانوی وزیراعظم رہنے والے رمزے میکڈونلڈ تھے۔
جنہیں شوق چَرایا کہ وہ برصغیر کے غریبوں کے دوست کہلائیں۔ انھوں نے اپنے اس انسان دوستی کے شوق کی بنا پر ہزاروں سال سے دھرم، ذات پات کے نام پر ظلم کی چکی میں پستے، ذلیتں سہتے، غیرانسانی زندگیاں گزارتے طبقات کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے ان پسے ہوئے طبقات کی تمام ذات برادریوں قبائل کو شیڈول کاسٹ کے نام سے ایک پہچان دی۔ یہ سارے مسائل بھیم راؤجی امبیڈکر نے اجاگر کیے تھے، جو خود بھی ایک دلت خاندان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے لگن، محنت سے اعلٰی تعلیم حاصل کی اور ان پسے ہوئے طبقات کے لیے مسیحا ثابت ہوئے۔
رمزے میکڈونلڈ نے اپنے دورحکومت میں منعقدہ گول میز کانفرنسوں میں دلتوں کو بھی بطور اقلیتی برادری شامل کیا، جس کا نتیجہ کمیونیل ایوارڈ کی صورت میں نکلا، جس میں انھیں ہندوؤں سے علیحدہ اقلیتی برادری تصور کرتے ہوئے، دیگر اقلیتوں کی طرح دوہرے ووٹ کا حق دیا گیا۔
یہ حق بعد میں گاندھی، امبیڈکر پونا پیکٹ کی نذر ہوگیا۔ لیکن اس کے نتیجے میں کانگریس نے شیڈول کاسٹ کو ہندو سماج کے اندر رکھنے کے لیے شیڈول کاسٹ/دلتوں /ہریجنوں / اچھوتوں کو کمیونیل ایوارڈ سے بھی دگنی نشستیں مخصوص کرنی پڑیں، ساتھ ہی سرکاری ملازمتوں میں ان کے لیے کوٹا بھی طے پایا، لیکن بی آر امبیڈکر ساری عمر اس بات پر غم زدہ رہے اور اپنے رفقاء سے کہتے رہے،''دوسری اقلیتوں کی طرح ہمیں دوہرے ووٹ کے ساتھ مخصوص نشستیں مل جاتیں تو جنرل نشست والا ووٹ ہماری طاقت اور مذہبی شناخت والا ووٹ ہماری شناخت بنتا۔''
امبیڈکر جو انڈین آئین کے بانی بھی مانے جاتے ہیں، ان کی اور رمزے میکڈونلڈ کی بدولت آج بھارتی سماج میں ہزاروں سال سے چلا آتا وہ چھوت چھات کا نظام ختم ہوتا جارہا ہے۔ اس میں یقیناً گاندھی جی کا کردار بھی شان دار تھا جو امبیڈکر کی تلخ باتوں کے جواب میں کہتے تھے کہ ''اگر امبیڈکر مجھے منہ پر گالی بھی دے تو جائز ہے'' کیوںکہ ذات پات کی بنیاد پر ان پر بہت ظلم ہوا ہے۔''
شیڈول کاسٹ میں جن ذات برادریوں اور قبائل کو شامل کیا گیا ان کی تعداد سیکڑوں میں تھی، جن میں سے 40کے قریب پاکستان کے سرکاری کاغذات میں زندہ ہیں: کالال، خاٹک، کوہلی، کوچیرا، ماریجا یا ماریچا، میگھ واڑ، نٹ، مینگھواڑ، کوٹی، اوڈ، پاسی، پرما، رام داسی، سانسی، ساپیلا، شکاری، سوچی، واگڑی، سارپرا، سرکی بند، اودھرمی، بنگالی، برار، باویرا، بھنگی، بانجیرہ، چمار، چانل، چارن، چوہڑا/بالیکمی
(حال ہی میں ایک سرکاری خط کے ذریعے چوہڑا لکھنا ممنوع قرار دیا گیا ہے) 32 داگی اور کولی دھانک، ڈومنا، گانڈھیلا، گاگرا، ہاراخور، جاٹیا، بازی گر اور بھیل۔ پاکستان کے پہلے وزیرقانون جوگندر ناتھ منڈل بھی اسی طبقے سے تھے۔ پاکستان کے وزارت شماریات کے ریکارڈ میں جہاں اقلیتوں کے کالم بنائے گئے ہیں ان میں شیڈول کاسٹ کا کالم بھی ہے۔
یہ کالم 1951 سے 1998تک مندرجہ ذیل تھے، مسلمان، مسیحی، ہندو جاتی، قادیانی، شیڈول کاسٹ، بدھسٹ، پارسی اور دیگر۔ لیکن حیران کن طور پر الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں شیڈول کاسٹ کا علحیدہ خانہ نہیں ہے، جب کہ وزارت شماریات کے مقابلے میں الیکشن کمیشن نے اس میں دو مذہبی اقلیتوں کا اضافہ کیا ہے، جن میں سکھ اور بہائی شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کے کانگریس امبیڈکر پونا پیکٹ پاکستان میں شاید ابھی بھی لاگو ہے۔ خیر ہمارا موضوع کچھ حقائق و مشاہدات ہیں جو ''پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لیے دوہرا ووٹ کیوں ضروری اور کیسے ممکن ہے؟''
نامی کتابچے کے لیے تحقیق کے دوران میرے سامنے آئے ہیں، وہ یہ ہیں:
٭شیڈول کاسٹ، دلت، دراوڑ، ادھی واسیوں، بھیل، کولہی میگھواڑ، اور ایسی دیگر دسیوں شناختوں پر قائم این جی اوز یا سیاسی گروپوں کی متفقہ رائے ہے کہ پاکستان میں شیڈول کاسٹ مجموعی ہندو آبادی کا زیادہ سے زیادہ 90 فی صد اور کم ازکم 80 فی صد ہیں۔
٭ وزارت شماریات کے ریکارڈ کے مطابق 1951 میں جب ہندوجاتی کی تعداد 160684 تھی اس وقت شیڈول کاسٹ کی آبادی 3,69831 تھی۔
٭ 1961میں ہندوجاتی کی تعداد 203794 تھی اس وقت شیڈول کاسٹ کے افراد 4,18011 تھے۔
1972میں ہندو جاتی 296837 افراد پر مشتمل تھی، جب کہ شیڈول کاسٹ کی آبادی 6,03،369 تھی۔
1981میں وزارت شماریات کے کاغذوں میں شیڈول کاسٹ کا خانہ نہیں تھا، جب کہ ہندوجاتی کے افراد 12,76,118ہوگئے تھے۔
1998میں جب یہ خانہ بحال ہوا تو ہندوجاتی آبادی بڑھ کر21,11,271 ہوگئی اور شیڈول کاسٹ کے افراد وزارت شماریات کے ریکارڈ کے مطابق 3،32،343 رہ گئے۔
2017 کی مردم شماری میں شیڈول کاسٹ 8,49,614اور ہندوجاتی 35,95,256 ہے۔
یہ حقائق اور تاریخی پس منظر کئی سوالات اٹھاتے ہیں:
پہلی تین مردم شماریوں میں شیڈول کاسٹ مجموعی ہندوآبادی کا 57 سے 67 فی صد تک تھے، وہ کیسے گھٹ کر 23 سے 24 فی صد رہ گئے ہیں؟
شیڈول کاسٹ ہندوؤں کی مسلسل چیخ پکار کے باووجود ریاست و حکومتوں کے کانوں پر جوں تک کیوں نہیں رینگتی؟
شیڈول کاسٹ ہندوؤں کی اجتماعی و انفرادی کوششوں میں ایسی کیا کم زوریاں ہیں، جو اتنی بڑی زیادتی کے خلاف آواز ریاستی و حکومتی ایوانوں تک مؤثر طور پر نہیں پہنچ پا رہی۔
شیڈول کاسٹ مالی، معاشی فکری اعتبار سے پس ماندہ ہیں۔ وہ بے چارے ہزاروں فورم و انفرادی کوششوں کے باوجود وہ کچھ حاصل نہیں کر پارہے، جو ان کا حق ہے، جس کی وجوہات بیان کرنے کے لیے ایک اور تفصیلی مضمون کی ضرورت ہے۔
کیا وہ آج بھی کسی قائد اعظم، راؤ بھیم جی امبیڈکر، جوگندر ناتھ منڈل یا گاندھی جی کی تلاش میں ہیں؟ ان شخصیات نے ہزاروں سال اپنے اجداد کی دھرتی پر ذلیتں سہتے ان دھرتی واسیوں کی داد رسی کی؟
قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے پہلے سیشن کی صدارت کے لیے ایک شیڈول کاسٹ جوگندر ناتھ منڈل کو چُنا۔ پھر انھیں پہلا وزیر قانون بنایا۔ انھیں ہی امور کشمیر کا وزیر بنایا۔ وہ قائد کی وفات کے بعد سیاسی و ریاستی اشرافیہ کے رویوں سے دل برداشتہ ہوکر ہجرت کرگئے۔ آخر میں، شیڈول کاسٹ کے حقوق کے لیے کوشاں دوستوں کو ایک ہی مشورہ ہے کہ پہلے آپ اپنے آپ کو انفرادی و اجتماعی طور پر جانو جب اجتماعی خود آگاہی ہوگی تو خود مختاری آئے گی۔
کیوںکہ بقولاقبال
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
اگر آپ کو اپنے مسائل کا ادراک ہوگیا تو یقیناً آپ کی آنے والی نسلوں کو اس معاشرے، ریاست سے کئی قائداعظم کی سوچ رکھنے والے رمزے میکڈونلڈ یا آپ کے اپنے بچھڑے ہوؤں میں سے گاندھی جی کی سوچ والے بہت مل جائیںگے۔
بس آپ لوگوں کو اپنے مسائل کے طویل المیعاد حل کے لیے چند پڑھے لکھے، فہم وفراست، صبر، جرأت اظہار، تدبر، خلوص جیسی صفات اور اجتماعیت کے فوائد پر یقین رکھنے والے نوجوان تیار کرنے پڑیں گے، جنھیں اپنے مسائل کا ادراک ہو انھیں حل کرنے، کروانے کی سمت کا پتا ہو۔ انھیں میں سے پھر امبیڈکر اور جوگندر ناتھ منڈل نکلیں گے۔
بس یہ یاد رہے کہ آپ کے بچھڑے ہوئے (ہندو جاتی والے) چاہے آپ کی آبادی کا بیس فی صد ہیں یا 30 فی صد ان سے صلح صفائی سے ہی اس معاشرے میں ہندو سماج کی ترقی وبقا ممکن ہے اور پھر ریاست سے حقوق لینے کے لیے لازمی نہیں کے ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑا کیا جائے، بلکہ اپنی کم زوریوں، توانائیوں اور معاشرے کے معروضی حالات میں درپیش مسائل دست یاب مواقع کا صحیح اندازہ لگانے کی ضرورت ہے۔ سب اقلیتوں کے مسائل تقریباً ملتے جُلتے ہیں۔
اپنے اجتماعی تجزیہ پر زور دیں، اپنے اجتماعی مسائل کو سمجھیں۔ اس وقت منتخب ایوانوں میں تشریف فرما 38 خواتین و حضرات کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ انفرادی طور پر کوئی سیاسی ورکر چاہے اس ملک کی سیاسی اشرافیہ سے جتنا مرضی نزدیک ہوجائے موجودہ اقلیتی انتخابی نظام سے اس کے جتنے مرضی مفادات جُڑے ہوں، لیکن جب تک وہ اپنی کمیونٹی کی اجتماعی فلاح کا نہ سوچے تو وہ سینیٹر، ایم این اے، ایم پی اے، وزیر، مشیر تو ہوسکتا ہے، سیاسی راہ نما نہیں ہوسکتا۔